الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
The Book of Asking Permission
19. بَابُ إِذَا قَالَ فُلاَنٌ يُقْرِئُكَ السَّلاَمَ:
19. باب: اگر کوئی شخص کہے کہ فلاں شخص نے تجھ کو سلام کہا ہے تو وہ کیا کہے۔
(19) Chapter. If one says, “So-and-so sends Salam (greetings) to you."
حدیث نمبر: 6253
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا زكرياء، قال: سمعت عامرا، يقول: حدثني ابو سلمة بن عبد الرحمن، ان عائشة رضي الله عنها، حدثته، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال لها:" إن جبريل يقرئك السلام"، قالت: وعليه السلام ورحمة الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرًا، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، حَدَّثَتْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهَا:" إِنَّ جِبْرِيلَ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ"، قَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عامر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام تمہیں سلام کہتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ ان پر بھی اللہ کی طرف سے سلامتی اور اس کی رحمت نازل ہو۔

Narrated `Aisha: That the Prophet said to her, "Gabriel sends Salam (greetings) to you." She replied, "Wa 'alaihi-s- Salam Wa Rahmatu-l-lah." (Peace and Allah's Mercy be on him).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 270

20. بَابُ التَّسْلِيمِ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلاَطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ:
20. باب: ایسی مجلس والوں کو سلام کرنا جس میں مسلمان اور مشرک سب شامل ہوں۔
(20) Chapter. Greeting (how to greet) a mix-up gathering in which there are Muslims and Al-Mushrikun.
حدیث نمبر: 6254
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام، عن معمر، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، قال: اخبرني اسامة بن زيد،" ان النبي صلى الله عليه وسلم ركب حمارا عليه إكاف تحته قطيفة فدكية واردف وراءه اسامة بن زيد وهو يعود سعد بن عبادة في بني الحارث بن الخزرج، وذلك قبل وقعة بدر حتى مر في مجلس فيه اخلاط من المسلمين، والمشركين عبدة الاوثان، واليهود، وفيهم عبد الله بن ابي بن سلول، وفي المجلس عبد الله بن رواحة، فلما غشيت المجلس عجاجة الدابة، خمر عبد الله بن ابي انفه بردائه، ثم قال: لا تغبروا علينا، فسلم عليهم النبي صلى الله عليه وسلم، ثم وقف فنزل، فدعاهم إلى الله، وقرا عليهم القرآن، فقال عبد الله بن ابي بن سلول: ايها المرء، لا احسن من هذا إن كان ما تقول حقا، فلا تؤذنا في مجالسنا وارجع إلى رحلك، فمن جاءك منا فاقصص عليه، قال عبد الله بن رواحة: اغشنا في مجالسنا فإنا نحب ذلك، فاستب المسلمون، والمشركون، واليهود حتى هموا ان يتواثبوا، فلم يزل النبي صلى الله عليه وسلم يخفضهم، ثم ركب دابته حتى دخل على سعد بن عبادة، فقال: اي سعد، الم تسمع إلى ما قال ابو حباب، يريد عبد الله بن ابي، قال: كذا وكذا، قال: اعف عنه يا رسول الله واصفح، فوالله لقد اعطاك الله الذي اعطاك، ولقد اصطلح اهل هذه البحرة على ان يتوجوه فيعصبونه بالعصابة، فلما رد الله ذلك بالحق الذي اعطاك شرق بذلك، فذلك فعل به ما رايت، فعفا عنه النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ حِمَارًا عَلَيْهِ إِكَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ وَأَرْدَفَ وَرَاءَهُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَهُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَذَلِكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ حَتَّى مَرَّ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ، وَالْيَهُودِ، وَفِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ بْنُ سَلُولَ، وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ، خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ، فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ بْنُ سَلُولَ: أَيُّهَا الْمَرْءُ، لَا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا، فَلَا تُؤْذِنَا فِي مَجَالِسِنَا وَارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ، فَمَنْ جَاءَكَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ: اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ، وَالْمُشْرِكُونَ، وَالْيَهُودُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا، فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ، ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ: أَيْ سَعْدُ، أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ، يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، قَالَ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاصْفَحْ، فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ الَّذِي أَعْطَاكَ، وَلَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبَحْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُونَهُ بِالْعِصَابَةِ، فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَ شَرِقَ بِذَلِكَ، فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ، فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان بندھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر اپنے پیچھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بٹھایا تھا۔ آپ بنی حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس پر سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست، مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی ان میں تھا۔ مجلس میں عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد پڑا تو عبداللہ نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپا لی اور کہا کہ ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور وہاں رک گئے اور اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا اور ان کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بولا، میاں میں ان باتوں کے سمجھنے سے قاصر ہوں اگر وہ چیز حق ہے جو تم کہتے ہو تو ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں تکلیف نہ دیا کرو۔ اس پر ابن رواحہ نے کہا یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ پھر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو میں میں ہونے لگی اور قریب تھا کہ وہ کوئی ارادہ کر بیٹھیں اور ایک دوسرے پر حملہ کر دیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں برابر خاموش کراتے رہے اور جب وہ خاموش ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر بیٹھ کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، سعد تم نے نہیں سنا کہ ابوحباب نے آج کیا بات کہی ہے۔ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یہ یہ باتیں کہی ہیں۔ سعد نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اسے معاف کر دیجئیے اور درگزر فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ حق آپ کو عطا فرمایا ہے جو عطا فرمانا تھا۔ اس بستی (مدینہ منورہ) کے لوگ (آپ کی تشریف آوری سے پہلے) اس پر متفق ہو گئے تھے کہ اسے تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو اسے حق سے حسد ہو گیا اور اسی وجہ سے اس نے یہ معاملہ کیا ہے جو آپ نے دیکھا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا۔

