English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

سنن ترمذي سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

سنن ترمذی میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (3956)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
1. باب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ فِي الْخَوْضِ فِي الْقَدَرِ
باب: تقدیر کے مسئلہ میں بحث و تکرار بڑی بری بات ہے۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2133
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدَرِ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، حَتَّى كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وَجْنَتَيْهِ الرُّمَّانُ، فَقَالَ: " أَبِهَذَا أُمِرْتُمْ، أَمْ بِهَذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ، إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حِينَ تَنَازَعُوا فِي هَذَا الْأَمْرِ عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ أَلَّا تَتَنَازَعُوا فِيهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ صَالِحٍ الْمُرِّيِّ، وَصَالِحٌ الْمُرِّيُّ لَهُ غَرَائِبُ يَنْفَرِدُ بِهَا لَا يُتَابَعُ عَلَيْهَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے، آپ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایسا نظر آنے لگا گویا آپ کے گالوں پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا میں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں؟ بیشک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کیا، میں تمہیں قسم دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ نہ کرو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱ - یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے اس سند سے صرف صالح مری کی روایت سے جانتے ہیں اور صالح مری کے بہت سارے غرائب ہیں جن کی روایت میں وہ منفرد ہیں، کوئی ان کی متابعت نہیں کرتا۔
۳- اس باب میں عمر، عائشہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2133]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14530) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کا ظہور اللہ کے قضاء و قدر اور اس کے ارادے و مشیئت پر ہے، اور اس کا علم اللہ کو پوری طرح ہے، لیکن ان امور کا صدور خود بندے کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اچھے اعمال کو پسند کرتا ہے، اور برے اعمال کو ناپسند کرتا ہے، اور اسی اختیار کی بنیاد پر جزا و سزا دیتا ہے، تقدیر کے مسئلہ میں عقل سے غور و خوض اور بحث و مباحثہ جائز نہیں، کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا گمراہی کا خطرہ ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (98 و 99)
قال الشيخ زبير على زئي:(2133) إسناده ضعيف
صالح المري : ضعيف (تق: 2845) وللحديث شواھد ضعيفة، انظر تنقيح الرواة (26/1)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
2. باب مَا جَاءَ فِي حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ
باب: تقدیر کے مسئلہ میں آدم اور موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مناظرہ کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2134
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى: يَا آدَمُ، أَنْتَ الَّذِي خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ أَغْوَيْتَ النَّاسَ وَأَخْرَجْتَهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ: فَقَالَ آدَمُ: وَأَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلَامِهِ أَتَلُومُنِي عَلَى عَمَلٍ عَمِلْتُهُ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، قَالَ: فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عُمَرَ، وَجُنْدَبٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم اور موسیٰ نے باہم مناظرہ کیا، موسیٰ نے کہا: آدم! آپ وہی تو ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ کے اندر اپنی روح پھونکی ۱؎ پھر آپ نے لوگوں کو گمراہ کیا اور ان کو جنت سے نکالا؟ آدم نے اس کے جواب میں کہا: آپ وہی موسیٰ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے گفتگو کرنے کے لیے منتخب کیا، کیا آپ میرے ایسے کام پر مجھے ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے پہلے میرے اوپر لازم کر دیا تھا؟، آدم موسیٰ سے دلیل میں جیت گئے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- حسن صحیح غریب ہے،
۲- یہ حدیث اس سند سے یعنی سلیمان تیمی کی روایت سے جسے وہ اعمش سے روایت کرتے ہیں،
۳- اعمش کے بعض شاگردوں نے «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ اور بعض نے اس کی سند یوں بیان کی ہے «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم»،
۴- کئی اور سندوں سے یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے،
۵- اس باب میں عمر اور جندب رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2134]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/احادیث الأنبیاء 31 (3409)، وتفسیر طہ 1 (4736)، و 2 (4738)، والقدر 11 (6641)، والتوحید 37 (7515)، صحیح مسلم/القدر 2 (2652)، سنن ابی داود/ السنة 17 (4701)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 10 (80) (تحفة الأشراف: 12389)، و موطا امام مالک/القدر 1 (1)، و مسند احمد (2/248، 268، 398) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ روح جو اللہ کی پیدا کردہ ہے، اور جس کا ہر ذی روح حاجت مند ہے۔
