كِتَاب اللُّقَطَةِ کسی کو ملنے والی چیز جس کے مالک کا پتہ نہ ہو 3. باب الضِّيَافَةِ وَنَحْوِهَا: باب: مہمان داری کا بیان۔
سیدنا ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص یقین رکھتا ہے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر اس کو چاہیئے کہ خاطر داری کرے اپنے مہمان کی تکلف کے ساتھ۔“ لوگوں نے کہا: تکلف کب تک یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تکلف ایک دن رات تک ہے۔“ (یعنی ایک دن رات اپنے مقدور کے موافق عمدہ کھانا کھلائے اور مہمانی تین دن تک ہے یعنی دو دن معمولی کھانا کھلائے) پھر اس کے بعد جو مہمانی کرے صدقہ ہے اور جو شخص یقین رکھتا ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اس کو چاہیے کہ نیک بات کہے یا چپ رہے۔“
سیدنا ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضیافت تین دن تک ہے اور اس کا تکلف ایک دن رات تک چاہیے اور کسی مسلمان کو درست نہیں کہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا رہے یہاں تک کہ اس کو گناہ میں ڈالے۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کس طرح اس کو گناہ میں ڈالے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے پاس ٹھہرا رہے اور اس کے پاس کچھ نہ ہو کھلانے کے لیے۔“
وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ میرے کانوں نے سنا، آنکھ نے دیکھا، دل نے یاد رکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم نے کہا: یا رسول اللہ! آپ ہم کو بھیجتے ہیں پھر ہم اترتے ہیں کسی قوم کے پاس، وہ ہماری مہمانی نہیں کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اترو کسی قوم کے پاس پھر وہ تمہارے واسطے وہ سامان کر دیں جو مہمان کے لیے چاہیے تو تم قبول کرو اگر وہ نہ کریں تو ان سے مہمانی کا حق جیسا ان کو چاہیے لے لو۔“
|