الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
The Book of Mosques and Places of Prayer
5. باب النَّدْبِ إِلَى وَضْعِ الأَيْدِي عَلَى الرُّكَبِ فِي الرُّكُوعِ وَنَسْخِ التَّطْبِيقِ:
5. باب: رکوع میں ہاتھوں کا گھٹنوں پر رکھنا اور تطبیق کا منسوخ ہونا۔
حدیث نمبر: 1191
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن العلاء الهمداني ابو كريب ، قال: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، وعلقمة ، قالا: اتينا عبد الله بن مسعود في داره، فقال: اصلى هؤلاء خلفكم؟ فقلنا: لا، قال: فقوموا فصلوا، فلم يامرنا باذان ولا إقامة، قال: وذهبنا لنقوم خلفه، فاخذ بايدينا، فجعل احدنا عن يمينه والآخر عن شماله، قال: فلما ركع، وضعنا ايدينا على ركبنا، قال: فضرب ايدينا، وطبق بين كفيه، ثم ادخلهما بين فخذيه، قال: فلما صلى، قال: " إنه ستكون عليكم امراء، يؤخرون الصلاة عن ميقاتها، ويخنقونها إلى شرق الموتى، فإذا رايتموهم قد فعلوا ذلك، فصلوا الصلاة لميقاتها، واجعلوا صلاتكم معهم سبحة، وإذا كنتم ثلاثة، فصلوا جميعا، وإذا كنتم اكثر من ذلك، فليؤمكم احدكم، وإذا ركع احدكم، فليفرش ذراعيه على فخذيه، وليجنا وليطبق بين كفيه "، فلكاني انظر إلى اختلاف اصابع رسول الله صلى الله عليه وسلم فاراهم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ أَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، وَعَلْقَمَةَ ، قَالَا: أَتَيْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فِي دَارِهِ، فَقَالَ: أَصَلَّى هَؤُلَاءِ خَلْفَكُمْ؟ فَقُلْنَا: لَا، قَالَ: فَقُومُوا فَصَلُّوا، فَلَمْ يَأْمُرْنَا بِأَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ، قَالَ: وَذَهَبْنَا لِنَقُومَ خَلْفَهُ، فَأَخَذَ بِأَيْدِينَا، فَجَعَلَ أَحَدَنَا عَنْ يَمِينِهِ وَالآخَرَ عَنْ شِمَالِهِ، قَالَ: فَلَمَّا رَكَعَ، وَضَعْنَا أَيْدِيَنَا عَلَى رُكَبِنَا، قَالَ: فَضَرَبَ أَيْدِيَنَا، وَطَبَّقَ بَيْنَ كَفَّيْهِ، ثُمَّ أَدْخَلَهُمَا بَيْنَ فَخِذَيْهِ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى، قَالَ: " إِنَّهُ سَتَكُونُ عَلَيْكُمْ أُمَرَاءُ، يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ مِيقَاتِهَا، وَيَخْنُقُونَهَا إِلَى شَرَقِ الْمَوْتَى، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ قَدْ فَعَلُوا ذَلِكَ، فَصَلُّوا الصَّلَاةَ لِمِيقَاتِهَا، وَاجْعَلُوا صَلَاتَكُمْ مَعَهُمْ سُبْحَةً، وَإِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً، فَصَلُّوا جَمِيعًا، وَإِذَا كُنْتُمْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، وَإِذَا رَكَعَ أَحَدُكُمْ، فَلْيُفْرِشْ ذِرَاعَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَلْيَجْنَأْ وَلْيُطَبِّقْ بَيْنَ كَفَّيْهِ "، فَلَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى اخْتِلَافِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرَاهُمْ.
