جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے دن ہم نے گھوڑوں اور نیل گائے کا گوشت کھایا، اور ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (گھریلو) گدھے (کے گوشت کھانے) سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصید 6 (1941)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 12 (3192)، (تحفة الأشراف: 2810)، مسند احمد (3/322) (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا بكر هو ابن مضر، عن ابن الهاد، عن محمد بن إبراهيم، عن عيسى بن طلحة، عن عمير بن سلمة الضمري، قال: بينا نحن نسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ببعض اثايا الروحاء وهم حرم، إذا حمار وحش معقور، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" دعوه فيوشك صاحبه ان ياتيه"، فجاء رجل من بهز هو الذي عقر الحمار، فقال: يا رسول الله شانكم هذا الحمار، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا بكر يقسمه بين الناس. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَكْرٌ هُوَ ابْنُ مُضَرَ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَلَمَةَ الضَّمْرِيِّ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ نَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ أَثَايَا الرَّوْحَاءِ وَهُمْ حُرُمٌ، إِذَا حِمَارُ وَحْشٍ مَعْقُورٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعُوهُ فَيُوشِكُ صَاحِبُهُ أَنْ يَأْتِيَهُ"، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَهْزٍ هُوَ الَّذِي عَقَرَ الْحِمَارَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ شَأْنَكُمْ هَذَا الْحِمَارُ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ يُقَسِّمُهُ بَيْنَ النَّاسِ.
عمیر بن سلمہ ضمری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس دوران جب کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روحاء کے پتھروں میں چل رہے تھے اور لوگ احرام باندھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک زخمی نیل گائے ملی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو ممکن ہے اسے زخمی کرنے والا آئے“، اتنے میں قبیلہ بہز کا ایک شخص آیا، اسی نے اس کو زخمی کیا تھا، وہ بولا: اللہ کے رسول! آپ اس نیل گائے کو لے لیجئے تو آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اسے لوگوں میں بانٹ دیں۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن وهب، قال: حدثنا محمد بن سلمة، قال: حدثني ابو عبد الرحيم، قال: حدثني زيد بن ابي انيسة، عن ابي حازم، عن ابن ابي قتادة، عن ابيه ابي قتادة، قال: اصاب حمارا وحشيا، فاتى به اصحابه , وهم محرمون وهو حلال فاكلنا منه، فقال بعضهم لبعض لو سالنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عنه، فسالناه؟، فقال:" قد احسنتم"، فقال لنا:" هل معكم منه شيء"؟، قلنا: نعم، قال:" فاهدوا لنا"، فاتيناه منه فاكل منه وهو محرم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: أَصَابَ حِمَارًا وَحْشِيًّا، فَأَتَى بِهِ أَصْحَابَهُ , وَهُمْ مُحْرِمُونَ وَهُوَ حَلالٌ فَأَكَلْنَا مِنْهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ لَوْ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، فَسَأَلْنَاهُ؟، فَقَالَ:" قَدْ أَحْسَنْتُمْ"، فَقَالَ لَنَا:" هَلْ مَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ"؟، قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ:" فَاهْدُوا لَنَا"، فَأَتَيْنَاهُ مِنْهُ فَأَكَلَ مِنْهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ.
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک نیل گائے شکار کیا اور اسے اپنے ساتھیوں کے پاس لے کر آئے، وہ لوگ احرام باندھے ہوئے تھے اور میں حلال (یعنی احرام سے باہر) تھا تو ہم نے اس میں سے کھایا، پھر ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے کہا: ہم اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے تو بہتر ہوتا، چنانچہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ”تم نے ٹھیک کیا“، پھر فرمایا: ”کیا تم لوگوں کے پاس اس میں سے کچھ ہے؟“ ہم نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”ہمیں بھی دو“، تو ہم اس میں سے کچھ گوشت آپ کے پاس لے آئے، آپ نے اس میں سے کھایا حالانکہ آپ احرام باندھے ہوئے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا ايوب، عن ابي قلابة، عن زهدم، ان ابا موسى اتي بدجاجة، فتنحى رجل من القوم، فقال: ما شانك؟، قال: إني رايتها تاكل شيئا قذرته، فحلفت ان لا آكله، فقال ابو موسى: ادن فكل، فإني" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ياكله"، وامره ان يكفر عن يمينه. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ زَهْدَمٍ، أَنَّ أَبَا مُوسَى أُتِيَ بِدَجَاجَةٍ، فَتَنَحَّى رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ؟، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهَا تَأْكُلُ شَيْئًا قَذِرْتُهُ، فَحَلَفْتُ أَنْ لَا آكُلَهُ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: ادْنُ فَكُلْ، فَإِنِّي" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُهُ"، وَأَمَرَهُ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْ يَمِينِهِ.
