الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: عورتوں کے ساتھ معاشرت (یعنی مل جل کر زندگی گزارنے) کے احکام و مسائل
The Book of the Kind Treatment of Women
حدیث نمبر: 3411
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرني إبراهيم بن يونس بن محمد حرمي هو لقبه، قال: حدثنا ابي، قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس:" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كانت له امة يطؤها , فلم تزل به عائشة , وحفصة حتى حرمها على نفسه , فانزل الله عز وجل: يايها النبي لم تحرم ما احل الله لك سورة التحريم آية 1 إلى آخر الآية".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ حَرَمِيٌّ هُوَ لَقَبُهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ:" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ يَطَؤُهَا , فَلَمْ تَزَلْ بِهِ عَائِشَةُ , وَحَفْصَةُ حَتَّى حَرَّمَهَا عَلَى نَفْسِهِ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ سورة التحريم آية 1 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لونڈی تھی، آپ اس سے مجامعت فرماتے تھے۔ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا ایک دن آپ کے پاس بیٹھی رہیں یہاں تک کہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کر لی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت: «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل اللہ لك» إِلَى آخِرِ الآيَةِ اے نبی! آپ اس چیز کو اپنے لیے کیوں حرام قرار دے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال رکھا ہے۔ (التحریم: ۱) مکمل آیت نازل فرمائی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 382) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: اس سے پہلے والی حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہے کہ آپ نے اپنے اوپر شہد کو حرام کر لیا تھا۔ اس سلسلہ میں حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے یہ دونوں واقعے آیت کے نزول کا سبب بنے ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حدیث نمبر: 3412
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن يحيى هو ابن سعيد الانصاري، عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت، ان عائشة، قالت: التمست رسول الله صلى الله عليه وسلم، فادخلت يدي في شعره، فقال:" قد جاءك شيطانك". فقلت: اما لك شيطان؟ فقال:" بلى، ولكن الله اعانني عليه , فاسلم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: الْتَمَسْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَدْخَلْتُ يَدِي فِي شَعْرِهِ، فَقَالَ:" قَدْ جَاءَكِ شَيْطَانُكِ". فَقُلْتُ: أَمَا لَكَ شَيْطَانٌ؟ فَقَالَ:" بَلَى، وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ , فَأَسْلَمَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفتیش کر رہی تھی چنانچہ میں نے اپنا ہاتھ آپ کے بالوں میں داخل کیا تو آپ نے فرمایا: تمہارے پاس تمہارا شیطان آ گیا ہے۔ میں نے عرض کیا: کیا آپ کا شیطان نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، اللہ کی قسم، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے محفوظ رکھا ہے لہٰذا میں اس سے محفوظ رہتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 16184) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حدیث نمبر: 3413
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني إبراهيم بن الحسن المقسمي، عن حجاج، عن ابن جريج، عن عطاء، اخبرني ابن ابي مليكة، عن عائشة، قالت: فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فظننت انه ذهب إلى بعض نسائه، فتجسسته، فإذا هو راكع , او ساجد يقول:" سبحانك , وبحمدك لا إله إلا انت". فقلت: بابي , وامي إنك لفي شان، وإني لفي شان آخر.
(مرفوع) أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِقْسَمِيُّ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ، فَتَجَسَّسْتُهُ، فَإِذَا هُوَ رَاكِعٌ , أَوْ سَاجِدٌ يَقُولُ:" سُبْحَانَكَ , وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ". فَقُلْتُ: بِأَبِي , وَأُمِّي إِنَّكَ لَفِي شَأْنٍ، وَإِنِّي لَفِي شَأْنٍ آخَرَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب پایا، مجھے گمان ہوا کہ آپ کسی بیوی کے پاس گئے ہوں گے۔ میں آپ کو تلاش کرنے لگی، دیکھا کہ آپ رکوع یا سجدہ میں ہیں اور کہہ رہے ہیں: «سبحانك و بحمدك لا إله إلا أنت» پاک ہے تیری ذات، تیری ہی تعریف ہے اور تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کچھ کر رہے ہیں اور میں کچھ اور ہی گمان کر رہی تھی۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1132 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3414