ابو معاویہ نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابراہیم سے اور انہوں نے اسود اور علقمہ سے روایت کی، ان دونوں نے کہا: ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ پوچھنے لگے: جو (حکمران اور ان کے ساتھ تاخیر سے نماز پڑھنے والے ان کے پیروکار) تم سے پیچھے ہیں، انہوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کی: نہیں۔ انہوں نے کہا: اٹھو اور نماز پڑھو۔ انہوں نے ہمیں اذان اور اقامت کہنے کا حکم نہ دیا ہم ان کے پیچھے کھڑے ہونے لگے تو انہوں نے ہمارے ہاتھ پکڑ کر ایک کو اپنے دائیں اور دوسرے کو اپنے بائیں طرف کر دیا۔ جب انہوں نے رکوع کیا تو ہم نے اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے، انہوں نے ہمارے ہاتھوں پر ہلکا سا مارا اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو جوڑ کر اپنی دونوں رانوں کے درمیان رکھ لیا۔ انہوں نے جب نماز پڑھ لی تو کہا: یقیناً آیندہ تمہارے ایسے حکمران ہوں گے جو نمازوں کو ان کے اوقات سے مؤخر کر یں گے اور ان کے اوقات کو مرنے والوں کو آخری جھلملاہٹ کی طرح تنگ کر دیں گے۔ جب تم ان کو دیکھو کہ انہوں نے یہ (کام شروع) کر لیا ہے تو تم (ہر) نماز اس وقت کے پر پڑھ لینا اور ان کے ساتھ اپنی نماز کو نفل بنا لینا۔ اور جب تم تین آدمی ہو تو اکٹھے کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب تم تین زیادہ ہو تو تم میں سے ایک امام بن جائے اور جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اپنے بازو اپنی رانوں پر پھیلا دے اور جھکے اور اپنی ہتھیلیاں جوڑ لے، (ایسا لگتا ہے) جیسے میں (اب بھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (ایک دوسری میں) پیوستہ انگلیوں کو دیکھ رہا ہوں۔ اور (انگلیاں پیوست کر کے) انہیں دکھائیں۔
حضرت اسود اور علقمہ رحمتہ اللّٰہ علیہ سے روایت ہے کہ ہم عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر، ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے پوچھا، کیا ان لوگوں نے جن کو تم پیچھے چھوڑ آئے ہو (حکمران اور ان کے اتباع) نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کیا، نہیں، انہوں نے کہا، اٹھو اور نماز پڑھو تو انہوں نے ہمیں اذان اور اقامت کہنے کا حکم نہ دیا۔ اور ہم ان کے پیچھے کھڑے ہونے لگے تو انہوں نے ہمارے ہاتھ پکڑ کر ایک کو دائیں اور دوسرے کو اپنے بائیں کردیا۔ جب انہوں نے رکوع کیا تو ہم نے اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے، انہوں نے ہمارے ہاتھوں پر مارا اور اپنی ہتھیلیوں کو جوڑا پھر ان کو اپنی دونوں رانوں کے درمیان رکھ لیا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو کہا، عنقریب تمہارے امیر ایسے ہوں گے جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کریں گے اور ان کے وقت کو بہت تنگ کر دیں گے، جب تم ان کو دیکھو کہ انہوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا ہے تو تم نماز اس کے وقت پر پڑھ لینا اور ان کے ساتھ اپنی نماز کو نفلی بنا لینا اور جب تم تین آدمی ہو تو اکٹھے کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب تم تین سے زیادہ ہو تو تم میں ایک امام بن جائے اور جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اپنے بازؤں کو اپنی رانوں پر پھیلا دے اور جھکے اور اپنی ہتھیلیاں جوڑ لے گویا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے اختلاف کو دیکھ رہا ہوں اور ان کو دکھایا۔
حدیث نمبر: 1192
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا منجاب بن الحارث التميمي ، اخبرنا ابن مسهر . ح، قال: وحدثنا عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا جرير ، ح، قال: وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا مفضل كلهم، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، والاسود ، انهما دخلا على عبد الله ، بمعنى حديث ابي معاوية، وفي حديث ابن مسهر، وجرير، فلكاني انظر إلى اختلاف اصابع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو راكع.وحَدَّثَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ مُسْهِرٍ . ح، قَالَ: وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، ح، قَالَ: وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ كُلُّهُمْ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالأَسْوَدِ ، أنهما دخلا على عبد الله ، بمعنى حديث أبي معاوية، وفي حديث ابن مسهر، وجرير، فلكأني أنظر إلى اختلاف أصابع رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ رَاكِعٌ.
