الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قرآن کریم کی قرأت و تلاوت
Chapters on Recitation
9. باب وَمِنْ سُورَةِ الْحَجِّ
9. باب: سورۃ الحج میں «وترى الناس سكارى وما هم بسكارى» کی قرأت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2941
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ابو زرعة، والفضل بن ابي طالب، وغير واحد، قالوا: حدثنا الحسن بن بشر، عن الحكم بن عبد الملك، عن قتادة، عن عمران بن حصين، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " قرا وترى الناس سكارى وما هم بسكارى سورة الحج آية 2 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، ولا نعرف لقتادة سماعا من احد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إلا من انس، وابي الطفيل، وهذا عندي حديث مختصر، إنما يروى عن قتادة، عن الحسن، عن عمران بن حصين، قال: " كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في السفر فقرا يايها الناس اتقوا ربكم سورة الحج آية 1 "، الحديث بطوله، وحديث الحكم بن عبد الملك عندي مختصر من هذا الحديث.حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، وَالْفَضْلُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَرَأَ وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى سورة الحج آية 2 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَلَا نَعْرِفُ لِقَتَادَةَ سَمَاعًا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ أَنَسٍ، وَأَبِي الطُّفَيْلِ، وَهَذَا عِنْدِي حَدِيثٌ مُخْتَصَرٌ، إِنَّمَا يُرْوَى عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: " كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرٍ فَقَرَأَ يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ سورة الحج آية 1 "، الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، وَحَدِيثُ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ عِنْدِي مُخْتَصَرٌ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا: «وترى الناس سكارى وما هم بسكارى» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- قتادہ صحابہ میں سے انس ابوطفیل کے علاوہ کسی اور صحابی سے ہم سماع نہیں جانتے،
۳- یہ روایت میرے نزدیک مختصر ہے۔ پوری روایت اس طرح ہے: روایت کی گئی قتادہ سے، قتادہ نے روایت کی حسن بصری سے، اور حسن بصری نے روایت کی عمران بن حصین سے، ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے تو آپ نے آیت «يا أيها الناس اتقوا ربكم» ۲؎ پڑھی، (آگے) پوری حدیث بیان کی،
۴- حکم بن عبدالملک کی حدیث میرے نزدیک اس حدیث سے مختصر ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10837) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہی مشہور قراءت ہے، جس کے معنی ہیں: اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش اور بدمست دکھائی دیں گے، حالانکہ درحقیقت وہ متوالے نہ ہوں گے، لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے، بعض اور قاریوں نے اسے «سَکْرَی» پڑھا ہے۔
۲؎: الحج: ۱۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3169
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا هشام بن ابي عبد الله، عن قتادة، عن الحسن، عن عمران بن حصين، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فتفاوت بين اصحابه في السير، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم صوته بهاتين الآيتين: " يايها الناس اتقوا ربكم إن زلزلة الساعة شيء عظيم إلى قوله عذاب الله شديد سورة الحج آية 1 ـ 2 "، فلما سمع ذلك اصحابه حثوا المطي وعرفوا انه عند قول يقوله، فقال: " هل تدرون اي يوم ذلك؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " ذاك يوم ينادي الله فيه آدم فيناديه ربه، فيقول: يا آدم ابعث بعث النار، فيقول: يا رب، وما بعث النار؟ فيقول: من كل الف تسع مائة وتسعة وتسعون إلى النار وواحد في الجنة "، فيئس القوم حتى ما ابدوا بضاحكة، فلما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي باصحابه، قال: " اعملوا وابشروا، فوالذي نفس محمد بيده، إنكم لمع خليقتين ما كانتا مع شيء إلا كثرتاه ياجوج وماجوج، ومن مات من بني آدم وبني إبليس، قال: فسري عن القوم بعض الذي يجدون، فقال: " اعملوا وابشروا فوالذي نفس محمد بيده، ما انتم في الناس إلا كالشامة في جنب البعير، او كالرقمة في ذراع الدابة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَتَفَاوَتَ بَيْنَ أَصْحَابِهِ فِي السَّيْرِ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ بِهَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ: " يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ إِلَى قَوْلِهِ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ سورة الحج آية 1 ـ 2 "، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ أَصْحَابُهُ حَثُّوا الْمَطِيَّ وَعَرَفُوا أَنَّهُ عِنْدَ قَوْلٍ يَقُولُهُ، فَقَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ ذَلِكَ؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " ذَاكَ يَوْمٌ يُنَادِي اللَّهُ فِيهِ آدَمَ فَيُنَادِيهِ رَبُّهُ، فَيَقُولُ: يَا آدَمُ ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ فَيَقُولُ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعُ مِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ إِلَى النَّارِ وَوَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ "، فَيَئِسَ الْقَوْمُ حَتَّى مَا أَبَدَوْا بِضَاحِكَةٍ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي بِأَصْحَابِهِ، قَالَ: " اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّكُمْ لَمَعَ خَلِيقَتَيْنِ مَا كَانَتَا مَعَ شَيْءٍ إِلَّا كَثَّرَتَاهُ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ، وَمَنْ مَاتَ مِنْ بَنِي آدَمَ وَبَنِي إِبْلِيسَ، قَالَ: فَسُرِّيَ عَنِ الْقَوْمِ بَعْضُ الَّذِي يَجِدُونَ، فَقَالَ: " اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، مَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ إِلَّا كَالشَّامَةِ فِي جَنْبِ الْبَعِيرِ، أَوْ كَالرَّقْمَةِ فِي ذِرَاعِ الدَّابَّةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، اور چلنے میں ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہو گئے تھے، آپ نے بآواز بلند یہ دونوں آیتیں: «يا أيها الناس اتقوا ربكم إن زلزلة الساعة شيء عظيم» سے لے کر «عذاب الله شديد» تک تلاوت فرمائی، جب صحابہ نے یہ سنا تو اپنی سواریوں کو ابھار کر ان کی رفتار بڑھا دی، اور یہ جان لیا کہ کوئی بات ہے جسے آپ فرمانے والے ہیں، آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے؟، صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پکاریں گے اور وہ اپنے رب کو جواب دیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: «ابعث بعث النار» بھیجو جہنم میں جانے والی جماعت کو، آدم علیہ السلام کہیں گے: اے ہمارے رب! «بعث النار» کیا ہے (یعنی کتنے)؟ اللہ کہے گا: ایک ہزار افراد میں سے نو سو ننانوے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا، یہ سن کر لوگ مایوس ہو گئے، ایسا لگا کہ اب یہ زندگی بھر کبھی ہنسیں گے نہیں، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی یہ (مایوسانہ) کیفیت و گھبراہٹ دیکھی تو فرمایا: اچھے بھلے کام کرو اور خوش ہو جاؤ (اچھے اعمال کے صلے میں جنت پاؤ گے) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! تم ایسی دو مخلوق کے ساتھ ہو کہ وہ جس کے بھی ساتھ ہو جائیں اس کی تعداد بڑھا دیں، ایک یاجوج و ماجوج اور دوسرے وہ جو اولاد آدم اور اولاد ابلیس میں سے (حالت کفر میں) مر چکے ہیں، آپ کی اس بات سے لوگوں کے رنج و فکر کی اس کیفیت میں کچھ کمی آئی جسے لوگ شدت سے محسوس کر رہے تھے اور اپنے دلوں میں موجود پا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: نیکی کا عمل جاری رکھو، اور ایک دوسرے کو خوشخبری دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! تم تو لوگوں میں بس ایسے ہو جیسے اونٹ (جیسے بڑے جانور) کے پہلو (پسلی) میں کوئی داغ یا نشان ہو، یا چوپائے کی اگلی دست میں کوئی تل ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی بہت زیادہ گھبرانے کی بات اور ضرورت نہیں ہے، جب اکثریت انہیں کفار و مشرکین کی ہے تو جہنم میں بھی وہی زیادہ ہوں گے، ایک آدھ نام نہاد مسلم جائے گا بھی تو اسے اپنی بدعملی کی وجہ سے جانے سے کون روک سکتا ہے، اور جو نہ جانا چاہے وہ اپنے ایمان و عقیدے کو درست رکھے شرک و بدعات سے دور رہے گا اور نیک و صالح اعمال کرتا رہے، ایسا شخص ان شاءاللہ ضرور جنت میں جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: (3169) ضعيف
قتادة عنعن (تقدم:30) والحسن عنعن (تقدم: 21) وانظر الحديث السابق:3168

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.