الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book on Zakat
37. باب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الزَّكَاةِ
37. باب: وقت سے پہلے زکاۃ دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 679
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا القاسم بن دينار الكوفي، حدثنا إسحاق بن منصور، عن إسرائيل، عن الحجاج بن دينار، عن الحكم بن جحل، عن حجر العدوي، عن علي، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لعمر: " إنا قد اخذنا زكاة العباس عام الاول للعام ". قال: وفي الباب عن ابن عباس. قال ابو عيسى: لا اعرف حديث تعجيل الزكاة من حديث إسرائيل، عن الحجاج بن دينار إلا من هذا الوجه، وحديث إسماعيل بن زكريا، عن الحجاج عندي اصح من حديث إسرائيل عن الحجاج بن دينار، وقد روي هذا الحديث عن الحكم بن عتيبة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، وقد اختلف اهل العلم في تعجيل الزكاة قبل محلها، فراى طائفة من اهل العلم ان لا يعجلها، وبه يقول سفيان الثوري، قال: احب إلي ان لا يعجلها، وقال اكثر اهل العلم إن عجلها قبل محلها اجزات عنه، وبه يقول الشافعي، واحمد، وإسحاق.حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ، عَنْ حُجْرٍ الْعَدَوِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعُمَرَ: " إِنَّا قَدْ أَخَذْنَا زَكَاةَ الْعَبَّاسِ عَامَ الْأَوَّلِ لِلْعَامِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: لَا أَعْرِفُ حَدِيثَ تَعْجِيلِ الزَّكَاةِ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَحَدِيثُ إِسْمَاعِيل بْنِ زَكَرِيَّا، عَنْ الْحَجَّاجِ عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَعْجِيلِ الزَّكَاةِ قَبْلَ مَحِلِّهَا، فَرَأَى طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُعَجِّلَهَا، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، قَالَ: أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ لَا يُعَجِّلَهَا، وقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِنْ عَجَّلَهَا قَبْلَ مَحِلِّهَا أَجْزَأَتْ عَنْهُ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی الله عنہ سے فرمایا: ہم عباس سے اس سال کی زکاۃ گزشتہ سال ہی لے چکے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۲- اسرائیل کی پہلے زکاۃ نکالنے والی حدیث کو جسے انہوں نے حجاج بن دینار سے روایت کی ہے ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،
۳- اسماعیل بن زکریا کی حدیث جسے انہوں نے حجاج سے روایت کی ہے میرے نزدیک اسرائیل کی حدیث سے جسے انہوں نے حجاج بن دینار سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے،
۴- نیز یہ حدیث حکم بن عتیبہ سے بھی مروی ہے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے،
۵- اہل علم کا وقت سے پہلے پیشگی زکاۃ دینے میں اختلاف ہے، اہل علم میں سے ایک جماعت کی رائے ہے کہ اسے پیشگی ادا نہ کرے، سفیان ثوری اسی کے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں: کہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ یہی ہے کہ اسے پیشگی ادا نہ کرے، اور اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر وقت سے پہلے پیشگی ادا کر دے تو جائز ہے۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن)»

وضاحت:
۱؎: اور یہی قول راجح ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن أيضا

قال الشيخ زبير على زئي: (679) إسناده ضعيف
حجر العدوي لم يتبين لي من ھو(؟) وللحديث شواھد ضعيفه
حدیث نمبر: 682
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء بن كريب، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان اول ليلة من شهر رمضان، صفدت الشياطين ومردة الجن، وغلقت ابواب النار فلم يفتح منها باب، وفتحت ابواب الجنة فلم يغلق منها باب، وينادي مناد يا باغي الخير اقبل، ويا باغي الشر اقصر، ولله عتقاء من النار وذلك كل ليلة ". قال: وفي الباب عن عبد الرحمن بن عوف، وابن مسعود، وسلمان.حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَاب، وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَاب، وَيُنَادِي مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَسَلْمَانَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن ۱؎ جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے: خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار! رک جا ۲؎ اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزاد کئے ہوئے بندے ہیں (تو ہو سکتا ہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، ابن مسعود اور سلمان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصوم 2 (1642)، (تحفة الأشراف: 1249) (صحیح) وأخرج الشق الأول کل من: صحیح البخاری/الصوم 5 (1898، 1899)، وبدء الخلق 11 (3277)، وصحیح مسلم/الصوم 1 (1079)، وسنن النسائی/الصوم 3 (2099، 2100)، و4 (2101، 2102، 2103، 2104)، و5 (2106، 2107)، وط/الصوم 22 (59)، و مسند احمد (2/281، 357، 378، 401)، وسنن الدارمی/الصوم 53 (1816)، من غیر ہذا الطریق عنہ۔»