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن منصور، قال: حدثنا عبد الرزاق، قال: انبانا ابن جريج، قال: اخبرني ابن ابي مليكة، ان عائشة , قالت: افتقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة , فظننت انه ذهب إلى بعض نسائه , فتجسست، ثم رجعت، فإذا هو راكع , او ساجد يقول:" سبحانك , وبحمدك لا إله إلا انت". فقلت: بابي وامي , إنك لفي شان، وإني لفي آخر.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ , قَالَتْ: افْتَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ , فَظَنَنْتُ أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ , فَتَجَسَّسْتُ، ثُمَّ رَجَعْتُ، فَإِذَا هُوَ رَاكِعٌ , أَوْ سَاجِدٌ يَقُولُ:" سُبْحَانَكَ , وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ". فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي , إِنَّكَ لَفِي شَأْنٍ، وَإِنِّي لَفِي آخَرَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب پایا، مجھے گمان ہوا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے پاس گئے ہوں گے، میں آپ کو تلاش کرنے لگی پھر میں لوٹی تو دیکھا کہ آپ رکوع یا سجدے میں ہیں، آپ کہہ رہے ہیں: «سبحانك و بحمدك لا إله إلا أنت» میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کچھ کر رہے ہیں اور میں کچھ اور ہی گمان کر رہی تھی۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 169، 1131، 1132 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3415
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا سليمان بن داود، قال: انبانا ابن وهب، قال: اخبرني ابن جريج، عن عبد الله بن كثير، انه سمع محمد بن قيس، يقول: سمعت عائشة، تقول: الا احدثكم عن النبي صلى الله عليه وسلم وعني؟ قلنا: بلى، قالت: لما كانت ليلتي انقلب فوضع نعليه عند رجليه، ووضع رداءه وبسط إزاره على فراشه، ولم يلبث إلا ريثما ظن اني قد رقدت، ثم انتعل رويدا واخذ رداءه رويدا، ثم فتح الباب رويدا وخرج واجافه رويدا، وجعلت درعي في راسي , فاختمرت وتقنعت إزاري , وانطلقت في إثره حتى جاء البقيع، فرفع يديه ثلاث مرات , واطال القيام، ثم انحرف وانحرفت، فاسرع فاسرعت، فهرول فهرولت، فاحضر فاحضرت، وسبقته فدخلت وليس إلا ان اضطجعت فدخل، فقال:" ما لك يا عائش رابية؟ قال سليمان: حسبته قال: حشيا، قال:" لتخبرني , او ليخبرني اللطيف الخبير". قلت: يا رسول الله , بابي انت وامي , فاخبرته الخبر. قال:" انت السواد الذي رايت امامي". قلت: نعم. قالت: فلهدني لهدة في صدري اوجعتني، قال:" اظننت ان يحيف الله عليك ورسوله". قالت: مهما يكتم الناس فقد علمه الله عز وجل. قال:" نعم"، قال:" فإن جبريل عليه السلام اتاني حين رايت , ولم يكن يدخل عليك وقد وضعت ثيابك , فناداني فاخفى منك فاجبته واخفيته منك، وظننت انك قد رقدت , فكرهت ان اوقظك وخشيت ان تستوحشي، فامرني ان آتي اهل البقيع فاستغفر لهم". خالفه حجاج بن محمد، فقال: عن ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، عن محمد بن قيس.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي؟ قُلْنَا: بَلَى، قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، وَوَضَعَ رِدَاءَهُ وَبَسَطَ إِزَارَهُ عَلَى فِرَاشِهِ، وَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ، ثُمَّ انْتَعَلَ رُوَيْدًا وَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا، ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْدًا وَخَرَجَ وَأَجَافَهُ رُوَيْدًا، وَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي , فَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي , وَانْطَلَقْتُ فِي إِثْرِهِ حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , وَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ انْحَرَفَ وَانْحَرَفْتُ، فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ، فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ، وَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ وَلَيْسَ إِلَّا أَنِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ، فَقَالَ:" مَا لَكِ يَا عَائِشُ رَابِيَةً؟ قَالَ سُلَيْمَانُ: حَسِبْتُهُ قَالَ: حَشْيَا، قَالَ:" لَتُخْبِرِنِّي , أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ". قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي , فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ. قَالَ:" أَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي". قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَتْ: فَلَهَدَنِي لَهْدَةً فِي صَدْرِي أَوْجَعَتْنِي، قَالَ:" أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ". قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ:" فَإِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ , وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ , فَنَادَانِي فَأَخْفَى مِنْكِ فَأَجَبْتُهُ وَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، وَظَنَنْتُ أَنَّكِ قَدْ رَقَدْتِ , فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي، فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَأَسْتَغْفِرَ لَهُمْ". خَالَفَهُ حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، فَقَالَ: عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ.