Narrated `Urwa-bin Az-Zubair: Usama bin Zaid said, "The Prophet rode over a donkey with a saddle underneath which there was a thick soft Fadakiya velvet sheet. Usama bin Zaid was his companion rider, and he was going to pay a visit to Sa`d bin Ubada (who was sick) at the dwelling place of Bani Al-Harith bin Al-Khazraj, and this incident happened before the battle of Badr. The Prophet passed by a gathering in which there were Muslims and pagan idolators and Jews, and among them there was `Abdullah bin Ubai bin Salul, and there was `Abdullah bin Rawaha too. When a cloud of dust raised by the animal covered that gathering, `Abdullah bin Ubai covered his nose with his Rida (sheet) and said (to the Prophet), "Don't cover us with dust." The Prophet greeted them and then stopped, dismounted and invited them to Allah (i.e., to embrace Islam) and also recited to them the Holy Qur'an. `Abdullah bin Ubai' bin Salul said, "O man! There is nothing better than what you say, if what you say is the truth. So do not trouble us in our gatherings. Go back to your mount (or house,) and if anyone of us comes to you, tell (your tales) to him." On that `Abdullah bin Rawaha said, "(O Allah's Apostle!) Come to us and bring it(what you want to say) in our gatherings, for we love that." So the Muslims, the pagans and the Jews started quarreling till they were about to fight and clash with one another. The Prophet kept on quietening them (till they all became quiet). He then rode his animal, and proceeded till he entered upon Sa`d bin 'Ubada, he said, "O Sa`d, didn't you hear what Abu Habbab said? (He meant `Abdullah bin Ubai). He said so-and-so." Sa`d bin 'Ubada said, "O Allah's Apostle! Excuse and forgive him, for by Allah, Allah has given you what He has given you. The people of this town decided to crown him (as their chief) and make him their king. But when Allah prevented that with the Truth which He had given you, it choked him, and that was what made him behave in the way you saw him behaving." So the Prophet excused him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 271

