الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نماز کے احکام و مسائل
34. باب الْقِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ:
34. باب: ظہر اور عصر کی نمازوں میں قرأت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1012
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن المثنى العنزي ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن الحجاج يعني الصواف ، عن يحيى وهو ابن ابي كثير ، عن عبد الله بن ابي قتادة ، وابي سلمة ، عن ابي قتادة ، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بنا، فيقرا في الظهر والعصر، في الركعتين الاوليين، بفاتحة الكتاب وسورتين، ويسمعنا الآية احيانا، وكان يطول الركعة الاولى من الظهر، ويقصر الثانية، وكذلك في الصبح ".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ الْحَجَّاجِ يَعْنِي الصَّوَّافَ ، عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، وَأَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِنَا، فَيَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ، بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ، وَيُسْمِعُنَا الآيَةَ أَحْيَانًا، وَكَانَ يُطَوِّلُ الرَّكْعَةَ الأُولَى مِنَ الظُّهْرِ، وَيُقَصِّرُ الثَّانِيَةَ، وَكَذَلِكَ فِي الصُّبْحِ ".
حجاج صواف نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ اور ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں (ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد ایک سورت) پڑھتے اور کبھی کبھار ہمیں کوئی آیت سنا دیتے۔ ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے اور دوسری رکعت مختصر کرتے اور صبح کی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے۔
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ اور ہر رکعت میں کوئی ایک سورت پڑھتے اور کبھی کبھی ہمیں بھی کوئی ایک آیت سنادیتے اور ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے اور دوسری رکعت چھوٹی کرتے اور صبح کی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے۔ حدیث حاشیہ: Abu Qatadah (RA) reported: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) led us in prayer and recited in the first two rak'ahs of the noon and afternoon prayers Surat al-Fatiha and two (other) surahs. And he would sometimes recite loud enough for us to hear the verses. He would prolong the first rak'ah more than the second. And he acted similarly in the morning prayer.حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حجاج کے بجائے) ہمام اور ابان بن یزید نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں(سے ہر رکعت میں) سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھتے اور کبھی کبھار ہمیں بھی کوئی آیت سنا دیتے اور آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔حدیث حاشیہ: حجاج کے بجائے) ہمام اور ابان بن یزید نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں(سے ہر رکعت میں) سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھتے اور کبھی کبھار ہمیں بھی کوئی آیت سنا دیتے اور آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حجاج کے بجائے) ہمام اور ابان بن یزید نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں(سے ہر رکعت میں) سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھتے اور کبھی کبھار ہمیں بھی کوئی آیت سنا دیتے اور آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔ حدیث حاشیہ: حجاج صواف نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ اور ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابو قتادہ ﷜ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں (ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد ایک سورت) پڑھتے اور کبھی کبھار ہمیں کوئی آیت سنا دیتے۔ ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے اور دوسری رکعت مختصر کرتے اور صبح کی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے۔حدیث حاشیہ: رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر) ١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم1034٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)451٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)685٤. ترقيم فؤاد عبد الباقي (برنامج الكتب التسعة)ترقیم فواد عبد الباقی (کتب تسعہ پروگرام)451٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)984٧. ترقيم دار إحیاء الکتب العربیة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم دار احیاء الکتب العربیہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)451٨. ترقيم دار السلامترقیم دار السلام1012 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × انسان اشرف المخلوقات ہے، اگر اب تک میسر سائنسی معلومات کو بنیاد بنایا جائے تو انسان ہی سب سے عقلمند مخلوق ہے جس نے عناصر قدرت سے کام لے کر اپنے لیے قوت و طاقت کے بہت سے انتظامات کر لیے ہیں۔ اس کے باوجود یہ بہت ہی کمزور، بار بار مشکلات میں گھر کر بے بس ہو جانے والی مخلوق ہے جو اپنی زندگی کے اکثر معاملات میں دوسروں کی مدد کی محتاج ہے، دوسروں پر انحصار کرتی ہے، اپنے مستقبل کے حوالے سے ہر وقت خدشات کا شکار اور خوفزدہ رہتی ہے۔ ان میں سے جو انسان ایک قادر مطلق پر ایمان سے محروم ہیں، ان میں سے اکثر دوسری ایسی مخلوقات کا سہارا لیتے اور ان کو اپنا محافظ، اپنا رازق اور خالق سمجھتے اور ان سے مدد کی درخواست کرتے ہیں جو ان کی پہنچ سے دور ہوں یا جن کی اپنی کمزوریوں سے انسان بے خبر ہوں۔ مظاہر فطرت کی پوجا، بتوں کی پوجا، دیوتاؤں اور دیویوں کی پرستش حتی کہ ہاتھیوں، بندروں اور سانپوں کی عبادت کمزور انسان کی خوفزدگی اور اس کی احتیاج کی دلیل ہے۔ اللہ کے بھیجے ہوئے دین نے انسان کو یہ سکھایا کہ جنہیں تم پوجتے ہو وہ بھی تمھاری طرح بلکہ تم سے بڑھ کر کمزور اورمحتاج ہیں۔ وہ محض ایک ہی ذات ہے جس کے ساتھ کسی کی کوئی شراکت داری نہیں اور وہی ہر شے پر قادر ہے۔ ہر قوت اس کے پاس ہے۔ ہر نعمت کے خزانوں کا مالک وہی ہے۔ اس نے سبھی کو پیدا کیا۔ وہ بھی پیدا ہونے کا یا کسی بھی اور چیز کا محتاج تھانہ آیندہ بھی ہوگا۔ وہ ہماری عبادت کا بھی محتاج نہیں بلکہ ہم ہی اس کے قرب، اس کی رحمت، اس کی مہربانی اور اس کی سخاوت کے محتاج ہیں۔ اس کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجانے سے ہماری کمزوری طاقت میں، ہماری احتیاج فراوانی میں بدل سکتی ہے اور ہمارا خوف عمل سلاتی کے احساس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ تمام انبیاء کا مشن یہی تھا کہ انسان اس ابدی حقیقت کو سمجھ لے اور اس قادر مطلق کا قرب حاصل کرنے کے لیے عبادت کاصحیح طریقہ اپنا لے۔ اس وقت جتنے آسمانی دین موجود ہیں ان میں سب سے مکمل، سب سے خوبصورت اور سب سے آسان طریقہ عبادت وہ ہے جو اسلام نے سکھایا ہے۔ ان اسلامی عبادات میں سے اہم ترین عبادت نماز ہے۔ نماز کا ارادہ کرتے ہی خیر، برکت اور کسب اعمال صالحہ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ طہارت اور وضو سے انسان ظاہری اور باطنی کثافت اور میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے اور نماز میں داخل ہونے کے ساتھ ہی وہ اللہ کے حضور بازیاب ہو جا تا ہے۔