محمد بن قیس سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا کہ کیا میں تم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اپنا ایک واقعہ نہ بیان کروں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ وہ بولیں: جس رات میری باری تھی، آپ عشاء سے لوٹے اور جوتے اپنے پیروں کے پاس رکھ لیے، اپنی چادر رکھی اور بستر پر اپنا تہبند بچھایا، ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی، جب آپ کو اندازہ ہوا کہ میں سو چکی ہوں، تو آپ نے آہستہ سے جوتے پہنے اور آہستہ سے چادر لی پھر دھیرے سے دروازہ کھولا اور باہر نکل کر دھیرے سے بند کر دیا۔ میں نے بھی اوڑھنی اپنے سر پر ڈالی، چادر اوڑھی اور پھر تہبند پہن کر آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، تو آپ نے اپنے ہاتھ تین بار اٹھائے، قیام کو طویل کیا پھر پلٹے تو میں بھی پلٹی، اور تیزی سے چلے، میں بھی تیزی سے چلی، پھر آپ نے رفتار کچھ اور تیز کر دی تو میں نے بھی تیز کر دی پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، میں آپ سے آگے نکل گئی اور اندر داخل ہو گئی اور اب میں لیٹی ہی تھی کہ آپ اندر آ گئے اور فرمایا: کیا بات ہے عائشہ! سانس کیوں پھولی ہے؟ (سلیمان بن داود نے کہا: میرا خیال ہے کہ میرے شیخ نے یوں فرمایا: «حشیا»، یعنی) تمہاری سانسیں کیوں پھول رہی ہیں؟ آپ نے فرمایا: بتاؤ ورنہ مجھے لطیف و خبیر یعنی اللہ بتا دے گا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، پھر انہوں نے آپ کو پورا واقعہ بتایا، آپ نے فرمایا: تو تمہارا ہی سایہ تھا جو میں نے اپنے آگے دیکھا؟ میں نے کہا: ہاں، پھر آپ نے میرے سینے پر ایک ایسی تھپکی ماری کہ مجھے تکلیف ہوئی اور فرمایا: کیا تم سمجھتی ہو کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کوئی بات چاہے لوگوں سے کتنی ہی مخفی رہے، لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے بخوبی جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، پھر فرمایا: جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے جب تم نے مجھے دیکھا، لیکن وہ اندر تمہارے سامنے نہیں آ سکتے تھے کہ تم اپنے کپڑے اتار چکی تھیں، انہوں نے مجھے پکارا اور تم سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا اور میں نے اسے تم سے چھپایا (یعنی دھیرے سے کہا) اور میں سمجھا کہ تم سو چکی ہو، تو میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ تمہیں جگاؤں۔ اور مجھے ڈر تھا کہ تم تنہائی میں وحشت نہ کھاؤ، تو انہوں (جبرائیل) نے مجھے حکم دیا کہ میں اہل بقیع کے پاس جاؤں اور ان کے لیے استغفار کروں۔ حجاج بن محمد نے سند اس کے برعکس یوں بیان کی «عن ابن جریج، عن ابن ابی ملیکۃ، عن محمد بن قیس» ۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2039 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3416
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن سعيد بن مسلم المصيصي، قال: حدثنا حجاج، عن ابن جريج، اخبرني عبد الله ابن ابي مليكة، انه سمع محمد بن قيس بن مخرمة، يقول: سمعت عائشة تحدث، قالت: الا احدثكم عني , وعن النبي صلى الله عليه وسلم؟ قلنا: بلى. قالت: لما كانت ليلتي التي هو عندي , تعني النبي صلى الله عليه وسلم , انقلب فوضع نعليه عند رجليه , ووضع رداءه، وبسط طرف إزاره على فراشه، فلم يلبث إلا ريثما ظن اني قد رقدت، ثم انتعل رويدا , واخذ رداءه رويدا، ثم فتح الباب رويدا , وخرج واجافه رويدا، وجعلت درعي في راسي واختمرت، وتقنعت إزاري فانطلقت في إثره حتى جاء البقيع، فرفع يديه ثلاث مرات، واطال القيام ثم انحرف فانحرفت، فاسرع فاسرعت، فهرول فهرولت، فاحضر فاحضرت وسبقته، فدخلت فليس إلا ان اضطجعت فدخل، فقال:" ما لك يا عائشة حشيا رابية؟". قالت: لا. قال:" لتخبرني , او ليخبرني اللطيف الخبير". قلت: يا رسول الله , بابي انت وامي , فاخبرته الخبر، قال:" فانت السواد الذي رايته امامي"، قالت: نعم، قالت: فلهدني في صدري لهدة اوجعتني، ثم قال:" اظننت ان يحيف الله عليك ورسوله". قالت: مهما يكتم الناس فقد علمه الله؟ قال:" نعم"، قال:" فإن جبريل عليه السلام اتاني حين رايت، ولم يكن يدخل عليك وقد وضعت ثيابك، فناداني، فاخفى منك , فاجبته فاخفيت منك، فظننت ان قد رقدت , وخشيت ان تستوحشي , فامرني ان آتي اهل البقيع فاستغفر لهم". رواه عاصم، عن عبد الله بن عامر، عن عائشة على غير هذا اللفظ.
