الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
The Chapters on Business Transactions
حدیث نمبر: 2234
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن المستمر العروقي ، حدثنا ابي ، حدثنا عبيس بن ميمون ، حدثنا عون العقيلي ، عن ابي عثمان النهدي ، عن سلمان ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من غدا إلى صلاة الصبح غدا براية الإيمان، ومن غدا إلى السوق غدا براية إبليس".
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُسْتَمِرِّ الْعُرُوقِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْسُ بْنُ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا عَوْنٌ الْعُقَيْلِيُّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ غَدَا إِلَى صَلَاةِ الصُّبْحِ غَدَا بِرَايَةِ الْإِيمَانِ، وَمَنْ غَدَا إِلَى السُّوقِ غَدَا بِرَايَةِ إِبْلِيسَ".
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جو صبح سویرے نماز فجر کے لیے گیا، وہ ایمان کا جھنڈا لے کر گیا، اور جو صبح سویرے بازار گیا وہ ابلیس کا جھنڈا لے کر گیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4504، ومصباح الزجاجة: 787) (ضعیف جدا)» ‏‏‏‏ (سند میں عیسیٰ بن میمون منکر الحدیث اورمتروک راوی ہے)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
حدیث نمبر: 2235
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا بشر بن معاذ الضرير ، حدثنا حماد بن زيد ، عن عمرو بن دينار مولى آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قال: حين يدخل السوق لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير كله وهو على كل شيء قدير كتب الله له الف الف حسنة ومحا عنه الف الف سيئة وبنى له بيتا في الجنة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّرِيرُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ مَوْلَى آلِ الزُّبَيْرِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَالَ: حِينَ يَدْخُلُ السُّوقَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ كُلُّهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ وَمَحَا عَنْهُ أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ وَبَنَى لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ".
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بازار میں داخل ہوتے وقت دعا یہ پڑھے: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير كله وهو على كل شيء قدير» اکیلے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے حکمرانی ہے، اور اسی کے لیے ہر طرح کی حمد و ثناء ہے، وہی زندگی، اور موت دیتا ہے، اور وہ زندہ ہے، اس کے لیے موت نہیں، اسی کے ہاتھ میں سارا خیر ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھے گا، اور اس کی دس لاکھ برائیاں مٹا دے گا، اور اس کے لیے جنت میں ایک گھر تعمیر کرے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الدعوات 36 (3429)، (تحفة الأشراف: 6787، 10528)، وقد أخرجہ: (1/47)، سنن الدارمی/الاستئذان 57 (2734) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں عمرو بن دینار ضعیف راوی ہیں لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: بازار میں اس دعا کا ثواب اس واسطے زیادہ ہوا کہ بازار دنیا میں مشغول ہونے اور اللہ سے غفلت کی جگہ ہے تو اس جگہ اللہ کو یاد رکھنا بڑے جواں مردوں کا کام ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: «رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ» (سورہ النور: 37) دوسری روایت میں ہے کہ شیطان بازار میں اپنی کرسی بچھاتا ہے اور لوگوں کو بھڑکاتا ہے، تو وہاں اللہ کی یاد گویا شیطان کو ذلیل کرنا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن
41. بَابُ: مَا يُرْجَى مِنَ الْبَرَكَةِ فِي الْبُكُورِ
41. باب: صبح کے وقت میں برکت متوقع ہونے کا بیان۔
Chapter: The Blessing That Is Hoped For When Starting One’s Day Early
حدیث نمبر: 2236
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة حدثنا هشيم ، عن يعلى بن عطاء ، عن عمارة بن حديد ، عن صخر الغامدي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم بارك لامتي في بكورها"، قال: وكان إذا بعث سرية، او جيشا بعثهم في اول النهار، قال:" وكان صخر رجلا تاجرا، فكان يبعث تجارته في اول النهار فاثرى وكثر ماله".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَدِيدٍ ، عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا"، قَالَ: وَكَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةً، أَوْ جَيْشًا بَعَثَهُمْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ، قَالَ:" وَكَانَ صَخْرٌ رَجُلًا تَاجِرًا، فَكَانَ يَبْعَثُ تِجَارَتَهُ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ فَأَثْرَى وَكَثُرَ مَالُهُ".
صخر غامدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میری امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی سریہ یا لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسے دن کے ابتدائی حصہ ہی میں روانہ فرماتے ۱؎۔ راوی کہتے ہیں: غامدی صخر تاجر تھے، وہ اپنا مال تجارت صبح سویرے ہی بھیجتے تھے بالآخر وہ مالدار ہو گئے، اور ان کی دولت بڑھ گئی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الجھاد 85 (2606)، سنن الترمذی/البیوع 6 (1212)، (تحفة الأشراف: 4852)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/416، 417، 432، 4/384، 390)، سنن الدارمی/السیر 1 (2479) (صحیح)» ‏‏‏‏ (حدیث کا پہلا ٹکڑا «اللَّهُمَّ بَارِكْ لأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا» ‏‏‏‏ شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، اور سند میں عمارہ بن حدید کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے، جو مجاہیل کی توثیق کرتے ہیں، اور ابن حجر نے مجہول کہا ہے، حدیث کے دوسرے ٹکڑے کو البانی صاحب نے سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: (4178) میں شاہد نہ ملنے کی وجہ سے ضعیف کہا ہے، جب کہ سنن ابی داود میں پوری حدیث کو صحیح کہا ہے، لیکن سنن ابن ماجہ میں تفصیل بیان کر دی ہے، نیز اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے)۔

