الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) کی نماز کے احکام و مسائل
The Book of the Prayer for the Two 'Eids
35. بَابُ : اللَّعِبُ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْعِيدِ وَنَظَرُ النِّسَائِ إِلَى ذَلِكَ
35. باب: عید کے دن مسجد میں کھیلنے کودنے اور عورتوں کے اسے دیکھنے کا بیان۔
Chapter: Playing in the masjid on the day of 'Eid and women watching that
حدیث نمبر: 1597
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن موسى، قال: حدثنا الوليد بن مسلم، قال: حدثنا الاوزاعي، قال: حدثني الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: دخل عمر والحبشة يلعبون في المسجد , فزجرهم عمر رضي الله عنه , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" دعهم يا عمر فإنما هم بنو ارفدة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى، قال: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قال: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قال: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: دَخَلَ عُمَرُ وَالْحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ , فَزَجَرَهُمْ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعْهُمْ يَا عُمَرُ فَإِنَّمَا هُمْ بَنُو أَرْفِدَةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ (مسجد میں) داخل ہوئے، حبشی لوگ مسجد میں کھیل رہے تھے تو آپ انہیں ڈانٹنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! انہیں چھوڑو (کھیلنے دو) یہ بنو ارفدہ ہی تو ہیں۔

تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 13194)، وقد أخرجہ: خ /الجھاد 79 (2901)، صحیح مسلم/العیدین 4 (893)، مسند احمد 2/368، 540 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: بنی ارفدہ حبشیوں کا لقب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري2901عبد الرحمن بن صخرالحبشة يلعبون عند النبي بحرابهم دخل عمر فأهوى إلى الحصى فحصبهم بها فقال دعهم يا عمر
   صحيح مسلم2069عبد الرحمن بن صخردعهم يا عمر
   سنن النسائى الصغرى1597عبد الرحمن بن صخردعهم يا عمر فإنما هم بنو أرفدة
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1597 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1597  
1597۔ اردو حاشیہ:
➊ مسجد کھیل کود کے لیے نہیں ہوتی مگر چونکہ یہ کھیل فضول نہ تھا بلکہ نیزوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے جو کہ مسلمانوں کی جہادی قوت کا ذریعہ ہے، لہٰذا اسے مسجد میں گوارا فرمایا۔ ورنہ فٹ بال اور کرکٹ وغیرہ مسجد میں نہیں کھیلے جاسکتے کہ وہ صرف لہوولعب ہیں یا زیادہ سے زیادہ جسمانی ورزش کے لیے ہیں۔ ان کو کھیلنے والے کی نیت جہادی نہیں ہوتی۔
بنوارفدہ حبشیوں کا لقب ہے یا ان کے جدامجد کی طرف نسبت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1597   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2901  
2901. حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حبشی لوگ (اپنے چھوٹے نیزوں اور برچھوں سے) نبی کریم ﷺ کے پاس کھیل رہے تھے، اس دوران میں حضرت عمر ؓ تشریف لے آئے اور کنکریاں اٹھا کرانھیں مارنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے عمر ؓ! انھیں چھوڑ دو۔ علی بن مدینی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ وہ مسجد میں کھیل رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2901]
حدیث حاشیہ:
یہ جنگی کرتبوں کی مشق تھی۔
حضور نبی میں حضرت عمر ؓنے اسے خلاف ادب سمجھا مگر آنحضرتﷺ نے حبشی مجاہدین کی ہمت افزائی فرمائی اور ان کی اس مشق کو جاری رہنے دیا۔
عہد رسالت میں نشر و اشاعت بلکہ جملہ امور نظم و نسق ملت کے لئے دفتر کا کام بھی مسجد ہی سے لیا جاتا تھا۔
اسلام کا ابتدائی دور تھا‘ آج جیسی آسانیاں مہیا نہ تھیں اس لئے ملی امور کے لئے مسجد ہی کو بطور مرکز ملت استعمال کیا گیا۔
آج بھی مساجد کو اسلامی ملی امور کے لئے بایں طور استعمال کیا جاسکتا ہے۔
وفیه کفایة لمن له درایة
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2901   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2901  
2901. حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حبشی لوگ (اپنے چھوٹے نیزوں اور برچھوں سے) نبی کریم ﷺ کے پاس کھیل رہے تھے، اس دوران میں حضرت عمر ؓ تشریف لے آئے اور کنکریاں اٹھا کرانھیں مارنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے عمر ؓ! انھیں چھوڑ دو۔ علی بن مدینی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ وہ مسجد میں کھیل رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2901]
حدیث حاشیہ:

حدیث میں کھیلنے سے مراد کھیل تماشا نہیں بلکہ جہادی مشقیں ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ تین کھیلوں کے علاوہ تمام کھیل ایک مسلمان کے شایان شان نہیں:
ایک یہ کہ گھوڑے کو جنگی تجربہ کرانا، دوسرا اپنی بیوی سے کھیلنا،تیسرا تیرکمان سے تیر اندازی کرنا۔
(سنن أبي داود، الجھاد، حدیث: 2513)
بہرحال ایک مسلمان کو جنگی ہتھیاروں سے شغل رکھنا چاہیے اور جدید جنگی ہتھیاروں سے واقفیت ہونی چاہیے۔
نہ معلوم کب ان سے واسطہ پڑجائے۔

حضرت عمر ؓنے اسے خلاف ادب خیال کیا مگررسول اللہ ﷺنے حبشی مجاہدین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس جہادی مشق کو جاری رکھنے کی تلقین فرمائی۔
(فتح الباري: 114/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2901   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.