زہدم سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مرغی لائی گئی تو لوگوں میں سے ایک شخص وہاں سے ہٹ گیا، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ وہ بولا: میں نے اسے دیکھا کہ وہ کوئی چیز کھا رہی تھی تو میں نے اس کو گندہ سمجھا اور قسم کھا لی کہ میں اسے نہیں کھاؤں گا، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: قریب آؤ اور کھاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے کھاتے دیکھا ہے، اور اسے حکم دیا کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا إسماعيل، عن ايوب، عن القاسم التميمي، عن زهدم الجرمي، قال: كنا عند ابي موسى، فقدم طعامه، وقدم في طعامه لحم دجاج، وفي القوم رجل من بني تيم الله احمر كانه مولى فلم يدن، فقال له ابو موسى: ادن , فإني قد" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ياكل منه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ الْقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ، عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِيِّ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى، فَقُدِّمَ طَعَامُهُ، وَقُدِّمَ فِي طَعَامِهِ لَحْمُ دَجَاجٍ، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ كَأَنَّهُ مَوْلًى فَلَمْ يَدْنُ، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: ادْنُ , فَإِنِّي قَدْ" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْهُ".
زہدم جرمی کہتے ہیں کہ ہم ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، اتنے میں انہیں ان کا کھانا پیش کیا گیا اور ان کے کھانے میں مرغی کا گوشت پیش کیا گیا، لوگوں میں بنی تیم کا ایک سرخ آدمی تھا جیسے وہ غلام ہو ۱؎، وہ کھانے کے قریب نہیں آیا، اس سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: قریب آؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے کھاتے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3810 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس لیے کہ عام طور پر غلام عجمی ہوتے ہیں جو رومی یا ایرانی اور ترکی ہوتے تھے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن پنجے والے تمام پرندوں کو کھانے سے اور دانت (سے پھاڑنے) والے تمام درندوں کو کھانے سے روکا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأطعمة 33 (3803)، سنن ابن ماجہ/الصید 13 (3805)، (تحفة الأشراف: 5639)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصید 3 (1934)، مسند احمد (1/ 339) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور چونکہ مرغی ان میں سے نہیں ہے اس لیے حلال ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن يزيد المقرئ، قال، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن صهيب مولى ابن عامر، عن عبد الله بن عمرو، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" ما من إنسان قتل عصفورا فما فوقها بغير حقها، إلا ساله الله عز وجل عنها"، قيل: يا رسول الله وما حقها؟، قال:" يذبحها فياكلها، ولا يقطع راسها يرمي بها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، قَالَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ صُهَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا مِنْ إِنْسَانٍ قَتَلَ عُصْفُورًا فَمَا فَوْقَهَا بِغَيْرِ حَقِّهَا، إِلَّا سَأَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهَا"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا حَقُّهَا؟، قَالَ:" يَذْبَحُهَا فَيَأْكُلُهَا، وَلَا يَقْطَعُ رَأْسَهَا يَرْمِي بِهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی انسان کسی گوریا، یا اس سے بھی زیادہ چھوٹی چڑیا کو ناحق قتل کرے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اس کے متعلق سوال کرے گا“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ اسے ذبح کرے اور کھائے اور اس کا سر کاٹ کر نہ پھینکے“۱؎۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے پانی کے سلسلے میں فرمایا: ”اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 59 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سمندر کا مردار حلال ہے اس سے مراد سمندر کے وہ حلال جانور ہیں جو کسی صدمہ سے مر گئے اور سمندر نے ان کو ساحل کی طرف بہا دیا ہو اسی کو قرآن میں: «أحل لكم صيد البحر وطعامه»(المائدة: 96) میں طَعام سے مراد لیا گیا ہے، یاد رہے سمندری جانور وہ کہلاتا ہے جو خشکی میں زندگی نہ گزار سکے جیسے مچھلی۔ مچھلی کی تمام اقسام حلال ہیں، دیگر جانور اگر مضر اور خبیث ہیں یا ان کے بارے میں نص شرعی وارد ہے تو حرام ہیں اگر کسی جانور کا نص شرعی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کھانا ثابت نہیں ہے، جبکہ وہ جانور ان کے زمانہ میں موجود تھا تو اس کے نہ کھانے کے بارے میں ان کی اقتداء ضروری ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن آدم، قال: حدثنا عبدة، عن هشام، عن وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله، قال: بعثنا النبي صلى الله عليه وسلم ونحن ثلاث مائة نحمل زادنا على رقابنا، ففني زادنا حتى كان يكون للرجل منا كل يوم تمرة، فقيل له: يا ابا عبد الله، واين تقع التمرة من الرجل؟