الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
56. بَابُ : الْقِبْلَةِ
56. باب: قبلہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1010
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا علقمة بن عمرو الدارمي ، حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن ابي إسحاق ، عن البراء ، قال:" صلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم نحو بيت المقدس ثمانية عشر شهرا، وصرفت القبلة إلى الكعبة بعد دخوله إلى المدينة بشهرين، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى إلى بيت المقدس اكثر تقلب وجهه في السماء، وعلم الله من قلب نبيه صلى الله عليه وسلم انه يهوى الكعبة، فصعد جبريل فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يتبعه بصره وهو يصعد بين السماء والارض، ينظر ما ياتيه به، فانزل الله: قد نرى تقلب وجهك في السماء سورة البقرة آية 144، فاتانا آت فقال: إن القبلة قد صرفت إلى الكعبة، وقد صلينا ركعتين إلى بيت المقدس ونحن ركوع، فتحولنا، فبنينا على ما مضى من صلاتنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا جبريل، كيف حالنا في صلاتنا إلى بيت المقدس؟" فانزل الله عز وجل: وما كان الله ليضيع إيمانكم سورة البقرة آية 143".
(موقوف) حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ عَمْرٍو الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ الْبَرَاءِ ، قَالَ:" صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَصُرِفَتِ الْقِبْلَةُ إِلَى الْكَعْبَةِ بَعْدَ دُخُولِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ بِشَهْرَيْنِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ أَكْثَرَ تَقَلُّبَ وَجْهِهِ فِي السَّمَاءِ، وَعَلِمَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَهْوَى الْكَعْبَةَ، فَصَعِدَ جِبْرِيلُ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ وَهُوَ يَصْعَدُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، يَنْظُرُ مَا يَأْتِيهِ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ سورة البقرة آية 144، فَأَتَانَا آتٍ فَقَالَ: إِنَّ الْقِبْلَةَ قَدْ صُرِفَتْ إِلَى الْكَعْبَةِ، وَقَدْ صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسٍ وَنَحْنُ رُكُوعٌ، فَتَحَوَّلْنَا، فَبَنَيْنَا عَلَى مَا مَضَى مِنْ صَلَاتِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا جِبْرِيلُ، كَيْفَ حَالُنَا فِي صَلَاتِنَا إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟" فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ سورة البقرة آية 143".
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھارہ مہینے تک بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز ادا کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے دو مہینہ بعد قبلہ خانہ کعبہ کی جانب تبدیل کر دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت المقدس کی جانب نماز پڑھتے تو اکثر اپنا چہرہ آسمان کی جانب اٹھاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے دل کا حال جان لیا کہ آپ خانہ کعبہ کی جانب رخ کرنا پسند فرماتے ہیں، ایک بار جبرائیل علیہ السلام اوپر چڑھے، آپ ان کی طرف نگاہ لگائے رہے، وہ آسمان و زمین کے درمیان اوپر چڑھ رہے تھے، آپ انتظار میں تھے کہ جبرائیل علیہ السلام کیا حکم لاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «قد نرى تقلب وجهك في السماء» (سورۃ البقرہ: ۱۴۴)، ہمارے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا: قبلہ کعبہ کی طرف بدل دیا گیا، ہم دو رکعتیں بیت المقدس کی جانب پڑھ چکے تھے، اور رکوع میں تھے، ہم اسی حالت میں خانہ کعبہ کی جانب پھر گئے، ہم نے اپنی پچھلی نماز پر بنا کیا اور دو رکعتیں اور پڑھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل ہماری ان نماز کا کیا حال ہو گا جو ہم نے بیت المقدس کی جانب پڑھی ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «وما كان الله ليضيع إيمانكم» اللہ تعالیٰ تمہاری نماز کو ضائع کرنے والا نہیں (سورة البقرة: 143) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1910، ومصباح الزجاجة: 363)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التفسیر 12 (4492)، صحیح مسلم/المساجد 2 (525)، سنن الترمذی/الصلاة 138 (340)، سنن النسائی/الصلاة 22 (489)، القبلة 1 (743) (منکر)» ‏‏‏‏ (سند میں ابو بکر بن عیاش سئ الحفظ ہیں، اس لئے تحویل قبلہ کے بارے میں 18 مہینہ کا ذکر اور یہ کہ مدینہ جانے کے دو ماہ بعد تحویل قبلہ ہوا، یہ چیز شاذ اور ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: فتح الباری 1/97، البانی صاحب نے بھی انہیں زیادات کی وجہ سے حدیث پر ''منکر'' کا حکم لگایا ہے، ورنہ اصل حدیث صحیحین میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے بیت المقدس کے طرف (16) یا (17) مہینے تک صلاة پڑھی... الخ، اسی واسطے بوصیری نے حدیث کے ابتدائی دو فقرے نقل کرنے کے بعد لکھا کہ اس کی سند صحیح ہے، اور رجال ثقات ہیں، اور بخاری و مسلم وغیرہ نے اس طریق سے مذکور نص کے علاوہ بقیہ حدیث روایت کی ہے)

