(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن زيد بن اسلم، عن رجل من بني الديل يقال له بسر بن محجن، عن محجن انه كان في مجلس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فاذن بالصلاة فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم رجع ومحجن في مجلسه فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما منعك ان تصلي الست برجل مسلم" قال: بلى ولكني كنت قد صليت في اهلي، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا جئت فصل مع الناس وإن كنت قد صليت". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي الدِّيلِ يُقَالُ لَهُ بُسْرُ بْنُ مِحْجَنٍ، عَنْ مِحْجَنٍ أَنَّهُ كَانَ فِي مَجْلِسٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذَّنَ بِالصَّلَاةِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ وَمِحْجَنٌ فِي مَجْلِسِهِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ أَلَسْتَ بِرَجُلٍ مُسْلِمٍ" قَالَ: بَلَى وَلَكِنِّي كُنْتُ قَدْ صَلَّيْتُ فِي أَهْلِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا جِئْتَ فَصَلِّ مَعَ النَّاسِ وَإِنْ كُنْتَ قَدْ صَلَّيْتَ".
محجن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ مؤذن نے نماز کے لیے اذان دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے (اور جا کر نماز پڑھی)، پھر (نماز پڑھ کر) لوٹے، اور محجن اپنی مجلس ہی میں بیٹھے رہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم نے نماز کیوں نہیں پڑھی؟ کیا تم مسلمان نہیں ہو؟“ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں! لیکن میں نے اپنے گھر میں نماز پڑھ لی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جب تم آؤ (اور لوگ نماز پڑھ رہے ہوں) تو لوگوں کے ساتھ تم بھی نماز پڑھ لیا کرو، اگرچہ تم پڑھ چکے ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، موطا امام مالک/الجماعة 3 (8)، (تحفة الأشراف: 11219)، مسند احمد 4/34، 338 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا زياد بن ايوب، قال: حدثنا إسماعيل ابن علية، قال: حدثنا ايوب، عن ابي العالية البراء قال: اخر زياد الصلاة فاتاني ابن صامت فالقيت له كرسيا فجلس عليه فذكرت له صنع زياد فعض على شفتيه وضرب على فخذي وقال: إني سالت ابا ذر كما سالتني فضرب فخذي كما ضربت فخذك وقال: إني سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني فضرب فخذي كما ضربت فخذك فقال عليه الصلاة والسلام" صل الصلاة لوقتها فإن ادركت معهم فصل ولا تقل إني صليت فلا اصلي". (مرفوع) أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، قال: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ قال: أَخَّرَ زِيَادٌ الصَّلَاةَ فَأَتَانِي ابْنُ صَامِتٍ فَأَلْقَيْتُ لَهُ كُرْسِيًّا فَجَلَسَ عَلَيْهِ فَذَكَرْتُ لَهُ صُنْعَ زِيَادٍ فَعَضَّ عَلَى شَفَتَيْهِ وَضَرَبَ عَلَى فَخِذِي وَقَالَ: إنِّي سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ كَمَا سَأَلْتَنِي فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخْذَكَ وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ فَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ" صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا فَإِنْ أَدْرَكْتَ مَعَهُمْ فَصَلِّ وَلَا تَقُلْ إِنِّي صَلَّيْتُ فَلَا أُصَلِّي".