21. بَابُ مَنْ لَمْ يُسَلِّمْ عَلَى مَنِ اقْتَرَفَ ذَنْبًا، وَلَمْ يَرُدَّ سَلاَمَهُ حَتَّى تَتَبَيَّنَ تَوْبَتُهُ، وَإِلَى مَتَى تَتَبَيَّنُ تَوْبَةُ الْعَاصِي:
21. باب: جس نے گناہ کرنے والے کو سلام نہیں کیا اور اس وقت تک اس کے سلام کا جواب بھی نہیں دیا جب تک اس کا توبہ کرنا ظاہر نہیں ہو گیا اور کتنے دنوں تک گنہگار کا توبہ کرنا ظاہر ہوتا ہے؟
(21) Chapter. He who does not greet a person who has committed a sin, and the one who does not reply to his greeting till the evidence of his repentance becomes obvious. And up to what time limit (one should wait for) till the repentance of a sinner is known.
حدیث نمبر: Q6255
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال عبد الله بن عمرو لا تسلموا على شربة الخمر.وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو لاَ تُسَلِّمُوا عَلَى شَرَبَةِ الْخَمْرِ.
‏‏‏‏ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ شراب پینے والوں کو سلام نہ کرو۔
حدیث نمبر: 6255
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب، ان عبد الله بن كعب، قال: سمعت كعب بن مالك، يحدث حين تخلف عن تبوك،" ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كلامنا، وآتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فاسلم عليه، فاقول في نفسي هل حرك شفتيه برد السلام ام لا؟ حتى كملت خمسون ليلة، وآذن النبي صلى الله عليه وسلم بتوبة الله علينا حين صلى الفجر".(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ تَبُوكَ،" وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَلَامِنَا، وَآتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَدِّ السَّلَامِ أَمْ لَا؟ حَتَّى كَمَلَتْ خَمْسُونَ لَيْلَةً، وَآذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى الْفَجْرَ".
ہم سے ابن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن کعب نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ جب وہ غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کر دی تھی اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرتا تھا اور یہ اندازہ لگاتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب سلام میں ہونٹ مبارک ہلائے یا نہیں، آخر پچاس دن گزر گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بارگاہ میں ہماری توبہ کے قبول کئے جانے کا نماز فجر کے بعد اعلان کیا۔

Narrated `Abdullah bin Ka`b: I heard Ka`b bin Malik narrating (when he did not join the battle of Tabuk): Allah's Apostle forbade all the Muslims to speak to us. I would come to Allah's Apostle and greet him, and I would wonder whether the Prophet did move his lips to return to my greetings or not till fifty nights passed away. The Prophet then announced (to the people) Allah's forgiveness for us (acceptance of our repentance) at the time when he had offered the Fajr (morning) prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 272

22. بَابُ كَيْفَ يُرَدُّ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ السَّلاَمُ:
22. باب: ذمیوں کے سلام کا جواب کس طرح دیا جائے؟
(22) Chapter. How to return the greetings of the Dhimmi (non-Muslims under the protection of a Muslim state).
حدیث نمبر: 6256
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عروة، ان عائشة رضي الله عنها، قالت: دخل رهط من اليهود على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: السام عليك، ففهمتها فقلت: عليكم السام واللعنة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مهلا يا عائشة، فإن الله يحب الرفق في الامر كله"، فقلت: يا رسول الله، اولم تسمع ما قالوا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فقد قلت وعليكم".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ رَهْطٌ مِنَ الْيَهُودِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكَ، فَفَهِمْتُهَا فَقُلْتُ: عَلَيْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَهْلًا يَا عَائِشَةُ، فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَقَدْ قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ «السام عليك‏.‏» (تمہیں موت آئے) میں ان کی بات سمجھ گئی اور میں نے جواب دیا «عليكم السام واللعنة‏.‏» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ صبر سے کام لے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ان کو جواب دے دیا تھا کہ «وعليكم» (اور تمہیں بھی)۔

Narrated `Aisha: A group of Jews came to Allah's Apostle and said, "As-samu 'Alaika " (Death be on you), and I understood it and said to them, "Alaikum AsSamu wa-l-la'na (Death and curse be on you)." Allah's Apostle said, "Be calm! O `Aisha, for Allah loves that one should be kind and lenient in all matters." I said. "O Allah's Apostle! Haven't you heard what they have said?" Allah's Apostle said, "I have (already) said (to them), 'Alaikum (upon you).' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 273

حدیث نمبر: 6257
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا سلم عليكم اليهود فإنما يقول احدهم: السام عليك، فقل: وعليك".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمُ الْيَهُودُ فَإِنَّمَا يَقُولُ أَحَدُهُمُ: السَّامُ عَلَيْكَ، فَقُلْ: وَعَلَيْكَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں یہودی سلام کریں اور اگر ان میں سے کوئی «السام عليك‏.‏» کہے تو تم اس کے جواب میں صرف «وعليك» (اور تمہیں بھی) کہہ دیا کرو۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: Allah's Apostle said, "When the Jews greet you, they usually say, 'As-Samu 'alaikum (Death be on you),' so you should say (in reply to them), 'Wa'alaikum (And on you).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 274