وضاحت:
۱؎: سویرے سے مراد یہ ہے کہ صبح کی نماز کے بعد شروع دن میں کرے، یہ وقت برکت کا ہے، جو کام اس وقت کرے گا امید ہے کہ اس میں برکت ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2237
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو مروان محمد بن عثمان العثماني ، حدثنا محمد بن ميمون المدني ، عن عبد الرحمن بن ابي الزناد ، عن ابيه ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم بارك لامتي في بكورها يوم الخميس".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ الْمَدَنِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا يَوْمَ الْخَمِيسِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میری امت کو جمعرات کی صبح کے وقت میں برکت عطا فرما۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13791، ومصباح الزجاجة: 788) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (ابومروان بعض منکر احادیث روایت کرنے کی وجہ سے ضعیف راوی ہیں، نیز عبدالرحمٰن بن أبی الزناد مضطرب الحدیث ہیں، «يَوْمَ الْخَمِيسِ» کی زیادتی اس حدیث میں منکر ہے، جس کی زیادتی ضعیف راوی نے کی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 2238
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن حميد بن كاسب ، حدثنا إسحاق بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين ، عن عبد الرحمن بن ابي بكر الجدعاني ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" اللهم بارك لامتي في بكورها".
(مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الْجَدْعَانِيِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میری امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف: 7754) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں عبد الرحمن بن أبی بکر ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح
42. بَابُ: بَيْعِ الْمُصَرَّاةِ
42. باب: مصراۃ کی بیع کا بیان۔
Chapter: Sale of the Musarrah (animal whose udders were tied up)
حدیث نمبر: 2239
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن هشام بن حسان ، عن محمد بن سيرين ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من ابتاع مصراة فهو بالخيار ثلاثة ايام، فإن ردها رد معها صاعا من تمر لا سمراء" يعني الحنطة.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنِ ابْتَاعَ مُصَرَّاةً فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنْ رَدَّهَا رَدَّ مَعَهَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ لَا سَمْرَاءَ" يَعْنِي الْحِنْطَةَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے «مصّراۃ» خریدی تو اسے تین دن تک اختیار ہے، چاہے تو واپس کر دے، چاہے تو رکھے، اگر واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی واپس کرے، «سمراء» (یعنی گیہوں) کا واپس کرنا ضروری نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14566)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 64 (2149)، 65 (2151)، نحوہ دون ''ثلاثة أیام''، صحیح مسلم/البیوع 7 (1525)، سنن ابی داود/البیوع 48 (3444)، سنن النسائی/البیوع 12 (4494)، حصحیح مسلم/248، 394، 460، 465، سنن الدارمی/البیوع 19 (2595) (صحیح)» ‏‏‏‏ (تراجع الألبانی: رقم: 337، «ثَلاثَةَ أَيَّامٍ» تین دن کی تحدید ثابت نہیں ہے

