الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
25. بَابُ الاِسْتِنْثَارِ فِي الْوُضُوءِ:
25. باب: وضو میں ناک صاف کرنا ضروری ہے۔
(25) Chapter. The cleaning of the nose by putting water in it and then blowing it out during ablution.
حدیث نمبر: Q161
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ذكره عثمان وعبد الله بن زيد وابن عباس رضي الله عنهم عن النبي صلى الله عليه وسلم.ذَكَرَهُ عُثْمَانُ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ اس مسئلہ کو عثمان اور عبداللہ بن زید اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔


“Is masle ko Uthman aur Abdullah bin Zaid aur Ibn-e-Abbas Radhiallahu Anhum ne Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam se naql kiya hai.”

حدیث نمبر: 161
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبدان، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا يونس، عن الزهري، قال: اخبرني ابو إدريس، انه سمع ابا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" من توضا فليستنثر، ومن استجمر فليوتر".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" مَنْ تَوَضَّأَ فَلْيَسْتَنْثِرْ، وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتِرْ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا انہیں یونس نے زہری کے واسطے سے خبر دی، کہا انہیں ابوادریس نے بتایا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص وضو کرے اسے چاہیے کہ ناک صاف کرے اور جو پتھر سے استنجاء کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد (یعنی ایک یا تین یا پانچ ہی) سے کرے۔


Hum se Abdan ne bayan kiya, kaha unhein Younus ne Zohri ke waaste se khabar di, kaha unhein Abu Idrees ne bataaya, unhon ne Abu Hurairah Radhiallahu Anhu se suna, woh Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam se naql karte hain ke Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya jo shakhs Wuzu kare use chaahiye ke naak saaf kare aur jo paththar se istinja kare use chaahiye ke taaq adad (yani ek ya teen ya paanch hi) se kare.

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Whoever performs ablution should clean his nose with water by putting the water in it and then blowing it out, and whoever cleans his private parts with stones should do it with odd number of stones."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 162


   سنن النسائى الصغرى88عبد الرحمن بن صخرمن توضأ فليستنثر من استجمر فليوتر
   صحيح البخاري161عبد الرحمن بن صخرمن توضأ فليستنثر من استجمر فليوتر
   صحيح البخاري162عبد الرحمن بن صخرإذا توضأ أحدكم فليجعل في أنفه ثم لينثر من استجمر فليوتر إذا استيقظ أحدكم من نومه فليغسل يده قبل أن يدخلها في وضوئه فإن أحدكم لا يدري أين باتت يده
   صحيح مسلم560عبد الرحمن بن صخرإذا استجمر أحدكم فليستجمر وترا إذا توضأ أحدكم فليجعل في أنفه ماء ثم لينتثر
   سنن ابن ماجه409عبد الرحمن بن صخرمن توضأ فليستنثر من استجمر فليوتر
   المعجم الصغير للطبراني95عبد الرحمن بن صخرمن توضأ فليستنثر من استجمر فليوتر
   صحيفة همام بن منبه53عبد الرحمن بن صخرإذا استجمر أحدكم فليوتر
   بلوغ المرام35عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏إذا استيقظ احدكم من نومه فلا يغمس يده في الإناء حتى يغسلها ثلاثا،‏‏‏‏ فإنه لا يدري اين باتت يده
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم42عبد الرحمن بن صخرمن توضا فليستنثر، ومن استجمر فليوتر
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم35عبد الرحمن بن صخرإذا استيقظ احدكم من نومه، فليغسل يده قبل ان يدخلها فى وضوئه، فإن احدكم لا يدري اين باتت يده

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 161  
´پتھر سے استنجاء`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ تَوَضَّأَ فَلْيَسْتَنْثِرْ، وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتِرْ . . .»
. . . انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص وضو کرے اسے چاہیے کہ ناک صاف کرے اور جو پتھر سے استنجاء کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد (یعنی ایک یا تین یا پانچ ہی) سے کرے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الاِسْتِنْثَارِ فِي الْوُضُوءِ:: 161]

تشریح:
مٹی کے ڈھیلے بھی پتھر ہی میں شمار ہیں بلکہ ان سے صفائی زیادہ ہوتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 161   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 161  
161. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:جو شخص وضو کرے، وہ ناک صاف کرے اور جو ڈھیلے سے استنجا کرے، وہ طاق ڈھیلے لے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:161]
حدیث حاشیہ:
مٹی کے ڈھیلے بھی پتھر ہی میں شمار ہیں بلکہ ان سے صفائی زیادہ ہوتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 161   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 35  
´نیند سے بیدار ہونے پر اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں نہ ڈالنے کا حکم`
«. . . ‏‏‏‏إذا استيقظ احدكم من نومه فلا يغمس يده في الإناء حتى يغسلها ثلاثا،‏‏‏‏ فإنه لا يدري اين باتت يده . . .»
. . . تم میں سے جب کوئی نیند سے بیدار ہو تو تین مرتبہ دھونے سے پہلے اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں نہ ڈالے۔ کیونکہ اسے یہ معلوم نہیں کہ رات بھر ہاتھ کہاں کہاں گردش کرتا رہا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 35]

