الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
حدیث نمبر: 31
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، عن إسرائيل، عن عامر بن شقيق، عن ابي وائل، عن عثمان بن عفان، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يخلل لحيته ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُخَلِّلُ لِحْيَتَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنی داڑھی میں خلال کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 50 (430) (تحفة الأشراف: 9809) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (430)
24. بَابُ مَا جَاءَ فِي مَسْحِ الرَّأْسِ أَنَّهُ يَبْدَأُ بِمُقَدَّمِ الرَّأْسِ إِلَى مُؤَخَّرِهِ
24. باب: سر کے اگلے حصہ سے مسح شروع کرنے اور پچھلے حصہ تک لے جانے کا بیان​۔
Chapter: What Has Been Related About Wiping The Head, That It Is To Begin With The Front Of The Head To Its Rear.
حدیث نمبر: 32
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن بن عيسى القزاز، حدثنا مالك بن انس، عن عمرو بن يحيى، عن ابيه، عن عبد الله بن زيد، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " مسح راسه بيديه فاقبل بهما وادبر، بدا بمقدم راسه ثم ذهب بهما إلى قفاه ثم ردهما حتى رجع إلى المكان الذي بدا منه، ثم غسل رجليه ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن معاوية , والمقدام بن معدي كرب , وعائشة. قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن زيد اصح شيء في هذا الباب واحسن، وبه يقول الشافعي , واحمد , وإسحاق 1.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ ثُمَّ رَدَّهُمَا حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاوِيَةَ , وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ , وَعَائِشَةَ. قال أبو عيسى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق 1.
عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے سر کا مسح کیا تو انہیں آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لائے، یعنی اپنے سر کے اگلے حصہ سے شروع کیا پھر انہیں گدی تک لے گئے پھر انہیں واپس لوٹایا یہاں تک کہ اسی جگہ واپس لے آئے جہاں سے شروع کیا تھا، پھر آپ نے دونوں پیر دھوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں معاویہ، مقدام بن معدیکرب اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- اس باب میں عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کی حدیث سب سے صحیح اور عمدہ ہے اور اسی کے قائل شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر رقم: 28 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (434)
25. بَابُ مَا جَاءَ أَنَّهُ يُبْدَأُ بِمُؤَخَّرِ الرَّأْسِ
25. باب: مسح سر کے پچھلے حصہ سے شروع کرنے کا بیان​۔
Chapter: What Has Been Related That It Is To Be Begun At The Rear Of The Head
حدیث نمبر: 33
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا بشر بن المفضل، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن الربيع بنت معوذ ابن عفراء، ان النبي صلى الله عليه وسلم " مسح براسه مرتين، بدا بمؤخر راسه ثم بمقدمه وباذنيه كلتيهما ظهورهما وبطونهما ". قال ابو عيسى: هذا حسن، وحديث عبد الله بن زيد اصح من هذا واجود إسنادا، وقد ذهب بعض اهل الكوفة إلى هذا الحديث، منهم وكيع بن الجراح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّتَيْنِ، بَدَأَ بِمُؤَخَّرِ رَأْسِهِ ثُمَّ بِمُقَدَّمِهِ وَبِأُذُنَيْهِ كِلْتَيْهِمَا ظُهُورِهِمَا وَبُطُونِهِمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَصَحُّ مِنْ هَذَا وَأَجْوَدُ إِسْنَادًا، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، مِنْهُمْ وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ.
