صحيح مسلم سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
ترقيم عبدالباقی
عربی
اردو
46. باب إعطاء المؤلفة قلوبهم على الإسلام وتصبر من قوي إيمانه:
باب: قوی الایمان لوگوں کو صبر کی تلقین۔
ترقیم عبدالباقی: 1059 ترقیم شاملہ: -- 2436
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ أُنَاسًا مِنْ الْأنْصَارِ قَالُوا يَوْمَ حُنَيْنٍ حِينَ أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ مَا أَفَاءَ، فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي رِجَالًا مِنْ قُرَيْشٍ الْمِائَةَ مِنَ الْإِبِلِ، فَقَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَتْرُكُنَا، وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَحُدِّثَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِهِمْ، فَأَرْسَلَ إِلَى الْأَنْصَارِ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا جَاءَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟ " فَقَالَ لَهُ فُقَهَاءُ الْأَنْصَارِ: أَمَّا ذَوُو رَأْيِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يَقُولُوا شَيْئًا، وَأَمَّا أُنَاسٌ مِنَّا حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ قَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ يُعْطِي قُرَيْشًا، وَيَتْرُكُنَا وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنِّي أُعْطِي رِجَالًا حَدِيثِي عَهْدٍ بِكُفْرٍ أَتَأَلَّفُهُمْ، أَفَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ، وَتَرْجِعُونَ إِلَى رِحَالِكُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ لَمَا تَنْقَلِبُونَ بِهِ خَيْرٌ مِمَّا يَنْقَلِبُونَ بِهِ "، فَقَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ رَضِينَا، قَالَ: " فَإِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ أَثَرَةً شَدِيدَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْا اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنِّي عَلَى الْحَوْضِ "، قَالُوا: سَنَصْبِرُ،
یونس نے ابن شہاب (زہری) سے خبر دی، کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ حنین کے دن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فے (قبیلہ) ہوازن کے وہ اموال عطا کیے جو عطا کیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں کو سو سو اونٹ دینے شروع کیے تو انصار میں سے کچھ لوگوں نے کہا: اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے! آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواریں (ابھی تک) ان کے خون کے قطرے ٹپکا رہی ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کی باتوں میں سے یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئیں تو آپ نے انصار کو بلوا بھیجا اور انہیں چمڑے کے ایک (بڑے) سائبان (کے سائے) میں جمع کیا، جب وہ سب اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”یہ کیا بات ہے جو مجھے تم لوگوں کی طرف سے پہنچی ہے؟“ انصار کے سمجھدار لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہمارے اہل رائے تو کچھ نہیں کہتے، البتہ ہم میں سے ان لوگوں نے، جو نو عمر ہیں، یہ بات کہی ہے کہ اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے، وہ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کر رہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواریں (ابھی تک) ان کے خون کے قطرے ٹپکا رہی ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ان کو دے رہا ہوں جو کچھ عرصہ قبل تک کفر پر تھے، ایسے لوگوں کی تالیف قلب کرنا چاہتا ہوں، کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ لوگ مال و دولت لے جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گھروں کی طرف لوٹو؟ اللہ کی قسم! جو کچھ تم لے کر واپس جا رہے ہو وہ اس سے بہت بہتر ہے جسے وہ لوگ لے کر لوٹ رہے ہیں۔“ تو (انصار) کہنے لگے: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! ہم (بالکل) راضی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک تم (اپنی نسبت دوسروں کو) بہت زیادہ ترجیح ملتی دیکھو گے تو تم (اس پر) صبر کرنا یہاں تک کہ تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آملو۔ میں حوض پر ہوں گا (وہیں ملاقات ہو گی۔)“ انصار نے کہا: ہم (ہر صورت میں) صبر کریں گے۔ [صحيح مسلم/كتاب الزكاة/حدیث: 2436]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حنین کےدن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ہوازن کے بہت سے اموال بطور فئے عنائت فرمائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریشی سرداروں کو سوسو اونٹ دینے لگے تو کچھ انصاروں نے کہا: اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے! آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواریں ان کے خونوں سے ٹپک رہی ہیں۔ یعنی ہماری تلواریں ان کے خونوں سے رنگین ہیں وہ کافر تھے۔ اور ہم مسلمان۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی گفتگو بتائی گئی تو آپ نے انصار کو بلوا بھیجا اور انھیں چمڑے کے خیمے میں جمع کیا، جب وہ سب اکھٹے ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے تمہارے بارے میں مجھے پہنچی ہے؟“ انصار کے سمجھدار لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے اہل رائے تو کوئی بات نہیں کی، لیکن ہمارے نو عمر جوانوں نے کہا۔ اللہ اپنے رسول کو معاف فرمائے، وہ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کر رہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان کے خون ٹپک رہے ہیں۔ (اسلام کی خاطر) ان سے جنگیں کرتے رہے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایسے لوگوں کو جو نئے نئے کفر سے نکلےہیں، ان کی تالیف قلب کے لیے (اسلام پر جمانے کے لیے) دیتا ہوں، کیا تم اس پر راضی اور مطمئن نہیں ہو کہ لوگ مال ودولت لے جائیں اور تم اپنے گھروں کی طرف لے کر گھروں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر لوٹو؟ اللہ کی قسم! جو کچھ تم لے کر لوٹ رہے ہو وہ اس سے بہت بہتر ہے جو وہ لے کر لوٹ رہے ہیں۔“ تو (انصار) نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم راضی اور مطمئن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک تم بہت زیادہ اپنے اوپر ترجیح پاؤ گے (تمہیں نظر انداز کر کے دوسروں کو آگے بڑھایا جائے گا) تو صبرکرنا یہاں تک کہ تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملو۔ بے شک میں حوض پرہوں گا“ انصار نے کہا: ہم ضرور صبر کریں گے۔ [صحيح مسلم/كتاب الزكاة/حدیث: 2436]
ترقیم فوادعبدالباقی: 1059
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
الرواة الحديث:
اسم الشهرة | الرتبة عند ابن حجر/ذهبي | أحاديث |
|---|---|---|
| 👤←👥أنس بن مالك الأنصاري، أبو حمزة، أبو النضر | صحابي | |
👤←👥محمد بن شهاب الزهري، أبو بكر محمد بن شهاب الزهري ← أنس بن مالك الأنصاري | الفقيه الحافظ متفق على جلالته وإتقانه | |
👤←👥يونس بن يزيد الأيلي، أبو يزيد، أبو بكر يونس بن يزيد الأيلي ← محمد بن شهاب الزهري | ثقة | |
👤←👥عبد الله بن وهب القرشي، أبو محمد عبد الله بن وهب القرشي ← يونس بن يزيد الأيلي | ثقة حافظ | |
👤←👥حرملة بن يحيى التجيبي، أبو حفص حرملة بن يحيى التجيبي ← عبد الله بن وهب القرشي | صدوق حسن الحديث |
تخريج الحديث:
کتاب | نمبر | مختصر عربی متن |
|---|---|---|
صحيح البخاري |
4333
| أما ترضون أن يذهب الناس بالشاة والبعير وتذهبون برسول الله لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لاخترت شعب الأنصار |