ابوالعالیہ البراء کہتے ہیں کہ زیاد نے نماز میں دیر کر دی تو میرے پاس (عبداللہ ابن صامت) ابن صامت آئے میں نے ان کے لیے ایک کرسی لا کر رکھی، وہ اس پہ بیٹھے، میں نے ان سے زیاد کی کارستانیوں کا ذکر کیا، تو انہوں نے اپنے دونوں ہونٹوں کو بھینچا ۱؎ اور میری ران پر ہاتھ مارا، اور کہا: میں نے بھی ابوذر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح پوچھا جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے، تو انہوں نے میری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تیری ران پہ مارا ہے، اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح پوچھا ہے، جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو آپ نے تمہاری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تمہاری ران پہ مارا ہے، اور فرمایا: ”نماز اس کے وقت پر پڑھ لیا کرو، اور اگر تم ان کے ساتھ نماز کا وقت پاؤ تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو، اور یہ نہ کہو کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے، لہٰذا اب نہیں پڑھوں گا“۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 41 (648)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 11948)، مسند احمد 5/147، 160، 168، سنن الدارمی/الصلاة 25 (1263)، ویأتی عند المؤلف في الإمامة 55 (برقم: 860) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے اس کے فعل پر ناپسندیدگی کا اظہار مقصود تھا۔ ۲؎: کیونکہ اس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، قال: حدثنا ابو بكر بن عياش، عن عاصم، عن زر، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لعلكم ستدركون اقواما يصلون الصلاة لغير وقتها فإن ادركتموهم فصلوا الصلاة لوقتها وصلوا معهم واجعلوها سبحة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَلَّكُمْ سَتُدْرِكُونَ أَقْوَامًا يُصَلُّونَ الصَّلَاةَ لِغَيْرِ وَقْتِهَا فَإِنْ أَدْرَكْتُمُوهُمْ فَصَلُّوا الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا وَصَلُّوا مَعَهُمْ وَاجْعَلُوهَا سُبْحَةً".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تم کچھ ایسے لوگوں کو پاؤ گے جو نماز کو بے وقت کر کے پڑھیں گے، تو اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو تم اپنی نماز وقت پر پڑھ لیا کرو، اور ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کرو ۱؎ اور اسے سنت (نفل) بنا لو“۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة 150 (1255)، (تحفة الأشراف: 9211)، مسند احمد 1/379، 455، 459، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 5 (534) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے ظالم حکمرانوں کے ساتھ نماز پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ ۲؎: صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں «واجعلوا صلاتکم معہم نافلۃ» یعنی بعد میں ان کے ساتھ جو نماز پڑھو اسے نفل سمجھو۔
اسود اور علقمہ دونوں کہتے ہیں کہ ہم دوپہر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو انہوں نے کہا: عنقریب امراء نماز کے وقت سے غافل ہو جائیں گے، تو تم لوگ نمازوں کو ان کے وقت پر ادا کرنا، پھر وہ اٹھے اور میرے اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اہل علم کی ایک جماعت جن میں امام شافعی بھی شامل ہیں نے ذکر کیا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے مکہ میں سیکھا تھا، اس میں تطبیق کے ساتھ اور دوسری باتیں بھی تھیں جو اب متروک ہیں، یہ بھی منجملہ انہیں میں سے ہے۔
(مرفوع) اخبرنا زياد بن ايوب، قال: حدثنا هشيم، قال: حدثنا يعلى بن عطاء، قال: حدثنا جابر بن يزيد بن الاسود العامري، عن ابيه، قال: شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الفجر في مسجد الخيف فلما قضى صلاته إذا هو برجلين في آخر القوم لم يصليا معه قال:" علي بهما فاتي بهما ترعد فرائصهما فقال: ما منعكما ان تصليا معنا" قالا: يا رسول الله إنا قد صلينا في رحالنا قال:" فلا تفعلا إذا صليتما في رحالكما، ثم اتيتما مسجد جماعة فصليا معهم فإنها لكما نافلة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قال: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قال: حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ، قال: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ الْعَامِرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قال: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ إِذَا هُوَ بِرَجُلَيْنِ فِي آخِرِ الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّيَا مَعَهُ قَالَ:" عَلَيَّ بِهِمَا فَأُتِيَ بِهِمَا تَرْعَدُ فَرَائِصُهُمَا فَقَالَ: مَا مَنَعَكُمَا أَنْ تُصَلِّيَا مَعَنَا" قَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا قَدْ صَلَّيْنَا فِي رِحَالِنَا قَالَ:" فَلَا تَفْعَلَا إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا، ثُمَّ أَتَيْتُمَا مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَصَلِّيَا مَعَهُمْ فَإِنَّهَا لَكُمَا نَافِلَةٌ".
یزید بن اسود عامری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد خیف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز میں موجود تھا، جب آپ اپنی نماز پوری کر چکے تو آپ نے دیکھا کہ لوگوں کے آخر میں دو آدمی ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے، آپ نے فرمایا: ”ان دونوں کو میرے پاس لاؤ“، چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا، ان کے مونڈھے (گھبراہٹ سے) کانپ رہے تھے وہ گھبرائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم دونوں نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟“ تو ان دونوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ چکے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، جب تم اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ چکو، پھر مسجد میں آؤ جہاں جماعت ہو رہی ہو تو تم ان کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھ لیا کرو، یہ تمہارے لیے نفل (سنت) ہو جائے گی“۔
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ران پہ ہاتھ مار کر مجھ سے فرمایا: ”جب تم ایسے لوگوں میں رہ جاؤ گے جو نماز کو اس کے وقت سے دیر کر کے پڑھیں گے تو کیسے کرو گے؟“ انہوں نے کہا: آپ جیسا حکم دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز اول وقت پر پڑھ لینا، پھر تم اپنی ضرورت کے لیے چلے جانا، اور اگر جماعت کھڑی ہو چکی ہو اور تم (ابھی) مسجد ہی میں ہو تو پھر نماز پڑھ لینا“۔