اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا حماد، عن عمرو، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امر بقتل الكلاب إلا كلب صيد، او كلب ماشية". أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ، أَوْ كَلْبَ مَاشِيَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری، یا جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتوں کے سوا باقی کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔
اخبرنا قتيبة بن سعيد، عن مالك، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امر بقتل الكلاب غير ما استثنى منها". أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ غَيْرَ مَا اسْتَثْنَى مِنْهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا سوائے ان (کتوں) کے جو اس حکم سے مستثنی (الگ) ہیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جیسے کھیتی، مویشی اور شکار کے کتے، لیکن بعد میں یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا، اور صرف کالے کتوں کو مارنے کا حکم برقرار رہا، لیکن عام کتوں کو بھی بغیر ضرورت پالنے کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا (دیکھئیے اگلی حدیث)۔
اخبرنا وهب بن بيان، قال: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني يونس، قال: قال ابن شهاب: حدثني سالم بن عبد الله، عن ابيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم رافعا صوته:" يامر بقتل الكلاب، فكانت الكلاب تقتل إلا كلب صيد، او ماشية". أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَافِعًا صَوْتَهُ:" يَأْمُرُ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، فَكَانَتِ الْكِلَابُ تُقْتَلُ إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ، أَوْ مَاشِيَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونچی آواز سے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم فرماتے سنا، چنانچہ کتے مار دیے جاتے سوائے شکاری کتوں کے یا جو جانوروں کی رکھوالی کرتے ہوتے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصید 1 (3203)، (تحفة الأشراف: 7002)، مسند احمد (2/133) (صحیح)»