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کا دو مرتبہ ۱؎ مسح کیا، آپ نے (پہلے) اپنے سر کے پچھلے حصہ سے شروع کیا ۲؎، پھر (دوسری بار) اس کے اگلے حصہ سے اور اپنے کانوں کے اندرونی اور بیرونی دونوں حصوں کا مسح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے اور عبداللہ بن زید کی حدیث سند کے اعتبار سے اس سے زیادہ صحیح اور زیادہ عمدہ ہے،
۲- اہل کوفہ میں سے بعض لوگ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، انہیں میں سے وکیع بن جراح بھی ہیں ۳؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 50 (126)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 39 (390)، و52 (440) (تحفة الأشراف: 15837) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: حقیقت میں یہ ایک ہی مسح ہے آگے اور پیچھے دونوں کو راوی نے الگ الگ مسح شمار کر کے اسے «مرتین» دو بار سے تعبیر کیا ہے۔
۲؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سر کا مسح سر کے پچھلے حصہ سے شروع کیا جائے، لیکن عبداللہ بن زید کی متفق علیہ روایت جو اوپر گزری اس کے معارض اور اس سے زیادہ صحیح ہے، کیونکہ ربیع کی حدیث میں ایک راوی عبداللہ بن محمد بن عقیل متکلم فیہ ہیں اور اگر اس کی صحت مان بھی لی جائے تو ممکن ہے آپ نے بیان جواز کے لیے ایسا بھی کیا ہو۔
۳؎: یہ مرجوح مذہب ہے، راجح سر کے اگلے حصہ ہی سے شروع کرنا ہے، جیسا کہ سابقہ حدیث میں گزرا۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (390)
26. بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ مَسْحَ الرَّأْسِ مَرَّةٌ
26. باب: سر کا مسح صرف ایک بار ہے۔
Chapter: What Has Been Related About Wiping The Head Once
حدیث نمبر: 34
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا بكر بن مضر، عن ابن عجلان، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن الربيع بنت معوذ ابن عفراء، انها رات النبي صلى الله عليه وسلم " يتوضا , قالت: مسح راسه ومسح ما اقبل منه وما ادبر، وصدغيه واذنيه مرة واحدة ". قال: وفي الباب عن علي وجد طلحة بن مصرف بن عمرو. قال ابو عيسى: وحديث الربيع حسن صحيح، وقد روي من غير وجه، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه مسح براسه مرة , والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم، وبه يقول جعفر بن محمد , وسفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق: راوا مسح الراس مرة واحدة. حدثنا محمد بن منصور المكي، قال: سمعت سفيان بن عيينة، يقول: سالت جعفر بن محمد عن مسح الراس: ايجزئ مرة؟ فقال: إي والله.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ، أَنَّهَا رَأَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَتَوَضَّأُ , قَالَتْ: مَسَحَ رَأْسَهُ وَمَسَحَ مَا أَقْبَلَ مِنْهُ وَمَا أَدْبَرَ، وَصُدْغَيْهِ وَأُذُنَيْهِ مَرَّةً وَاحِدَةً ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَدِّ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفِ بْنِ عَمْرٍو. قال أبو عيسى: وَحَدِيثُ الرُّبَيِّعِ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّةً , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، وَبِهِ يَقُولُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ , وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَابْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: رَأَوْا مَسْحَ الرَّأْسِ مَرَّةً وَاحِدَةً. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الْمَكِّيُّ، قَال: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ: سَأَلْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ مَسْحِ الرَّأْسِ: أَيُجْزِئُ مَرَّةً؟ فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ.
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے اپنے سر کا ایک بار مسح کیا، اگلے حصہ کا بھی اور پچھلے حصہ کا بھی اور اپنی دونوں کنپٹیوں اور کانوں کا بھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ربیع رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی اور طلحہ بن مصرف بن عمرو کے دادا (عمرو بن کعب یامی) رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور بھی سندوں سے یہ بات مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح ایک بار کیا،
۴- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور جعفر بن محمد، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی ۲؎ احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،
۵- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد سے سر کے مسح کے بارے میں پوچھا: کیا ایک مرتبہ سر کا مسح کر لینا کافی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں قسم ہے اللہ کی۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: اس باب سے مؤلف ان لوگوں کا رد کرنا چاہتے ہیں جو تین بار مسح کے قائل ہیں۔
