الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
116. بَابُ : وَضْعِ الْجَرِيدَةِ عَلَى الْقَبْرِ
116. باب: قبر پر کھجور کی ٹہنی رکھنے کا بیان۔
Chapter: Placing Palm Stalks On The Grave
حدیث نمبر: 2071
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا هناد بن السري، في حديثه عن ابي معاوية، عن الاعمش، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقبرين فقال:" إنهما ليعذبان وما يعذبان في كبير، اما احدهما فكان لا يستبرئ من بوله، واما الآخر فكان يمشي بالنميمة"، ثم اخذ جريدة رطبة فشقها نصفين، ثم غرز في كل قبر واحدة , فقالوا: يا رسول الله , لم صنعت هذا؟ فقال:" لعلهما ان يخفف عنهما ما لم ييبسا".
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، فِي حَدِيثِهِ عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ فَقَالَ:" إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَبْرِئُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ"، ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ، ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً , فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ فَقَالَ:" لَعَلَّهُمَا أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبر کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور یہ کسی بڑے جرم میں عذاب نہیں دئیے جا رہے ہیں، رہا ان میں سے ایک تو وہ اپنے پیشاب سے اچھی طرح پاکی حاصل نہیں کرتا تھا، اور رہا دوسرا تو وہ چغل خوری کرتا تھا، پھر آپ نے کھجور کی ایک ہری ٹہنی لی (اور) اسے آدھا آدھا چیر دیا، پھر ہر ایک کی قبر پہ گاڑ دیا، تو لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید ان دونوں کا عذاب ہلکا کر دیا جائے جب تک یہ دونوں (ٹہنیاں) خشک نہ ہوں۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 31 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 31
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا هناد بن السري، عن وكيع، عن الاعمش، قال: سمعت مجاهدا، يحدث عن طاوس، عن ابن عباس، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على قبرين، فقال:" إنهما يعذبان وما يعذبان في كبير، اما هذا فكان لا يستنزه من بوله، واما هذا فإنه كان يمشي بالنميمة، ثم دعا بعسيب رطب فشقه باثنين فغرس على هذا واحدا وعلى هذا واحدا، ثم قال: لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا". خالفه منصور، رواه، عن مجاهد، عن ابن عباس، ولم يذكر طاوسا.
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قال: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا، يُحَدِّثُ عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ، فَقَالَ:" إِنَّهُمَا يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا هَذَا فَكَانَ لَا يَسْتَنْزِهُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا هَذَا فَإِنَّهُ كَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ثُمَّ دَعَا بِعَسِيبٍ رَطْبٍ فَشَقَّهُ بِاثْنَيْنِ فَغَرَسَ عَلَى هَذَا وَاحِدًا وَعَلَى هَذَا وَاحِدًا، ثُمَّ قَالَ: لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا". خَالَفَهُ مَنْصُورٌ، رَوَاهُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ طَاوُسًا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: یہ دونوں قبر والے عذاب دئیے جا رہے ہیں، اور کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں دیے جا رہے ہیں ۱؎، رہا یہ شخص تو اپنے پیشاب کی چھینٹ سے نہیں بچتا تھا، اور رہا یہ (دوسرا) شخص تو یہ چغل خوری کیا کرتا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی منگوائی، اور اسے چیر کر دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک کی قبر پر ایک ایک شاخ گاڑ دی، پھر فرمایا: امید ہے کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہو جائیں ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 55 (216)، 56 (218)، الجنائز 81 (1361)، 88 (1378)، الأدب 46 (6052)، 49 (6055)، صحیح مسلم/الطہارة 34 (292)، سنن ابی داود/فیہ11 (20)، سنن الترمذی/فیہ 3 5 (70)، سنن ابن ماجہ/فیہ 26 (347)، (تحفة الأشراف: 5747)، مسند احمد 1/225، سنن الدارمی/الطہارة 61 (766)، و یأتي عند المؤلف في الجنائز 116 (رقم: 2070، 2071) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2070
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن قدامة , قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بحائط من حيطان مكة او المدينة، سمع صوت إنسانين يعذبان في قبورهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يعذبان وما يعذبان في كبير , ثم قال: بلى كان احدهما لا يستبرئ من بوله، وكان الآخر يمشي بالنميمة"، ثم دعا بجريدة فكسرها كسرتين، فوضع على كل قبر منهما كسرة , فقيل له: يا رسول الله , لم فعلت هذا؟ قال:" لعله ان يخفف عنهما ما لم ييبسا او إلى ان ييبسا".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ مَكَّةَ أَوِ الْمَدِينَةِ، سَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ , ثُمَّ قَالَ: بَلَى كَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَبْرِئُ مِنْ بَوْلِهِ، وَكَانَ الْآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ"، ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ، فَوَضَعَ عَلَى كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا كِسْرَةً , فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ:" لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا أَوْ إِلَى أَنْ يَيْبَسَا".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ یا مدینہ کے باغات میں سے ایک باغ کے پاس سے گزرے، تو آپ نے دو انسانوں کی آوازیں سنیں جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور انہیں کسی بڑے جرم میں عذاب نہیں دیا جا رہا ہے ۱؎، بلکہ ان میں سے ایک اچھی طرح اپنے پیشاب سے پاکی نہیں حاصل کرتا تھا، اور دوسرا چغل خوری ۲؎ کرتا تھا، پھر آپ نے ایک ٹہنی منگوائی (اور) اس کے دو ٹکڑے کئے پھر ان میں سے ہر ایک کی قبر پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا، تو آپ سے سوال کیا گیا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو آپ نے فرمایا: شاید ان کے عذاب میں نرمی کر دی جائے جب تک یہ دونوں (ٹہنیاں) خشک نہ ہوں۔ راوی کو شک ہے کہ آپ نے «ما لم ييبسا أو أن ييبسا» فرمایا، یا «إلى أن ييبسا» فرمایا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 31 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کسی بڑے جرم میں عذاب نہیں دیا جا رہا ہے کا مطلب ہے ان کے خیال میں وہ کوئی بڑا جرم نہیں ورنہ شریعت کی نظر میں تو وہ بڑا جرم تھا، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کبیر سے مراد ہے کہ ان کا ترک کرنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں تھا اگر چاہتا تو آسانی سے اس گناہ سے بچ سکتا تھا۔ ۲؎: دو آدمیوں میں فساد ڈالنے کی نیت سے ایک بات دوسرے تک پہنچانے کا نام چغل خوری ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.