1192. علی بن مسہر، جریر اور مفضل نے مختلف سندوں کے ساتھ اعمش سے، انہوں نے ابراہیم سے اور انہوں نے علقمہ اور اسود سے روایت کی کہ وہ دونوں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے... آگے ابو معاویہ کی روایت کے ہم معنی روایت بیان کی، البتہ ابن مُسہِر اور جریر کی روایت میں (آخری حصہ) اس طرح ہے، جیسے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالف جانب آئی ہوئی (ایک دوسری میں پیوست) انگلیاں دیکھ رہا ہوں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کی حالت میں ہیں۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں حضرت علقمہ اور اسود سے روایت ہے کہ ہم عبداللّٰہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔ ابن مسہر اور جریر کی روایت میں ہے گویا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے اختلاف (انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کرنا) کو دیکھ رہا ہوں اور اور آپصلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں ہیں۔
حدیث نمبر: 1193
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، اخبرنا عبيد الله بن موسى ، عن إسرائيل ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن علقمة والاسود ، انهما دخلا على عبد الله ، فقال: " اصلى من خلفكم؟ قال: نعم، فقام بينهما، وجعل احدهما عن يمينه والآخر عن شماله، ثم ركعنا، فوضعنا ايدينا على ركبنا، فضرب ايدينا، ثم طبق بين يديه، ثم جعلهما بين فخذيه "، فلما صلى، قال: هكذا فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ وَالأَسْوَدِ ، أنهما دخلا على عبد الله ، فقال: " أَصَلَّى مَنْ خَلْفَكُمْ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَامَ بَيْنَهُمَا، وَجَعَلَ أَحَدَهُمَا عَنْ يَمِينِهِ وَالآخَرَ عَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ رَكَعْنَا، فَوَضَعْنَا أَيْدِيَنَا عَلَى رُكَبِنَا، فَضَرَبَ أَيْدِيَنَا، ثُمَّ طَبَّقَ بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ جَعَلَهُمَا بَيْنَ فَخِذَيْهِ "، فَلَمَّا صَلَّى، قَالَ: هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
۔ (اعمش ےکے بجائے) منصور ابراھیم سے اور انھوں نے علقمہ اور اسود سے روایت کی کہ وہ دونوں حضرت عبد اللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) کے ہاں حاضر ہوئے تو انھوں نے پوچھا: جو تمہارے پیچھے ہیں انھوں نے نماز پڑھ لی؟دونوں نے کہا: جی ہاں۔ پھر وہ دونوں کے درمیان کھڑے ہوئے، ان میں سےایک کو اپنی دائیں طرف اور دوسرے کو اپنی بائیں طرف (کھڑا) کیا پھر ہم نےرکوع کیاتو ہم اپنے ہاتھ اپنے گٹھنوں پر رکھے، انھو ں نے ہمارے ہاتھوں پر (ہلکا سا) مارا، پھر اپنے دونوں ہاتھ جوڑ لیے اور ان کو اپنی رانوں کے درمیان رکھا، جب نماز پڑھ چکے تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا۔
حضرت علقمہ اور اسود سے روایت ہے کہ وہ دونوں عبداللّٰہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے پوچھا، کیا تمہارے پیچھے لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟ دونوں نے کہا، ہاں تو وہ ان کے درمیان کھڑے ہوگئے، ایک کو اپنے دائیں کر لیا اور دوسرے کو بائیں، پھر ہم نے رکوع کیا اور اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پہ رکھے تو انہوں نے ہمارے ہاتھوں پر مارا اور پھر اپنے ہاتھوں کو جوڑ لیا، پھر ان کو اپنی رانوں کے درمیان کر لیا جب نماز سے فارغ ہوئے تو کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا ہے۔
حدیث نمبر: 1194
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، ابو كامل الجحدري ، واللفظ لقتيبة، قالا: حدثنا ابو عوانة ، عن ابي يعفور ، عن مصعب بن سعد ، قال: صليت إلى جنب ابي ، قال: وجعلت يدي بين ركبتي، فقال لي ابي: اضرب بكفيك على ركبتيك، قال: ثم فعلت ذلك مرة اخرى، فضرب يدي، وقال: إنا نهينا عن هذا، " وامرنا ان نضرب بالاكف على الركب ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي ، قَالَ: وَجَعَلْتُ يَدَيَّ بَيْنَ رُكْبَتَيَّ، فَقَالَ لِي أَبِي: اضْرِبْ بِكَفَّيْكَ عَلَى رُكْبَتَيْكَ، قَالَ: ثُمَّ فَعَلْتُ ذَلِكَ مَرَّةً أُخْرَى، فَضَرَبَ يَدَيَّ، وَقَالَ: إِنَّا نُهِينَا عَنْ هَذَا، " وَأُمِرْنَا أَنْ نَضْرِبَ بِالأَكُفِّ عَلَى الرُّكَبِ ".