اس عبادت میں بندہ گا ہے اپنے جیسے بہت سے عبادت گزاروں کے ساتھ مل کر جذب و سرمستی میں اللہ کو پکارتا، اس سے حال دل کہتا اور اس کے سامنے زاری کرتا ہے اور گاہے تنہائی کے عالم میں اپنے رب کے سامنے ہوتا ہے اور اس کے ساتھ سرگوشی اور مناجات کرتاہے(1)صحيح مسلم،المساجد،باب النهى عن البصاق فى المسجد،حديث:1230(551) عبادت کایہ مکمل اورسب سےخوبصورت طریقہ خود الله تبارک و تعالی نے کائنات کے افضل ترین عبادت گزار (عبد) محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا اور انھوں نے انسانیت کو اس کی تعلیم دی۔آپ کی نمازکی کیفیتیں کیاتھیں؟ان کی تفصیل صحیح مسلم کی كتاب الصلاة،كتاب المساجد،كتاب صلاة المسافرين اورمابعدکےابواب میں بالتفصیل مذکور ہے۔ جن خوش نصیب لوگوں نےاس عبادت کاطریقہ براہ راست رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سےسیکھا،وہ اس کی لذتوں سےصحیح طورپرآشناتھے،مثلاحضرت انس﷜ انہیں یادکرکےبےاختیارکہتےتھے:ماصليت ورآءإمام قط أخف صلاة ولاأتم صلاة من رسولصلی اللہ علیہ وسلممیں کبھی کسی امام کےپیچھےنمازنہیں پڑھی جس کی نمازرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی نمازسےزیادہ ہلکی اورمکمل ترین ہو۔ (2)صحيح مسلم،الصلاة،باب أمرالأئمة بتخفيف الصلاةفى تمام، حديث:1054(469)یہ نمازباجماعت کی کیفیت تھی۔ رات کی تنہائیوں میں آپ کی نمازکیسی تھی، حضرت عائشہؓ بتانابھی چاہتی ہیں اوراس سےزیادہ کہہ بھی نہیں سکتیں:يٌصلى أربعافلاتسأل عن حسنهن وطولهن،ثم يصلى أربعافلاتسال عن حسنهن وطولهن آپ چاررکعتیں پڑھتےاورمت پوچھوکہ ان کی خوبصورتی کیاتھی اورطوالت کتنی تھی،پھرآپ چاررکعتیں ادافرماتے،نہ پوچھوکہ ان کاجمال کیساتھا،کتنی لمبی ہوتی تھیں۔(3) صحيح مسلم،صلاة المسافرين وقصرها، باب الصلاة الليل،حديث:1723(738)یہ لذتیں محسوس کی جاسکتی تھیں لیکن زبان ان کےبیان سےقاصرتھی۔ قرآن مجیدنےاس عبادت کاتذکرہ اس طرح کیاکہ اس مشاہدہ کرنےوالےاس کی طرف کھچےچلےآتےتھےاوراس میں مستغرق ہوجاتےہیں: ﴿وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّـهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا﴾ اورجب اللہ کابندہ اس کوپکارنےکھڑاہوا،تووہ اس پرگروہ درگروہ اکٹھےہونےلگے۔ الجن19:72)محدثین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے حوالے سے وہ ساری تفصیلات انتہائی جانفشانی سے جمع کر کے یکجا کر دیں جو صحابہ کرام نے بیان کی تھیں۔ آج اگر ذوق وشوق کی کیفیتوں میں ڈوب کر ان کا مطالعہ کیا جائے تو پورا منظر سامنے آ جاتا ہے، جو حسن و جمال کا بے مثال مرقع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد فتنوں کا دور آیا۔ بے شمار انسانوں کے عقائد اور اعمال اس کی زد میں آئے منع زکاة، ارتد او،خوارج وغیرہ کے باطل عقائد اسی فتنے کی تباہ کاریوں کے چند پہلو ہیں۔ اس دور کا مطالعہ کیا جائے تو عبادات اور اعمال میں سہل انگاری، غفلت اور لاپروائی حتی کہ جہالت کی ایسی کیفیتیں سامنے آتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ بنو امیہ کے دور میں نماز جیسے اسلام کے بنیادی رکن کی کیفیت ایسی ہوگئی تھی کہ حضرت انس بنانے اس کے سبب سے باقاعدہ گریہ میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ لوگوں اور ان کے حکمرانوں نے اس دور میں اوقات نماز تک ضائع کر دیے تھے۔ امام زہری کہتے ہیں: میں دمشق میں حضرت انس ﷜نے کے ہاں حاضر ہوا تو آپ رورہے تھے۔ میں نے پوچھا: کیا بات ہے جو آپ کو رلا رہی ہے؟ فرمایا: میں نے عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جو کچھ دیکھا تھا اس میں نماز ہی رہ گئی تھی، اب یہ بھی نماز بھی ضائع کردی گئی ہے۔ (4) صحيح البخارى،مواقيت الصلاة،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث:530)آپ سےنمازکےبارےمیں یہ الفاظ بھی منقول ہیں،رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کےعہدمیں جوکچھ ہوتاتھاان میں سےکوئی چیزنہیں جومیں پہچان سکوں(سب کچھ بدل گیاہے۔)