الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book on Zakat
26. باب مَا جَاءَ فِي الصَّدَقَةِ عَلَى ذِي الْقَرَابَةِ
26. باب: رشتہ داروں پر صدقہ کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Charity For Near Relatives
حدیث نمبر: 658
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عاصم الاحول، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن عمها سلمان بن عامر، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا افطر احدكم فليفطر على تمر، فإنه بركة فإن لم يجد تمرا فالماء فإنه طهور " وقال: " الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان صدقة وصلة ". قال: وفي الباب عن زينب امراة عبد الله بن مسعود، وجابر، وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث سلمان بن عامر حديث حسن، والرباب هي ام الرائح بنت صليع، وهكذا روى سفيان الثوري، عن عاصم، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا الحديث، وروى شعبة، عن عاصم، عن حفصة بنت سيرين , سلمان بن عامر، ولم يذكر فيه عن الرباب، وحديث سفيان الثوري، وابن عيينة اصح، وهكذا روى ابن عون , وهشام بن حسان، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَاب، عَنْ عَمِّهَا سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ، فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ تَمْرًا فَالْمَاءُ فَإِنَّهُ طَهُورٌ " وقَالَ: " الصَّدَقَةُ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ وَهِيَ عَلَى ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالرَّبَاب هِيَ أُمُّ الرَّائِحِ بِنْتُ صُلَيْعٍ، وَهَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَاب، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَى شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ , سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ الرَّبَاب، وَحَدِيثُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ عُيَيْنَةَ أَصَحُّ، وَهَكَذَا رَوَى ابْنُ عَوْن , وَهِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَاب، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ.
سلمان بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے، کیونکہ اس میں برکت ہے، اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے افطار کرے وہ نہایت پاکیزہ چیز ہے، نیز فرمایا: مسکین پر صدقہ، صرف صدقہ ہے اور رشتے دار پر صدقہ میں دو بھلائیاں ہیں، یہ صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سلمان بن عامر کی حدیث حسن ہے،
۲- سفیان ثوری نے بھی عاصم سے بطریق: «حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر، عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے،
۳- نیز شعبہ نے بطریق: «عاصم، عن حفصة، عن سلمان بن عامر» روایت کی ہے اور اس میں انہوں نے رباب کا ذکر نہیں کیا ہے،
۴- سفیان ثوری اور ابن عیینہ کی حدیث ۱؎ زیادہ صحیح ہے،
۵- اسی طرح ابن عون اور ہشام بن حسان نے بھی بطریق: «حفصة، عن الرباب، عن سلمان بن عامر» روایت کی ہے،
۶- اس باب میں عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی اہلیہ زینب، جابر اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصوم 21 (2355)، (بالشطر الأول فحسب)، سنن النسائی/الزکاة 82 (2583)، (بالشطر الثانی فحسب)، سنن ابن ماجہ/الصیام 25 (1699)، (بالشطر الأول)، والزکاة 28 (1844)، (بالشطر الثانی)، (تحفة الأشراف: 4486)، مسند احمد (4/18، 214)، سنن الدارمی/الزکاة 38 (1723)، (بالشطر الثانی) نیز دیکھئے رقم: 695پہلا فقرہ صیام سے متعلق (ضعیف) ہے، سند میں رباب، أم الرائح لین الحدیث ہیں، اور صدقہ سے متعلق دوسرا فقرہ صحیح ہے، تراجع الالبانی 132، والسراج المنیر 1873، 1874)»