لغوی تشریح:
«فَلَا يَغْمِسُ» میم کے کسرہ کے ساتھ ہے اور اس کے معنی ہیں: داخل نہ کرے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور اکثر علماء کے نزدیک یہ حکم استحباب پر مبنی ہے مگر امام احمد رحمہ اللہ اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ جمہور کی رائے ہی اقرب الی الصواب ہے۔ البتہ جب اسے یقین حاصل ہو جائے کہ اس کا ہاتھ نجاست و گندگی سے آلودہ ہوا ہے تو ہاتھ دھونا ضروری ہے۔ نیز یہ مقدمات وضو میں سے بھی ہے۔

فائدہ:
حدیث میں مذکور لفظ «فِي الْإِنَاءِ» اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص شب و روز میں جس وقت نیند سے اٹھے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ کسی برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے تین مرتبہ دھو لے۔ یہ حکم ہر قسم کے برتن کے لیے ہے البتہ نہر اور بڑا حوض و تالاب اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں یہی رائے بیان کی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 35   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 42  
´ڈھیلوں سے استنجا کرے تو طاق (تین عدد) استعال کرے`
«. . . عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من توضا فليستنثر، ومن استجمر فليوتري . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص وضو کرے تو ناک چھنک کر صاف کرے اور جو ڈھیلے سے استنجا کرے تو طاق عدد یعنی تین پانچ ڈھیلے استعمال کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 42]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 237، من حديث ما لك به ورواه البخاري 161، من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے تو اپنی ناک میں پانی ڈالے پھر ناک چھنک کر صاف کرے اور جو شخص ڈھیلوں سے استنجا کرے تو طاق (تین عدد) استعال کرے۔ دیکھئے: [الموطا حديث: 320، و سنده صحيح ورواه البخاري: 162]
➋ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ وضو میں چہرہ دھونا، دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھونا، سر کا مسح کرنا اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھونا فرض ہے صرف پاؤں کے دھونے کے بارے میں شیعہ نے اختلاف کیا ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 31/4]
➌ وضو کے وقت ناک میں پانی ڈالنے کو استنشاق اور ناک سے اس پانی کے باہر نکالنے کو استنثار کہتے ہیں۔ [التمهيد 33/4]
➍ بعض علماء کہتے ہیں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا سنت ہے اور بعض کہتے ہیں کہ فرض ہے۔
● یہ کہنا کہ یہ عمل وضو میں سنت ہے اور غسل میں فرض ہے، بالکل بلا دلیل ہے۔
➎ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہےکہ آپ نے کبھی کلی یا ناک میں پانی ڈالے بغیر وضو کیا ہو۔
➏ بہتر یہی ہے کہ ایک چلو ہی سے کلی کی جائے اور ناک میں پانی ڈالا جائے جیسا کہ صحيح بخاري [191]، صحيح مسلم [235] دارالسلام: [555] سے ثابت ہے اور اگر کوئی شخص علیحدہ چلو سے کلی کرے اور علیحدہ چلو سے ناک میں پانی ڈالے تو یہ بھی صحیح ہے جیسا کہ محدث ابن ابی خثیمہ کی التاريخ الكبير [ص 588 ح 1410] والی حسن لذاته مرفوع روایت سے ثابت ہے۔
➐ کلی دائیں ہاتھ سے کرنی چاہئے۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد: 112، وسنده صحيح]
➑ ناک بائیں ہاتھ سے صاف کرنی چاہئے۔ [سنن النسائي 67/1 ح 91 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 75   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 35  
´نیند سے بیداری پر ہاتھ دھونا`
«. . . 319- مالك عن أبى الزناد عن الأعرج عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا استيقظ أحدكم من نومه، فليغسل يده قبل أن يدخلها فى وضوئه، فإن أحدكم لا يدري أين باتت يده . . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی نیند سے بیدار ہو تو وضو کے پانی میں اپنا ہاتھ داخل کرنے سے پہلے اسے دھوئے کیونکہ اسے پتا نہیں کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے؟ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 35]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 162، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ تھوڑا پانی (جو دو قُلّوں سے کم ہو) نجاست گرنے سے ناپاک ہو جاتا ہے۔
➋ وضو سے پہلے علیحدہ پانی لے کر دونوں ہاتھ دھونا بہتر ہے۔
➌ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بیٹھ کر سو جاتے تو دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے اور اسی وضو سے نماز پڑھتے تھے۔ دیکھئے: [الموطأ 22/1 ح 39]
وسندہ صحیح لیکن بہتر یہی ہے کہ بیٹھ کر سوئے یا لیٹ کر، دونوں حالتوں میں دوبارہ وضو کرنا چاہئے۔
● سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ مرفوع حدیث: «وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ» سے ثابت ہوتا ہے کہ مطلقاً نوم (نیند) سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اس حدیث کے لئے دیکھئے: [سنن الترمذي 3536 وقال: هذا حديث حسن صحيح وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 319   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 161  
´پتھروں کے ساتھ استنجاء`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ تَوَضَّأَ فَلْيَسْتَنْثِرْ، وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتِرْ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص وضو کرے اسے چاہیے کہ ناک صاف کرے اور جو پتھر سے استنجاء کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد (یعنی ایک یا تین یا پانچ ہی) سے کرے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الاِسْتِنْثَارِ فِي الْوُضُوءِ: 161]

تخريج الحديث:
[137۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 25 باب الاستنثار فى الوضوء 161، مسلم 237، أبوداود 140]
لغوی توضیح:
«اسْتَجْمَرَ» پتھروں کے ساتھ استنجاء کرے۔
«فَلْيُوْتِرْ» طاق عدد (یعنی تین یا پانچ وغیرہ) میں کرے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 137   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 88  
´ناک جھاڑنے کا حکم۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو وضو کرے تو اسے چاہیئے کہ ناک جھاڑے، اور جو استنجاء میں پتھر استعمال کرے تو اسے چاہیئے کہ طاق استعمال کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 88]
88۔ اردو حاشیہ:
➊ ناک کی صفائی تبھی ممکن ہے جب پانی ناک میں چڑھانے کے بعد سانس اور ہاتھ کی مدد سے ناک کو جھاڑا جائے تاکہ پانی کے ساتھ ساتھ ناک کی غلاظت بھی باہر آ جائے۔ سونے کے دوران میں تو لازماً ناک کے اوپر والے حصے می غلاظت جمع ہو جاتی ہے، اس لیے ناک جھاڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
➋ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحاق رحمہ اللہ نے استنثار کو واجب قرار دیا ہے۔ ظاہر الفاظ ان کی تائید کرتے ہیں، نیز ترجمۃ الباب سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 88   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:161  
161. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:جو شخص وضو کرے، وہ ناک صاف کرے اور جو ڈھیلے سے استنجا کرے، وہ طاق ڈھیلے لے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:161]
حدیث حاشیہ:

روایات سے ثابت ہے کہ شیطان خیشوم (نتھنوں)
میں بیٹھ کر فاسد اثرات دماغ پر ڈالتا ہے۔
(صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3295)
اس سے معلوم ہوا کہ ناک شیطان کی نشست گاہ ہے۔
وہ اسے اپنی آماجگاہ اس لیے بناتا ہے کہ ایک طرف تو غباراڑاڑ کر اس میں پہنچتا ہے دوسری طرف دماغ کی فاسد رطوبات بھی اسی جگہ جمع ہوتی ہیں گویا ناک میں اندر اور باہر دونوں طرف سے گندگی جمع ہوتی رہتی ہے اور شیطان کو گندگی سے خاص مناسبت ہے، اس لیے اسے صاف کرنے کا حکم ہے نیز اگر فاسد رطوبات ناک میں جمع رہیں تو سانس لینے اور قراءت کرنے میں بھی تکلف ہوتا ہے خاص طور پرغنے کی ادائیگی تو خیشوم سے ہوتی ہے، اس لیے اسے صاف کرنا ضروری ہے۔
اسی اہمیت کے پیش نظر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ اسے واجب خیال کرتے ہیں بظاہر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کے ہم نوا ہیں نیز یہاں امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور صیغہ امر میں وجوب ہوتا ہے الایہ کہ اس کے خلاف کوئی قرینہ آجائے۔
اگرچہ جمہور کے نزدیک یہ سنت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی کو وضو کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا تھا۔
وضو کر جیسا کہ تجھے اللہ نے حکم دیا ہے۔
اور آیت کریمہ میں ناک میں پانی ڈالنے اور اسے صاف کرنے کا حکم نہیں ہے لیکن یہ استدلال اس لیے محل نظر ہے کہ ایک لحاظ سے منہ اور ناک چہرے ہی کا حصہ ہیں جس کے دھونے کا اللہ نے حکم دیا ہے نیز حدیث میں اللہ کے حکم سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے جو اللہ کے حکم پر مبنی ہوتی ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ترک ثابت نہیں اگرچہ اس روایت میں تین دفعہ ناک صاف کرنے کا حکم نہیں ہے تاہم دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو وضو کرتے وقت ناک کو تین دفعہ صاف کرے کیونکہ شیطان اس کے خیشوم میں شب باشی کرتا ہے۔
(صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3295)
ناک صاف کرتے وقت بعض روایات میں طاق عدد کا لحاظ رکھنے کا حکم ہے۔
(مسند حمیدي، حدیث: 957)
لیکن یہ حکم وجوب کے لیے نہیں ہے کیونکہ بعض روایات میں جفت عدد پراکتفا بھی ثابت ہے۔
(سنن أبي داؤد، الطھارة، حدیث: 141)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ناک صاف کرنے کو کلی کرنے سے پہلے بیان فرمایا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ منہ کی نسبت ناک میں زیادہ تستر (پوشیدگی)
ہے۔
گویا منہ ظاہر ہے اور ناک اس کا باطن ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر کی صفائی بھی ضروری ہے لیکن باطن کی تطہیر زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ امام صاحب کے نزدیک وضو کرتے وقت اعضاء کے دھونے میں ترتیب ضروری نہیں اس لیے اسے مقدم کیا ہے لیکن یہ بات قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 161   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.