صحيح البخاري |
2376
| أراد النبي أن يقطع من البحرين فقالت الأنصار حتى تقطع لإخواننا من المهاجرين مثل الذي تقطع لنا سترون بعدي أثرة فاصبروا حتى تلقوني |
صحيح البخاري |
3146
| أعطي قريشا أتألفهم لأنهم حديث عهد بجاهلية |
صحيح البخاري |
3778
| أولا ترضون أن يرجع الناس بالغنائم إلى بيوتهم وترجعون برسول الله إلى بيوتكم لو سلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم |
صحيح البخاري |
4334
| قريشا حديث عهد بجاهلية ومصيبة وإني أردت أن أجبرهم وأتألفهم أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا وترجعون برسول الله إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعب الأنصار |
صحيح البخاري |
4337
| ألا ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون برسول الله تحوزونه إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لأخذت شعب الأنصار |
صحيح البخاري |
3147
| أما ترضون أن يذهب الناس بالأموال وترجعوا إلى رحالكم برسول الله فوالله ما تنقلبون به خير مما ينقلبون به قالوا بلى يا رسول الله قد رضينا سترون بعدي أثرة شديدة فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله على الحوض |
صحيح البخاري |
4332
| أما ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون برسول الله قالوا بلى لو سلك الناس واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم |
صحيح البخاري |
4331
| أعطي رجالا حديثي عهد بكفر أتألفهم أما ترضون أن يذهب الناس بالأموال وتذهبون بالنبي إلى رحالكم فوالله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به قالوا يا رسول الله قد رضينا ستجدون أثرة شديدة فاصبروا |
صحيح مسلم |
2440
| أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا إلى بيوتهم وترجعون برسول الله إلى بيوتكم لو سلك الناس واديا أو شعبا وسلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعب الأنصار |
صحيح مسلم |
2436
| أفلا ترضون أن يذهب الناس بالأموال وترجعون إلى رحالكم برسول الله فوالله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به فقالوا بلى يا رسول الله قد رضينا ستجدون أثرة شديدة فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله إني على الحوض |
صحيح مسلم |
2441
| أما ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون بمحمد تحوزونه إلى بيوتكم قالوا بلى يا رسول الله رضينا لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لأخذت شعب الأنصار |
جامع الترمذي |
3901
| قريشا حديث عهدهم بجاهلية ومصيبة وإني أردت أن أجبرهم وأتألفهم أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا وترجعون برسول الله إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا أو شعبا وسلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم |
مسندالحميدي |
1229
| إنكم سترون بعدي أثرة، فاصبروا حتى تلقوني |
مسندالحميدي |
1235
| لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لسلكت شعب الأنصار، ولولا الهجرة لكنت امرأ من الأنصار، الأنصار كرشي، وعيبتي، فأحسنوا إلى محسنهم، وتجاوزوا عن مسيئهم |
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2436 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2436
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
سُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ:
عربی محاورہ ہے جس میں مبالغہ مطلوب ہوتا ہے۔
لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ہماری تلواریں ان کے خونوں سے ٹپک رہی ہیں مگر مقصود ہوتا ہے ان کے خون ہماری تلواروں سے رواں دواں ہیں ہماری تلواریں ان کے خونوں سے رنگین ہیں۔
مفردات الحدیث:
سُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ:
عربی محاورہ ہے جس میں مبالغہ مطلوب ہوتا ہے۔
لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ہماری تلواریں ان کے خونوں سے ٹپک رہی ہیں مگر مقصود ہوتا ہے ان کے خون ہماری تلواروں سے رواں دواں ہیں ہماری تلواریں ان کے خونوں سے رنگین ہیں۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2436]
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3901
انصار اور قریش کے فضائل کا بیان
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: ”کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: ”قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے“، پھر آپ نے فرمایا: ”قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3901]
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: ”کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: ”قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے“، پھر آپ نے فرمایا: ”قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3901]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے،
جس کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطورتالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا،
اسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جمع کر کے یہ اردشاد فرمایا۔
وضاحت:
1؎:
یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے،
جس کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطورتالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا،
اسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جمع کر کے یہ اردشاد فرمایا۔
[سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3901]
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1229
1229- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ انصاریوں کو بلایا، تاکہ انہیں بحرین میں کچھ قطعۂ اراضی عطا کریں، تو انہوں نے عرض کی: ہم یہ اس وقت تک نہیں لیں گے، جب تک ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اس کی مانند قطعۂ اراضی عطا نہیں کریں گے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میرے بعد تم لوگ ترجیحی سلوک دیکھو گے، تو تم صبر سے کام لینا یہاں تک تم مجھ سے آملو۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1229]
فائدہ:
اس حدیث میں ﴿يُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ ”اور وہ اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت بھی ہو“ (الحشر: 9) کی عملی تفسیر ہے، سبحان اللہ۔
نیز اس حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ حق والے پر دوسرے کو ترجیح دینا غلط ہے، تاریخ بھری پڑی ہے کہ لوگ کس قدر نا انصافیوں سے کام لیتے ہیں، موجودہ دور بھی فتنوں سے لبریز ہے، اور ہر کوئی نااہل کو اہل پر ترجیح دیتا ہے (الا مـن رحـــم ربـی) کیونکہ قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے نہیں کیے جاتے، بلکہ اپنے مفاد کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ ایسی ہر صورت حال میں صبر کا دامن نہیں چھوڑ نا چاہیے، بس اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی اصلاح فرمائے، آمین۔
اس حدیث میں ﴿يُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ ”اور وہ اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت بھی ہو“ (الحشر: 9) کی عملی تفسیر ہے، سبحان اللہ۔
نیز اس حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ حق والے پر دوسرے کو ترجیح دینا غلط ہے، تاریخ بھری پڑی ہے کہ لوگ کس قدر نا انصافیوں سے کام لیتے ہیں، موجودہ دور بھی فتنوں سے لبریز ہے، اور ہر کوئی نااہل کو اہل پر ترجیح دیتا ہے (الا مـن رحـــم ربـی) کیونکہ قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے نہیں کیے جاتے، بلکہ اپنے مفاد کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ ایسی ہر صورت حال میں صبر کا دامن نہیں چھوڑ نا چاہیے، بس اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی اصلاح فرمائے، آمین۔
[مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1227]
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1235
1235- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک گھاٹی میں چلیں، تو میں انصار کی گھاٹی میں چلوں گا اگر ہجرت نہ ہوتی، تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا، انصار میرے دست و بازو ہیں، تو ان میں سے جو شخص اچھا ہو، اس کے ساتھ تم اچھائی کرو اور جو شخص برا ہوا س سے تم درگزر کرو۔“ ابن جدعان نامی راوی نے یہ بات بیان کی ہے۔ حسن نامی راوی نے یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں۔ ”البتہ حد کا حکم مختلف ہے ”(وہ برے شخص پر جاری کی جائے گی)“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1235]
فائدہ:
اس حدیث میں انصار کی فضیلت کا بیان ہے، اور محسن کے احسان کو یاد رکھنا چاہیے، انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کی قربانیاں اسلام کی خاطر کس قدر زیادہ ہیں، اگر ان کا احاطہ کیا جائے تو ایک مستقل تاریخ مرتب ہوسکتی ہے، نیز اس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنے سے روکا گیا ہے، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔
اس حدیث میں انصار کی فضیلت کا بیان ہے، اور محسن کے احسان کو یاد رکھنا چاہیے، انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کی قربانیاں اسلام کی خاطر کس قدر زیادہ ہیں، اگر ان کا احاطہ کیا جائے تو ایک مستقل تاریخ مرتب ہوسکتی ہے، نیز اس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنے سے روکا گیا ہے، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔
[مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1233]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2376
2376. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ بحرین کے علاقے میں کچھ جاگیریں لوگوں کو دیں۔ انصار نے مشورہ دیا کہ آپ ایسا نہ کریں تاآنکہ ہمارے مہاجرین بھائیوں کو بھی جاگیریں دیں جیسا کہ ہمیں دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم عنقریب دیکھو گے کہ لوگوں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔ ایسے حالات میں میری ملاقات تک صبر کرنا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2376]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بحرین میں کچھ جاگیریں دینے کا ارادہ فرمایا، اسی سے قطعات اراضی بطور جاگیر دینے کا جواز ثابت ہوا۔
حکومت کے پاس اگر کچھ زمین فالتو ہو تو وہ پبلک میں کسی کو بھی اس کی ملی خدمات کے صلہ میں دے سکتی ہے۔
یہی مقصد باب ہے۔
مستقبل کے لیے آپ نے انصار کو ہدایت فرمائی کہ وہ فتنوں کے دور میں جب عام حق تلفی دیکھیں خاص طور پر اپنے بارے میں ناساز گار حالات ان کے سامنے آئیں تو ان کو چاہئے کہ صبر و شکر سے کام لیں۔
ان کے رفع درجات کے لیے یہ بڑا بھاری ذریعہ ہوگا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بحرین میں کچھ جاگیریں دینے کا ارادہ فرمایا، اسی سے قطعات اراضی بطور جاگیر دینے کا جواز ثابت ہوا۔
حکومت کے پاس اگر کچھ زمین فالتو ہو تو وہ پبلک میں کسی کو بھی اس کی ملی خدمات کے صلہ میں دے سکتی ہے۔
یہی مقصد باب ہے۔
مستقبل کے لیے آپ نے انصار کو ہدایت فرمائی کہ وہ فتنوں کے دور میں جب عام حق تلفی دیکھیں خاص طور پر اپنے بارے میں ناساز گار حالات ان کے سامنے آئیں تو ان کو چاہئے کہ صبر و شکر سے کام لیں۔
ان کے رفع درجات کے لیے یہ بڑا بھاری ذریعہ ہوگا۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2376]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4331
4331. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوازن کے اموال بطور انعام عطا فرمائے تو انصار کے کچھ لوگوں کو رنج ہوا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو سو، سو اونٹ دینا شروع کر دیے۔ انصار نے کہا: اللہ تعالٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے، آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کر دیا ہے، حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے؟ حضرت انس نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی گفتگو بیان کی گئی تو آپ نے انصار کی طرف پیغام بھیج کر چمڑے کے ایک خیمے میں انہیں جمع کیا۔ آپ نے ان کے ہمراہ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”تمہاری جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے کیا وہ صحیح ہے؟“ انصار کے جو سمجھدار لوگ تھے، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو لوگ ہمارے معزز اور سردار ہیں، انہوں نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی، البتہ ہمارے کچھ نو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4331]
حدیث حاشیہ:
حضرت انس ؓ کا اشارہ غالباً سردار انصار حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی طرف ہے، جنہوں نے وفات نبوی کے بعد منا أمیر ومنکم أمیر کی آواز اٹھائی تھی مگر جمہور انصار نے اس سے موافقت نہیں کی اور خلفائے قریش کو تسلیم کر لیا۔
رضي اللہ عنهم ورضو اعنه۔
سند میں حضرت ہشام بن عروہ کا نام آیا ہے۔
یہ مدینہ کے مشہور تابعین میں سے ہیں جن کا شمار اکابر علماء میں ہوتا ہے۔
سنہ61ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ146ھ میں بمقام بغداد انتقال ہوا۔
امام زہری بھی مدینہ کے مشہور جلیل القدر تابعی ہیں۔
زہری بن کلاب کی طرف منسوب ہیں کنیت ابو بکر نام محمد بن عبد اللہ بن شہاب ہے، وقت کے بہت بڑے عالم باللہ تھے۔
ماہ رمضان سنہ124ھ میں وفات پائی۔
حضرت انس ؓ کا اشارہ غالباً سردار انصار حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی طرف ہے، جنہوں نے وفات نبوی کے بعد منا أمیر ومنکم أمیر کی آواز اٹھائی تھی مگر جمہور انصار نے اس سے موافقت نہیں کی اور خلفائے قریش کو تسلیم کر لیا۔
رضي اللہ عنهم ورضو اعنه۔
سند میں حضرت ہشام بن عروہ کا نام آیا ہے۔
یہ مدینہ کے مشہور تابعین میں سے ہیں جن کا شمار اکابر علماء میں ہوتا ہے۔
سنہ61ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ146ھ میں بمقام بغداد انتقال ہوا۔
امام زہری بھی مدینہ کے مشہور جلیل القدر تابعی ہیں۔
زہری بن کلاب کی طرف منسوب ہیں کنیت ابو بکر نام محمد بن عبد اللہ بن شہاب ہے، وقت کے بہت بڑے عالم باللہ تھے۔
ماہ رمضان سنہ124ھ میں وفات پائی۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4331]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4332
4332. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز مکہ فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش میں اموالِ غنیمت تقسیم کیے تو انصار غضبناک ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے کر جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر جاؤ؟۔“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ”اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4332]
حدیث حاشیہ:
حضرت سلیمان بن حرب بصری مکہ کے قاضی ہیں۔
تقریباً دس ہزار احا دیث ان سے مروی ہیں۔
بغداد میں ان کی مجلس درس میں شرکاء درس کی تعداد چالیس ہزار ہوتی تھی۔
سنہ140ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ158ھ تک طلب حدیث میں سر گرداں رہے۔
انیس سال حماد بن زید نامی استاد کی خد مت میں گذارے۔
سنہ224ھ میں ان کا انتقال ہوا۔
حضرت امام بخاری ؒ کے بزرگ ترین استاذ ہیں، رحمهم اللہ أجمعین۔
حضرت سلیمان بن حرب بصری مکہ کے قاضی ہیں۔
تقریباً دس ہزار احا دیث ان سے مروی ہیں۔
بغداد میں ان کی مجلس درس میں شرکاء درس کی تعداد چالیس ہزار ہوتی تھی۔
سنہ140ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ158ھ تک طلب حدیث میں سر گرداں رہے۔
انیس سال حماد بن زید نامی استاد کی خد مت میں گذارے۔
سنہ224ھ میں ان کا انتقال ہوا۔
حضرت امام بخاری ؒ کے بزرگ ترین استاذ ہیں، رحمهم اللہ أجمعین۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4332]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4333
4333. حضرت انس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز غزوہ حنین تھا، ہوازن کے لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں آئے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور طلقاء بھی تھے۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو آپ نے آواز دی: ”اے انصار کی جماعت!“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں اور آپ کی مدد کو آ گئے ہیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی سواری سے) اترے اور فرمایا: ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ جب مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگ گئے تو آپ نے طلقاء اور مہاجرین کو اموال دیے اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انہوں نے جو کچھ کہنا تھا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: ”تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ لے جائیں اور تم اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر جاؤ؟“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ”اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کوئی پہاڑی راستہ اختیار کریں تو میں انصار کا پہاڑی راستہ اختیار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4333]
حدیث حاشیہ:
روایت میں طلقاء سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو آپ نے فتح مکہ کے دن چھوڑدیا (احساناً)
ان کے پہلے جرائم پر ان سے کوئی گرفت نہیں کی جیسے ابو سفیان، ان کے بیٹے معاویہ، حکیم بن حزام رضي اللہ عنهم وغیرہ۔
ان لوگوں کو عام معافی دے دی گئی اور ان کو بہت نوازا بھی گیا۔
بعد میں یہ حضرات اسلام کے سچے جاں نثار مددگار ثابت ہوئے اور ﴿كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾ کا نمونہ بن گئے۔
انصار کے لیے آپ نے جو شرف عطا فرمایا دنیا کا مال ودولت اس کے مقابلہ پر ایک بال برابر بھی وزن نہیں رکھتا تھا۔
چنانچہ انصار نے بھی اس کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی اور اول سے آخر تک آپ کے ساتھ پوری وفاداری کا برتاؤ کیا، رضي اللہ عنهم ورضوا عنه اسی کا نتیجہ تھا کہ وفات نبوی کے بعد جملہ انصار نے بخوشی ورغبت خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کوئی منصب نہیں چاہا۔
﴿صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ﴾ جنگ حنین میں حضرت ابو سفیان ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے۔
روایت میں طلقاء سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو آپ نے فتح مکہ کے دن چھوڑدیا (احساناً)
ان کے پہلے جرائم پر ان سے کوئی گرفت نہیں کی جیسے ابو سفیان، ان کے بیٹے معاویہ، حکیم بن حزام رضي اللہ عنهم وغیرہ۔
ان لوگوں کو عام معافی دے دی گئی اور ان کو بہت نوازا بھی گیا۔
بعد میں یہ حضرات اسلام کے سچے جاں نثار مددگار ثابت ہوئے اور ﴿كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾ کا نمونہ بن گئے۔
انصار کے لیے آپ نے جو شرف عطا فرمایا دنیا کا مال ودولت اس کے مقابلہ پر ایک بال برابر بھی وزن نہیں رکھتا تھا۔
چنانچہ انصار نے بھی اس کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی اور اول سے آخر تک آپ کے ساتھ پوری وفاداری کا برتاؤ کیا، رضي اللہ عنهم ورضوا عنه اسی کا نتیجہ تھا کہ وفات نبوی کے بعد جملہ انصار نے بخوشی ورغبت خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کوئی منصب نہیں چاہا۔
﴿صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ﴾ جنگ حنین میں حضرت ابو سفیان ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4333]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4337
4337. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب حنین کی لڑائی ہوئی تو ہوازن، غطفان اور ان کے علاوہ دیگر قبائل اپنے جانوروں اور اہل و عیال سمیت آئے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور کچھ طلقاء تھے۔ وہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے حتی کہ آپ اکیلے رہ گئے۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آوازیں دیں جن میں کوئی خلط ملط نہیں تھا۔ آپ نے دائیں جانب متوجہ ہو کر فرمایا: ”اے گروہ انصار!“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ بائیں جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اے گروہ انصار!“ انصار نے کہا: اللہ کے رسول! آپ فکر نہ کریں، ہم حاضر ہیں۔ آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے آپ نے نے نیچے اتر کر فرمایا: ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ بالآخر مشرکین شکست کھا گئے۔ اس دن آپ نے بہت سا مالِ غنیمت پایا اور وہ مہاجرین اور طلقاء میں تقسیم کر دیا اور انصار کو کچھ نہ دیا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4337]
حدیث حاشیہ:
مسلم کی رویت میں ہے کہ آپ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا شجرہ رضوان والوں کو آواز دو۔
ان کی آ واز بلند تھی۔
انہوں نے پکارا اے شجرہ رضوان والو! تم کہاں چلے گئے ہو، ان کی پکار سنتے ہی یہ لوگ ایسے لپکے جیسے گائیں شفقت سے اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔
سب کہنے لگے ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔
مسلم کی رویت میں ہے کہ آپ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا شجرہ رضوان والوں کو آواز دو۔
ان کی آ واز بلند تھی۔
انہوں نے پکارا اے شجرہ رضوان والو! تم کہاں چلے گئے ہو، ان کی پکار سنتے ہی یہ لوگ ایسے لپکے جیسے گائیں شفقت سے اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔
سب کہنے لگے ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4337]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3147
3147. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوازن کے مال میں سے جتنا بھی بطور غنیمت دیا تو اس میں سے آپ نے قریش کے بعض لوگوں کو سو، سو اونٹ دیے۔ اس پر انصار کے چند لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے آپ قریش کو اتنا دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کررہے، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان (کافروں) کا خون ٹپک رہا ہے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ان کی بات بیان کی گئی تو آپ نے انصار کو بلا کر انھیں ایک چمڑے کے خیمے میں جمع کیا لیکن ان کے ساتھ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب وہ جمع ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ”یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟“ ان کے عقلمند لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے اہل خرد نے کچھ نہیں کہا، ہاں! چند نو خیز لڑکے ہیں انھوں نے ہی یہ کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3147]
حدیث حاشیہ:
یہ لوگ قریش کے سردار اور رؤسا تھے جو حال ہی میں مسلمان ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی دلجوئی کے لیے ان کو بہت سامان دیا۔
ان لوگوں کے نام یہ تھے۔
ابوسفیان، معاویہ بن ابی سفیان، حکیم بن حزام، حارث بن حارث، حارث بن ہشام، سہل بن عمرو، حویطب بن عبدالعزی، علاءبن حارثہ ثقفی، عیینہ بن حصین، صفوان بن امیہ، اقرع بن حابس، مالک بن عوف، ان حضرات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی کچھ دیا اس کا ذکر صرف تاریخ میں باقی رہ گیا، مگرانصار کو آپ نے اپنی ذات گرامی سے جو شرف بخشا وہ رہتی دنیا تک کے لیے درخشاں و تاباں ہے۔
جس شرف کی برکت سے مدینۃ المنورہ کو وہ خاص شرف حاصل ہے جو دنیا میں کسی بھی شہر کو نصیب نہیں۔
اموال ہوازن کے متعلق جو غنیمت میں حاصل ہوا، صاحب ''لمعات '' لکھتے ہیں۔
ما أفاءاللہ في هذا الإبهام تفخیم و تکثیر لما أفاء فإن الفيئ الحاصل منهم کان عظیماً کثیراً مما لایعد ولایحصی و جاء في الروایات سنة آلاف من السبي وأربع و عشرون ألفا من الإبل وأربعۃ آلاف أوقیة من الفضة وأکثر أربعین ألف شاة الخ (حاشیۃ بخاری، کراتشی ج: 1، ص: 445)
یعنی اموال ہوازن اس قدر حاصل ہوا جس کا شمار کرنا بھی مشکل ہے۔
روایات میں قیدیوں کی تعداد چھ ہزار، اور چوبیس ہزار اونٹ اور چار ہزار اوقیہ چاندی اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریاں مذکور ہوئی ہیں۔
یہ لوگ قریش کے سردار اور رؤسا تھے جو حال ہی میں مسلمان ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی دلجوئی کے لیے ان کو بہت سامان دیا۔
ان لوگوں کے نام یہ تھے۔
ابوسفیان، معاویہ بن ابی سفیان، حکیم بن حزام، حارث بن حارث، حارث بن ہشام، سہل بن عمرو، حویطب بن عبدالعزی، علاءبن حارثہ ثقفی، عیینہ بن حصین، صفوان بن امیہ، اقرع بن حابس، مالک بن عوف، ان حضرات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی کچھ دیا اس کا ذکر صرف تاریخ میں باقی رہ گیا، مگرانصار کو آپ نے اپنی ذات گرامی سے جو شرف بخشا وہ رہتی دنیا تک کے لیے درخشاں و تاباں ہے۔
جس شرف کی برکت سے مدینۃ المنورہ کو وہ خاص شرف حاصل ہے جو دنیا میں کسی بھی شہر کو نصیب نہیں۔
اموال ہوازن کے متعلق جو غنیمت میں حاصل ہوا، صاحب ''لمعات '' لکھتے ہیں۔
ما أفاءاللہ في هذا الإبهام تفخیم و تکثیر لما أفاء فإن الفيئ الحاصل منهم کان عظیماً کثیراً مما لایعد ولایحصی و جاء في الروایات سنة آلاف من السبي وأربع و عشرون ألفا من الإبل وأربعۃ آلاف أوقیة من الفضة وأکثر أربعین ألف شاة الخ (حاشیۃ بخاری، کراتشی ج: 1، ص: 445)
یعنی اموال ہوازن اس قدر حاصل ہوا جس کا شمار کرنا بھی مشکل ہے۔
روایات میں قیدیوں کی تعداد چھ ہزار، اور چوبیس ہزار اونٹ اور چار ہزار اوقیہ چاندی اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریاں مذکور ہوئی ہیں۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3147]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3778
3778. ابو تیاح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے سنا، وہ فرما رہے تھے: فتح مکہ کے دن رسول اللہ نے قریش کو غنیمت کا سارا مال دے دیا تو انصار نے کہا: اللہ کی قسم! یقینا یہ عجیب بات ہے کہ ابھی ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے کہ ہمارا مال غنیمت انہی کو دیا جا رہا ہے۔ جب یہ خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا: ”اس خبر کی کیا حقیقت ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟“ وہ (انصار) جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ انہوں نے کہا: آپ کو صحیح اطلاع ملی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ لوگ تو اپنے گھروں کو مالِ غنیمت لے کر جائیں اور تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لیے اپنے گھروں کو جاؤ؟ اگر انصار کسی میدان یا نشیبی علاقے میں چلیں تو میں بھی انصار کے ساتھ اس میدان یا گھاٹی میں چلوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3778]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ انصار نے معذرت کی کہ کچھ نوجوان کم عقل لوگوں نے ایسی باتیں کہہ دی ہیں، آپ کا ارشاد سن کر انصار نے بالاتفاق کہا کہ ہم سب اس فضیلت پر خوش ہیں، نالہ یا گھاٹی کا مطلب یہ کہ سفر اور حضر موت اور زندگی میں ہرحال میں تمہارے ساتھ ہوں، کیا یہ شرف انصار کو کافی نہیں ہے؟
دوسری روایت میں ہے کہ انصار نے معذرت کی کہ کچھ نوجوان کم عقل لوگوں نے ایسی باتیں کہہ دی ہیں، آپ کا ارشاد سن کر انصار نے بالاتفاق کہا کہ ہم سب اس فضیلت پر خوش ہیں، نالہ یا گھاٹی کا مطلب یہ کہ سفر اور حضر موت اور زندگی میں ہرحال میں تمہارے ساتھ ہوں، کیا یہ شرف انصار کو کافی نہیں ہے؟
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3778]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2376
2376. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ بحرین کے علاقے میں کچھ جاگیریں لوگوں کو دیں۔ انصار نے مشورہ دیا کہ آپ ایسا نہ کریں تاآنکہ ہمارے مہاجرین بھائیوں کو بھی جاگیریں دیں جیسا کہ ہمیں دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم عنقریب دیکھو گے کہ لوگوں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔ ایسے حالات میں میری ملاقات تک صبر کرنا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2376]
حدیث حاشیہ:
(1)
کسی کو اس کی خدمات کے صلے میں حکومت کی طرف سے جاگیرداری جا سکتی ہے، لیکن دور حاضر میں سیاسی شعبدہ بازوں کو بہترین زمینیں اور قیمتی پلاٹ ملتے ہیں۔
ہمارے ہاں ملکی سیاست کا دارومدار اسی سیاسی رشوت پر ہے۔
بہرحال زمانۂ قدیم سے یہ عادت ہے کہ بادشاہ کی طرف سے خاص لوگوں کو غیر آباد زمینیں دی جاتی تھیں جنہیں وہ محنت کر کے آباد کر لیتے اور وہ ان کے مالک قرار پاتے، بطور ملکیت ان سے فائدہ اٹھاتے۔
(2)
واضح رہے کہ بحرین سے مراد آج کل والا بحرین نہیں بلکہ عہد نبوی کے بحرین میں سعودی عرب کا مشرقی صوبہ شامل تھا جس میں الخبر، الدمام اور ظہران وغیرہ کے علاقے ہیں۔
بہرحال حاکم وقت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو اس کی خدمات کے صلے میں کوئی جاگیر دے دے۔
(1)
کسی کو اس کی خدمات کے صلے میں حکومت کی طرف سے جاگیرداری جا سکتی ہے، لیکن دور حاضر میں سیاسی شعبدہ بازوں کو بہترین زمینیں اور قیمتی پلاٹ ملتے ہیں۔
ہمارے ہاں ملکی سیاست کا دارومدار اسی سیاسی رشوت پر ہے۔
بہرحال زمانۂ قدیم سے یہ عادت ہے کہ بادشاہ کی طرف سے خاص لوگوں کو غیر آباد زمینیں دی جاتی تھیں جنہیں وہ محنت کر کے آباد کر لیتے اور وہ ان کے مالک قرار پاتے، بطور ملکیت ان سے فائدہ اٹھاتے۔
(2)
واضح رہے کہ بحرین سے مراد آج کل والا بحرین نہیں بلکہ عہد نبوی کے بحرین میں سعودی عرب کا مشرقی صوبہ شامل تھا جس میں الخبر، الدمام اور ظہران وغیرہ کے علاقے ہیں۔
بہرحال حاکم وقت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو اس کی خدمات کے صلے میں کوئی جاگیر دے دے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2376]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3146
3146. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں قریش کو ان کی تالیف قلبی کے لیے دیتا ہوں کیونکہ ان کی جاہلیت کا زمانہ ابھی ابھی گزرا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3146]
حدیث حاشیہ:
اہل مکہ یعنی قریش فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔
ان کی تالیف قلب کے لیے آپ نے انھیں عطیات دیے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مال غنیمت اور خمس امام وقت کی صوابدید پر موقوف ہے وہ جہاں مناسب خیال کرے تقسیم کرنے کا مجاز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کوعطیات دیتے وقت اپنے اختیارات استعمال کیے تھے۔
اہل مکہ یعنی قریش فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔
ان کی تالیف قلب کے لیے آپ نے انھیں عطیات دیے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مال غنیمت اور خمس امام وقت کی صوابدید پر موقوف ہے وہ جہاں مناسب خیال کرے تقسیم کرنے کا مجاز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کوعطیات دیتے وقت اپنے اختیارات استعمال کیے تھے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3146]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3147
3147. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوازن کے مال میں سے جتنا بھی بطور غنیمت دیا تو اس میں سے آپ نے قریش کے بعض لوگوں کو سو، سو اونٹ دیے۔ اس پر انصار کے چند لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے آپ قریش کو اتنا دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کررہے، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان (کافروں) کا خون ٹپک رہا ہے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ان کی بات بیان کی گئی تو آپ نے انصار کو بلا کر انھیں ایک چمڑے کے خیمے میں جمع کیا لیکن ان کے ساتھ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب وہ جمع ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ”یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟“ ان کے عقلمند لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے اہل خرد نے کچھ نہیں کہا، ہاں! چند نو خیز لڑکے ہیں انھوں نے ہی یہ کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3147]
حدیث حاشیہ:
1۔
جن لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیا تھا وہ قریش کے سردار اور رئیس تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی کے پیش نظر انھیں بہت سامال دیا۔
ان کے دلوں کو اسلام کی طرف مزید مائل کرنا مقصود تھا تاکہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہیں۔
ایسے حالات میں انھیں زکاۃ دینا بھی جائز تھا جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے ان حضرات کو جو کچھ دیا گیا اس کا ذکر صرف تاریخ میں با قی رہ گیا مگر انصار کو آپ نے اپنی ذات گرامی سے جو شرف بخشا وہ رہتی دنیا تک کے لیے درخشاں و تاباں ہے۔
اس شرف کی برکت سے مدینہ طیبہ کو وہ اعزاز ملا جو دنیا میں کسی بھی شہر کو نصیب نہیں ہو سکا۔
2۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ حنین کےموقع پر اس قدر مال غنیمت ملا جس کا شمار مشکل ہے روایات میں قیدیوں کی تعداد چھ ہزارچوبیس ہزار اونٹ، چارہزار اوقیے چاندی اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریوں کا ذکر ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صوابدیدی اختیارات کے مطابق مال غنیمت مؤلفہ القلوب میں تقسیم کیا اور جن لوگوں نے اس پر اعتراض کیا وہ کامل الایمان نہیں تھے۔
1۔
جن لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیا تھا وہ قریش کے سردار اور رئیس تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی کے پیش نظر انھیں بہت سامال دیا۔
ان کے دلوں کو اسلام کی طرف مزید مائل کرنا مقصود تھا تاکہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہیں۔
ایسے حالات میں انھیں زکاۃ دینا بھی جائز تھا جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے ان حضرات کو جو کچھ دیا گیا اس کا ذکر صرف تاریخ میں با قی رہ گیا مگر انصار کو آپ نے اپنی ذات گرامی سے جو شرف بخشا وہ رہتی دنیا تک کے لیے درخشاں و تاباں ہے۔
اس شرف کی برکت سے مدینہ طیبہ کو وہ اعزاز ملا جو دنیا میں کسی بھی شہر کو نصیب نہیں ہو سکا۔
2۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ حنین کےموقع پر اس قدر مال غنیمت ملا جس کا شمار مشکل ہے روایات میں قیدیوں کی تعداد چھ ہزارچوبیس ہزار اونٹ، چارہزار اوقیے چاندی اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریوں کا ذکر ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صوابدیدی اختیارات کے مطابق مال غنیمت مؤلفہ القلوب میں تقسیم کیا اور جن لوگوں نے اس پر اعتراض کیا وہ کامل الایمان نہیں تھے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3147]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3778
3778. ابو تیاح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے سنا، وہ فرما رہے تھے: فتح مکہ کے دن رسول اللہ نے قریش کو غنیمت کا سارا مال دے دیا تو انصار نے کہا: اللہ کی قسم! یقینا یہ عجیب بات ہے کہ ابھی ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے کہ ہمارا مال غنیمت انہی کو دیا جا رہا ہے۔ جب یہ خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا: ”اس خبر کی کیا حقیقت ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟“ وہ (انصار) جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ انہوں نے کہا: آپ کو صحیح اطلاع ملی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ لوگ تو اپنے گھروں کو مالِ غنیمت لے کر جائیں اور تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لیے اپنے گھروں کو جاؤ؟ اگر انصار کسی میدان یا نشیبی علاقے میں چلیں تو میں بھی انصار کے ساتھ اس میدان یا گھاٹی میں چلوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3778]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ انصار میں سے سمجھ دار لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بایں الفاظ میں معذرت کی کہ ہمارے سرداروں نے تو یہ بات نہیں کی البتہ کچھ نوجوان اور کم عقل لوگوں نے ایسی باتیں ضرور کی ہیں پھر انھوں نے بالا تفاق اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ ہم اس اعزاز اور فضیلت پر دل کی گہرائیوں سے خوش ہیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4331)
2۔
میدان یا گھاٹی میں چلنے کا مطلب یہ ہے کہ میں سفر و حضر اور موت و حیات میں تمھارے ساتھ رہوں گا۔
کیا یہ اعزاز انصار کے لیے کافی نہیں؟ چنانچہ انھوں نے اس پر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا۔
اس سے ان کی پیروی کرنا مقصود نہیں کیونکہ آپ ہی واجب اطاعت ہیں ہر مرد و عورت پر آپ کی پیروی فرض ہے۔
واللہ اعلم۔
1۔
ایک روایت میں ہے کہ انصار میں سے سمجھ دار لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بایں الفاظ میں معذرت کی کہ ہمارے سرداروں نے تو یہ بات نہیں کی البتہ کچھ نوجوان اور کم عقل لوگوں نے ایسی باتیں ضرور کی ہیں پھر انھوں نے بالا تفاق اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ ہم اس اعزاز اور فضیلت پر دل کی گہرائیوں سے خوش ہیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4331)
2۔
میدان یا گھاٹی میں چلنے کا مطلب یہ ہے کہ میں سفر و حضر اور موت و حیات میں تمھارے ساتھ رہوں گا۔
کیا یہ اعزاز انصار کے لیے کافی نہیں؟ چنانچہ انھوں نے اس پر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا۔
اس سے ان کی پیروی کرنا مقصود نہیں کیونکہ آپ ہی واجب اطاعت ہیں ہر مرد و عورت پر آپ کی پیروی فرض ہے۔
واللہ اعلم۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3778]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4331
4331. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوازن کے اموال بطور انعام عطا فرمائے تو انصار کے کچھ لوگوں کو رنج ہوا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو سو، سو اونٹ دینا شروع کر دیے۔ انصار نے کہا: اللہ تعالٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے، آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کر دیا ہے، حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے؟ حضرت انس نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی گفتگو بیان کی گئی تو آپ نے انصار کی طرف پیغام بھیج کر چمڑے کے ایک خیمے میں انہیں جمع کیا۔ آپ نے ان کے ہمراہ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”تمہاری جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے کیا وہ صحیح ہے؟“ انصار کے جو سمجھدار لوگ تھے، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو لوگ ہمارے معزز اور سردار ہیں، انہوں نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی، البتہ ہمارے کچھ نو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4331]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ہوازن کے مال میں سے ابوسفیان بن حرب کو سواونٹ دیے، اسی طرح صفوان بن امیہ، عیینہ بن حصن، مالک بن عوف، اقرع بن حابس، علقمہ بن علاثہ اور عباس بن مرداس کو سو، سواونٹ دیے، اس پر انصار کے کچھ لوگ غمزدہ ہوئے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قریش نوازی کی باتیں کیں۔
حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ان کے متعلق تیرے جذبات کیاہیں؟“ عرض کی:
میں بھی تو اس قوم سے تعلق رکھتا ہوں۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا:
”تمام انصار کو اس چمڑے کے خیمے میں جمع کرو۔
“ آپ نے انھیں وعظ فرمایا اور کہا:
”تم میرے لیے اس کپڑے کی طرح ہوجو ہروقت جسم سے لگارہتا ہے۔
“ واقعی یہ شرف قیامت تک کے لیے انصار کو حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کےشہر میں آرام فرما رہے ہیں۔
(فتح الباري: 69/8)
2۔
حدیث کے آخر میں حضرت انس ؓ نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین کے باوجود انصار نے صبر نہیں کیا۔
شاید ان کا اشارہ کچھ انصار کے اس موقف کی طرف ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت کہا گیا تھا کہ ایک امیر تمہارا اور ایک امیر ہماراہوگا۔
مگر جمہور نے انصار نے اس موقف کو مسترد کردیا اور اس کی موافقت کےبجائے قریش کو تسلیم کرلیا۔
واللہ اعلم۔
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ہوازن کے مال میں سے ابوسفیان بن حرب کو سواونٹ دیے، اسی طرح صفوان بن امیہ، عیینہ بن حصن، مالک بن عوف، اقرع بن حابس، علقمہ بن علاثہ اور عباس بن مرداس کو سو، سواونٹ دیے، اس پر انصار کے کچھ لوگ غمزدہ ہوئے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قریش نوازی کی باتیں کیں۔
حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ان کے متعلق تیرے جذبات کیاہیں؟“ عرض کی:
میں بھی تو اس قوم سے تعلق رکھتا ہوں۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا:
”تمام انصار کو اس چمڑے کے خیمے میں جمع کرو۔
“ آپ نے انھیں وعظ فرمایا اور کہا:
”تم میرے لیے اس کپڑے کی طرح ہوجو ہروقت جسم سے لگارہتا ہے۔
“ واقعی یہ شرف قیامت تک کے لیے انصار کو حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کےشہر میں آرام فرما رہے ہیں۔
(فتح الباري: 69/8)
2۔
حدیث کے آخر میں حضرت انس ؓ نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین کے باوجود انصار نے صبر نہیں کیا۔
شاید ان کا اشارہ کچھ انصار کے اس موقف کی طرف ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت کہا گیا تھا کہ ایک امیر تمہارا اور ایک امیر ہماراہوگا۔
مگر جمہور نے انصار نے اس موقف کو مسترد کردیا اور اس کی موافقت کےبجائے قریش کو تسلیم کرلیا۔
واللہ اعلم۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4331]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4332
4332. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز مکہ فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش میں اموالِ غنیمت تقسیم کیے تو انصار غضبناک ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے کر جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر جاؤ؟۔“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ”اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4332]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس غنیمت سے مراد ہوازن کے مال ہیں کیونکہ فتح مکہ میں کوئی غنیمت نہیں تھی جسے تقسیم کیا جاتا۔
2۔
واقدی نے لکھاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلاکرکہا:
”آؤ میں تمھیں بحرین کا علاقہ لکھ دیتا ہوں جو تمہارے لیے خاص ہوگا، اس میں اور کسی کا عمل دخل نہیں ہوگا۔
“ اور یہ علاقہ بھی بہترین، زرخیز اور شاداب تھا لیکن انصار نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور عرض کی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں آپ ہی کافی ہیں، دنیا کے مال ومتاع کی ہمیں ضرورت نہیں۔
(فتح الباري: 64/8)
اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انصار کے جوار (پڑوس)
کوپسند فرمایا۔
1۔
اس غنیمت سے مراد ہوازن کے مال ہیں کیونکہ فتح مکہ میں کوئی غنیمت نہیں تھی جسے تقسیم کیا جاتا۔
2۔
واقدی نے لکھاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلاکرکہا:
”آؤ میں تمھیں بحرین کا علاقہ لکھ دیتا ہوں جو تمہارے لیے خاص ہوگا، اس میں اور کسی کا عمل دخل نہیں ہوگا۔
“ اور یہ علاقہ بھی بہترین، زرخیز اور شاداب تھا لیکن انصار نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور عرض کی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں آپ ہی کافی ہیں، دنیا کے مال ومتاع کی ہمیں ضرورت نہیں۔
(فتح الباري: 64/8)
اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انصار کے جوار (پڑوس)
کوپسند فرمایا۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4332]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4333
4333. حضرت انس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز غزوہ حنین تھا، ہوازن کے لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں آئے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور طلقاء بھی تھے۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو آپ نے آواز دی: ”اے انصار کی جماعت!“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں اور آپ کی مدد کو آ گئے ہیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی سواری سے) اترے اور فرمایا: ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ جب مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگ گئے تو آپ نے طلقاء اور مہاجرین کو اموال دیے اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انہوں نے جو کچھ کہنا تھا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: ”تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ لے جائیں اور تم اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر جاؤ؟“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ”اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کوئی پہاڑی راستہ اختیار کریں تو میں انصار کا پہاڑی راستہ اختیار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4333]
حدیث حاشیہ:
1۔
طلقاء، طليق کی جمع ہے۔
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں فتح مکہ کے موقع پر آپ نے نہ قتل کیا اور نہ انھیں قیدی ہی بنایا لیکن ان پر احسان فرماتے ہوئے آزاد کردیا اور فرمایا:
"آج تم پر کوئی ملامت نہیں تم آزاد ہو۔