کہاگیا:نماز(توہے!)فرمایاکیااس میں بھی تم نےوہ سب کچھ نہیں کردیاجوکردیاہے۔(1) صحيح البخارى،مواقيت الصلاة،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث:529) جامع ترمذی کی روایت کےالفاظ ہیں تم نےاپنی نمازوں میں وہ سب کچھ نہیں کرڈالاجس کاتمھی کوپتہ ہے۔ (2)جامع الترمذى،صفة القيامة،باب حديث إضاعة الناس الصلاة،حديث2447)ایک اور روایت میں ہے، ثابت بنانی کہتے ہیں: ہم حضرت انس بن مالک ﷜کے ساتھ تھے کہ حجاج نے نماز میں تاخیر کر دی،حضرت انس﷜ کھڑے ہوئے، وہ اس سے بات کرنا چاہتے تھے، ان کے ساتھیوں نے حجاج سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے انھیں روک دیا تو آپ وہاں سے نکلے، سواری پر بیٹھے اور راستے میں کہا: رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کی کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے لا الہ الا اللہ کی شہادت کے۔ ایک آدمی نے کہا: ابوحمزه! نماز؟ تو فرمایا تم نے ظہر کی نماز مغرب میں پہنچا دی! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یہ تھی۔ (3)فتح البارى،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)حکمرانوں کی جہالت کی وجہ سے خرابی کا یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور سوائے چند اہل علم کے باقی لوگ اسی ناقص اور بگاڑی ہوئی نماز کےعادی ہو گئے۔ حافظ ابن حجر﷫ نے امام عبدالرزاق کے حوالے سے مشہور تابعی عطاء کا واقعہ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ولید بن عبد الملک نے جمعے میں تاخیر کی حتی کہ شام ہوگئی، میں آیا اور بیٹھنے سے پہلے ظہر ادا کر لی، پھر اس کے خطبے کے دوران میں بیٹھے ہوئے اشارے سے عصر پڑھی۔ اشارے سے اس لیے کہ عطاء کو خوف تھا کہ اگر انھوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو انھیں قتل کردیا جائے گا۔(4) فتح البارى،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)اکثر لوگ حکمرانوں کے اس عمل ہی کو اسلام سمجھتے تھے، ان کو اس بات کا احساس تک نہ تھا کہ یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی سنت کے خلاف ہے۔ عام لوگوں کی تو بات ہی کیا ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز﷜ جیسے عالم کو بھی مدینہ کا گورنر مقرر ہونے تک اصل اوقات نماز کا علم نہ تھا۔ وہ مدینہ کے گورز ہو کر آئے تو ایک دن انھوں نے عصر کی نماز میں تاخیر کر دی۔ عروہ بن زبیر﷫ ان کے پاس آئے اور انھیں بتایا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ﷜نے، جب وہ عراق میں گورنر تھے، ایک دن نماز میں تاخیر کر دی تو حضرت ابو مسعود انصاری (بدری) ﷜ آپ کے پاس آئے اور فرمایا: مغیرہ یہ کیا ہے؟ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ جبریل ﷤نے نازل ہوکر نماز پڑھائی .... .(پانچویں نماز یں، ایک دن ہر نماز کا وقت شروع ہونے پر اور دوسرے دن ہر نماز کے وقت آخر میں پڑھائیں۔) اس پر عمر بن عبدالعزیز ﷜ نے عروہ سے کہا: دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو؟ کیا واقعی جبریل ﷤نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز کے وقت کی نشاندہی کی؟ عروہ نے جواب دیا: بشیر بن ابی مسعود اپنے والد (بدری صحابی ابومسعود انصاری﷜) سے اس طرح بیان کرتے تھے۔(5) فتح البارى،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة وفضلها،حديث:521)نماز کے طریقے میں بھی اسی طرح کی تبدیلیاں پیدا ہوگئیں۔ صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے جہاد شروع کیا، پھر محدثین نے، جو علم حدیث میں ان ہی کے جانشیں تھے، اس جہاد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی تمام تفصیلات پوری تحقیق اور جستجو کے بعد امت کے سامنے پیش کر دیں اور امت کو رسول اللهصلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک پر کماحقہ عمل کا موقع فراہم کیا کہ «صلوا كما رأيتموني أصلي» تم اسی طرح نماز ادا کرو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔(1)صحيح البخارى،الأذان،باب الأذان للمسافرين،حديث:631)یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان جس صورت میں جس عمل کا عادی ہوتا ہے ہمیشہ اسی کو درست سمجھتا ہے اور ہر صورت میں اس کے دفاع کی کوشش کرتا ہے۔ محدثین کے سامنے بہت بڑا اور كٹھن مشن تھا، انھوں نے نادان حکمرانوں کی سر پرستی میں راسخ شده عادات کے خلاف اتنا مؤثر جہاد کیا کہ اب ان لوگوں کے سامنے، جو عادت کی بنا پر اصرار اور ضد کا شکار نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور آپ کا منور طر یق عمل روز روشن کی طرح واضح ہے۔امام مسلم نے کتاب الصلاة، کتاب المساجد، کتاب صلاة المسافرین اور بعد کے ابواب میں خوبصورت ترتیب سےصحیح اسناد کے ساتھ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی مکمل تفصیلات جمع کردی ہیں۔ محدثین کے عظیم الشان کام کے بعد امت کے فقہاء اور علماءکے استنباطات، چاہے وہ جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں، محدثین کی بیان کردہ اانہی احادیث کے گرد گھومتے ہیں۔ تمام فقہی اختلافات کے حوالے سے بھی آخری اور حتمی فیصلہ صرف اور صرف وہی ہوسکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمصادر فرما دیا اور جسے محدثین نے پوری امانت داری سے امت تک پہنچا دیا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 451

   صحيح البخاري762حارث بن ربعييقرأ في الركعتين من الظهر والعصر بفاتحة الكتاب وسورة سورة ويسمعنا الآية أحيانا
   صحيح البخاري779حارث بن ربعييطول في الركعة الأولى من صلاة الظهر ويقصر في الثانية ويفعل ذلك في صلاة الصبح
   صحيح البخاري759حارث بن ربعييقرأ في الركعتين الأوليين من صلاة الظهر بفاتحة الكتاب وسورتين يطول في الأولى ويقصر في الثانية ويسمع الآية أحيانا وكان يقرأ في العصر بفاتحة الكتاب وسورتين وكان يطول في الأولى وكان يطول في الركعة الأولى من صلاة الصبح ويقصر في الثانية
   صحيح البخاري778حارث بن ربعييقرأ بأم الكتاب وسورة معها في الركعتين الأوليين من صلاة الظهر وصلاة العصر ويسمعنا الآية أحيانا يطيل في الركعة الأولى
   صحيح البخاري776حارث بن ربعييقرأ في الظهر في الأوليين بأم الكتاب وسورتين وفي الركعتين الأخريين بأم الكتاب ويسمعنا الآية يطول في الركعة الأولى ما لا يطول في الركعة الثانية وهكذا في العصر وهكذا في الصبح
   صحيح مسلم1013حارث بن ربعييقرأ في الركعتين الأوليين من الظهر والعصر بفاتحة الكتاب وسورة ويسمعنا الآية أحيانا ويقرأ في الركعتين الأخريين بفاتحة الكتاب
   صحيح مسلم1012حارث بن ربعييقرأ في الظهر والعصر في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية أحيانا يطول الركعة الأولى من الظهر ويقصر الثانية وكذلك في الصبح
   سنن أبي داود798حارث بن ربعييصلي بنا فيقرأ في الظهر والعصر في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية أحيانا يطول الركعة الأولى من الظهر ويقصر الثانية وكذلك في الصبح
   سنن النسائى الصغرى978حارث بن ربعييقرأ في الظهر والعصر في الركعتين الأوليين بأم القرآن وسورتين وفي الأخريين بأم القرآن وكان يسمعنا الآية أحيانا يطيل أول ركعة من صلاة الظهر
   سنن النسائى الصغرى975حارث بن ربعييصلي بنا الظهر فيقرأ في الركعتين الأوليين يسمعنا الآية كذلك يطيل الركعة في صلاة الظهر والركعة الأولى يعني في صلاة الصبح
   سنن النسائى الصغرى979حارث بن ربعييقرأ في الظهر والعصر في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية أحيانا يطيل الركعة الأولى في الظهر ويقصر في الثانية وكذلك في الصبح