۲؎: امام ترمذی نے امام شافعی سے ایسا ہی نقل کیا ہے، مگر بغوی نے نیز تمام شافعیہ نے امام شافعی کے بارے میں تین بار مسح کرنے کا قول نقل کیا ہے، عام شافعیہ کا عمل بھی تین ہی پر ہے، مگر یا تو یہ دیگر اعضاء پر قیاس ہے جو نص صریح کے مقابلہ میں صحیح نہیں ہے، یا کچھ ضعیف حدیثوں سے تمسک ہے (صحیحین کی نیز دیگر احادیث میں صرف ایک پر اکتفاء کی صراحت ہے)۔

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
27. بَابُ مَا جَاءَ أَنَّهُ يَأْخُذُ لِرَأْسِهِ مَاءً جَدِيدًا
27. باب: سر کے مسح کے لیے نیا پانی لینے کا بیان​
Chapter: What Has Been Related About One Taking New Water For (Wiping) His Head
حدیث نمبر: 35
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا عبد الله بن وهب، حدثنا عمرو بن الحارث، عن حبان بن واسع، عن ابيه، عن عبد الله بن زيد، انه راى النبي صلى الله عليه وسلم " توضا، وانه مسح راسه بماء غير فضل يديه ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وروى ابن لهيعة هذا الحديث، عن حبان بن واسع، عن ابيه، عن عبد الله بن زيد، ان النبي صلى الله عليه وسلم توضا وانه مسح راسه بماء غير فضل يديه , ورواية عمرو بن الحارث عن حبان اصح، لانه قد روي من غير وجه هذا الحديث، عن عبد الله بن زيد وغيره، ان النبي صلى الله عليه وسلم اخذ لراسه ماء جديدا , والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم راوا ان ياخذ لراسه ماء جديدا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ حَبَّانَ بْنِ وَاسِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَوَضَّأَ، وَأَنَّهُ مَسَحَ رَأْسَهُ بِمَاءٍ غَيْرِ فَضْلِ يَدَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى ابْنُ لَهِيعَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ حَبَّانَ بْنِ وَاسِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ وَأَنَّهُ مَسَحَ رَأْسَهُ بِمَاءٍ غَيْرِ فَضْلِ يَدَيْهِ , وَرِوَايَةُ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ حَبَّانَ أَصَحُّ، لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَغَيْرِهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ لِرَأْسِهِ مَاءً جَدِيدًا , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ رَأَوْا أَنْ يَأْخُذَ لِرَأْسِهِ مَاءً جَدِيدًا.
عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی کے علاوہ نئے پانی سے اپنے سر کا مسح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابن لھیعہ نے یہ حدیث بسند «حبان بن واسع عن أبیہ» روایت کی ہے کہ عبداللہ بن زید رضی الله عنہ نے کہا: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے سر کا مسح اپنے دونوں ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی سے کیا،
۳- عمرو بن حارث کی روایت جسے انہوں نے حبان سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے ۱؎ کیونکہ اور بھی کئی سندوں سے عبداللہ بن زید وغیرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کے مسح کے لیے نیا پانی لیا،
۴- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، ان کی رائے ہے کہ سر کے مسح کے لیے نیا پانی لیا جائے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 7 (236)، سنن ابی داود/ الطہارة 50 (120)، وانظر أیضا رقم: 28 (تحفة الأشراف: 5307) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مؤلف نے عمرو بن حارث کی روایت کے لیے زیادہ صحیح کا لفظ اس لیے اختیار کیا ہے کہ ابن لہیعہ کی روایت بھی صحیح ہے کیونکہ وہ عبداللہ بن وہب کی روایت سے ہے، اور عبادلہ اربعہ کی روایت ابن لہیعہ سے صحیح ہوتی ہے، لیکن اس روایت میں ابن لہیعہ اکیلے ہیں، اس لیے ان کی روایت عمرو بن حارث کی روایت کے مقابلہ میں شاذ ہے اور عمرو بن حارث کی روایت ہی محفوظ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (111)
28. بَابُ مَا جَاءَ فِي مَسْحِ الأُذُنَيْنِ ظَاهِرِهِمَا وَبَاطِنِهِمَا
28. باب: دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی حصوں کے مسح کرنے کا بیان۔
Chapter: [What Has Been Related About] Wiping The Outside And The Inside Of The Ears
حدیث نمبر: 36
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن محمد بن عجلان، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " مسح براسه واذنيه ظاهرهما وباطنهما ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن الربيع. قال ابو عيسى: وحديث ابن عباس حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم يرون مسح الاذنين ظهورهما وبطونهما.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ ظَاهِرِهِمَا وَبَاطِنِهِمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ الرُّبَيِّعِ. قال أبو عيسى: وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ مَسْحَ الْأُذُنَيْنِ ظُهُورِهِمَا وَبُطُونِهِمَا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کا اور اپنے دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی حصوں کا مسح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ربیع رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے،
۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں کی رائے ہے کہ دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی دونوں حصوں کا مسح کیا جائے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 7 (140)، سنن ابی داود/ الطہارة 52 (137)، سنن النسائی/الطہارة 84 (101، 102)، (تحفة الأشراف: 5978) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس باب اور حدیث سے مؤلف کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ کانوں کے اندورنی حصے کو چہرہ کے ساتھ دھونے اور بیرونی حصے کو سر کے ساتھ مسح کرنے کے قائلین کا رد کریں، اس قول کے قائلین کی دلیل والی حدیث ضعیف ہے، اور نص کے مقابلہ میں قیاس جائز نہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (439)
29. بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الأُذُنَيْنِ مِنَ الرَّأْسِ
29. باب: وضو میں دونوں کانوں کے سر میں داخل ہونے کا بیان​۔
Chapter: What Has Been Related That The Ears Are Part Of The Head
حدیث نمبر: 37
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا حماد بن زيد، عن سنان بن ربيعة، عن شهر بن حوشب، عن ابي امامة، قال: " توضا النبي صلى الله عليه وسلم، فغسل وجهه ثلاثا ويديه ثلاثا ومسح براسه، وقال: الاذنان من الراس ". قال ابو عيسى: قال قتيبة: قال حماد: لا ادري هذا من قول النبي صلى الله عليه وسلم او من قول ابي امامة , قال: وفي الباب عن انس. قال ابو عيسى: هذا حديث ليس إسناده بذاك القائم، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ومن بعدهم ان الاذنين من الراس، وبه يقول: سفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: ما اقبل من الاذنين فمن الوجه وما ادبر فمن الراس , قال إسحاق: واختار ان يمسح مقدمهما مع الوجه ومؤخرهما مع راسه , وقال الشافعي: هما سنة على حيالهما يمسحهما بماء جديد.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سِنَانِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: " تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا وَيَدَيْهِ ثَلَاثًا وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَقَالَ: الْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ قُتَيْبَةُ: قَالَ حَمَّادٌ: لَا أَدْرِي هَذَا مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ مِنْ قَوْلِ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ. قال أبو عيسى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ الْقَائِمِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ أَنَّ الْأُذُنَيْنِ مِنَ الرَّأْسِ، وَبِهِ يَقُولُ: سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَابْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: مَا أَقْبَلَ مِنَ الْأُذُنَيْنِ فَمِنَ الْوَجْهِ وَمَا أَدْبَرَ فَمِنَ الرَّأْسِ , قَالَ إِسْحَاق: وَأَخْتَارُ أَنْ يَمْسَحَ مُقَدَّمَهُمَا مَعَ الْوَجْهِ وَمُؤَخَّرَهُمَا مَعَ رَأْسِهِ , وقَالَ الشَّافِعِيُّ: هُمَا سُنَّةٌ عَلَى حِيَالِهِمَا يَمْسَحُهُمَا بِمَاءٍ جَدِيدٍ.
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا تو اپنا چہرہ تین بار دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوئے اور اپنے سر کا مسح کیا اور فرمایا: دونوں کان سر میں داخل ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- قتیبہ کا کہنا ہے کہ حماد کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ یہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا قول ہے یا ابوامامہ کا،
۲- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۳- اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے،
۴- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور اسی کے قائل سفیان ثوری، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ ہیں ۱؎ اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ کان کے سامنے کا حصہ چہرہ میں سے ہے (اس لیے اسے دھویا جائے) اور پیچھے کا حصہ سر میں سے ہے ۲؎۔ (اس لیے مسح کیا جائے) اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ کان کے سامنے کے حصہ کا مسح چہرہ کے ساتھ کرے (یعنی چہرہ کے ساتھ دھوئے) اور پچھلے حصہ کا سر کے ساتھ ۳؎، شافعی کہتے ہیں کہ دونوں الگ الگ سنت ہیں (اس لیے) دونوں کا مسح نئے پانی سے کرے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 50 (134) سنن ابن ماجہ/الطہارة 53 (444) (تحفة الأشراف: 4887) مسند احمد (5/258، 268) (صحیح) (سند میں دو راوی ”سنان“ اور ”شہر“ ضعیف ہیں، لیکن دیگر احادیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: یہی قول راجح ہے۔
۲؎: یہ شعبی اور حسن بن صالح اور ان کے اتباع کا مذہب ہے۔
۳؎: امام ترمذی نے یہاں صرف تین مذاہب کا ذکر کیا ہے، ان تینوں کے علاوہ اور بھی مذاہب ہیں، انہیں میں سے ایک مذہب یہ ہے کہ دونوں کان چہرے میں سے ہیں، لہٰذا یہ چہرے کے ساتھ دھوئے جائیں گے، اسی طرف امام زہری اور داود ظاہری گئے ہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ انہیں چہرے کے ساتھ دھویا جائے اور سر کے ساتھ ان کا مسح کیا جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (444)