" (عمدة القاري: 306/12)
ان حضرات پر سابقہ جرائم کے متعلق بھی کوئی گرفت نہ کی گئی بلکہ انھیں عام معافی سے نوازاگیا۔
انھیں گرانقدر عطیے دیے گئے۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد وہ جاں نثار مددگار ثابت ہوئے۔
2۔
انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شرف عطا فرمایا اس کے مقابلے میں دنیا کا مال ایک بال برابربھی وزن نہیں رکھتا تھا۔
انصار نے بھی اس حقیقت کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی، پوری وفاداری کے ساتھ اس عہد کونبھایا۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جملہ انصار نے خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کسی بھی منصب کا مطالبہ نہیں کیا۔
رضوان اللہ عنھم أجمعین۔
1۔
طلقاء، طليق کی جمع ہے۔
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں فتح مکہ کے موقع پر آپ نے نہ قتل کیا اور نہ انھیں قیدی ہی بنایا لیکن ان پر احسان فرماتے ہوئے آزاد کردیا اور فرمایا:
"آج تم پر کوئی ملامت نہیں تم آزاد ہو۔
" (عمدة القاري: 306/12)
ان حضرات پر سابقہ جرائم کے متعلق بھی کوئی گرفت نہ کی گئی بلکہ انھیں عام معافی سے نوازاگیا۔
انھیں گرانقدر عطیے دیے گئے۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد وہ جاں نثار مددگار ثابت ہوئے۔
2۔
انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شرف عطا فرمایا اس کے مقابلے میں دنیا کا مال ایک بال برابربھی وزن نہیں رکھتا تھا۔
انصار نے بھی اس حقیقت کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی، پوری وفاداری کے ساتھ اس عہد کونبھایا۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جملہ انصار نے خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کسی بھی منصب کا مطالبہ نہیں کیا۔
رضوان اللہ عنھم أجمعین۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4333]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4334
4334. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کر کے فرمایا: ”قریش ابھی نو مسلم اور تازہ مصیبت اٹھائے ہوئے ہیں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ مال غنیمت سے ان کی دل جوئی کروں۔ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ دوسرے لوگ تو دنیا لے کر جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر اپنے گھروں کی طرف لوٹو؟“ انہوں نے عرض کی: ہم تو اس پر راضی ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اگر دوسرے لوگ وادی کے اندر چلیں اور انصار پہاڑی راستہ منتخب کریں تو میں بھی انصار کی وادی یا گھاٹی ہی کو اختیار کروں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4334]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"انصار میرے لیے استر ہیں اور دوسرے لوگ ابرہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
" پھر آپ نے انصار کے لیے دعا فرمائی:
"اے اللہ!انصار، ان کے بیٹوں اور پوتوں پر رحمت نازل فرما۔
" اس پر انصاربہت خوش ہوئے۔
یہ خطاب سن کو وہ خوشی سے اس قدر روئے کہ ان کی داڑھیاں ترہوگئیں اور کہنے لگے:
ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اور نصیب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔
(مسند أحمد: 77/3، وفتح الباري: 65/8)
1۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"انصار میرے لیے استر ہیں اور دوسرے لوگ ابرہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
" پھر آپ نے انصار کے لیے دعا فرمائی:
"اے اللہ!انصار، ان کے بیٹوں اور پوتوں پر رحمت نازل فرما۔
" اس پر انصاربہت خوش ہوئے۔
یہ خطاب سن کو وہ خوشی سے اس قدر روئے کہ ان کی داڑھیاں ترہوگئیں اور کہنے لگے:
ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اور نصیب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔
(مسند أحمد: 77/3، وفتح الباري: 65/8)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4334]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4337
4337. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب حنین کی لڑائی ہوئی تو ہوازن، غطفان اور ان کے علاوہ دیگر قبائل اپنے جانوروں اور اہل و عیال سمیت آئے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور کچھ طلقاء تھے۔ وہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے حتی کہ آپ اکیلے رہ گئے۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آوازیں دیں جن میں کوئی خلط ملط نہیں تھا۔ آپ نے دائیں جانب متوجہ ہو کر فرمایا: ”اے گروہ انصار!“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ بائیں جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اے گروہ انصار!“ انصار نے کہا: اللہ کے رسول! آپ فکر نہ کریں، ہم حاضر ہیں۔ آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے آپ نے نے نیچے اتر کر فرمایا: ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ بالآخر مشرکین شکست کھا گئے۔ اس دن آپ نے بہت سا مالِ غنیمت پایا اور وہ مہاجرین اور طلقاء میں تقسیم کر دیا اور انصار کو کچھ نہ دیا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4337]
حدیث حاشیہ:
1۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے عباس ؓ!اصحاب شجرہ کو آواز دو۔
" آپ بہت بلند آواز تھے۔
انھوں نے اونچی آواز سے کہا:
اصحاب ِشجرہ کہاں ہیں؟ ان کی آواز سنتے ہی بیعت کرنے والے ایسے لپکے جیسے گائیں اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔
سب کہنے لگے:
ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔
پھر گھمسان کا رن پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں مٹھی میں لے کر کافروں کے منہ پر دے ماریں اور فرمایا:
”مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی قسم! کافرشکست کھا گئے ہیں۔
“ اس کے بعد کفار کو شکست سے دوچارہونا پڑا۔
(صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4612(1775)
2۔
اس غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے نہیں بلکہ آپ کے ساتھ آدمی تھے۔
آپ کا ارادہ ہوا کہ دشمن پرٹوٹ پڑیں، اس لیے آپ اکیلے بڑھے مگر ابوسفیان بن حارث آپ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔
انھوں نے آپ کو آگے نہ جانے دیا، حضرت عباس ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
1۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے عباس ؓ!اصحاب شجرہ کو آواز دو۔
" آپ بہت بلند آواز تھے۔
انھوں نے اونچی آواز سے کہا:
اصحاب ِشجرہ کہاں ہیں؟ ان کی آواز سنتے ہی بیعت کرنے والے ایسے لپکے جیسے گائیں اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔
سب کہنے لگے:
ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔
پھر گھمسان کا رن پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں مٹھی میں لے کر کافروں کے منہ پر دے ماریں اور فرمایا:
”مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی قسم! کافرشکست کھا گئے ہیں۔
“ اس کے بعد کفار کو شکست سے دوچارہونا پڑا۔
(صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4612(1775)
2۔
اس غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے نہیں بلکہ آپ کے ساتھ آدمی تھے۔
آپ کا ارادہ ہوا کہ دشمن پرٹوٹ پڑیں، اس لیے آپ اکیلے بڑھے مگر ابوسفیان بن حارث آپ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔
انھوں نے آپ کو آگے نہ جانے دیا، حضرت عباس ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4337]


محمد بن شهاب الزهري ← أنس بن مالك الأنصاري