وضاحت:
۱؎: جس میں رباب کے واسطے کا ذکر ہے۔

قال الشيخ الألباني: (جملة " إذا أفطر ... ") ضعيف، والصحيح من فعله صلى الله عليه وسلم، (جملة " الصدقة على.... ") صحيح (جملة " إذا أفطر ... ")، ابن ماجة (1699)، (جملة " الصدقة على ... ")، ابن ماجة (1844) // عندنا برقم (1494) //
حدیث نمبر: 694
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن عمر بن علي المقدمي، حدثنا سعيد بن عامر، حدثنا شعبة، عن عبد العزيز بن صهيب، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من وجد تمرا فليفطر عليه ومن لا فليفطر على ماء، فإن الماء طهور ". قال: وفي الباب عن سلمان بن عامر. قال ابو عيسى: حديث انس لا نعلم احدا رواه عن شعبة مثل هذا غير سعيد بن عامر، وهو حديث غير محفوظ ولا نعلم له اصلا من حديث عبد العزيز بن صهيب، عن انس، وقد روى اصحاب شعبة هذا الحديث، عن شعبة، عن عاصم الاحول، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهو اصح من حديث سعيد بن عامر، وهكذا رووا عن شعبة، عن عاصم، عن حفصة بنت سيرين، عن سلمان ولم يذكر فيه شعبة عن الرباب، والصحيح ما رواه. وابن عيينة وغير واحد، سفيان الثوري، عن عاصم الاحول، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر، وابن عون، يقول: عن ام الرائح بنت صليع، عن سلمان بن عامر، والرباب هي ام الرائح.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ وَجَدَ تَمْرًا فَلْيُفْطِرْ عَلَيْهِ وَمَنْ لَا فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءٍ، فَإِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ عَنْ شُعْبَةَ مِثْلَ هَذَا غَيْرَ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، وَهُوَ حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَلَا نَعْلَمُ لَهُ أَصْلًا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَقَدْ رَوَى أَصْحَابُ شُعْبَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَاب، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، وَهَكَذَا رَوَوْا عَنْ شُعُبَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ سَلْمَانَ وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ شُعْبَةُ عَنِ الرَّبَاب، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَاهُ. وَابْنُ عُيَيْنَةَ وغير واحد، سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحَوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَاب، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، وَابْنُ عَوْنٍ، يَقُولُ: عَنْ أُمِّ الرَّائِحِ بِنْتِ صُلَيْعٍ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، وَالرَّبَاب هي أم الرائح.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے کھجور میسر ہو، تو چاہیئے کہ وہ اسی سے روزہ کھولے، اور جسے کھجور میسر نہ ہو تو چاہیئے کہ وہ پانی سے کھولے کیونکہ پانی پاکیزہ چیز ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں سلمان بن عامر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۲- ہم نہیں جانتے کہ انس کی حدیث سعید بن عامر کے علاوہ کسی اور نے بھی شعبہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث غیر محفوظ ہے ۱؎، ہم اس کی کوئی اصل عبدالعزیز کی روایت سے جسے انہوں نے انس سے روایت کی ہو نہیں جانتے، اور شعبہ کے شاگردوں نے یہ حدیث بطریق: «شعبة عن عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن الرباب عن سلمان بن عامر عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، اور یہ سعید بن عامر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، کچھ اور لوگوں نے اس کی بطریق: «شعبة عن عاصم عن حفصة بنت سيرين عن سلمان» روایت کی ہے اور اس میں شعبہ کی رباب سے روایت کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور صحیح وہ ہے جسے سفیان ثوری، ابن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے بطریق: «عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن الرباب عن سلمان بن عامر» روایت کی ہے، اور ابن عون کہتے ہیں: «عن أم الرائح بنت صليع عن سلمان بن عامر» اور رباب ہی دراصل ام الرائح ہیں ۲؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) (تحفة الأشراف: 1026) (ضعیف) (سند میں سعید بن عامر حافظہ کے ضعیف ہیں اور ان سے اس کی سند میں وہم ہوا بھی ہے، دیکھئے الارواء رقم: 922)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ سعیدبن عامر «عن شعبة عن عبدالعزيز بن صهيب عن أنس» کے طریق سے اس کی روایت میں منفرد ہیں، شعبہ کے دوسرے تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے، ان لوگوں نے اسے «عن شعبة عن عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن سلمان بن عامر» کے طریق سے روایت کی ہے، اور عاصم الاحول کے تلامذہ مثلاً سفیان ثوری اور ابن عیینہ وغیرہم نے بھی اسے اسی طرح سے روایت کیا ہے۔
۲؎: یعنی ابن عون نے اپنی روایت میں «عن الرباب» کہنے کے بجائے «عن ام الروائح بنت صلیع» کہا ہے، اور رباب ام الروائح کے علاوہ کوئی اور عورت نہیں ہیں بلکہ دونوں ایک ہی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1699) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (374) //
حدیث نمبر: 695
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن عاصم الاحول ح. وحدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن عاصم الاحول. وحدثنا قتيبة، قال: انبانا سفيان بن عيينة، عن عاصم الاحول، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر الضبي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا افطر احدكم فليفطر على تمر زاد ابن عيينة فإنه بركة، فمن لم يجد فليفطر على ماء فإنه طهور ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ح. وَحَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ. وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَاب، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ زَادَ ابْنُ عُيَيْنَةَ فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءٍ فَإِنَّهُ طَهُورٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سلمان بن عامر ضبی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو چاہیئے کہ کھجور سے افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اور جسے (کھجور) میسر نہ ہو تو وہ پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاکیزہ چیز ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصوم 21 (2355)، سنن ابن ماجہ/الصیام 25 (1699)، (تحفة الأشراف: 4486)، مسند احمد (4/، 17، 19، 213، 215)، سنن الدارمی/الصوم 12 (1773)، وانظر أیضا ما تقدم برقم 658 (ضعیف)»

وضاحت:
۱؎: اگرچہ قولاً اس کی سند صحیح نہیں ہے، مگر فعلاً یہ حدیث دیگر طرق سے ثابت ہے۔
۲؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر افطار میں کھجور میسر ہو تو کھجور ہی سے افطار کرے کیونکہ یہ مقوی معدہ، مقوی اعصاب اور جسم میں واقع ہونے والی کمزوریوں کا بہترین بدل ہے اور اگر کھجور میّسر نہ ہو سکے تو پھر پانی سے افطار بہتر ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تازہ کھجور سے افطار کیا کرتے تھے اگر تازہ کھجور نہیں ملتی تو خشک کھجور سے افطار کرتے اور اگر وہ بھی نہ ملتی تو چند گھونٹ پانی سے افطار کرتے تھے۔ ان دونوں چیزوں کے علاوہ اجر و ثواب وغیرہ کی نیت سے کسی اور چیز مثلاً نمک وغیرہ سے افطار کرنا بدعت ہے، جو ملاؤں نے ایجاد کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.