۲؎: صحیح مسلم میں اس کی تصریح ہے کہ آدم اور موسیٰ کا یہ مباحثہ اللہ رب العالمین کے سامنے ہوا۔ «واللہ اعلم»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (80)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
3. باب مَا جَاءَ فِي الشَّقَاءِ وَالسَّعَادَةِ
باب: اچھی اور بری تقدیر (قسمت) کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2135
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَال: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ فِيهِ أَمْرٌ مُبْتَدَعٌ أَوْ مُبْتَدَأٌ أَوْ فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ، فَقَالَ: " فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، وَكُلٌّ مُيَسَّرٌ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاءِ فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ، وَأَنَسٍ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو عمل ہم کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، وہ نیا شروع ہونے والا امر ہے یا ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ابن خطاب! وہ ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے، اور ہر آدمی کے لیے وہ امر آسان کر دیا گیا ہے (جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے)، چنانچہ جو آدمی سعادت مندوں میں سے ہے وہ سعادت والا کام کرتا ہے اور جو بدبختوں میں سے ہے وہ بدبختی والا کام کرتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، حذیفہ بن اسید، انس اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2135]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6764) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جو عمل ہم کرتے ہیں کیا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم میں آتا ہے؟ یا وہ پہلے سے لکھا ہوا ہے اور اللہ کے علم میں ہے؟۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ظلال الجنة (161 - 167)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2136
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَنْكُتُ فِي الْأَرْضِ إِذْ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، ثُمَّ قَالَ: " مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا قَدْ عُلِمَ، وَقَالَ وَكِيعٌ: إِلَّا قَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ " قَالُوا: أَفَلَا نَتَّكِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " لَا، اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ زمین کرید رہے تھے کہ اچانک آپ نے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھایا پھر فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کا حال معلوم نہ ہو، (وکیع کی روایت میں ہے: تم میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں جس کی جنت یا جہنم کی جگہ نہ لکھ دی گئی ہو)، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم لوگ (تقدیر کے لکھے ہوئے پر) بھروسہ نہ کر لیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، تم لوگ عمل کرو اس لیے کہ ہر آدمی کے لیے وہ چیز آسان کر دی گئی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2136]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجنائز 82 (1362)، وتفسیر سورة واللیل إذا یغشی 3 (4945)، والأدب 120 (6217)، والقدر 4 (6605)، والتوحید 54 (7552)، صحیح مسلم/القدر 1 (2647)، سنن ابی داود/ السنة 17 (4694)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 10 (78)، ویأتي عند المؤلف برقم 3344) (تحفة الأشراف: 10167)، و مسند احمد (1/132) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (78)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
4. باب مَا جَاءَ أَنَّ الأَعْمَالَ بِالْخَوَاتِيمِ
باب: خاتمہ والے اعمال معتبر ہونے کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2137
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ: " إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِ الْمَلَكَ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ، وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعٍ يَكْتُبُ: رِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَعَمَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، فَوَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، ثُمَّ يَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، ثُمَّ يَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وسَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ، قَال: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ بِعَيْنِي مِثْلَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے صادق و مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ۱؎، تم میں سے ہر آدمی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن تک «علقة» (یعنی جمے ہوئے خون) کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن تک «مضغة» (یعنی گوشت کے لوتھڑے) کی شکل میں رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کے اندر روح پھونکتا ہے، پھر اسے چار چیزوں (کے لکھنے) کا حکم کیا جاتا