حدیث نمبر: 6258
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا هشيم، اخبرنا عبيد الله بن ابي بكر بن انس، حدثنا انس بن مالك رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا سلم عليكم اهل الكتاب، فقولوا: وعليكم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ، فَقُولُوا: وَعَلَيْكُمْ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن ابی بکر بن انس نے خبر دی، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم اس کے جواب میں صرف «وعليكم» کہو۔

Narrated Anas bin Malik: the Prophet said, "If the people of the Scripture greet you, then you should say (in reply), 'Wa'alaikum (And on you).' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 275

23. بَابُ مَنْ نَظَرَ فِي كِتَابِ مَنْ يُحْذَرُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ لِيَسْتَبِينَ أَمْرُهُ:
23. باب: جس نے حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے ایسے شخص کا مکتوب پکڑ لیا جس میں مسلمانوں کے خلاف کوئی بات لکھی گئی ہو تو یہ جائز ہے۔
(23) Chapter. (The legal aspect of) the one who looks at a letter in order to know its written contents and the meanings of its subject which is not allowed for the Muslims to look at.
حدیث نمبر: 6259
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يوسف بن بهلول، حدثنا ابن إدريس، قال: حدثني حصين بن عبد الرحمن، عن سعد بن عبيدة، عن ابي عبد الرحمن السلمي، عن علي رضي الله عنه، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم، والزبير بن العوام، وابا مرثد الغنوي، وكلنا فارس، فقال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ، فإن بها امراة من المشركين معها صحيفة من حاطب بن ابي بلتعة إلى المشركين"، قال: فادركناها تسير على جمل لها، حيث قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلنا: اين الكتاب الذي معك؟ قالت: ما معي كتاب، فانخنا بها فابتغينا في رحلها، فما وجدنا شيئا، قال صاحباي: ما نرى كتابا، قال: قلت: لقد علمت ما كذب رسول الله صلى الله عليه وسلم، والذي يحلف به لتخرجن الكتاب، او لاجردنك، قال: فلما رات الجد مني، اهوت بيدها إلى حجزتها وهي محتجزة بكساء، فاخرجت الكتاب، قال: فانطلقنا به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما حملك يا حاطب على ما صنعت"، قال: ما بي إلا ان اكون مؤمنا بالله ورسوله، وما غيرت، ولا بدلت، اردت ان تكون لي عند القوم يد يدفع الله بها عن اهلي ومالي، وليس من اصحابك هناك إلا وله من يدفع الله به عن اهله وماله، قال:" صدق فلا تقولوا له إلا خيرا"، قال: فقال عمر بن الخطاب: إنه قد خان الله ورسوله والمؤمنين، فدعني فاضرب عنقه، قال: فقال:" يا عمر، وما يدريك لعل الله قد اطلع على اهل بدر"، فقال:" اعملوا ما شئتم فقد وجبت لكم الجنة"، قال: فدمعت عينا عمر، وقال: الله ورسوله اعلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ بُهْلُولٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، والزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، وَأَبَا مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ، وَكُلُّنَا فَارِسٌ، فَقَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا امْرَأَةً مِنَ الْمُشْرِكِينَ مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ"، قَالَ: فَأَدْرَكْنَاهَا تَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهَا، حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْنَا: أَيْنَ الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ؟ قَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَأَنَخْنَا بِهَا فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا، فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا، قَالَ صَاحِبَايَ: مَا نَرَى كِتَابًا، قَالَ: قُلْتُ: لَقَدْ عَلِمْتُ مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ، أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَتِ الْجِدَّ مِنِّي، أَهْوَتْ بِيَدِهَا إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ، فَأَخْرَجَتِ الْكِتَابَ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا حَمَلَكَ يَا حَاطِبُ عَلَى مَا صَنَعْتَ"، قَالَ: مَا بِي إِلَّا أَنْ أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَا غَيَّرْتُ، وَلَا بَدَّلْتُ، أَرَدْتُ أَنْ تَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي، وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِكَ هُنَاكَ إِلَّا وَلَهُ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ، قَالَ:" صَدَقَ فَلَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا"، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، فَدَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، قَالَ: فَقَالَ:" يَا عُمَرُ، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ"، فَقَالَ:" اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الْجَنَّةُ"، قَالَ: فَدَمَعَتْ عَيْنَا عُمَرَ، وَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
ہم سے یوسف بن بہلول نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے حصین بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زبیر بن عوام اور ابومرثد غنوی کو بھیجا۔ ہم سب گھوڑ سوار تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور جب روضہ خاخ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام) پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی ایک عورت ملے گی اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین کے پاس بھیجا گیا ہے (اسے لے آؤ)۔ بیان کیا کہ ہم نے اس عورت کو پا لیا وہ اپنے اونٹ پر جا رہی تھی اور وہیں پر ملی (جہاں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ بیان کیا کہ ہم نے اس سے کہا کہ خط جو تم ساتھ لے جا رہی ہو وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے کجاوہ میں تلاشی لی لیکن ہمیں کوئی چیز نہیں ملی۔ میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں کوئی خط تو نظر آتا نہیں۔ بیان کیا کہ میں نے کہا، مجھے یقین ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط بات نہیں کہی ہے۔ قسم ہے اس کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے، تم خط نکالو ورنہ میں تمہیں ننگا کر دوں گا۔ بیان کیا کہ جب اس عورت نے دیکھا کہ میں واقعی اس معاملہ میں سنجیدہ ہوں تو اس نے ازار باندھنے کی جگہ کی طرف ہاتھ بڑھایا، وہ ایک چادر ازار کے طور پر باندھے ہوئے تھی اور خط نکالا۔ بیان کیا کہ ہم اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ حاطب تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ میں اب بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔ میرے اندر کوئی تغیر و تبدیلی نہیں آئی ہے، میرا مقصد (خط بھیجنے سے) صرف یہ تھا کہ (قریش پر آپ کی فوج کشی کی اطلاع دوں اور اس طرح) میرا ان لوگوں پر احسان ہو جائے اور اس کی وجہ سے اللہ میرے اہل اور مال کی طرف سے (ان سے) مدافعت کرائے۔ آپ کے جتنے مہاجر صحابہ ہیں ان کے مکہ مکرمہ میں ایسے افراد ہیں جن کے ذریعہ اللہ ان کے مال اور ان کے گھر والوں کی حفاظت کرائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہ دیا ہے اب تم لوگ ان کے بارے میں سوا بھلائی کے اور کچھ نہ کہو بیان کیا کہ اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس شخص نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی، مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر کی لڑائی میں شریک صحابہ کی زندگی پر مطلع تھا اور اس کے باوجود فرمایا کہ تم جو چاہو کرو، تمہارے لیے جنت لکھ دی گئی ہے، بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں اشک آلود ہو گئیں اور عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔

Narrated `Ali: Allah's Apostle sent me, Az-Zubair bin Al-Awwam and Abu Marthad Al-Ghanawi, and all of us were horsemen, and he said, "Proceed till you reach Rawdat Khakh, where there is a woman from the pagans carrying a letter sent by Hatib bin Abi Balta'a to the pagans (of Mecca)." So we overtook her while she was proceeding on her camel at the same place as Allah's Apostle told us. We said (to her) "Where is the letter which is with you?" She said, "I have no letter with me." So we made her camel kneel down and searched her mount (baggage etc) but could not find anything. My two companions said, "We do not see any letter." I said, "I know that Allah's Apostle did not tell a lie. By Allah, if you (the lady) do not bring out the letter, I will strip you of your clothes' When she noticed that I was serious, she put her hand into the knot of her waist sheet, for she was tying a sheet round herself, and brought out the letter. So we proceeded to Allah's Apostle with the letter. The Prophet said (to Habib), "What made you o what you have done, O Hatib?" Hatib replied, "I have done nothing except that I believe in Allah and His Apostle, and I have not changed or altered (my religion). But I wanted to do the favor to the people (pagans of Mecca) through which Allah might protect my family and my property, as there is none among your companions but has someone in Mecca through whom Allah protects his property (against harm). The Prophet said, "Habib has told you the truth, so do not say to him (anything) but good." `Umar bin Al-Khattab said, "Verily he has betrayed Allah, His Apostle, and the believers! Allow me to chop his neck off!" The Prophet said, "O `Umar! What do you know; perhaps Allah looked upon the Badr warriors and said, 'Do whatever you like, for I have ordained that you will be in Paradise.'" On that `Umar wept and said, "Allah and His Apostle know best."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 276