(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ الْمِصِّيصِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ، قَالَتْ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي , وَعَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْنَا: بَلَى. قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي هُوَ عِنْدِي , تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , انْقَلَبَ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ , وَوَضَعَ رِدَاءَهُ، وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ، ثُمَّ انْتَعَلَ رُوَيْدًا , وَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا، ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْدًا , وَخَرَجَ وَأَجَافَهُ رُوَيْدًا، وَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ، وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي فَانْطَلَقْتُ فِي إِثْرِهِ حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ، فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ، فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ وَسَبَقْتُهُ، فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ، فَقَالَ:" مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ حَشْيَا رَابِيَةً؟". قَالَتْ: لَا. قَالَ:" لَتُخْبِرِنِّي , أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ". قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي , فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، قَالَ:" فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُهُ أَمَامِي"، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي، ثُمَّ قَالَ:" أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ". قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ:" فَإِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ، وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ، فَنَادَانِي، فَأَخْفَى مِنْكِ , فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُ مِنْكِ، فَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ , وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي , فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَأَسْتَغْفِرَ لَهُمْ". رَوَاهُ عَاصِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَائِشَةَ عَلَى غَيْرِ هَذَا اللَّفْظِ.
محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا: کیا میں تم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اپنا ایک واقعہ نہ بیان کروں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ وہ بولیں: جس رات میری باری تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تھے، آپ عشاء سے لوٹے اور جوتے اپنے پیروں کے پاس رکھ لیے، اپنی چادر رکھی اور بستر پر تہبند بچھایا، ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی جب آپ کو اندازہ ہوا کہ میں سو چکی ہوں، آپ نے آہستہ سے جوتے پہنے اور آہستہ سے چادر لی پھر دھیرے سے دروازہ کھولا اور باہر نکل کر دھیرے سے بھیڑ دیا، میں نے بھی اوڑھنی اپنے سر پر ڈالی، چادر اوڑھی، پھر تہبند پہن کر آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، تو آپ نے اپنے ہاتھ تین بار اٹھائے، قیام کو طویل کیا پھر پلٹے تو میں بھی پلٹی، اور تیزی سے چلے، میں بھی تیزی سے چلی، پھر آپ نے رفتار کچھ اور تیز کر دی تو میں نے بھی رفتار تیز کر دی پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی اور میں آپ سے آگے نکل گئی اور اندر داخل ہو گئی اور اب میں لیٹی ہی تھی کہ آپ اندر آ گئے اور فرمایا: کیا بات ہے عائشہ! پیٹ کیسا پھولا ہے، تمہاری سانسیں کیوں پھول رہی ہیں؟ بتاؤ ورنہ مجھے لطیف و خبیر یعنی اللہ تعالیٰ بتا دے گا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، پھر انہوں نے آپ کو پورا واقعہ بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تمہارا ہی سایہ تھا جو میں نے اپنے آگے دیکھا؟ میں نے کہا: ہاں، پھر آپ نے میرے سینے پر ایک ایسی تھپکی ماری کہ مجھے تکلیف ہوئی اور فرمایا: کیا تم سمجھتی ہو کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ انہوں نے کہا: کوئی بات چاہے لوگوں سے کتنی ہی مخفی رہے، لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے جان ہی لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، (اور) کہا: جبرائیل میرے پاس آئے جب تم نے مجھے دیکھا، لیکن وہ اندر تمہارے سامنے نہیں آ سکتے تھے کہ تم اپنے کپڑے اتار چکی تھیں۔ انہوں نے مجھے پکارا اور تم سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا اور میں نے اسے تم سے چھپایا (یعنی دھیرے سے کہا) اور میں سمجھا کہ تم سو چکی ہو، اور مجھے ڈر تھا کہ تم تنہائی میں وحشت نہ کھاؤ، تو انہوں (جبرائیل) نے مجھے حکم دیا کہ میں اہل بقیع کے پاس جاؤں اور ان کے لیے استغفار کروں۔ عاصم نے یہ حدیث دوسرے الفاظ کے ساتھ عبداللہ بن عامر سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2039 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3417
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: انبانا شريك، عن عاصم، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة، عن عائشة، قالت: فقدته من الليل وساق الحديث.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُهُ مِنَ اللَّيْلِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
اس سند سے بھی عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غائب پایا اور پھر پوری حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 36 (1546) مختصراً، (تحفة الأشراف: 16226)، مسند احمد (6/71) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

Previous    1    2    3    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.