   سنن النسائى الصغرى977حارث بن ربعييقرأ بنا في الركعتين الأوليين من صلاة الظهر ويسمعنا الآية أحيانا يطول في الأولى ويقصر في الثانية وكان يفعل ذلك في صلاة الصبح يطول في الأولى ويقصر في الثانية وكان يقرأ بنا في الركعتين الأوليين من صلاة العصر يطول الأولى ويقصر الثانية
   سنن النسائى الصغرى976حارث بن ربعييقرأ بأم القرآن وسورتين في الركعتين الأوليين من صلاة الظهر وصلاة العصر ويسمعنا الآية أحيانا يطيل في الركعة الأولى
   سنن ابن ماجه819حارث بن ربعييصلي بنا فيطيل في الركعة الأولى من الظهر ويقصر في الثانية وكذلك في الصبح
   سنن ابن ماجه829حارث بن ربعييقرأ بنا في الركعتين الأوليين من صلاة الظهر ويسمعنا الآية أحيانا
   بلوغ المرام224حارث بن ربعييصلي بنا فيقرا في الظهر والعصر في الركعتين الاوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية احيانا ويطول الركعة الاولى ويقرا في الاخريين بفاتحة الكتاب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 224  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن أبي قتادة رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يصلي بنا فيقرأ في الظهر والعصر في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية أحيانا ويطول الركعة الأولى ويقرأ في الأخريين بفاتحة الكتاب . متفق عليه. . . .»
. . . سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تھے تو ظہر اور عصر کی پہلی رکعتوں میں سورۃ «فاتحه» اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور کبھی ہمیں کوئی آیت سنا بھی دیتے تھے۔ پہلی رکعت بھی لمبی کرتے تھے اور آخری دونوں رکعتوں میں صرف «فاتحة الكتاب» پڑھتے تھے۔ (بخاری و مسلم) . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 224]

لغوی تشریح:
«نَحْزُرُ» باب «نَصَرَ يَنْصُرُ»، تخمینہ لگاتے، قیاس کرتے، اندازہ لگاتے تھے۔
«قَدْر الٓمّٓ تَنْزِيْلُ السجدة» یعنی دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد ہر رکعت میں اس سورت کی مقدار کے برابر قرأت فرماتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ظہر کی پہلی اور دوسری رکعت میں قرأت برابر ہوتی تھی۔ یہ بات پچھلی حدیث بخاري: 776، مسلم: 451 کے خلاف ہے۔ اسے اوقات کے مختلف ہونے پر محمول کیا جائے گا کہ کبھی برابر پڑھتے اور کبھی پہلی رکعت بڑی اور دوسری چھوٹی ہوتی تھی، یا پھر یہ کہا جائے گا کہ پہلی رکعت میں چونکہ دعائے استفتاح اور تعوذ زائد پڑھے جاتے ہیں، اس لیے وہ لمبی بن جاتی ہے، قرأت دونوں رکعتوں میں ایک ہی جتنی ہے۔ اس طرح دونوں احادیث میں مطابقت پیدا ہو جائے گی اور اختلاف باقی نہیں رہے گا۔
«وَفِي الأُخْرَيَيْنِ قَدْرِ النِّصْفِ» یعنی نصف مقدار۔
«مِنْ ذٰلِكَ» یعنی پہلی دو رکعتوں کی طوالت سے نصف۔

فائدہ:
اس حدیث سے ظہر و عصر کی نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدار قرأت کا اندازہ ہوتا ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی دو رکعتوں میں بھی سورہ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری آیت پڑھنا مسنون ہے۔ اس کی تائید اس طرح ہوتی ہے کہ عصر کی پہلی دو رکعتیں اور ظہر کی آخری دو برابر ہوتی تھیں۔ اور یہ پکی بات ہے کہ عصر کی پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ کے علاوہ بھی قرأت ہوتی تھی، لہٰذا ظہر میں بھی اسی طرح ہوتا تھا۔ اور کبھی نہ پڑھنا بھی ثابت ہے، لہٰذا نمازی اگر آخری دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ دوسری آیت بھی پڑھ لے تو اس کی اجازت ہے اور نہ پڑھے تب بھی گنجائش ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 225   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 975  
´ظہر کی پہلی رکعت میں لمبا قیام کرنے کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ آپ ہمیں ظہر پڑھاتے تھے تو آپ پہلی دونوں رکعتوں میں قرآت کرتے، اور یونہی کبھی ایک آدھ آیت ہمیں سنا دیتے، اور ظہر اور فجر کی پہلی رکعت بہ نسبت دوسری رکعت کے لمبی کرتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 975]
975 ۔ اردو حاشیہ: ظہر کے وقت لوگ کاروبار میں مشغول ہوتے ہیں اور فجر کے وقت لوگ نیند سے بیدار ہوتے ہیں۔ جاگنے میں دیر ہو سکتی ہے۔ جاگنے کے بعد کے لوازمات، مثلا: قضائے حاجت، غسل یا مسواک میں وقت لگتا ہے، اس لیے پہلی رکعت کو لمبا کیا جائے تاکہ زیادہ لوگ جماعت کے ساتھ شامل ہو سکیں، اسی لیے ان نمازوں میں اذان اور اقامت کا درمیانی فاصلہ بھی زیادہ رکھا جاتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 975   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 976  
´ظہر میں امام کا ایک آدھ آیت بلند آواز سے پڑھ کر سنا دینے کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر میں پہلی دونوں رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے، اور کبھی کبھار ہمیں ایک آدھ آیت سنا دیتے، اور پہلی رکعت میں دوسری رکعت کے بہ نسبت قرآت لمبی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 976]
976 ۔ اردو حاشیہ: نماز ظہر اور نماز فجر کے علاوہ دوسری نمازوں میں پہلی رکعت لمبی کرنی چاہیے تاکہ لوگ حوائج ضروریہ اور وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر مل سکیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 976   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 978  
´نماز ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں کی قرأت کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دونوں رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے تھے، اور آخری دونوں رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتے، اور کبھی کبھار ہمیں ایک آدھ آیت سنا دیتے تھے، اور ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 978]
978 ۔ اردو حاشیہ: فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ مزید سورت ملائی جاتی ہے مگر آخری دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ کافی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ ہر کعت میں پڑھنا ضروری ہے اور یہی جمہور کا مذہب ہے۔ لیکن احناف کے نزدیک آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری نہیں بلکہ نمازی کو اختیار ہے، چاہے قرأت کر لے یا تسبیح و تحمید کرے یا خاموش کھڑا رہے۔ لیکن جمہور کا مذہب راجح اور سنت صحیحہ کے مطابق ہے۔ مزید دیکھیے: (شرح صحیح مسلم للنوی: 232/4، تحت حدیث: 451) بعض روایات میں آخری دو رکعتوں میں بھی سورت پڑھنے کا ذکر ملتا ہے۔ یہ جائز ہے، ضروری نہیں۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 978   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث819  
´فجر میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے، اور دوسری رکعت چھوٹی کرتے، اور اسی طرح فجر کی نماز میں بھی کرتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 819]
اردو حاشہ:
فائده:
اس میں حکمت یہ ہے کہ پہلی رکعت میں طبیعت میں نشاط اور آمادگی ہوتی ہے۔
اس لئے قرآن زیادہ پڑھا اور سنا جاسکتا ہے۔
جبکہ دوسری رکعت میں جسم تھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔
اور طبیعت کی آمادگی اس درجے کی نہیں رہتی ا س لئے قراءت نسبتاً مختصر کردینی چاہے۔
اس میں یہ فائدہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جماعت مل جائے اور پہلی رکعت فوت نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 819   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.