وضاحت:
۱؎: «مصراۃ»: ایسی بکری یا دودھ والا جانور جس کا دودھ ایک یا دو یا تین دن تک نہ دوہا جائے تاکہ دودھ تھن میں جمع ہو جائے اور خریدار دھوکہ کھا کر زیادہ قیمت میں اس جانور کو اس دھوکہ میں خرید لے کہ یہ بہت دودھ دینے والا جانور ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح م وخ نحوه دون ذكر الثلاثة
حدیث نمبر: 2240
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا صدقة بن سعيد الحنفي ، حدثنا جميع بن عمير التيمي ، حدثنا عبد الله بن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ايها الناس من باع محفلة فهو بالخيار ثلاثة ايام، فإن ردها رد معها مثلي لبنها، او قال: مثل لبنها قمحا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ سَعِيدٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَيْرٍ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ بَاعَ مُحَفَّلَةً فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنْ رَدَّهَا رَدَّ مَعَهَا مِثْلَيْ لَبَنِهَا، أَوْ قَالَ: مِثْلَ لَبَنِهَا قَمْحًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! اگر کوئی «محفَلہ» ( «مصّراۃ») کو بیچے تو اسے تین دن تک اختیار ہے، اگر وہ اسے واپس کر دے تو اس کے دودھ کے دوگنا یا برابر گیہوں اس کو دے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 48 (3446)، (تحفة الأشراف: 6675) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں جمیع بن عمیر ضعیف راوی ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 2241
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل ، حدثنا وكيع ، حدثنا المسعودي ، عن جابر ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، عن عبد الله بن مسعود ، انه قال: اشهد على الصادق المصدوق ابي القاسم صلى الله عليه وسلم، انه حدثنا، قال:" بيع المحفلات خلابة ولا تحل الخلابة لمسلم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّهُ قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى الصَّادِقِ الْمَصْدُوقِ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ حَدَّثَنَا، قَالَ:" بَيْعُ الْمُحَفَّلَاتِ خِلَابَةٌ وَلَا تَحِلُّ الْخِلَابَةُ لِمُسْلِمٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں صادق و مصدوق ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے ہم سے بیان کیا، اور فرمایا: «محفّلات» کا بیچنا فریب اور دھوکہ ہے، اور مسلمان کو دھوکہ دینا حلال اور جائز نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9583، ومصباح الزجاجة: 789)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/430، 433) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں جابر جعفی ضعیف راوی ہیں)

وضاحت:
۱؎: «محفّلات»: جمع ہے «محفلہ» کی یعنی ایسے جانور جن کو کئی دنوں تک دوہا نہ گیا ہو، اور دودھ ان کے تھنوں میں جمع رہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
43. بَابُ: الْخَرَاجِ بِالضَّمَانِ
43. باب: غلام کی کمائی اس کے ضامن مالک سے جڑی ہوئی ہے۔
Chapter: A Slave’s Earning Belong To His Guarantor
حدیث نمبر: 2242
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا وكيع ، عن ابن ابي ذئب ، عن مخلد بن خفاف بن إيماء بن رحضة الغفاري ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة ،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى، ان خراج العبد بضمانه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ مَخْلَدِ بْنِ خُفَافِ بْنِ إِيمَاءَ بْنِ رَحَضَةَ الْغِفَارِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى، أَنَّ خَرَاجَ الْعَبْدِ بِضَمَانِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ غلام کی کمائی اس کی ہے، جو اس کا ضامن ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 73 (3508، 3509)، سنن الترمذی/البیوع 53 (1285)، سنن النسائی/البیوع 13 (4495)، (تحفة الأشراف: 16755)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/ 49، 208، 237) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس مسئلہ کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص نے ایک غلام خریدا، وہ کئی دن تک اس کے پاس رہا، پھر عیب کی وجہ سے یا شرط خیار کی بناء پر اس کو واپس کر دیا،تو جتنے دن وہ غلام خریدار کے پاس رہا اتنے دن کی کمائی خریدار ہی کی ہوگی، اس لئے کہ خریدار ہی ان دنوں میں اس کا ضامن تھا، اگر وہ غلام خریدار کے پاس ہلاک ہو جاتا تو اسی کا نقصان ہوتا، بیچنے والے کا نقصان نہ ہوتا۔

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 2243
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا مسلم بن خالد الزنجي ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، ان رجلا اشترى عبدا فاستغله ثم وجد به عيبا فرده، فقال: يا رسول الله، إنه قد استغل غلامي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الخراج بالضمان".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَجُلًا اشْتَرَى عَبْدًا فَاسْتَغَلَّهُ ثُمَّ وَجَدَ بِهِ عَيْبًا فَرَدَّهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَدِ اسْتَغَلَّ غُلَامِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک غلام خریدا، پھر اس سے مزدوری کرائی، بعد میں اسے اس میں کوئی عیب نظر آیا، اسے بیچنے والے کو واپس کر دیا، بیچنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرے غلام سے مزدوری کرائی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ فائدہ اسے ضمانت کی وجہ سے ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 73 (3510)، سنن الترمذی/البیوع 53 (1286 تعلیقاً)، (تحفة الأشراف: 17243)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/80، 116) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں مسلمہ بن خالد زنجی ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1315)

وضاحت:
۱؎: تو وہ اجرت خریدنے والے ہی کا حق ہے، اس لئے کہ وہ اس غلام کا ضامن تھا اگر وہ غلام اس کے پاس مر جاتا تو کیا اس کو قیمت واپس کر دیتا۔

قال الشيخ الألباني: حسن

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.