الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے کام کے بارے میں
The Book of Dealing With Actions In As-Salat (The Prayer)
2. بَابُ مَا يُنْهَى عَنْهُ مِنَ الْكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ:
2. باب: نماز میں بات کرنا منع ہے۔
(2) Chapter. What speech is prohibited during the Salat (prayer).
حدیث نمبر: Q1200
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابن نمير، حدثنا إسحاق بن منصور السلولي، حدثنا هريم بن سفيان، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ السَّلُولِيُّ، حَدَّثَنَا هُرَيْمُ بْنُ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
‏‏‏‏ ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، ان سے ہریم بن سفیان نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے پھر ایسی ہی روایت بیان کی۔

Narrated `Abdullah: The same as No. 290. from the Prophet.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2 , Book 22 , Number 291


حدیث نمبر: 1200
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا عيسى هو ابن يونس، عن إسماعيل، عن الحارث بن شبيل، عن ابي عمرو الشيباني , قال: قال لي زيد بن ارقم:" إن كنا لنتكلم في الصلاة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم يكلم احدنا صاحبه بحاجته حتى نزلت: حافظوا على الصلوات سورة البقرة آية 238، فامرنا بالسكوت".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى هُوَ ابْنُ يُونُسَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ , قَالَ: قَالَ لِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ:" إِنْ كُنَّا لَنَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ أَحَدُنَا صَاحِبَهُ بِحَاجَتِهِ حَتَّى نَزَلَتْ: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ سورة البقرة آية 238، فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے، انہیں حارث بن شبیل نے، انہیں ابوعمرو بن سعد بن ابی ایاس شیبانی نے بتایا کہ مجھ سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نماز پڑھنے میں باتیں کر لیا کرتے تھے۔ کوئی بھی اپنے قریب کے نمازی سے اپنی ضرورت بیان کر دیتا۔ پھر آیت «حافظوا على الصلوات‏ الخ» اتری اور ہمیں (نماز میں) خاموش رہنے کا حکم ہوا۔

Narrated Zaid bin Arqam: In the lifetime of the Prophet we used to speak while praying, and one of us would tell his needs to his companions, till the verse, 'Guard strictly your prayers (2.238) was revealed. After that we were ordered to remain silent while praying.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 22, Number 292


   سنن النسائى الصغرى1220زيد بن أرقمالرجل يكلم صاحبه في الصلاة بالحاجة على عهد رسول الله حتى نزلت هذه الآية حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين فأمرنا بالسكوت
   صحيح البخاري1200زيد بن أرقمكنا لنتكلم في الصلاة على عهد النبي يكلم أحدنا صاحبه بحاجته حتى نزلت حافظوا على الصلوات فأمرنا بالسكوت
   صحيح مسلم1203زيد بن أرقمكنا نتكلم في الصلاة يكلم الرجل صاحبه وهو إلى جنبه في الصلاة حتى نزلت وقوموا لله قانتين فأمرنا بالسكوت ونهينا عن الكلام
   جامع الترمذي405زيد بن أرقمحتى نزلت وقوموا لله قانتين
   جامع الترمذي2986زيد بن أرقمكنا نتكلم على عهد رسول الله في الصلاة فنزلت وقوموا لله قانتين
   سنن أبي داود949زيد بن أرقمأمرنا بالسكوت ونهينا عن الكلام
   بلوغ المرام173زيد بن أرقميكلم احدنا صاحبه بحاجته حتى نزلت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 173  
´نماز میں ہر قسم کی گفتگو اور بات چیت ممنوع ہے`
«. . . وعن زيد بن ارقم انه قال: إن كنا لنتكلم في الصلاة على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يكلم احدنا صاحبه بحاجته حتى نزلت (حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين) فامرنا بالسكوت ونهينا عن الكلام . . .»
. . . سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں دوران نماز ہم ایک دوسرے سے بات چیت کر لیا کرتے اور اپنی ضرورت و حاجت ایک دوسرے سے بیان کر دیتے تھے تاآنکہ «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين» آیت نازل ہوئی تو ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور نماز میں گفتگو اور کلام کرنے سے منع کر دیا گیا . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 173]

لغوی تشریح:
«إِنْ كُنَّا» یہ «إِنْ» مخففہ من المثقلہ ہے، یعنی «إِنَّ» سے «إِنْ» بنایا گیا ہے۔ اور اس کا اسم محذوف ہے، یعنی «إِنَّا» یا «إِنَّهُ» ۔ اور «كُنَّا» اس کی خبر ہے۔
«وَالصَّلَاةِ الْوُسْطٰي» واؤ اس جگہ تخصیص کے لیے ہے، یعنی خاص طور پر صلاۃ وسطی کی حفاظت کرو۔ اور صحیح ترین قول کے مطابق اس سے نماز عصر مراد ہے۔
«قَانِتِينَ» ڈرتے، سہمے اور خاموش رہتے ہویے۔ قنوت کے متعدد معانی ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے سکوت کے معنی لیے ہیں۔ انہوں نے یہ معنی قراین کی بنا پر اخذ کیے ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کی روشنی میں۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں ہر قسم کی گفتگو اور بات چیت ممنوع ہے۔
➋ آغاز اسلام میں کلام کی اجازت تھی جسے بعد میں ممنوع قرار دے دیا گیا۔

راویٔ حدیث:
(زید بن ارقم رضی اللہ عنہ) انصار کے قبیلۂ خزرج میں سے ہیں، اس لیے انصاری خزرجی کہلائے۔ ان کی کنیت ابوعمرو ہے۔ پہلی مرتبہ غزوہ خندق میں شامل ہوئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سترہ غزوات میں شریک ہوئے۔ معرکہ صفین کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں میں سے تھے بلکہ ان کے مخصوص اصحاب میں شامل تھے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کی اور 66 ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 173   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 949  
´نماز میں بات چیت منع ہے۔`
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے جو چاہتا نماز میں اپنے بغل والے سے باتیں کرتا تھا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «وقوموا لله قانتين» اللہ کے لیے چپ چاپ کھڑے رہو (سورۃ البقرہ: ۲۳۸) تو ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 949]
949۔ اردو حاشیہ:
نماز میں گفتگو حرام ہے۔ الا یہ کہ خطا اور نسیان سے کوئی لفظ زبان سے نکل جائے تو معاف ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 949   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 405  
´نماز میں بات چیت کے منسوخ ہونے کا بیان۔`
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں بات چیت کر لیا کرتے تھے، آدمی اپنے ساتھ والے سے بات کر لیا کرتا تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ: «‏وقوموا لله قانتين» اللہ کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو نازل ہوئی تو ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 405]
اردو حاشہ:
1؎:
رسول اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق مومن سے بھول چوک معاف ہے،
بعض لوگوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ بشرطیکہ تھوڑی ہو ہم کہتے ہیں ایسی حالت میں آدمی تھوڑی بات ہی کر پاتا ہے کہ اسے یاد آ جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 405   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1200  
1200. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ ہم نبی ﷺ کے عہد مبارک میں دوران نماز میں ایک دوسرے سے بات چیت کر لیتے تھے اور اپنی ضرورت و حاجت کو بھی ایک دوسرے سے بیان کر دیتے تھے حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ﴾ تمام نمازوں (بالخصوص درمیانی نماز) کی حفاظت کرو۔ اس کے بعد ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا (اور دوان نماز میں گفتگو کرنے سے بھی ہمیں منع کر دیا گیا)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1200]
حدیث حاشیہ:
آیت کا ترجمہ یہ ہے:
نمازون کا خیال رکھو اوربیچ والی نماز کا اور اللہ کے سامنے ادب سے چپکے کھڑے رہو۔
(سورۃ بقرة)
درمیانی نماز سے عصر کی نماز مراد ہے۔
آیت سے ظاہر ہوا کہ نماز میں کوئی بھی دنیاوی بات کرنا قطعا منع ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1200   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1200  
1200. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ ہم نبی ﷺ کے عہد مبارک میں دوران نماز میں ایک دوسرے سے بات چیت کر لیتے تھے اور اپنی ضرورت و حاجت کو بھی ایک دوسرے سے بیان کر دیتے تھے حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ﴾ تمام نمازوں (بالخصوص درمیانی نماز) کی حفاظت کرو۔ اس کے بعد ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا (اور دوان نماز میں گفتگو کرنے سے بھی ہمیں منع کر دیا گیا)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1200]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز گفتگو کرنے کی ممانعت مدینہ طیبہ میں ہوئی کیونکہ حضرت زید بن ارقم ؓ انصاری ہیں اور وہ مدینہ منورہ میں مسلمان ہوئے تھے۔
اس حدیث میں جس آیت کا حوالہ ہے وہ بھی مدنی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی مدینہ منورہ ہی میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور سلام عرض کیا تھا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔
ان سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
نماز میں اللہ کا ذکر ہونا چاہیے، اس لیے اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔
اس کے بعد ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔
اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوران نماز میں گفتگو کرنے کی حرمت اس آیت کریمہ سے ہوئی جو سورۂ بقرہ میں ہے۔
(فتح الباري: 97/3) (2)
بھول کر یا عدم علم کی بنا پر دوران نماز میں گفتگو کرنا نماز کو باطل نہیں کرتا کیونکہ حدیث میں ہے:
اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی یا بھول کر کیے ہوئے گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔
(سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث: 2043)
نیز حضرت معاویہ بن حکم ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک آدمی کو دوران نماز میں چھینک آئی تو میں نے نماز ہی میں يرحمك الله کہہ دیا۔
اس پر لوگوں نے مجھے گھور گھور کر دیکھنا شروع کر دیا۔
میں نے کہا:
ہائے! میری ماں مجھے گم پائے، کیا بات ہے؟ تم مجھے غصے سے کیوں دیکھ رہے ہو؟ اس پر انہوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دیے جس سے میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہو گیا۔
جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کوئی ایسا معلم نہیں دیکھا جو تعلیم دینے میں آپ سے بہتر ہو، اللہ کی قسم! آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مارا اور نہ کرخت لہجہ ہی اختیار کیا بلکہ آپ نے نرمی سے فرمایا:
نماز میں انسانی گفتگو کی گنجائش نہیں بلکہ اس میں تو صرف تسبیح، تکبیر اور تلاوت قرآن ہونی چاہیے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1199(537)
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہالت کی وجہ سے اگر دوران نماز میں گفتگو ہو جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔
اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس شخص کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیتے لیکن آپ نے اسے صرف اس حکم سے آگاہ کرنے پر اکتفا کیا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1200   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.