الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
The Book of Jihad
20. بَابُ: فَضْلِ مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
20. باب: اللہ کے راستے (جہاد) میں جوڑا دینے والے کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: The Virtue Of The One Who Spends On A Pair (Of Things) In The Cause Of Allah, The Mighty And Sublime
حدیث نمبر: 3137
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعد بن إبراهيم، قال: حدثنا عمي، قال: حدثنا ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، ان حميد بن عبد الرحمن اخبره , ان ابا هريرة كان يحدث , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من انفق زوجين في سبيل الله نودي في الجنة , يا عبد الله، هذا خير فمن كان من اهل الصلاة دعي من باب: الصلاة، ومن كان من اهل الجهاد دعي من باب: الجهاد، ومن كان من اهل الصدقة دعي من باب: الصدقة، ومن كان من اهل الصيام دعي من باب: الريان، فقال ابو بكر: يا نبي الله ما على الذي يدعى من تلك الابواب كلها من ضرورة هل يدعى احد من تلك الابواب كلها؟ قال: نعم، وارجو ان تكون منهم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ , أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يُحَدِّثُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ نُودِيَ فِي الْجَنَّةِ , يَا عَبْدَ اللَّهِ، هَذَا خَيْرٌ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَاب: الصَّلَاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَاب: الْجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَاب: الصَّدَقَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَاب: الرَّيَّانِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ مَا عَلَى الَّذِي يُدْعَى مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ كُلِّهَا مِنْ ضَرُورَةٍ هَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ كُلِّهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کے راستے میں جوڑا دے ۱؎، جنت میں (اسے مخاطب کر کے) کہا جائے گا: اللہ کے بندے یہ ہے (تیری) بہتر چیز۔ تو جو کوئی نمازی ہو گا اسے باب صلاۃ (صلاۃ کے دروازہ) سے بلایا جائے گا، اور جو کوئی مجاہد ہو گا اسے باب جہاد (جہاد کے دروازہ) سے بلایا جائے گا، اور جو کوئی صدقہ و خیرات دینے والا ہو گا اسے باب صدقہ (صدقہ و خیرات والے دروازہ) سے پکارا جائے گا، اور جو کوئی اہل صیام میں سے ہو گا اسے باب ریان (سیراب و شاداب دروازہ) سے بلایا جائے گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! اس کی کوئی ضرورت و حاجت نہیں کہ کسی کو ان تمام دروازوں سے بلایا جائے ۲؎ کیا کوئی ان تمام دروازوں سے بھی بلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں لوگوں میں سے ہو گے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2240 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی جو چیز بھی اللہ کے راستے میں دیتا ہے تو دینے والے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جوڑا کی شکل میں دے، یا جوڑا سے مراد نیک عمل کی تکرار ہے۔ ۲؎: کیونکہ جنت میں داخل ہونے کا مقصد تو صرف ایک دروازے سے دخول کی اجازت ہی سے حاصل ہو جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
21. بَابُ: مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا
21. باب: اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے لڑنے والے مجاہد کا بیان۔
Chapter: Whoever Fights So That The Word Of Allah Will Be Supreme
حدیث نمبر: 3138
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا شعبة، ان عمرو بن مرة اخبرهم , قال: سمعت ابا وائل، قال: حدثنا ابو موسى الاشعري، قال: جاء اعرابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: الرجل يقاتل ليذكر، ويقاتل ليغنم، ويقاتل ليرى مكانه، فمن في سبيل الله؟ قال:" من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا، فهو في سبيل الله عز وجل".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ مُرَّةَ أَخْبَرَهُمْ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: الرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُذْكَرَ، وَيُقَاتِلُ لِيَغْنَمَ، وَيُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ، فَمَنْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ:" مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: آدمی لڑتا ہے تاکہ اس کا ذکر اور چرچا ہو ۱؎، لڑتا ہے تاکہ مال غنیمت حاصل کرے، لڑتا ہے تاکہ اللہ کے راستے میں لڑنے والوں میں اس کا مقام و مرتبہ جانا پہچانا جائے تو کس لڑنے والے کو اللہ کے راستے کا مجاہد کہیں گے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے راستے کا مجاہد اسے کہیں گے جو اللہ کا کلمہ ۲؎ بلند کرنے کے لیے لڑے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 45 (2183)، الجہاد 15 (2810)، الخمس 10 (3126)، التوحید 28 (7458)، صحیح مسلم/الإمارة 42 (1904)، سنن ابی داود/الجہاد 26 (2518)، سنن الترمذی/فضائل 16 (1646)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 13 (2783)، (تحفة الأشراف: 8999)، مسند احمد (4/392، 397، 401، 402، 405، 417) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ریاکاری کے ساتھ لڑتا ہے تاکہ لوگوں میں اپنی بہادری کی وجہ سے جانا اور پہچانا جائے۔ ۲؎: یعنی اس کے دین کی بلندی کے لیے لڑے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
22. بَابُ: مَنْ قَاتَلَ لِيُقَالَ فُلاَنٌ جَرِيءٌ
22. باب: بہادر کہلانے کے لیے لڑنے والے کا بیان۔
Chapter: The One Who Fights So That It Will Be Said That So-And-So Was Brave
حدیث نمبر: 3139
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا ابن جريج، قال: حدثنا يونس بن يوسف، عن سليمان بن يسار، قال: تفرق الناس عن ابي هريرة، فقال له قائل من اهل الشام: ايها الشيخ حدثني حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" اول الناس يقضى لهم يوم القيامة ثلاثة: رجل استشهد فاتي به فعرفه نعمه، فعرفها، قال: فما عملت فيها؟ قال: قاتلت فيك حتى استشهدت، قال: كذبت ولكنك قاتلت ليقال فلان جريء، فقد قيل، ثم امر به فسحب على وجهه حتى القي في النار، ورجل تعلم العلم وعلمه، وقرا القرآن فاتي به فعرفه نعمه، فعرفها، قال: فما عملت فيها؟ قال: تعلمت العلم وعلمته، وقرات فيك القرآن، قال: كذبت ولكنك تعلمت العلم، ليقال عالم، وقرات القرآن ليقال قارئ، فقد قيل، ثم امر به، فسحب على وجهه حتى القي في النار، ورجل وسع الله عليه واعطاه من اصناف المال كله، فاتي به فعرفه نعمه، فعرفها، فقال: ما عملت فيها؟ قال: ما تركت من سبيل تحب؟ قال ابو عبد الرحمن: ولم افهم تحب كما اردت ان ينفق فيها إلا انفقت فيها لك قال: كذبت، ولكن ليقال إنه جواد فقد قيل، ثم امر به فسحب على وجهه، فالقي في النار".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ: أَيُّهَا الشَّيْخُ حَدِّثْنِي حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" أَوَّلُ النَّاسِ يُقْضَى لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَةٌ: رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ، فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِيُقَالَ فُلَانٌ جَرِيءٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ، وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ، فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ، وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ، قَالَ: كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ، لِيُقَالَ عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ قَارِئٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ، فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ، فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ؟ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَلَمْ أَفْهَمْ تُحِبُّ كَمَا أَرَدْتُ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنْ لِيُقَالَ إِنَّهُ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ، فَأُلْقِيَ فِي النَّارِ".
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (کی مجلس) سے لوگ جدا ہونے لگے، تو اہل شام میں سے ایک شخص نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: شیخ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث مجھ سے بیان کیجئے، کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: قیامت کے دن پہلے پہل جن لوگوں کا فیصلہ ہو گا، وہ تین (طرح کے لوگ) ہوں گے، ایک وہ ہو گا جو شہید کر دیا گیا ہو گا، اسے لا کر پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی (ان) نعمتوں کی پہچان کروائے گا (جو نعمتیں اس نے انہیں عطا کی تھیں)۔ وہ انہیں پہچان (اور تسلیم کر) لے گا۔ اللہ (اس) سے کہے گا: یہ ساری نعمتیں جو ہم نے تجھے دی تھیں ان میں تم نے کیا کیا وہ کہے گا: میں تیری راہ میں لڑا یہاں تک کہ میں شہید کر دیا گیا۔ اللہ فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے۔ بلکہ تو اس لیے لڑاتا کہ کہا جائے کہ فلاں تو بڑا بہادر ہے چنانچہ تجھے ایسا کہا گیا ۱؎، پھر حکم دیا جائے گا: اسے لے جاؤ تو اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر لے جایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ایک وہ ہو گا جس نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا، اور قرآن پڑھا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا، اللہ (اس سے) کہے گا: ان نعمتوں کا تو نے کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور اسے (دوسروں کو) سکھایا اور تیرے واسطے قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: تو نے جھوٹ اور غلط کہا تو نے تو علم اس لیے سیکھا کہ تجھے عالم کہا جائے تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے چنانچہ تجھے کہا گیا۔ پھر اسے لے جانے کا حکم دیا جائے گا چنانچہ چہرے کے بل گھسیٹ کر اسے لے جایا جائے گا یہاں تک کہ وہ جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ ایک اور شخص ہو گا جسے اللہ تعالیٰ نے بڑی وسعت دی ہو گی طرح طرح کے مال و متاع دیئے ہوں گے اسے حاضر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی عطا کردہ نعمتوں کی پہچان کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا۔ اللہ (اس سے) کہے گا: ان کے شکریہ میں تو نے کیا کیا وہ کہے گا: اے رب! میں نے کوئی جگہ ایسی نہیں چھوڑی جہاں تو پسند کرتا ہے کہ وہاں خرچ کیا جائے۔ مگر میں نے وہاں خرچ نہ کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بکتا ہے، تو نے یہ سب اس لیے کیا کہ تیرے متعلق کہا جائے کہ تو بڑا سخی اور فیاض آدمی ہے چنانچہ تجھے کہا گیا، اسے یہاں سے لے جانے کا حکم دیا جائے گا چنانچہ چہرے کے بل گھسیٹتا ہوا اسے لے جایا جائے گا۔ اور لے جا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں «تحب» (کا مفہوم) جیسا میں چاہتا تھا سمجھ نہ سکا لیکن جو میں نے سمجھا وہ یہ ہے کہ استاذ نے «تحب» کے آگے «أن ينفق فيها» کہا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 43 (1905)، (تحفة الأشراف: 13482)، مسند احمد (2/322، 321) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی تیری جرأت و بہادری کی دنیا میں بڑی تعریفیں ہوئیں اور بڑا چرچا رہا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
23. بَابُ: مَنْ غَزَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَمْ يَنْوِ مِنْ غَزَاتِهِ إِلاَّ عِقَالاً
23. باب: جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرے اور نیت ایک رسی حاصل کرنے کی ہو۔
Chapter: The One Who Fights In The Cause Of Allah, Intending Only To Get An 'Iqal 1
حدیث نمبر: 3140
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن جبلة بن عطية، عن يحيى بن الوليد بن عبادة بن الصامت، عن جده , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من غزا في سبيل الله ولم ينو إلا عقالا، فله ما نوى".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ جَبَلَةَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ جَدِّهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ غَزَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَمْ يَنْوِ إِلَّا عِقَالًا، فَلَهُ مَا نَوَى".
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا، اور کسی اور چیز کی نہیں صرف ایک عقال (اونٹ کی ٹانگیں باندھنے کی رسی) کی نیت رکھی تو اس کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 5120)، مسند احمد (5/315، 320، 329)، سنن الدارمی/الجہاد 24 (2460) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: چونکہ اس کی نیت خالص نہ تھی اس لیے وہ ثواب سے بھی محروم رہے گا، رسی ایک معمولی چیز ہے اس کے حصول کی نیت سے انسان اگر ثواب سے محروم ہو سکتا ہے، تو دین کا کام کرنے والا اگر کسی بڑی چیز کے حصول کی نیت کرے، اور اللہ کی رضا مندی مطلوب نہ ہو تو اس کا کیا حال ہو گا!۔

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 3141
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني هارون بن عبد الله، قال: حدثنا يزيد بن هارون، قال: انبانا حماد بن سلمة، عن جبلة بن عطية، عن يحيى بن الوليد، عن عبادة بن الصامت , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من غزا وهو لا يريد إلا عقالا فله، ما نوى".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ جَبَلَةَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ غَزَا وَهُوَ لَا يُرِيدُ إِلَّا عِقَالًا فَلَهُ، مَا نَوَى".
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جہاد کیا اور اس نے (مال غنیمت میں) صرف عقال (یعنی ایک معمولی چیز) حاصل کرنے کا ارادہ کیا، تو اسے وہی چیز ملے گی جس کا اس نے ارادہ کیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3140 (حسن)»

وضاحت:
۱؎: مزید اسے اور کوئی چیز از روئے ثواب بشکل انعام و اکرام جنت میں حاصل نہ ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: حسن
24. بَابُ: مَنْ غَزَا يَلْتَمِسُ الأَجْرَ وَالذِّكْرَ
24. باب: اجرت اور شہرت کے لیے جہاد کرنے والے کا بیان۔
Chapter: The One Who Fights Seeking Reward And Fame
حدیث نمبر: 3142
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا عيسى بن هلال الحمصي، قال: حدثنا محمد بن حمير، قال: حدثنا معاوية بن سلام، عن عكرمة بن عمار، عن شداد ابي عمار، عن ابي امامة الباهلي، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ارايت رجلا غزا يلتمس الاجر والذكر ماله , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا شيء له" , فاعادها ثلاث مرات، يقول له رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا شيء له" ثم قال:" إن الله لا يقبل من العمل إلا ما كان له خالصا، وابتغي به وجهه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ هِلَالٍ الْحِمْصِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ رَجُلًا غَزَا يَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّكْرَ مَالَهُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا شَيْءَ لَهُ" , فَأَعَادَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، يَقُولُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا شَيْءَ لَهُ" ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا، وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ".
ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور عرض کیا: آپ ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو جہاد کرتا ہے، اور جہاد کی اجرت و مزدوری چاہتا ہے، اور شہرت و ناموری کا خواہشمند ہے، اسے کیا ملے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے کچھ نہیں ہے ۱؎۔ اس نے اپنی بات تین مرتبہ دہرائی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے یہی فرماتے رہے کہ اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اسی کے لیے ہو، اور اس سے اللہ کی رضا مقصود و مطلوب ہو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 4881)، مسند احمد (4/126) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: چونکہ اس کی نیت خالص نہیں تھی اس لیے وہ ثواب سے محروم رہے گا۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
25. بَابُ: ثَوَابِ مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فُوَاقَ نَاقَةٍ
25. باب: اللہ کے راستے (جہاد) میں اونٹنی کا دودھ اتارنے کے لیے ایک بار چھاتی پکڑنے اور چھوڑنے کے درمیان کے وقفہ تک بھی لڑنے والے کا ثواب۔
Chapter: The Reward Of The One Who Fights In The Cause Of Allah For The Length Of Time Between Two Milkings Of A She-Camel
حدیث نمبر: 3143
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا يوسف بن سعيد، قال: سمعت حجاجا، انبانا ابن جريج، قال: حدثنا سليمان بن موسى، قال: حدثنا مالك بن يخامر، ان معاذ بن جبل حدثهم , انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من قاتل في سبيل الله عز وجل من رجل مسلم فواق ناقة، وجبت له الجنة، ومن سال الله القتل من عند نفسه صادقا، ثم مات او قتل، فله اجر شهيد، ومن جرح جرحا في سبيل الله، او نكب نكبة، فإنها تجيء يوم القيامة كاغزر ما كانت لونها كالزعفران، وريحها كالمسك، ومن جرح جرحا في سبيل الله، فعليه طابع الشهداء".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ حَجَّاجًّا، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ يُخَامِرَ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ حَدَّثَهُمْ , أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ فَوَاقَ نَاقَةٍ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، وَمَنْ سَأَلَ اللَّهَ الْقَتْلَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِهِ صَادِقًا، ثُمَّ مَاتَ أَوْ قُتِلَ، فَلَهُ أَجْرُ شَهِيدٍ، وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ نُكِبَ نَكْبَةً، فَإِنَّهَا تَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغْزَرِ مَا كَانَتْ لَوْنُهَا كَالزَّعْفَرَانِ، وَرِيحُهَا كَالْمِسْكِ، وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَعَلَيْهِ طَابَعُ الشُّهَدَاءِ".
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو (مسلمان) شخص اونٹنی دوہنے کے وقت مٹھی بند کرنے اور کھولنے کے درمیان کے وقفہ کے برابر بھی (یعنی ذرا سی دیر کے لیے) اللہ کے راستے میں جہاد کرے، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ اور جو شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے اپنی شہادت کی دعا کرے، پھر وہ مر جائے یا قتل کر دیا جائے تو (دونوں ہی صورتوں میں) اسے شہید کا اجر ملے گا، اور جو شخص اللہ کے راستے میں زخمی ہو جائے یا کسی مصیبت میں مبتلا کر دیا جائے تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے زخم کا رنگ (زخمی ہونے کے وقت) جیسا کچھ تھا، اس سے بھی زیادہ گہرا و نمایاں ہو گا، رنگ زعفران کی طرح اور (اس کا زخم بدنما و بدبودار نہ ہو گا بلکہ اس کی) خوشبو مشک کی ہو گی، اور جو شخص اللہ کے راستے میں زخمی ہوا اس پر شہداء کی مہر ہو گی ۱؎۔ ۱؎: یعنی اس کا شمار شہیدوں میں ہو گا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 42 (2541)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد 19 (1654) مختصرا، 21 (1656)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 15 (2792)، (تحفة الأشراف: 11359)، مسند احمد (5/230، 235، 244)، سنن الدارمی/الجہاد 5 (2439) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
26. بَابُ: ثَوَابِ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
26. باب: اللہ کے راستے (جہاد) میں تیر اندازی کرنے والے کے ثواب کا بیان۔
Chapter: The Reward Of The One Who Shoots An Arrow In The Cause Of Allah, The Mighty And Sublime
حدیث نمبر: 3144
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن عثمان بن سعيد بن كثير، قال: حدثنا بقية، عن صفوان، قال: حدثني سليم بن عامر، عن شرحبيل بن السمط، انه قال لعمرو بن عبسة: يا عمرو: حدثنا حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من شاب شيبة في سبيل الله تعالى، كانت له نورا يوم القيامة، ومن رمى بسهم في سبيل الله تعالى بلغ العدو، او لم يبلغ كان له كعتق رقبة، ومن اعتق رقبة مؤمنة، كانت له فداءه من النار، عضوا بعضو".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ صَفْوَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ: يَا عَمْرُو: حَدِّثْنَا حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى، كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى بَلَغَ الْعَدُوَّ، أَوْ لَمْ يَبْلُغْ كَانَ لَهُ كَعِتْقِ رَقَبَةٍ، وَمَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مُؤْمِنَةً، كَانَتْ لَهُ فِدَاءَهُ مِنَ النَّارِ، عُضْوًا بِعُضْوٍ".
عمرو بن عبسہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اللہ کے راستے میں (جہاد کرتے کرتے) بوڑھا ہو گیا، تو یہ چیز قیامت کے دن اس کے لیے نور بن جائے گی، اور جس نے اللہ کے راستے میں ایک تیر بھی چلایا خواہ دشمن کو لگا ہو یا نہ لگا ہو تو یہ چیز اس کے لیے ایک غلام آزاد کرنے کے درجہ میں ہو گی۔ اور جس نے ایک مومن غلام آزاد کیا تو یہ آزاد کرنا اس کے ہر عضو کے لیے جہنم کی آگ سے نجات دلانے کا فدیہ بنے گا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 10756)، سنن ابی داود/العتق 14 (3966) (قولہ ’’من أعتق‘‘ الخ فحسب)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد 9 (1635) (إلی قولہ: ’’نورا یوم القیامة‘‘)، مسند احمد (4/112، 386) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3145
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا هشام، قال: حدثنا قتادة، عن سالم بن ابي الجعد، عن معدان بن ابي طلحة، عن ابي نجيح السلمي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من بلغ بسهم في سبيل الله، فهو له درجة في الجنة" , فبلغت يومئذ ستة عشر سهما، قال: وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من رمى بسهم في سبيل الله، فهو عدل محرر".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي نَجِيحٍ السَّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ بَلَغَ بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَهُوَ لَهُ دَرَجَةٌ فِي الْجَنَّةِ" , فَبَلَّغْتُ يَوْمَئِذٍ سِتَّةَ عَشَرَ سَهْمًا، قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَهُوَ عِدْلُ مُحَرَّرٍ".
ابونجیح سلمی (عمرو بن عبسہ) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اللہ کے راستے میں ایک تیر لے کر پہنچا، تو وہ اس کے لیے جنت میں ایک درجہ کا باعث بنا تو اس دن میں نے سولہ تیر پہنچائے، راوی کہتے ہیں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا تو (اس کا) یہ تیر چلانا ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/العتق 14 (3965) مطولا، سنن الترمذی/فضائل الجہاد 11 (1638) مختصراً، (تحفة الأشراف: 10768)، مسند احمد (4/113، 384) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3146
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا ابو معاوية، قال: حدثنا الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن سالم بن ابي الجعد، عن شرحبيل بن السمط، قال لكعب بن مرة: يا كعب حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واحذر، قال: سمعته يقول:" من شاب شيبة في الإسلام في سبيل الله، كانت له نورا يوم القيامة، قال له: حدثنا عن النبي صلى الله عليه وسلم واحذر، قال: سمعته يقول:" ارموا، من بلغ العدو بسهم رفعه الله به درجة" , قال ابن النحام: يا رسول الله وما الدرجة؟ قال:" اما إنها ليست بعتبة امك، ولكن ما بين الدرجتين مائة عام".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ، قَالَ لِكَعْبِ بْنِ مُرَّةَ: يَا كَعْبُ حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ لَهُ: حَدِّثْنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" ارْمُوا، مَنْ بَلَغَ الْعَدُوَّ بِسَهْمٍ رَفَعَهُ اللَّهُ بِهِ دَرَجَةً" , قَالَ ابْنُ النَّحَّامِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الدَّرَجَةُ؟ قَالَ:" أَمَا إِنَّهَا لَيْسَتْ بِعَتَبَةِ أُمِّكَ، وَلَكِنْ مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ مِائَةُ عَامٍ".
شرحبیل بن سمط سے روایت ہے کہ انہوں نے کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کعب! ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کیجئے، لیکن دیکھئیے اس میں کوئی کمی و بیشی اور فرق نہ ہونے پائے۔ انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو مسلمان اسلام پر قائم رہتے ہوئے اللہ کے راستے میں بوڑھا ہوا تو قیامت کے دن یہی چیز اس کے لیے نور بن جائے گی، انہوں نے (پھر) ان سے کہا: ہم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی (کوئی اور) حدیث بیان کیجئے، لیکن (ڈر کر اور بچ کر) بے کم و کاست (سنائیے)۔ انہوں نے کہا: میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: (دشمن کو) تیر مارو، جس کا تیر دشمن کو لگ گیا تو اس کے سبب اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا، (یہ سن کر) ابن النحام نے کہا: اللہ کے رسول! وہ درجہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: (سن) وہ تمہاری ماں کی چوکھٹ نہیں ہے (جس کا فاصلہ بہت کم ہے) بلکہ ایک درجہ سے لے کر دوسرے درجہ کے درمیان سو سال کی مسافت کا فاصلہ ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/العتق 14 (3967)، سنن ابن ماجہ/العتق 4 (2522)، (تحفة الأشراف: 11163)، مسند احمد (4/235-236) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.