الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Book on Marriage
30. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنْ نِكَاحِ الشِّغَار
باب: نکاح شغار کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1123
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا حميد وهو الطويل، قال: حدث الحسن، عن عمران بن حصين، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا جلب ولا جنب ولا شغار في الإسلام، ومن انتهب نهبة فليس منا ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قال: وفي الباب، عن انس، وابي ريحانة، وابن عمر، وجابر، ومعاوية، وابي هريرة، ووائل بن حجر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ وَهُوَ الطَّوِيلُ، قَالَ: حَدَّثَ الْحَسَنُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ وَلَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ، وَمَنِ انْتَهَبَ نُهْبَةً فَلَيْسَ مِنَّا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَأَبِي رَيْحَانَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَمُعَاوِيَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں نہ «جلب» ہے، نہ «جنب» ۱؎ اور نہ ہی «شغار»، اور جو کسی کی کوئی چیز اچک لے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس، ابوریحانہ، ابن عمر، جابر، معاویہ، ابوہریرہ، اور وائل بن حجر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 70 (2581)، مقتصرا علی قولہ ”لا جلب ولا جنب“ سنن ابی داود/ النکاح 60 (3337)، والخیل 15 (3620)، و16 (3621)، سنن ابن ماجہ/الفتن 3 (3935)، مقتصرا علی قولہ ”من انتہب…“ (تحفة الأشراف: 10793) مسند احمد (4/429، 439) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «جلب» اور «جنب» کے دو مفہوم ہیں: ایک مفہوم کا تعلق زکاۃ سے ہے اور دوسرے کا گھوڑ دوڑ کے مقابلے سے۔ زکاۃ میں «جلب» یہ ہے کہ زکاۃ وصول کرنے والا کافی دور قیام کرے اور صاحب زکاۃ لوگوں کو حکم دے کہ وہ اپنے جانور لے کر آئیں اور زکاۃ ادا کریں، یہ ممنوع ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو خود ان کی چراگاہوں یا پنگھٹوں پر جا کر زکاۃ کے جانور لینے چاہئیں۔ اس کے مقابلے میں جنب یہ ہے کہ صاحب زکاۃ اپنے اپنے جانور لے کر دور چلے جائیں تاکہ زکاۃ وصول کرنے والا ان کے ساتھ دوڑتا پھرے اور پریشان ہو۔ پہلی صورت یعنی «جلب» میں زکاۃ دینے والوں کو زحمت ہے اور دوسری صورت «جنب» میں زکاۃ وصول کرنے کو۔ لہٰذا یہ دونوں درست نہیں۔ گھوڑ دوڑ میں «جلب» اور «جنب» ایک دوسرے کے مترادف ہیں، مطلب یہ ہے کہ آدمی ایک گھوڑے پر سوار ہو جائے اور دوسرا تازہ دم گھوڑا ساتھ رکھے تاکہ درمیان میں جب یہ تھک جائے تو دوسرے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہو جائے اور مقابلہ بہ آسانی جیت سکے۔ اس میں چونکہ ناانصافی اور دھوکہ ہے، لہٰذا اس معنی میں بھی «جلب» اور «جنب» درست نہیں ہے (اور «شغار» کی تشریح خود مؤلف کے الفاظ میں اگلی حدیث کے ضمن میں آ رہی ہے)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2947 / التحقيق الثاني)
حدیث نمبر: 1124
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، " ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الشغار ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند عامة اهل العلم لا يرون نكاح الشغار، والشغار ان يزوج الرجل ابنته على ان يزوجه الآخر ابنته او اخته، ولا صداق بينهما، وقال بعض اهل العلم: نكاح الشغار مفسوخ، ولا يحل وإن جعل لهما صداقا، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وروي عن عطاء بن ابي رباح، انه قال: يقران على نكاحهما ويجعل لهما صداق المثل، وهو قول: اهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشِّغَارِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ نِكَاحَ الشِّغَارِ، وَالشِّغَارُ أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ الْآخَرُ ابْنَتَهُ أَوْ أُخْتَهُ، وَلَا صَدَاقَ بَيْنَهُمَا، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: نِكَاحُ الشِّغَارِ مَفْسُوخٌ، وَلَا يَحِلُّ وَإِنْ جُعِلَ لَهُمَا صَدَاقًا، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَرُوِيَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّهُ قَالَ: يُقَرَّانِ عَلَى نِكَاحِهِمَا وَيُجْعَلُ لَهُمَا صَدَاقُ الْمِثْلِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَهْلِ الْكُوفَةِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ نکاح شغار کو درست نہیں سمجھتے،
۳- شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی کا نکاح کسی سے اس شرط پر کرے کہ وہ بھی اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح اس سے کر دے گا اور ان کے درمیان کوئی مہر مقرر نہ ہو،
۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: نکاح شغار فسخ کر دیا جائے گا اور وہ حلال نہیں، اگرچہ بعد میں ان کے درمیان مہر مقرر کر لیا جائے۔ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،
۵- لیکن عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ وہ اپنے نکاح پر قائم رہیں گے البتہ ان کے درمیان مہر مثل مقرر کر دیا جائے گا، اور یہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 28 (5112)، صحیح مسلم/النکاح 7 (1415)، سنن ابی داود/ النکاح 15 (2074)، سنن النسائی/النکاح 61 (3337)، سنن ابن ماجہ/النکاح 16 (1883)، (تحفة الأشراف: 8323) موطا امام مالک/النکاح 11 (24)، مسند احمد (2/، 62)، سنن الدارمی/النکاح 9 (2226) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الحیل 4 (6960)، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) سنن النسائی/النکاح 60 (3336)، مسند احمد (2/19) من ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1883)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.