30. بَابُ مَا جَاءَ فِي تَخْلِيلِ الأَصَابِعِ
30. باب: انگلیوں کے (درمیان) خلال کا بیان​۔
Chapter: [What Has Been Related] About Going Between The Fingers
حدیث نمبر: 38
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة , وهناد , قالا: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن ابي هاشم، عن عاصم بن لقيط بن صبرة، عن ابيه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " إذا توضات فخلل الاصابع ". قال: وفي الباب عن ابن عباس , والمستورد وهو: ابن شداد الفهري , وابي ايوب الانصاري. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم انه يخلل اصابع رجليه في الوضوء , وبه يقول احمد , وإسحاق، قال إسحاق: يخلل اصابع يديه ورجليه في الوضوء , وابو هاشم اسمه: إسماعيل بن كثير المكي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , وَهَنَّادٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلِ الْأَصَابِعَ ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , وَالْمُسَتَوْرِدِ وَهُوَ: ابْنُ شَدَّادٍ الْفِهْرِيُّ , وَأبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ. قال أبو عيسى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ يُخَلِّلُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ فِي الْوُضُوءِ , وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، قَالَ إِسْحَاق: يُخَلِّلُ أَصَابِعَ يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ فِي الْوُضُوءِ , وَأَبُو هَاشِمٍ اسْمُهُ: إِسْمَاعِيل بْنُ كَثِيرٍ الْمَكِّيُّ.
لقیط بن صبرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم وضو کرو تو انگلیوں کا خلال کرو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابن عباس، مستورد بن شداد فہری اور ابوایوب انصاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ وضو میں اپنے پیروں کی انگلیوں کا خلال کرے اسی کے قائل احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ وضو میں اپنے دونوں ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کرے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 55 (142) سنن النسائی/الطہارة 71 (87) سنن ابن ماجہ/الطہارة 44 (407) ویأتي عند المؤلف فی الصیام (788) (تحفة الأشراف: 11172) مسند احمد (4/33) سنن الدارمی/الطہارة 34 (732) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دونوں پیروں اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنا واجب ہے، کیونکہ امر کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے، اس بابت انگلیوں کے درمیان پانی پہنچنے نہ پہنچنے میں کوئی فرق نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (448)
حدیث نمبر: 39
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن سعيد وهو الجوهري، حدثنا سعد بن عبد الحميد بن جعفر، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد، عن موسى بن عقبة، عن صالح مولى التوءمة، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا توضات فخلل بين اصابع يديك ورجليك ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ وَهُوَ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلْ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدَيْكَ وَرِجْلَيْكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم وضو کرو تو اپنے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کے بیچ خلال کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 54 (447) (تحفة الأشراف: 5685) (حسن صحیح) (سند میں صالح مولی التوامہ مختلط راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (447)
حدیث نمبر: 40
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن يزيد بن عمرو، عن ابي عبد الرحمن الحبلي، عن المستورد بن شداد الفهري، قال: " رايت النبي صلى الله عليه وسلم إذا توضا دلك اصابع رجليه بخنصره ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث ابن لهيعة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ الْفِهْرِيِّ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَوَضَّأَ دَلَكَ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ بِخِنْصَرِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ.
مستورد بن شداد فہری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ وضو کرتے تو اپنے دونوں پیروں کی انگلیوں کو اپنے «خنصر» (ہاتھ کی چھوٹی انگلی) سے ملتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ابن لھیعہ کے طریق ہی سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 58 (148) سنن ابن ماجہ/الطہارة 54 (446) (تحفة الأشراف: 11256) مسند احمد (4/229) (صحیح) (سند میں عبداللہ بن لھیعہ ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (446)

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.