1193میں غالباً ابراھیم نخعی سے نیچے کسی راوی کو وہم ہوا ہے۔اسی لیے امام مسلم رضی اللہ عنہ مفصل اور صحیح روایت کو پہلے لائے ہیں۔بعض شارحین نے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول کیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب .
حضرت مصعب بن سعد رحمتہ اللّٰہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے باپ کے پہلو میں نماز پڑھی اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں کے درمیان رکھے تو مجھے میرے باپ نے کہا، اپنی ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پہ رکھ۔ وہ (مصعب) کہتے ہیں میں نے دوبارہ یہی کام کیا تو انہوں نے میرے ہاتھوں پر مارا اور کہا، ہمیں اس سے روک دیا گیا ہے۔ اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ہتھیلیاں گھٹنوں پہ رکھیں۔
حدیث نمبر: 1195
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا خلف بن هشام ، حدثنا ابو الاحوص . ح، قال: وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، كلاهما، عن ابي يعفور ، بهذا الإسناد، إلى قوله: فنهينا عنه، ولم يذكر: ما بعده.حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ . ح، قَالَ: وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، إِلَى قَوْلِهِ: فَنُهِينَا عَنْهُ، وَلَمْ يَذْكُر: مَا بَعْدَهُ.
ابو عوانہ نے ابو یعفور سے اور انھوں نے مصعب بن سعد سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نےاپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کے پہلو میں نماز پڑھی اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے گٹھنوں کے درمیان رکھے تو مجھے میرے والد نے کہا: اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے گٹھنوں پر رکھو۔انھوں (مصعب) نے کہا: میں نے دوبارہ یہی کام کیا تو انہوں میرے ہاتھوں پر مارا اور کہا: ہمیں اس سے روک دیا گیا تھا اور حکم دیا گیا تھا کہ ہم ہتھیلیاں گٹھنوں پر ٹکائیں۔
امام صاحب نے اپنے دو اساتذہ سے مذکورہ بالا سند سے ہمیں روک دیا گیا ہے تک روایت بیان کی اور دونوں نے بعد والا جملہ بیان نہیں کیا۔
حدیث نمبر: 1196
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، عن إسماعيل بن ابي خالد ، عن الزبير بن عدي ، عن مصعب بن سعد ، قال: " ركعت، فقلت: بيدي هكذا، يعني طبق بهما، ووضعهما بين فخذيه، فقال ابي : قد كنا نفعل هذا، ثم امرنا بالركب ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: " رَكَعْتُ، فَقُلْتُ: بِيَدَيَّ هَكَذَا، يَعْنِي طَبَّقَ بِهِمَا، وَوَضَعَهُمَا بَيْنَ فَخِذَيْهِ، فَقَالَ أَبِي : قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ هَذَا، ثُمّ أُمِرْنَا بِالرُّكَبِ ".
ابو احوص اورسفیان نے ابو یعفور سے مذکورہ بالاسند کے ساتھہمیں روک دیا گیا تک حدیث بیان کی ہے، ان دونوں نے اس کے بعد والا جملہ بیان نہیں کیا۔
ہمیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے وکیع کے واسطہ سے اسماعیل بن ابی خالد کی زبیر بن عدی سے حضرت مصعب بن سعد رحمتہ اللّٰہ علیہ سے روایت بیان کی کہ میں نے نماز پڑھنی شروع کی اور اپنے ہاتھوں کو اس طرح کرلیا (یعنی ان کو جوڑ کر اپنی رانوں کے درمیان رکھ لیا) تو مجھے میرے باپ نے بتایا، ہم بھی ایسا کیا کرتے تھے۔ پھر ہمیں گھٹنوں پہ رکھنے کا حکم دیا گیا۔
حدیث نمبر: 1197
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني الحكم بن موسى ، حدثنا عيسى بن يونس ، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد، عن الزبير بن عدي ، عن مصعب بن سعد بن ابي وقاص ، قال: صليت إلى جنب ابي ، فلما ركعت، شبكت اصابعي وجعلتهما بين ركبتي، فضرب يدي، فلما صلى، قال: قد كنا نفعل هذا، ثم امرنا ان نرفع إلى الركب.حَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ ، عَنِ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي ، فَلَمَّا رَكَعْتُ، شَبَّكْتُ أَصَابِعِي وَجَعَلْتُهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيَّ، فَضَرَبَ يَدَيَّ، فَلَمَّا صَلَّى، قَالَ: قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ هَذَا، ثُمَّ أُمِرْنَا أَنْ نَرْفَعَ إِلَى الرُّكَبِ.
وکیع نے اسماعیل بن ابی خالد سے، انھوں نے زبیر بن عدی سے اور انھوں نے مصعب بن سعد سے روایت کی، کہا: میں نے رکوع کیا اور اپنے ہاتھوں کو اس طرح کر لیا، یعنی ان کو جوڑکر اپنی رانوں کے درمیان رکھ لیا تو میرے والد نے مجھ سے کہا: ہم اسی طرح کیا کرتے تھے، پھر ہمیں گھنٹوں (پرہاتھ رکھنے) کا حکم دیا گیا۔
حضرت مصعب بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے باپ کے پہلو میں نماز پڑھی، جب میں نے رکوع کیا تو اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈال کر اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں کے درمیان رکھ لیا تو انہوں نے میرے ہاتھوں پر مارا، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا، ہم بھی ایسا کیا کرتے تھے، پھر ہمیں گھٹنوں کی طرف اٹھانے (گھٹنوں پہ رکھنے) کا حکم دیا گیا۔
6. باب جَوَازِ الإِقْعَاءِ عَلَى الْعَقِبَيْنِ:
6. باب: ایڑیوں پر سرین رکھ کر بیٹھنا۔
حدیث نمبر: 1198
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا محمد بن بكر . ح، قال: وحدثنا حسن الحلواني ، حدثنا عبد الرزاق ، وتقاربا في اللفظ، قالا جميعا: اخبرنا ابن جريج ، اخبرني ابو الزبير ، انه سمع طاوسا ، يقول: قلنا لابن عباس : في الإقعاء على القدمين، فقال: هي السنة، فقلنا له: إنا لنراه جفاء بالرجل، فقال ابن عباس: " بل هي سنة نبيك صلى الله عليه وسلم ".حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ . ح، قَالَ: وحَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا جَمِيعًا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا ، يَقُولُ: قُلْنَا لِابْنِ عَبَّاسٍ : فِي الإِقْعَاءِ عَلَى الْقَدَمَيْنِ، فَقَالَ: هِيَ السُّنَّةُ، فَقُلْنَا لَهُ: إِنَّا لَنَرَاهُ جَفَاءً بِالرَّجُلِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " بَلْ هِيَ سُنَّةُ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
حضرت طاوس بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنھماسےدونوں پیروں پربیٹھنے کے بارے میں پو چھا تو انھوں نے جواب دیا: یہ سنت ہے۔ہم نے ان سے عرض کی: ہمارا تو خیال ہے کہ یہ انسان (یا اگر را کی زیرکے ساتھ رجل پڑھا جائے تو پاؤں) پرزیاتی ہے۔ابن عباس صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: (نہیں) بلکہ یہ تمہارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
حضرت طاؤس بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے قدموں پر بیٹھنے کے بارے میں پوچھا، انہوں نے جواب دیا یہ سنت ہے تو ہم نے عرض کیا ہمارا خیال ہے کہ یہ پاؤں پر زیادتی ہے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، بلکہ یہ تو تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
7. باب تَحْرِيمِ الْكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ:
7. باب: نماز میں باتیں کرنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 1199
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو جعفر محمد بن الصباح ، ابو بكر بن ابي شيبة ، وتقاربا في لفظ الحديث، قالا: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن حجاج الصواف ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن هلال بن ابي ميمونة ، عن عطاء بن يسار ، عن معاوية بن الحكم السلمي ، قال: بينا انا اصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ عطس رجل من القوم، فقلت: يرحمك الله، فرماني القوم بابصارهم، فقلت: وا ثكل امياه، ما شانكم تنظرون إلي؟ فجعلوا يضربون بايديهم على افخاذهم، فلما رايتهم يصمتونني، لكني سكت، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبابي هو وامي، ما رايت معلما قبله، ولا بعده احسن تعليما منه، فوالله ما كهرني ولا ضربني ولا شتمني، قال: " إن هذه الصلاة، لا يصلح فيها شيء من كلام الناس، إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن "، او كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا رسول الله، إني حديث عهد بجاهلية، وقد جاء الله بالإسلام، وإن منا رجالا ياتون الكهان، قال: فلا تاتهم، قال: ومنا رجال يتطيرون، قال: ذاك شيء يجدونه في صدورهم، فلا يصدنهم، قال ابن الصباح: فلا يصدنكم، قال: قلت: ومنا رجال يخطون، قال: كان نبي من الانبياء يخط، فمن وافق خطه، فذاك، قال: وكانت لي جارية، ترعى غنما لي قبل احد والجوانية، فاطلعت ذات يوم، فإذا الذيب قد ذهب بشاة من غنمها، وانا رجل من بني آدم، آسف كما ياسفون، لكني صككتها صكة، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعظم ذلك علي، قلت: يا رسول الله، افلا اعتقها؟ قال: ائتني بها، فاتيته بها، فقال لها: اين الله؟ قالت: في السماء، قال: من انا؟ قالت: انت رسول الله، قال: اعتقها، فإنها مؤمنة.حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَتَقَارَبَا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَا ثُكْلَ أُمِّيَاهْ، مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ؟ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي، لَكِنِّي سَكَتُّ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي، مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ، وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، فَوَاللَّهِ مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي، قَالَ: " إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ، لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ "، أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، وَقَدْ جَاءَ اللَّهُ بِالإِسْلَامِ، وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا يَأْتُونَ الْكُهَّانَ، قَالَ: فَلَا تَأْتِهِمْ، قَالَ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَتَطَيَّرُونَ، قَالَ: ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ، فَلَا يَصُدَّنَّهُمْ، قَالَ ابْنُ الصَّبَّاحِ: فَلَا يَصُدَّنَّكُمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ، قَالَ: كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ، فَذَاكَ، قَالَ: وَكَانَتْ لِي جَارِيَةٌ، تَرْعَى غَنَمًا لِي قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ، فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ يَوْمٍ، فَإِذَا الذِّيبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِهَا، وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ، آسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ، لَكِنِّي صَكَكْتُهَا صَكَّةً، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَظَّمَ ذَلِكَ عَلَيَّ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا أُعْتِقُهَا؟ قَالَ: ائْتِنِي بِهَا، فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ لَهَا: أَيْنَ اللَّهُ؟ قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ، قَالَ: مَنْ أَنَا؟ قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ.
ہم سے ابو جعفرمحمد بن صباح اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے حدیث بیان کی۔حدیث کے لفظوں میں بھی دونوں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔دونوں نے کہا: ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث بیان کی، انھوں نے حجاج صوّاف سے انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ہلال بن ابی میمونہ سے، انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت معاویہ بن ابی حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑ ھ رہاتھا کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا: یرحمک اللہاللہ تجھ پر رحم کرے۔ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔میں نے (دل میں) کہا: میری ماں مجھے گم پائے، تم سب کو کیا ہو گیا؟ کہ مجھے گھور رہے ہو پھروہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے۔جب میں نے انھیں دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں (تو مجھے عجیب لگا) لیکن میں خاموش رہا، جب رسو ل اللہ نماز سے فارغ ہوئے، میرے ماں باپ آپ پرقربان!میں نے آپ سےپہلے اور آپکے بعدآپ سے بہتر کوئی معلم (سکھانےوالا) نہیں دیکھا!اللہ کی قسم!نہ تو آپنے مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا۔ آپنے فرمایا: یہ نماز ہے اس میں کسی قسم کی گفتگو روانہیں ہے، یہ تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے۔ یا جیسے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول اللہ!ابھی تھوڑا عرصہ پہلے جاہلیت میں تھا، اور اللہ نے اسلام سے نوازدیا ہے، ہم میں سے کچھ لوگ ہیں جو کاہنوں (پیش گوئی کرنے والے) کے پاس جاتے ہیں۔آپنے فرمایا: تم ان کے پاس نہ جانا۔ میں نے عرض کی: ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو بدشگونی لیتےہیں۔آپن فرمایا: یہ ایسی بات ہے جو وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں (ایک طرح کا وہم ہے) یہ (وہم) انھیں (ان کے) کسی کام سے نہ روکے۔ (محمد) ابن صباح نے روایت کی: یہ تمہیں کسی صورت (اپنے کاموں سے) نہ رزکے۔ میں نے عرض کی: ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچھنے ہیں۔ آپنے فرمایا: سابقہ انبیاء میں سے ایک بنی لکیریں کھینچا کرتے تھے تو جس کی لکیریں ان کے موافق ہو جائیں وہ تو صحیح ہو سکتی ہیں (لیکن اب اس کا جاننا مشکل ہے۔) (معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ نے) کہا: میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے اطراف میں میری بکریا چراتی تھی، ایک دن میں اس طرف جاانکلاتو بھیڑیا اس کی بکری لے جا چکا تھا۔میں بھی بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں، مجھے بھی اسی طرح افسوس ہوتا ہے جس طرح ان کو ہوتا ہے (مجھے صبر کرناچاہیے تھا) لیکن میں نے اسے زور سے ایک تھپڑجڑدیا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو اآپنے میری اس حرکت کو میرے لیے بڑی (غلط) حرکت قرار دیا۔میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!کیا میں اسے آزادنہ کردوں؟آپ نےفرمایا: اسے میرےپاس لے آؤ۔ میں اسے لےکر آپ کےپاس حاضر ہوا، آپ نےاس سے پوچھا: اللہ کہا ں ہے؟ اس نےکہا: آسمان میں۔ آپ نےپوچھا: میں کون ہوں؟ اس نےکہا: آپ اللہ کےرسول ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے
حضرت معاویہ بن حکم سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا، اسی اثنا مین لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا: (یَرْحَمُكَ اللُّٰہ) اللّٰہ تجھے رحمت سے نوازے۔ تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا تو میں نے کہا: کاش میری ماں مجھے گم پاتی (میں مر چکا ہوتا) تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہے ہو تو وہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے، جب میں نے ان کو جانا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں تو مجھے غصہ آیا لیکن میں خاموش ہو گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر قربان، میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر سکھانے والا نہیں دیکھا، اللّٰہ کی قسم! نہ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ڈانٹا نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نماز، اس میں کسی قسم کی انسانی گفتگو روا نہیں ہے، یہ تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے۔ یا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے کہا: اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں جاہلیت سے نیا نیا نکلا ہوں اور اب اللّٰہ تعالیٰ نے اسلام بھیج دیا ہے (مجھے اسلام لانے کی توفیق دی ہے) ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں (پیش گوئی کرنے والے پنڈت و نجومی) کے پاس جاتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ان کے پاس نہ جا۔ میں نے عرض کیا، ہم میں سے کچھ لوگ بد شگونی لیتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک چیز ہے جسے وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں، یہ ان کو کسی کام سے نہ روکے۔ ابن صباح نے کہا، تمہیں بالکل نہ روکے۔ میں نے عرض کیا، ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء علیہم السلام میں سے ایک نبی لکیریں کھینچا کرتے تھے تو جس کی لکیریں اس کے موافق ہوں گی تو ٹھیک ہے۔ اس (معاویہ رضی اللہ عنہ) نے بتایا، میری ایک لونڈی تھی، جو احد اور جوانیہ کے پاس میری بکریاں چراتی تھی، ایک دن میں اس طرف آ نکلا تو بھیڑیا اس کی بکریوں سے ایک بکری لے جا چکا تھا تو میں بھی اولاد آدم سے ایک آدمی ہوں، مجھے بھی اس طرح غصہ آتا ہے، جس طرح ان کو غصہ آتا ہے، (مجھے صبر کرنا چاہیے تھا) لیکن میں نے اس کو زور سے تھپڑ رسید کر دیا، اس پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میری اس حرکت کو بہت ناگوار قرار دیا، میں نے عرض کیا، اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں اس کو آزاد نہ کردوں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے میرے پاس لاؤ۔ میں اسے لے کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا، اللّٰہ کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان پر۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا میں کون ہوں؟ اس نے کہا، اللّٰہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے۔
حدیث نمبر: 1200
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا عيسى بن يونس ، حدثنا الاوزاعي ، عن يحيى بن ابي كثير ، بهذا الإسناد نحوه.حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی سند کے ساتھ اسی کے ہم معنی حدیث بیان کی ہے۔
ہمیں اسحاق بن ابراھیم نے عیسیٰ بن یونس کے واسطہ سے اوزاعی کی یحیٰی بن ابی کثیر کی سند سے اس قسم کی روایت سنائی۔

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.