ہے، چنانچہ وہ لکھتا ہے: اس کا رزق، اس کی موت، اس کا عمل اور یہ چیز کہ وہ «شقي» (بدبخت) ہے یا «سعيد» (نیک بخت)، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تم میں سے کوئی آدمی جنتیوں کا عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس کے اوپر لکھی ہوئی تقدیر غالب آتی ہے اور جہنمیوں کے عمل پر اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے، اور تم میں سے کوئی آدمی جہنمیوں کا عمل کرتا رہتا ہے پھر اس کے اوپر لکھی ہوئی تقدیر غالب آتی ہے اور جنتیوں کے عمل پر اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے، لہٰذا وہ جنت میں داخل ہوتا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2137]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (3208)، وأحادیث الأنبیاء 1 (3393)، صحیح مسلم/القدر 1 (2643)، سنن ابی داود/ السنة 17 (4708)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 10 (76) (تحفة الأشراف: 9228)، و مسند احمد (1/382، 414) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی سچے ہیں اور سچی بات آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (76)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2137M
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدٍ نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے، شعبہ اور ثوری نے بھی اعمش سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،
۳- اس باب میں ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2137M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (76)

5. باب مَا جَاءَ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ
باب: ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2138
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رَبِيعَةَ الْبُنَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْمِلَّةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُشَرِّكَانِهِ "، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَنْ هَلَكَ قَبْلَ ذَلِكَ؟ قَالَ: " اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ بِهِ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ۱؎، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی، یا مشرک بناتے ہیں عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! جو اس سے پہلے ہی مر جائے؟ ۲؎ آپ نے فرمایا: اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2138]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجنائز 92 (1383)، والقدر 3 (6592)، صحیح مسلم/القدر 6 (2658)، سنن ابی داود/ السنة 18 (4714) (تحفة الأشراف: 12476)، و موطا امام مالک/الجنائز 16 (52)، و مسند احمد (2/244، 253، 259، 268، 315، 347، 393، 471، 488، 518) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: فطرت اسلام پر پیدا ہونے کی علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ چونکہ «ألست بربكم» کا عہد جس وقت اللہ رب العالمین اپنی مخلوق سے لے رہا تھا تو اس وقت سب نے اس عہد اور اس کی وحدانیت کا اقرار کیا تھا، اس لیے ہر بچہ اپنے اسی اقرار پر پیدا ہوتا ہے، یہ اور بات ہے کہ بعد میں وہ ماں باپ کی تربیت یا لوگوں کے بہکاوے میں آ کر یہودی، نصرانی اور مشرک بن جاتا ہے۔
۲؎: یعنی بچپن ہی میں جس کا انتقال ہو جائے، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1220)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2138M
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، وَقَالَ: " يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَغَيْرُهُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ " بِمَعْنَاهُ، وَفِي الْبَابِ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، (لیکن) اس میں «يولد على الملة» کی بجائے «الفطرة» فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے کے الفاظ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے شعبہ اور دوسرے لوگوں نے بھی «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، اس روایت میں بھی «يولد على الفطرة» کے الفاظ ہیں،
۳- اس باب میں اسود بن سریع رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2138M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1220)

6. باب مَا جَاءَ لاَ يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلاَّ الدُّعَاءُ
باب: صرف دعا ہی تقدیر ٹال سکتی ہے۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2139
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، وَسَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الضُّرَيْسِ، عَنْ أَبِي مَوْدُودٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَلَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي أَسِيدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ سَلْمَانَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ الضُّرَيْسِ، وَأَبُو مَوْدُودٍ اثْنَانِ: أَحَدُهُمَا يُقَالُ لَهُ فِضَّةٌ، وَهُوَ الَّذِي رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ اسْمُهُ فِضَّةٌ بَصْرِيٌّ، وَالْآخَرُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، أَحَدُهُمَا بَصْرِيٌّ، وَالْآخَرُ مَدَنِيٌّ، وَكَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ.
سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی ہے ۱؎ اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث سلمان کی روایت سے حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں ابواسید سے بھی روایت ہے،
۳- ہم اسے صرف یحییٰ بن ضریس کی روایت سے جانتے ہیں،
۴- ابومودود دو راویوں کی کنیت ہے، ایک کو فضہ کہا جاتا ہے، اور یہ وہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے، ان کا نام فضہ ہے اور دوسرے ابومودود کا نام عبدالعزیز بن ابوسلیمان ہے، ان میں سے ایک بصرہ کے رہنے والے ہیں اور دوسرے مدینہ کے، دونوں ایک ہی دور میں تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2139]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ مؤالف (تحفة الأشراف: 4502) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: «قضاء» سے مراد امر مقدر ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے: مفہوم یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے ٹالنے میں دعا بےحد موثر ہے، یہاں تک کہ اگر قضاء کا کسی چیز سے لوٹ جانا ممکن ہوتا تو وہ دعا ہوتی، جب کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے: مراد یہ ہے کہ دعا سے قضاء کا سہل و آسان ہو جانا ہے گویا دعا کرنے والے کو یہ احساس ہو گا کہ قضاء نازل ہی نہیں ہوئی، اس کی تائید ترمذی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں دعا جو کچھ قضاء نازل ہو چکی ہے اس کے لیے اور جو نازل نہیں ہوئی ہے اس کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہوتی ہے۔
۲؎: عمر میں اضافہ اگر حقیقت کے اعتبار سے ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اضافہ اس فرشتہ کے علم کے مطابق ہے جو انسان کے عمر پر مقرر ہے، نہ کہ اللہ کے علم کی طرف نسبت کے اعتبار سے ہے، مثلاً لوح محفوظ میں اگر یہ درج ہے کہ فلاں کی عمر اس کے حج اور عمرہ کرنے کی صورت میں ساٹھ سال کی ہو گی اور حج و عمرہ نہ کرنے کی صورت میں چالیس سال کی ہو گی تو یہ اللہ کے علم میں ہے کہ وہ حج و عمرہ کرے گا یا نہیں، اور علم الٰہی میں رد و بدل اور تغیر نہیں ہو سکتا جب کہ فرشتے کے علم میں جو ہے اس میں تبدیلی کا امکان ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (154)
قال الشيخ زبير على زئي:(2139) إسناده ضعيف
سيلمان التيمي عنعن (تقدم: 2035) وفي السند علة أخري وللحديث شاھد ضعيف عند ابن ماجه (90 ،4022)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
7. باب مَا جَاءَ أَنَّ الْقُلُوبَ بَيْنَ أَصْبُعَىِ الرَّحْمَنِ
باب: لوگوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2140
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ: " يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ "، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، آمَنَّا بِكَ وَبِمَا جِئْتَ بِهِ فَهَلْ تَخَافُ عَلَيْنَا؟ قَالَ: " نَعَمْ، إِنَّ الْقُلُوبَ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّهِ يُقَلِّبُهَا كَيْفَ يَشَاءُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَائِشَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَنَسٍ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَنَسٍ أَصَحُّ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا پڑھتے تھے «يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك» اے دلوں کے الٹنے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لے آئے کیا آپ کو ہمارے سلسلے میں اندیشہ رہتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، لوگوں کے دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں جیسا چاہتا ہے انہیں الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- کئی لوگوں نے اسی طرح «عن الأعمش عن أبي سفيان عن أنس» کی سند سے روایت کی ہے۔ بعض لوگوں نے «عن الأعمش عن أبي سفيان عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، لیکن ابوسفیان کی حدیث جو انس سے مروی ہے زیادہ صحیح ہے،
۳- اس باب میں نواس بن سمعان، ام سلمہ، عبداللہ بن عمرو اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2140]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الدعاء 2 (3834) (تحفة الأشراف: 924) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3834)
قال الشيخ زبير على زئي:(2140) إسناده ضعيف
الأعمش عنعن (تقدم: 169) وانظر ضعيف سنن ابن ماجه (3834) والحديث صحيح بالشواھد دون قوله : ”فھل تخاف علينا“

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں