الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
حدیث نمبر: 3004
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو السائب سلم بن جنادة بن سلم الكوفي، حدثنا احمد بن بشير، عن عمر بن حمزة، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم احد: " اللهم العن ابا سفيان، اللهم العن الحارث بن هشام، اللهم العن صفوان بن امية، قال: فنزلت: ليس لك من الامر شيء او يتوب عليهم او يعذبهم سورة آل عمران آية 128 فتاب الله عليهم فاسلموا فحسن إسلامهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب يستغرب من حديث عمر بن حمزة، عن سالم، عن ابيه، وقد رواه الزهري، عن سالم، عن ابيه، لم يعرفه محمد بن إسماعيل من حديث عمر بن حمزة، وعرفه من حديث الزهري.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ بْنِ سَلْمٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ: " اللَّهُمَّ الْعَنْ أَبَا سُفْيَانَ، اللَّهُمَّ الْعَنْ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ، اللَّهُمَّ الْعَنْ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ، قَالَ: فَنَزَلَتْ: لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ سورة آل عمران آية 128 فَتَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَأَسْلَمُوا فَحَسُنَ إِسْلَامُهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، لَمْ يَعْرِفْهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ، وَعَرَفَهُ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن فرمایا: اے اللہ! لعنت نازل فرما ابوسفیان پر، اے اللہ! لعنت نازل فرما حارث بن ہشام پر، اے اللہ! لعنت نازل فرما صفوان بن امیہ پر، تو آپ پر یہ آیت «ليس لك من الأمر شيء أو يتوب عليهم أو يعذبهم» نازل ہوئی۔ تو اللہ نے انہیں توبہ کی توفیق دی، انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلام بہترین اسلام ثابت ہوا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- یہ روایت «عمر بن حمزة عن سالم عن أبيه» کے طریق سے غریب ہے،
۳- زہری نے بھی اسے سالم سے اور انہوں نے بھی اپنے باپ سے روایت کیا ہے،
۴- محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو عمر بن حمزہ کی روایت سے نہیں جانا بلکہ زہری کی روایت سے جانا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وراجع: صحیح البخاری/المغازي 21 (4069) (تحفة الأشراف: 6780) (صحیح) (سند میں عمر بن حمزہ بن عبد اللہ بن عمر ضعیف راوی ہیں، لیکن بخاری کی مذکورہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3005
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن حبيب بن عربي البصري، حدثنا خالد ابن الحارث، عن محمد بن عجلان، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كان يدعو على اربعة نفر فانزل الله تبارك وتعالى: ليس لك من الامر شيء او يتوب عليهم او يعذبهم فإنهم ظالمون سورة آل عمران آية 128 فهداهم الله للإسلام "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح يستغرب من هذا الوجه من حديث نافع، عن ابن عمر، ورواه يحيى بن ايوب، عن ابن عجلان.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ ابْنُ الْحَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَدْعُو عَلَى أَرْبَعَةِ نَفَرٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ سورة آل عمران آية 128 فَهَدَاهُمُ اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَرَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار افراد کے لیے بدعا فرماتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے آیت: «ليس لك من الأمر شيء أو يتوب عليهم أو يعذبهم فإنهم ظالمون» نازل فرمائی۔ پھر اللہ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی ہدایت و توفیق بخش دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ یعنی: اس سند سے بطریق «نافع عن ابن عمر»
۲- اس حدیث کو یحییٰ بن ایوب نے بھی ابن عجلان سے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وراجع: صحیح البخاری/المغازي 21 (4069، 4070) (تحفة الأشراف: 8436) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
حدیث نمبر: 3006
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن عثمان بن المغيرة، عن علي بن ربيعة، عن اسماء بن الحكم الفزاري، قال: سمعت عليا، يقول: إني كنت رجلا إذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا نفعني الله منه بما شاء ان ينفعني، وإذا حدثني رجل من اصحابه استحلفته، فإذا حلف لي صدقته، وإنه حدثني ابو بكر وصدق ابو بكر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من رجل يذنب ذنبا ثم يقوم فيتطهر، ثم يصلي ثم يستغفر الله إلا غفر له، ثم قرا هذه الآية والذين إذا فعلوا فاحشة او ظلموا انفسهم ذكروا الله فاستغفروا سورة آل عمران آية 135 إلى آخر الآية "، قال ابو عيسى: هذا حديث قد رواه شعبة وغير واحد، عن عثمان بن المغيرة، فرفعوه ورواه مسعر، وسفيان، عن عثمان بن المغيرة فلم يرفعاه، وقد رواه بعضهم، عن مسعر فاوقفه ورفعه بعضهم، ورواه سفيان الثوري، عن عثمان بن المغيرة فاوقفه، ولا نعرف لاسماء بن الحكم حديثا إلا هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ الْفَزَارِيِّ، قَال: سَمِعْتُ عَلِيًّا، يَقُولُ: إِنِّي كُنْتُ رَجُلًا إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا نَفَعَنِي اللَّهُ مِنْهُ بِمَا شَاءَ أَنْ يَنْفَعَنِي، وَإِذَا حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ اسْتَحْلَفْتُهُ، فَإِذَا حَلَفَ لِي صَدَّقْتُهُ، وَإِنَّهُ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ يَقُومُ فَيَتَطَهَّرُ، ثُمَّ يُصَلِّي ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ لَهُ، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا سورة آل عمران آية 135 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، فَرَفَعُوهُ وَرَوَاهُ مِسْعَرٌ، وَسُفْيَانُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَلَمْ يَرْفَعَاهُ، وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ مِسْعَرٍ فَأَوْقَفَهُ وَرَفَعَهُ بَعْضُهُمْ، وَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَأَوْقَفَهُ، وَلَا نَعْرِفُ لِأَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ حَدِيثًا إِلَّا هَذَا.
اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا: جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنی تو اللہ نے مجھے جتنا فائدہ پہنچانا چاہا پہنچایا، اور جب مجھ سے آپ کا کوئی صحابی حدیث بیان کرتا تو میں اسے قسم کھلاتا پھر جب وہ میرے کہنے سے قسم کھا لیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا۔ اور بیشک مجھ سے ابوبکر رضی الله عنہ نے حدیث بیان کی اور بالکل سچ بیان کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا جو کوئی بھی شخص کوئی گناہ کرتا ہے پھر وہ کھڑا ہوتا ہے پھر پاکی حاصل کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے، اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ اسے بخش دیتا ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کو شعبہ اور دیگر کئی لوگوں نے عثمان بن مغیرہ سے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے اسے مرفوع روایت کیا ہے جب کہ مسعر اور سفیان نے عثمان بن مغیرہ سے روایت کیا ہے لیکن ان دونوں نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا۔ اور بعض لوگوں نے اسے مسعر سے موقوفاً روایت کیا ہے۔ اور بعض لوگوں نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ اور سفیان ثوری نے عثمان بن مغیرہ سے موقوفاً روایت کیا ہے،
۲- اسماء بن حکم سے اس روایت کے سوا کوئی دوسری روایت ہم نہیں جانتے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 406 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں (آل عمران: ۱۳۵)۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1359)
حدیث نمبر: 3007
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا روح بن عبادة، عن حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس، عن ابي طلحة، قال: " رفعت راسي يوم احد فجعلت انظر، وما منهم يومئذ احد إلا يميد تحت حجفته من النعاس، فذلك قوله عز وجل: ثم انزل عليكم من بعد الغم امنة نعاسا سورة آل عمران آية 154 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، حدثنا عبد بن حميد.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: " رَفَعْتُ رَأْسِي يَوْمَ أُحُدٍ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ، وَمَا مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ إِلَّا يَمِيدُ تَحْتَ حَجَفَتِهِ مِنَ النُّعَاسِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا سورة آل عمران آية 154 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ.
ابوطلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ احد کی لڑائی کے دن میں اپنا سر بلند کر کے (ادھر ادھر) دیکھنے لگا، اس دن کوئی ایسا نہ تھا جس کا سر نیند سے (بوجھل) اپنے سینے کے نیچے جھکا نہ جا رہا ہو، اللہ تعالیٰ کے قول «ثم أنزل عليكم من بعد الغم أمنة نعاسا» ۱؎ کا مفہوم و مراد یہی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 21 (4068)، وتفسیر آل عمران 11 (4562) (تحفة الأشراف: 3771) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: پھر اس نے اس غم کے بعد تم پر امن نازل فرمایا اور تم میں ایک جماعت کو چین کی نیند آنے لگی (آل عمران: ۱۵۴)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3007M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا روح بن عبادة، عن حماد بن سلمة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن الزبير، مثله، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عَبَادَةَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الزُّبَيْرِ، مِثْلَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبد بن حمید نے زبیر رضی الله عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3641) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3008
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا يوسف بن حماد، حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى، عن سعيد، عن قتادة، عن انس، ان ابا طلحة، قال: " غشينا ونحن في مصافنا يوم احد، حدث انه كان فيمن غشيه النعاس يومئذ، قال: فجعل سيفي يسقط من يدي وآخذه، ويسقط من يدي وآخذه، والطائفة الاخرى المناقدون ليس لهم هم إلا انفسهم، اجبن قوم وارعبه واخذله للحق "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ، قَالَ: " غُشِينَا وَنَحْنُ فِي مَصَافِّنَا يَوْمَ أُحُدٍ، حَدَّثَ أَنَّهُ كَانَ فِيمَنْ غَشِيَهُ النُّعَاسُ يَوْمَئِذٍ، قَالَ: فَجَعَلَ سَيْفِي يَسْقُطُ مِنْ يَدِي وَآخُذُهُ، وَيَسْقُطُ مِنْ يَدِي وَآخُذُهُ، وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى الْمُنَاقِدُونَ لَيْسَ لَهُمْ هَمٌّ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ، أَجْبَنُ قَوْمٍ وَأَرْعَبُهُ وَأَخْذَلُهُ لِلْحَقِّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ ہم جنگ احد میں اپنی صف (پوزیشن) میں تھے اور ہم پر غنودگی طاری ہو گئی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اس دن غنودگی (نیند) نے آ گھیرا تھا، حالت یہ ہو گئی تھی کہ تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹی جا رہی تھی، میں اسے پکڑ رہا تھا اور میرے ہاتھ سے گری جا رہی تھی، میں اسے سنبھال رہا تھا۔ دوسرا گروہ منافقوں کا تھا جنہیں صرف اپنی جانوں کی حفاظت کی فکر تھی، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ بزدل، سب سے زیادہ مرعوب ہو جانے والے (ڈرپوک) اور حق کا سب سے زیادہ ساتھ چھوڑنے والے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3007 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3009
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الواحد بن زياد، عن خصيف، حدثنا مقسم، قال: قال ابن عباس: " نزلت هذه الآية وما كان لنبي ان يغل سورة آل عمران آية 161 في قطيفة حمراء افتقدت يوم بدر، فقال بعض الناس: لعل رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذها، فانزل الله وما كان لنبي ان يغل سورة آل عمران آية 161 إلى آخر الآية "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد روى عبد السلام بن حرب، عن خصيف نحو هذا، وروى بعضهم هذا الحديث عن خصيف، عن مقسم، ولم يذكر فيه عن ابن عباس.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، حَدَّثَنَا مِقْسَمٌ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ سورة آل عمران آية 161 فِي قَطِيفَةٍ حَمْرَاءَ افْتُقِدَتْ يَوْمَ بَدْرٍ، فَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ سورة آل عمران آية 161 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خُصَيْفٍ نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما ارشاد باری «ما كان لنبي أن يغل» کے بارے میں کہتے ہیں: جنگ بدر کے دن (مال غنیمت میں آئی ہوئی) ایک سرخ رنگ کی چادر کھو گئی، بعض لوگوں نے کہا: شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لی ہو تو آیت: «ما كان لنبي أن يغل» ۱؎ نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- عبدالسلام بن حرب نے خصیف سے اسی جیسی روایت کی ہے،
۳- اور بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق: «خصيف عن مقسم» روایت کی ہے، لیکن ان لوگوں نے اس روایت میں ابن عباس رضی الله عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحروف 3 (3971) (تحفة الأشراف: 6487) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ناممکن ہے کہ نبی سے خیانت ہو جائے، ہر خیانت کرنے والا خیانت کو لیے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہو گا، پھر ہر شخص کو اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور وہ ظلم نہ کئے جائیں گے (آل عمران: ۱۶۱)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2788)
حدیث نمبر: 3010
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(قدسي) حدثنا يحيى بن حبيب بن عربي، حدثنا موسى بن إبراهيم بن كثير الانصاري، قال: سمعت طلحة بن خراش، قال: سمعت جابر بن عبد الله، يقول: لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي: " يا جابر، ما لي اراك منكسرا؟ قلت: يا رسول الله، استشهد ابي، قتل يوم احد وترك عيالا ودينا، قال: افلا ابشرك بما لقي الله به اباك؟ قال: قلت: بلى يا رسول الله، قال: ما كلم الله احدا قط إلا من وراء حجاب، واحيا اباك فكلمه كفاحا، فقال: يا عبدي، تمن علي اعطك، قال: يا رب، تحييني فاقتل فيك ثانية، قال الرب عز وجل: إنه قد سبق مني انهم إليها لا يرجعون، قال: وانزلت هذه الآية ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا سورة آل عمران آية 169 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، ولا نعرفه إلا من حديث موسى بن إبراهيم، ورواه علي بن عبد الله بن المديني وغير واحد من كبار اهل الحديث، هكذا عن موسى بن إبراهيم، وقد روى عبد الله بن محمد بن عقيل، عن جابر شيئا من هذا.(قدسي) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ، قَال: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، قَال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: " يَا جَابِرُ، مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتُشْهِدَ أَبِي، قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، قَالَ: أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا، فَقَالَ: يَا عَبْدِي، تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ، قَالَ: يَا رَبِّ، تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً، قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ، قَالَ: وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا سورة آل عمران آية 169 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَرَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، هَكَذَا عَنْ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرٍ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اور فرمایا: جابر! کیا بات ہے میں تجھے شکستہ دل دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد شہید کر دیئے گئے، جنگ احد میں ان کے قتل کا سانحہ پیش آیا، اور وہ بال بچے اور قرض چھوڑ گئے ہیں، آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے ملاقات کے وقت کہا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر پردہ کے کلام نہیں کیا (لیکن) اس نے تمہارے باپ کو زندہ کیا، پھر ان سے (بغیر پردہ کے) آمنے سامنے بات کی، کہا: اے میرے بندے! مجھ سے کسی چیز کے حاصل کرنے کی تمنا و آرزو کر، میں تجھے دوں گا، انہوں نے کہا: رب! مجھے دوبارہ زندہ فرما، تاکہ میں تیری راہ میں دوبارہ شہید کیا جاؤں، رب عزوجل نے فرمایا: میری طرف سے یہ فیصلہ پہلے ہو چکا ہے «أنهم إليها لا يرجعون» کہ لوگ دنیا میں دوبارہ نہ بھیجے جائیں گے، راوی کہتے ہیں: آیت «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا» ۱؎ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- عبداللہ بن محمد بن عقیل نے اس حدیث کا کچھ حصہ جابر سے روایت کیا ہے،
۳- اور اس حدیث کو ہم صرف موسیٰ بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں،
۴- اسے علی بن عبداللہ بن مدینی اور کئی بڑے محدثین نے موسیٰ بن ابراہیم کے واسطہ سے ایسے ہی روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (190)، والجھاد 16 (2800) (تحفة الأشراف: 2287) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے تم ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس، روزی پاتے ہیں۔ (آل عمران: ۱۶۹)

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (190 - 2800)
حدیث نمبر: 3011
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن مسعود، انه سئل عن قوله: " ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا بل احياء عند ربهم يرزقون سورة آل عمران آية 169، فقال: اما إنا قد سالنا عن ذلك فاخبرنا، ان ارواحهم في طير خضر تسرح في الجنة حيث شاءت وتاوي إلى قناديل معلقة بالعرش، فاطلع إليهم ربك اطلاعة، فقال: هل تستزيدون شيئا فازيدكم؟ قالوا: ربنا وما نستزيد ونحن في الجنة نسرح حيث شئنا، ثم اطلع إليهم الثانية فقال: هل تستزيدون شيئا فازيدكم؟ فلما راوا انهم لم يتركوا قالوا: تعيد ارواحنا في اجسادنا حتى نرجع إلى الدنيا فنقتل في سبيلك مرة اخرى "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ: " وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ سورة آل عمران آية 169، فَقَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ فَأُخْبِرْنَا، أَنَّ أَرْوَاحَهُمْ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ وَتَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ بِالْعَرْشِ، فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّكَ اطِّلَاعَةً، فَقَالَ: هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ؟ قَالُوا: رَبَّنَا وَمَا نَسْتَزِيدُ وَنَحْنُ فِي الْجَنَّةِ نَسْرَحُ حَيْثُ شِئْنَا، ثُمَّ اطَّلَعَ إِلَيْهِمُ الثَّانِيَةَ فَقَالَ: هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ؟ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَمْ يُتْرَكُوا قَالُوا: تُعِيدُ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فَنُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان سے آیت «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون» کی تفسیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا: لوگو! سن لو، ہم نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) اس کی تفسیر پوچھی تھی تو ہمیں بتایا گیا کہ شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں ہیں، جنت میں جہاں چاہتی گھومتی پھرتی ہیں اور شام میں عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں۔ ایک بار تمہارے رب نے انہیں جھانک کر ایک نظر دیکھا اور پوچھا: تمہیں کوئی چیز مزید چاہیئے تو میں عطا کروں؟ انہوں نے کہا: رب! ہمیں مزید کچھ نہیں چاہیئے۔ ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں گھومتی ہیں۔ پھر (ایک دن) دوبارہ اللہ نے ان کی طرف جھانکا اور فرمایا: کیا تمہیں مزید کچھ چاہیئے تو میں عطا کر دوں؟ جب انہوں نے دیکھا کہ (اللہ دینے پر ہی تلا ہوا ہے، بغیر مانگے اور لیے) چھٹکارا نہیں ہے تو انہوں نے کہا: ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں دوبارہ لوٹا دے، تاکہ ہم دنیا میں واپس چلے جائیں۔ پھر تیری راہ میں دوبارہ قتل کئے جائیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة (1887)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 16 (2801) (تحفة الأشراف: 9570)، وسنن الدارمی/الجھاد 19 (2454) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: (حديث مسروق عن عبد الله بن مسعود) صحيح، (حديث أبي عبيدة عن عبد الله بن مسعود الذي فيه زيادة) ضعيف الإسناد، ابن ماجة (2801)
حدیث نمبر: 3011M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عطاء بن السائب، عن ابي عبيدة، عن ابن مسعود مثله، وزاد فيه " وتقرئ نبينا السلام وتخبره عنا انا قد رضينا ورضي عنا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ مِثْلَهُ، وَزَادَ فِيهِ " وَتُقْرِئُ نَبِيَّنَا السَّلَامَ وَتُخْبِرُهُ عَنَّا أَنَّا قَدْ رَضِينَا وَرُضِيَ عَنَّا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
اس سند سے ابن ابی عمر نے ابن مسعود سے اسی طرح روایت کی، مگر اس میں اتنا اضافہ کیا کہ ہمارا سلام ہمارے نبی سے کہہ دیں اور یہ بھی بتا دیں کہ ہم (اپنے رب سے) راضی و خوش ہیں اور وہ ہم سے راضی و خوش ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ (یعنی: اوپر والی سند سے، کیونکہ دوسری سند میں انقطاع ہے)۔

تخریج الحدیث: «(ضعیف الإسناد) (عطاء بن السائب صدوق لیکن مختلط راوی ہیں، اور ابو عبیدہ کا لقاء اپنے والد عبداللہ بن مسعود سے نہیں ہے)»

قال الشيخ الألباني: (حديث مسروق عن عبد الله بن مسعود) صحيح، (حديث أبي عبيدة عن عبد الله بن مسعود الذي فيه زيادة) ضعيف الإسناد، ابن ماجة (2801)

Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.