24. بَابُ كَيْفَ يُكْتَبُ الْكِتَابُ إِلَى أَهْلِ الْكِتَابِ:
24. باب: اہل کتاب کو کس طرح خط لکھا جائے۔
(24) Chapter. How to write a letter to the people of the Scripture.
حدیث نمبر: 6260
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن مقاتل ابو الحسن، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن الزهري، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، ان ابن عباس، اخبره، ان ابا سفيان بن حرب، اخبره، ان هرقل ارسل إليه في نفر من قريش وكانوا تجارا بالشام، فاتوه فذكر الحديث، قال: ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقرئ، فإذا فيه:" بسم الله الرحمن الرحيم من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم السلام على من اتبع الهدى اما بعد".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَكَانُوا تِجَارًا بِالشَّأْمِ، فَأَتَوْهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُرِئَ، فَإِذَا فِيهِ:" بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ السَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ".
ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی انہوں نے کہا ہم کو یونس نے خبر دی اور ان سے زہری نے بیان کیا انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ہرقل نے قریش کے چند افراد کے ساتھ انہیں بھی بلا بھیجا یہ لوگ شام تجارت کی غرض سے گئے تھے سب لوگ ہرقل کے پاس آئے پھر انہوں نے واقعہ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور وہ پڑھا گیا خط میں یہ لکھا ہوا تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد کی طرف سے جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔ ہرقل عظیم روم کی طرف، سلام ہو ان پر جنہوں نے ہدایت کی اتباع کی۔ امابعد!

Narrated Abu Sufyan bin Harb: that Heraclius had sent for him to come along with a group of the Quraish who were trading in Sha'm, and they came to him. Then Abu Sufyan mentioned the whole narration and said, "Heraclius asked for the letter of Allah's Apostle . When the letter was read, its contents were as follows: 'In the name of Allah, the Beneficent, the Merciful. From Muhammad, Allah's slave and His Apostle to Heraclius, the Chief of Byzantines: Peace be upon him who follows the right path (guidance)! Amma ba'du (to proceed )...' (See Hadith No 6, Vol 1 for details)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 277

25. بَابُ بِمَنْ يُبْدَأُ فِي الْكِتَابِ:
25. باب: خط کس کے نام سے شروع کیا جائے۔
(25) Chapter. Whose name is to be written first in a letter, i.e., the sender or the addressee?
حدیث نمبر: 6261
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
وقال الليث: حدثني جعفر بن ربيعة، عن عبد الرحمن بن هرمز، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: انه ذكر رجلا من بني إسرائيل اخذ خشبة، فنقرها فادخل فيها الف دينار وصحيفة منه إلى صاحبه.وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَخَذَ خَشَبَةً، فَنَقَرَهَا فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ وَصَحِيفَةً مِنْهُ إِلَى صَاحِبِهِ.
لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے جعفر بن ربیع نے بیان کیا ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا کہ انہوں نے لکڑی کا ایک لٹھا لیا اور اس میں سوراخ کر کے ایک ہزار دینار اور خط رکھ دیا وہ ان کی طرف سے ان کے ساتھی (قرض خواہ) کی طرف تھا اور عمر بن ابی سلمہ نے بیان کیا کہ ان سے ان کے والد نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے لکڑی کے ایک لٹھے میں سوراخ کیا اور مال اس کے اندر رکھ دیا اور ان کے پاس ایک خط لکھا، فلاں کی طرف سے فلاں کو ملے۔

Narrated Abu Hurairah (ra): Allah's Messenger (saws) mentioned a person from Bani Israel who took a piece of wood, made a hole in it, and put therein one thousand Dinar and letter from him to his friend. The Prophet (saws) said, "(That man) cut a piece of wood and put the money inside it and wrote a letter from such and such a person to such and such a person."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 277


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.