وضاحت:
۱؎: مردة الجن کا عطف الشياطين پر ہے، بعض اسے عطف تفسیری کہتے ہیں اور بعض عطف مغایرت یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ جب شیاطین اور مردۃ الجن قید کر دئیے جاتے ہیں تو پھر معاصی کا صدور کیوں ہوتا ہے؟ اس کا ایک جواب تو یہ کہ معصیت کے صدور کے لیے تحقق اور شیاطین کا وجود ضروری نہیں، انسان گیارہ مہینے شیطان سے متاثر ہوتا رہتا ہے رمضان میں بھی اس کا اثر باقی رہتا ہے دوسرا جواب یہ ہے کہ لیڈر قید کر دیئے جاتے لیکن رضاکار اور والنیٹر کھُلے رہتے ہیں۔
۲؎: اسی ندا کا اثر ہے کہ رمضان میں اہل ایمان کی نیکیوں کی جانب توجہ بڑھ جاتی ہے اور وہ اس ماہ مبارک میں تلاوت قرآن ذکر و عبادات خیرات اور توبہ واستغفار کا زیادہ اہتمام کرنے لگتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1642)

قال الشيخ زبير على زئي: (682) إسناده ضعيف /جه 1642
الأعمش عنعن (تقدم: 169) وروى احمد (311،312/4 ح 18794) عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ”في رمضان تفتح ابواب السماء وتغلق أبواب النار ويصفد فيه كل شيطان مريد و ينادي منادٍ كل ليلة: يا طالب الخير ھلم و يا طالب الشرّ أمسك“ وسند حسن وھذا الحديث وحديث البخاري (1899) ومسلم (1079) تغني عنه
حدیث نمبر: 3760
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن إبراهيم الدورقي، حدثنا وهب بن جرير، حدثني ابي، قال: سمعت الاعمش يحدث، عن عمرو بن مرة، عن ابي البختري، عن علي، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لعمر في العباس: " إن عم الرجل صنو ابيه ". وكان عمر كلمه في صدقته. قال: هذا حسن صحيح.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، قَال: سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعُمَرَ فِي الْعَبَّاسِ: " إِنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ ". وَكَانَ عُمَرُ كَلَّمَهُ فِي صَدَقَتِهِ. قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی الله عنہ سے عباس رضی الله عنہ کے سلسلہ میں فرمایا: بلاشبہہ آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ہوتا ہے عمر رضی الله عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے صدقہ کے سلسلہ میں کوئی بات کی تھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10112) (صحیح) (شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے، دیکھئے: حدیث نمبر (3761) والصحیحة 806)»

وضاحت:
۱؎: صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی الله عنہ کو زکاۃ کا مال جمع کرنے کے لیے بھیجا تو کچھ لوگوں نے دینے سے انکار کر دیا، ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی الله عنہ بھی تھے، انہی کے سلسلہ میں آپ نے عمر سے فرمایا: «و أما العباس فھی علي ومثلھا معھا» یعنی جہاں تک میرے چچا عباس کا مسئلہ ہے تو ان کا حق میرے اوپر ہے اور اسی کے مثل مزید اور، ساتھ ہی آپ نے وہ بات بھی کہی جو حدیث میں مذکور ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله (3759)، الإرواء (3 / 348 - 349)
حدیث نمبر: 3761
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن إبراهيم الدورقي، حدثنا شبابة، حدثنا ورقاء، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " العباس عم رسول الله , وإن عم الرجل صنو ابيه , او من صنو ابيه ". هذا حسن صحيح غريب، لا نعرفه من حديث ابي الزناد إلا من هذا الوجه.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ , وَإِنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ , أَوْ مِنْ صِنْوِ أَبِيهِ ". هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الزِّنَادِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عباس اللہ کے رسول کے چچا ہیں اور آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ہوتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے ابوالزناد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 3 (983)، سنن ابی داود/ الزکاة 21 (1622)، سنن النسائی/الزکاة 15 (2466) (تحفة الأشراف: 13922) (وأخرجہ البخاري في الزکاة (49/ح 1468)، بدون قولہ: ”عم الرجل صنو أبیہ“)، و مسند احمد (2/322) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (806)، صحيح أبي داود (1435)، الإرواء (3 / 348 - 350)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.