الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قرآن کریم کے مناقب و فضائل
Chapters on The Virtues of the Qur'an
13. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ قَارِئِ الْقُرْآنِ
13. باب: قرآن کے قاری کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2905
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا علي بن حجر، اخبرنا حفص بن سليمان، عن كثير بن زاذان، عن عاصم بن ضمرة، عن علي بن ابي طالب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قرا القرآن واستظهره فاحل حلاله وحرم حرامه ادخله الله به الجنة، وشفعه في عشرة من اهل بيته كلهم قد وجبت له النار "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وليس إسناده بصحيح وحفص بن سليمان يضعف في الحديث.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا حَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ فَأَحَلَّ حَلَالَهُ وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الْجَنَّةَ، وَشَفَّعَهُ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِصَحِيحٍ وَحَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کر لیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال جانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام سمجھا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (قرآن) کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- اس کی سند صحیح نہیں ہے،
۳- حفص بن سلیمان حدیث میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 16 (216) (تحفة الأشراف: 10146) (ضعیف جداً) (سند میں حفص بن سلیمان ابو عمر قاری کوفی صاحب عاصم ابن ابی النجود قراءت میں امام ہیں، اور حدیث میں متروک)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، ابن ماجة (216) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (38)، المشكاة (2141)، ضعيف الجامع الصغير (5761) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2905) إسناده ضعيف جدًا / جه 216
حفص بن سليمان: متروك الحديث مع إمامته فى القراءة وشيخه كثير بن زاذان مجهول (تق: 1405،5609) وقال الهيثمى فى حفص بن سليمان: وضعفه الجمهور (مجمع الزوائد 163/10)
حدیث نمبر: 2906
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عبد بن حميد، حدثنا حسين بن علي الجعفي، قال: سمعت حمزة الزيات، عن ابي المختار الطائي، عن ابن اخي الحارث الاعور، عن الحارث، قال: مررت في المسجد فإذا الناس يخوضون في الاحاديث، فدخلت على علي، فقلت: يا امير المؤمنين، الا ترى ان الناس قد خاضوا في الاحاديث، قال: وقد فعلوها؟، قلت: نعم، قال: اما إني قد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " الا إنها ستكون فتنة، فقلت: ما المخرج منها يا رسول الله؟ قال: كتاب الله فيه نبا ما كان قبلكم، وخبر ما بعدكم، وحكم ما بينكم، وهو الفصل ليس بالهزل، من تركه من جبار قصمه الله، ومن ابتغى الهدى في غيره اضله الله، وهو حبل الله المتين، وهو الذكر الحكيم، وهو الصراط المستقيم، هو الذي لا تزيغ به الاهواء ولا تلتبس به الالسنة، ولا يشبع منه العلماء ولا يخلق على كثرة الرد، ولا تنقضي عجائبه، هو الذي لم تنته الجن إذ سمعته حتى قالوا: إنا سمعنا قرءانا عجبا {1} يهدي إلى الرشد سورة الجن آية 1 ـ 2، من قال به صدق، ومن عمل به اجر، ومن حكم به عدل، ومن دعا إليه هدى إلى صراط مستقيم " خذها إليك يا اعور، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وإسناده مجهول وفي الحارث مقال.حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، قَال: سَمِعْتُ حَمْزَةَ الزَّيَّاتَ، عَنْ أَبِي الْمُخْتَارِ الطَّائِيِّ، عَنِ ابْنِ أَخِي الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ، عَنِ الْحَارِثِ، قَالَ: مَرَرْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ يَخُوضُونَ فِي الْأَحَادِيثِ، فَدَخَلْتُ عَلَى عَلِيٍّ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَلَا تَرَى أَنَّ النَّاسَ قَدْ خَاضُوا فِي الْأَحَادِيثِ، قَالَ: وَقَدْ فَعَلُوهَا؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " أَلَا إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ، فَقُلْتُ: مَا الْمَخْرَجُ مِنْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ نَبَأُ مَا كَانَ قَبْلَكُمْ، وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ، وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ، وَهُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ، مَنْ تَرَكَهُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَهُ اللَّهُ، وَمَنِ ابْتَغَى الْهُدَى فِي غَيْرِهِ أَضَلَّهُ اللَّهُ، وَهُوَ حَبْلُ اللَّهِ الْمَتِينُ، وَهُوَ الذِّكْرُ الْحَكِيمُ، وَهُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ، هُوَ الَّذِي لَا تَزِيغُ بِهِ الْأَهْوَاءُ وَلَا تَلْتَبِسُ بِهِ الْأَلْسِنَةُ، وَلَا يَشْبَعُ مِنْهُ الْعُلَمَاءُ وَلَا يَخْلَقُ عَلَى كَثْرَةِ الرَّدِّ، وَلَا تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ، هُوَ الَّذِي لَمْ تَنْتَهِ الْجِنُّ إِذْ سَمِعَتْهُ حَتَّى قَالُوا: إِنَّا سَمِعْنَا قُرْءَانًا عَجَبًا {1} يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ سورة الجن آية 1 ـ 2، مَنْ قَالَ بِهِ صَدَقَ، وَمَنْ عَمِلَ بِهِ أُجِرَ، وَمَنْ حَكَمَ بِهِ عَدَلَ، وَمَنْ دَعَا إِلَيْهِ هَدَى إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ " خُذْهَا إِلَيْكَ يَا أَعْوَرُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِسْنَادُهُ مَجْهُولٌ وَفِي الْحَارِثِ مَقَالٌ.
حارث اعور کہتے ہیں کہ مسجد میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ گپ شپ اور قصہ کہانیوں میں مشغول ہیں، میں علی رضی الله عنہ کے پاس پہنچا۔ میں نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ لوگ لایعنی باتوں میں پڑے ہوئے ہیں؟۔ انہوں نے کہا: کیا واقعی وہ ایسا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: مگر میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: عنقریب کوئی فتنہ برپا ہو گا، میں نے کہا: اس فتنہ سے بچنے کی صورت کیا ہو گی؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے کے لوگوں اور قوموں کی خبریں ہیں اور بعد کے لوگوں کی بھی خبریں ہیں، اور تمہارے درمیان کے امور و معاملات کا حکم و فیصلہ بھی اس میں موجود ہے، اور وہ دو ٹوک فیصلہ کرنے والا ہے، ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے۔ جس نے اسے سرکشی سے چھوڑ دیا اللہ اسے توڑ دے گا اور جو اسے چھوڑ کر کہیں اور ہدایت تلاش کرے گا اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ وہ (قرآن) اللہ کی مضبوط رسی ہے یہ وہ حکمت بھرا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے، وہ ہے جس کی وجہ سے خواہشیں ادھر ادھر نہیں بھٹک پاتی ہیں، جس کی وجہ سے زبانیں نہیں لڑکھڑاتیں، اور علماء کو (خواہ کتنا ہی اسے پڑھیں) آسودگی نہیں ہوتی، اس کے باربار پڑھنے اور تکرار سے بھی وہ پرانا (اور بے مزہ) نہیں ہوتا۔ اور اس کی انوکھی (و قیمتی) باتیں ختم نہیں ہوتیں، اور وہ قرآن وہ ہے جسے سن کر جن خاموش نہ رہ سکے بلکہ پکار اٹھے: ہم نے ایک عجیب (انوکھا) قرآن سنا ہے جو بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے، تو ہم اس پر ایمان لے آئے، جو اس کے مطابق بولے گا اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجر و ثواب دیا جائے گا۔ اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا اس نے اس نے سیدھے راستے کی ہدایت دی۔ اعور! ان اچھی باتوں کا خیال رکھو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- اس کی سند مجہول ہے،
۳- حارث کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10057) (ضعیف) (سند میں حارث الأعور ضعیف راوی ہے، اور ابن أخی الحارث مجہول)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (2138 / التحقيق الثاني)

قال الشيخ زبير على زئي: (2906) إسناده ضعيف
الحارث الأعور:ضعيف (تقدم:282)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.