الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
68. باب فِي فَضْلِ الْمَدِينَةِ
68. باب: مدینہ کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3924
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا الفضل بن موسى، حدثنا هشام بن عروة، عن صالح بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يصبر على لاواء المدينة وشدتها احد إلا كنت له شهيدا او شفيعا يوم القيامة ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي سعيد، وسفيان بن ابي زهير، وسبيعة الاسلمية، قال: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، قال: وصالح بن ابي صالح اخو سهيل بن ابي صالح.حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَصْبِرُ عَلَى لَأْوَاءِ الْمَدِينَةِ وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي البَابِ عَنْ أَبِي سَعِيد، وَسُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٌ، وَسُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةِ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: وَصَالِحُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ أَخُو سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ کی تنگی معیشت اور اس کی سختیوں پر جو صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ اور سفارشی ہوں گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری، سفیان بن ابی زہیر اور سبیعہ اسلمیہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صالح بن ابی صالح سہیل بن ابی صالح کے بھائی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 86 (1378) (تحفة الأشراف: 12804) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: شرط وہی ہے کہ وہ پکا موحد ہو، کسی طرح کے بھی شرک کا مرتکب اس شفاعت کا مستحق نہیں ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج فقه السيرة (184)
حدیث نمبر: 2454
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا سفيان، عن ابيه، عن ابي يعلى، عن الربيع بن خثيم، عن عبد الله بن مسعود، قال: " خط لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم خطا مربعا، وخط في وسط الخط خطا، وخط خارجا من الخط خطا، وحول الذي في الوسط خطوطا، فقال: هذا ابن آدم، وهذا اجله محيط به، وهذا الذي في الوسط الإنسان، وهذه الخطوط عروضه إن نجا من هذا ينهشه هذا، والخط الخارج الامل " , هذا حديث صحيح.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي يَعْلَى، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ فِي وَسَطِ الْخَطِّ خَطًّا، وَخَطَّ خَارِجًا مِنَ الْخَطِّ خَطًّا، وَحَوْلَ الَّذِي فِي الْوَسَطِ خُطُوطًا، فَقَالَ: هَذَا ابْنُ آدَمَ، وَهَذَا أَجَلُهُ مُحِيطٌ بِهِ، وَهَذَا الَّذِي فِي الْوَسَطِ الْإِنْسَانُ، وَهَذِهِ الْخُطُوطُ عُرُوضُهُ إِنْ نَجَا مِنْ هَذَا يَنْهَشُهُ هَذَا، وَالْخَطُّ الْخَارِجُ الْأَمَلُ " , هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع خط (یعنی چوکور) لکیر کھینچی اور ایک لکیر درمیان میں اس سے باہر نکلتا ہوا کھینچی، اور اس درمیانی لکیر کے بغل میں چند چھوٹی چھوٹی لکیریں اور کھینچی، پھر فرمایا: یہ ابن آدم ہے اور یہ لکیر اس کی موت کی ہے جو ہر طرف سے اسے گھیرے ہوئے ہے۔ اور یہ درمیان والی لکیر انسان ہے (یعنی اس کی آرزوئیں ہیں) اور یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں انسان کو پیش آنے والے حوادث ہیں، اگر ایک حادثہ سے وہ بچ نکلا تو دوسرا اسے ڈس لے گا اور باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 4 (6417)، سنن ابن ماجہ/الزہد 27 (4213) (تحفة الأشراف: 9200) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی اگر ایک طرف آرزؤں سے بھری ہوئی ہے تو دوسری جانب اسے چاروں طرف سے حوادث گھیرے ہوئے ہیں، وہ اپنی آرزؤں کی تکمیل میں حوادث سے نبرد آزما ہوتا ہے، لیکن اس کے پاس امیدوں اور آرزؤں کا ایک وسیع اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، اس کی آرزوئیں ابھی ناتمام ہی ہوتی ہیں کہ موت کا آہنی پنجہ اسے اپنے شکنجے میں کس لیتا ہے، گویا موت انسان سے سب سے زیادہ قریب ہے، اس لیے انسان کو اس سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.