وضاحت:
۱؎: آپ ﷺ قبلہ کو کعبہ کی طرف ہونا پسند کرتے تھے، اس خیال سے کہ عربوں کی عبادت گاہ اور مرکز وہی تھا، اور اس میں اس بات کی امید اور توقع تھی کہ عرب جلد اسلام کو قبول کر لیں گے، اور یہودی رسول اکرم ﷺ کے سخت دشمن تھے، ان کا قبلہ بیت المقدس تھا، اس وجہ سے بھی آپ کو ان کی موافقت پسند نہیں تھی، اور یہ آپ کا کمال ادب تھا کہ اللہ تعالیٰ سے قبلے کے بدلنے کا سوال نہیں کیا، بلکہ دل ہی میں یہ آرزو لئے رہے، اس خیال سے کہ اللہ رب العزت دلوں کی بات بھی خوب جانتا ہے۔

It was narrated that Bara’ said: “We prayed with the Messenger of Allah (ﷺ) facing towards Baitul-Maqdis (Jerusalem) for eighteen months, then the Qiblah was changed to the Ka’bah two months after the Prophet (ﷺ) entered Al-Madinah. When the Messenger of Allah (ﷺ) prayed towards Baitul-Maqdis, he would often lift his face towards the heavens, and Allah knew what was in the heart of His Prophet and how he longed to face the Ka’bah (during prayer). Jibril appeared (in the sky), and the Messenger of Allah (ﷺ) started watching him as he was descending between the heavens and the earth, waiting to see what he would bring. Then Allah revealed the words: ‘Verily, We have seen the turning of your face towards the heaven. Surely, We shall turn you to a Qiblah that shall please you, so turn your face in the direction of Al-Masjid Al-Haram (at Makkah). And wherever you people are, turn your faces (during prayer) in that direction.’ [2:144] Then someone came to us and said: ‘The Qiblah has been changed to the Ka’bah.’ We had performed two Rak’ah facing towards Jerusalem. And we were bowing. So we turned around, and we continued our prayer. The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘O Jibril! What about our prayer facing towards Baitul- Maqdis?’ Then Allah revealed the words: “And Allah would never make your faith to be lost.” [2:143]
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: منكر فيه زيادات كثيرة على رواية ق

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أبو إسحاق عنعن
وأصل الحديث متفق عليه بغير ھذا السياق (البخاري: 40،مسلم: 525)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 414


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1010  
´قبلہ کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھارہ مہینے تک بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز ادا کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے دو مہینہ بعد قبلہ خانہ کعبہ کی جانب تبدیل کر دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت المقدس کی جانب نماز پڑھتے تو اکثر اپنا چہرہ آسمان کی جانب اٹھاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے دل کا حال جان لیا کہ آپ خانہ کعبہ کی جانب رخ کرنا پسند فرماتے ہیں، ایک بار جبرائیل علیہ السلام اوپر چڑھے، آپ ان کی طرف نگاہ لگائے رہے، وہ آسمان و زمین کے درمیان اوپر چڑھ رہے تھے، آپ انتظار میں تھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1010]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ روایت سخت ضعیف (بلکہ منکر)
ہے۔
خود اس حدیث کےالفاظ میں بھی تعارض ہے پہلے جملے میں اٹھارہ مہینے اور دوسرے جملے میں دو مہینے کی مدت بیان کی گئی ہے۔

(2)
یہ واقعہ صحیح بخاری میں بھی مروی ہے۔
لیکن اس میں اٹھارہ مہینے کی بجائے سولہ یا سترہ مہینے کےالفاظ ہیں۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، الإیمان، باب الصلاۃ من الإیمان، حدیث: 40)
 اور بخاری کی روایت زیادہ صحیح ہے۔
کیونکہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں اپنے گھر سے 27 صفر کو اور غار ثور سے یکم ربیع الاول کو روانہ ہوئے تھے۔
اور 8 ربیع الاول کو قباء میں تشریف فرما ہوئے جبکہ تحویل قبلہ کا حکم دوسرے سال رجب کے وسط میں نازل ہوا۔
اس طرح یہ درمیانی مدت سولہ ماہ اور کچھ دن بنتی ہے۔
واللہ اعلم۔

(3)
قبلے کی تبدیلی کے بعد نبی اکرمﷺ نے کعبہ کی طرف منہ کرکے جو نماز سب سے پہلے ادا کی وہ نماز عصر تھی۔ (حوالہ مذکورہ بالا)

(4)
انصار کا نماز کے دوران میں حکم معلوم ہونے پر فوراً کعبہ کی طرف رخ کرلینے کا ذکر بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ (حوالہ مذکورہ بالا)

(5)
ایک قابل اعتماد آدمی کی بیان کردہ خبر یا حدیث پراعتماد کر کے عمل کرلینا چاہیے۔

(6)
اگر کوئی شخص اپنے یقین کے مطابق قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ رہا ہو۔
پھر اسے نماز کےدوران میں معلوم ہوجائے کہ قبلہ کا رخ دوسری طرف ہے۔
تو نماز کے دوران ہی ادھر رخ کرلینا چاہے۔
اس کی پہلی نماز درست ہے۔
دہرانے کی ضرورت نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1010   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.