، قال:" لقد وجدنا فقدها حين فقدناها، فاتينا البحر، فإذا بحوت قذفه البحر فاكلنا منه ثمانية عشر يوما". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَعَثَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ نَحْمِلُ زَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا، فَفَنِيَ زَادُنَا حَتَّى كَانَ يَكُونُ لِلرَّجُلِ مِنَّا كُلَّ يَوْمٍ تَمْرَةٌ، فَقِيلَ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، وَأَيْنَ تَقَعُ التَّمْرَةُ مِنَ الرَّجُلِ؟، قَالَ:" لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا، فَأَتَيْنَا الْبَحْرَ، فَإِذَا بِحُوتٍ قَذَفَهُ الْبَحْرُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (سریہ فوجی ٹولی میں) بھیجا، ہم تین سو تھے، ہم اپنا زاد سفر اپنی گردنوں پر لیے ہوئے تھے، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا، یہاں تک کہ ہم میں سے ہر شخص کے حصے میں روزانہ ایک کھجور آتی تھی، عرض کیا گیا: ابوعبداللہ! اتنی سی کھجور آدمی کا کیا بھلا کرے گی؟ انہوں نے کہا: ہمیں اس کا فائدہ تب معلوم ہوا جب ہم نے اسے بھی ختم کر دیا، پھر ہم سمندر پر گئے، دیکھا کہ ایک مچھلی ہے جسے سمندر نے باہر پھینک دیا ہے، تو ہم نے اسے اٹھارہ دن تک کھایا۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، عن سفيان، عن عمرو، قال: سمعت جابرا، يقول: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مائة راكب، اميرنا ابو عبيدة بن الجراح، نرصد عير قريش، فاقمنا بالساحل , فاصابنا جوع شديد حتى اكلنا الخبط، قال: فالقى البحر دابة يقال لها: العنبر، فاكلنا منه نصف شهر، وادهنا من ودكه فثابت اجسامنا، واخذ ابو عبيدة ضلعا من اضلاعه، فنظر إلى اطول جمل، واطول رجل في الجيش فمر تحته، ثم جاعوا فنحر رجل ثلاث جزائر، ثم جاعوا فنحر رجل ثلاث جزائر، ثم جاعوا فنحر رجل ثلاث جزائر، ثم نهاه ابو عبيدة، قال سفيان: قال ابو الزبير، عن جابر، فسالنا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" هل معكم منه شيء"؟، قال: فاخرجنا من عينيه كذا وكذا، قلة من ودك، ونزل في حجاج عينه اربعة نفر، وكان مع ابي عبيدة جراب فيه تمر فكان يعطينا القبضة، ثم صار إلى التمرة، فلما فقدناها وجدنا فقدها. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِائَةِ رَاكِبٍ، أَمِيرُنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، نَرْصُدُ عِيرَ قُرَيْشٍ، فَأَقَمْنَا بِالسَّاحِلِ , فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ حَتَّى أَكَلْنَا الْخَبَطَ، قَالَ: فَأَلْقَى الْبَحْرُ دَابَّةً يُقَالُ لَهَا: الْعَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ نِصْفَ شَهْرٍ، وَادَّهَنَّا مِنْ وَدَكِهِ فَثَابَتْ أَجْسَامُنَا، وَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلْعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ، فَنَظَرَ إِلَى أَطْوَلِ جَمَلٍ، وَأَطْوَلِ رَجُلٍ فِي الْجَيْشِ فَمَرَّ تَحْتَهُ، ثُمَّ جَاعُوا فَنَحَرَ رَجُلٌ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ جَاعُوا فَنَحَرَ رَجُلٌ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ جَاعُوا فَنَحَرَ رَجُلٌ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ نَهَاهُ أَبُو عُبَيْدَةَ، قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، فَسَأَلْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هَلْ مَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ"؟، قَالَ: فَأَخْرَجْنَا مِنْ عَيْنَيْهِ كَذَا وَكَذَا، قُلَّةً مِنْ وَدَكٍ، وَنَزَلَ فِي حَجَّاجِ عَيْنِهِ أَرْبَعَةُ نَفَرٍ، وَكَانَ مَعَ أَبِي عُبَيْدَةَ جِرَابٌ فِيهِ تَمْرٌ فَكَانَ يُعْطِينَا الْقَبْضَةَ، ثُمَّ صَارَ إِلَى التَّمْرَةِ، فَلَمَّا فَقَدْنَاهَا وَجَدْنَا فَقْدَهَا.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا۔ ہمارے امیر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے، ہم قریش کی گھات میں تھے، چنانچہ ہم سمندر کے کنارے ٹھہرے، ہمیں سخت بھوک لگی یہاں تک کہ ہم نے درخت کے پتے کھائے، اتنے میں سمندر نے ایک جانور نکال پھینکا جسے عنبر کہا جاتا ہے، ہم نے اسے آدھے مہینہ تک کھایا اور اس کی چربی کو تیل کے طور پر استعمال کیا، تو ہمارے بدن صحیح ثابت ہو گئے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک پسلی لی پھر فوج میں سے سب سے لمبے شخص کو اونٹ پر بٹھایا، وہ اس کے نیچے سے گزر گیا، پھر ان لوگوں کو بھوک لگی، تو ایک شخص نے تین اونٹ ذبح کئے، پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اسے روک دیا، (سفیان کہتے ہیں: ابوالزبیر جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں)، پھر ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا اس کا کچھ بقیہ تمہارے پاس ہے؟“ پھر ہم نے اس کی آنکھوں کی چربی کا اتنا اتنا گھڑا (بھرا ہوا) نکالا اور اس کی آنکھ کے حلقے میں سے چار لوگ نکل گئے، ابوعبیدہ کے ساتھ ایک تھیلا تھا، جس میں کھجوریں تھیں وہ ہمیں ایک مٹھی کھجور دیتے تھے پھر ایک ایک کھجور ملنے لگی، جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کے نہ ملنے کا احساس ہوا ۱؎۔