الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
The Book of As-Saum (The Fasting).
25. بَابُ اغْتِسَالِ الصَّائِمِ:
25. باب: روزہ دار کا غسل کرنا جائز ہے۔
(25) Chapter. Taking a bath by a person observing Saum (fast).
حدیث نمبر: Q1929
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وبل ابن عمر رضي الله عنه ثوبا، فالقاه عليه وهو صائم، ودخل الشعبي الحمام وهو صائم، وقال ابن عباس: لا باس ان يتطعم القدر او الشيء، وقال الحسن: لا باس بالمضمضة والتبرد للصائم"، وقال ابن مسعود: إذا كان يوم صوم احدكم فليصبح دهينا مترجلا، وقال انس: إن لي ابزن اتقحم فيه وانا صائم، ويذكر عن النبي صلى الله عليه وسلم انه استاك وهو صائم، وقال ابن عمر: يستاك اول النهار وآخره ولا يبلع ريقه، وقال عطاء: إن ازدرد ريقه لا اقول يفطر، وقال ابن سيرين: لا باس بالسواك الرطب، قيل: له طعم، قال: والماء له طعم وانت تمضمض به، ولم ير انس والحسن، وإبراهيم بالكحل للصائم باسا.وَبَلَّ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثَوْبًا، فَأَلْقَاهُ عَلَيْهِ وَهُوَ صَائِمٌ، وَدَخَلَ الشَّعْبِيُّ الْحَمَّامَ وَهُوَ صَائِمٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا بَأْسَ أَنْ يَتَطَعَّمَ الْقِدْرَ أَوِ الشَّيْءَ، وَقَالَ الْحَسَنُ: لَا بَأْسَ بِالْمَضْمَضَةِ وَالتَّبَرُّدِ لِلصَّائِمِ"، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلْيُصْبِحْ دَهِينًا مُتَرَجِّلًا، وَقَالَ أَنَسٌ: إِنَّ لِي أَبْزَنَ أَتَقَحَّمُ فِيهِ وَأَنَا صَائِمٌ، وَيُذْكَرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ اسْتَاكَ وَهُوَ صَائِمٌ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: يَسْتَاكُ أَوَّلَ النَّهَارِ وَآخِرَهُ وَلَا يَبْلَعُ رِيقَهُ، وَقَالَ عَطَاءٌ: إِنِ ازْدَرَدَ رِيقَهُ لَا أَقُولُ يُفْطِرُ، وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: لَا بَأْسَ بِالسِّوَاكِ الرَّطْبِ، قِيلَ: لَهُ طَعْمٌ، قَالَ: وَالْمَاءُ لَهُ طَعْمٌ وَأَنْتَ تُمَضْمِضُ بِهِ، وَلَمْ يَرَ أَنَسٌ وَالْحَسَنُ، وَإِبْرَاهِيمُ بِالْكُحْلِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا.
‏‏‏‏ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک کپڑا تر کر کے اپنے جسم میں ڈالا حالانکہ وہ روزے سے تھے اور شعبی روزے سے تھے لیکن حمام میں (غسل کے لیے) گئے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہانڈی یا کسی چیز کا مزہ معلوم کرنے میں (زبان پر رکھ کر) کوئی حرج نہیں۔ حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ روزہ دار کے لیے کلی کرنے اور ٹھنڈا حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب کسی کو روزہ رکھنا ہو تو وہ صبح کو اس طرح اٹھے کہ تیل لگا ہوا ہو اور کنگھا کیا ہو اور انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا ایک «ابزن» (حوض پتھر کا بنا ہوا) ہے جس میں میں روزے سے ہونے کے باوجود غوطے مارتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ میں مسواک کی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دن میں صبح اور شام (ہر وقت) مسواک کیا کرتے اور روزہ دار تھوک نہ نگلے اور عطاء رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر تھوک نکل گیا تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا اور ابن سیرین رحمہ اللہ نے کہا کہ تر مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کسی نے کہا کہ اس میں جو ایک مزا ہوتا ہے اس پر آپ نے کہا کیا پانی میں مزا نہیں ہوتا؟ حالانکہ اس سے کلی کرتے ہو۔ انس، حسن اور ابراہیم نے کہا کہ روزہ دار کے لیے سرمہ لگانا درست ہے۔

حدیث نمبر: 1930
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، عن عروة، قالت عائشة رضي الله عنها:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يدركه الفجر في رمضان من غير حلم، فيغتسل ويصوم".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُدْرِكُهُ الْفَجْرُ فِي رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ حُلْمٍ، فَيَغْتَسِلُ وَيَصُومُ".
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ اور ابوبکر نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا رمضان میں فجر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احتلام سے نہیں (بلکہ اپنی ازواج کے ساتھ صحبت کرنے کی وجہ سے) غسل کرتے اور روزہ رکھتے تھے۔ (معلوم ہوا کہ غسل جنابت روزہ دار فجر کے بعد کر سکتا ہے)۔

Narrated `Aisha: (At times) in Ramadan the Prophet used to take a bath in the morning not because of a wet dream and would continue his fast.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 152


   صحيح البخاري1930عائشة بنت عبد اللهيدركه الفجر في رمضان من غير حلم فيغتسل يصوم
   صحيح مسلم2593عائشة بنت عبد اللهتدركني الصلاة وأنا جنب فأصوم لست مثلنا يا رسول الله قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر إني لأرجو أن أكون أخشاكم لله وأعلمكم بما أتقي
   صحيح مسلم2590عائشة بنت عبد اللهيدركه الفجر في رمضان وهو جنب من غير حلم فيغتسل يصوم
   سنن أبي داود2389عائشة بنت عبد اللهأصبح جنبا وأنا أريد الصيام فأغتسل أصوم لست مثلنا قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر إني لأرجو أن أكون أخشاكم لله وأعلمكم بما أتبع
   سنن ابن ماجه1703عائشة بنت عبد اللهيبيت جنبا فيأتيه بلال فيؤذنه بالصلاة فيقوم فيغتسل أنظر إلى تحدر الماء من رأسه يخرج فأسمع صوته في صلاة الفجر
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم253عائشة بنت عبد اللهاصبح جنبا وانا اريد الصيام فاغتسل واصوم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم254عائشة بنت عبد الله يصبح جنبا من جماع غير احتلام فى رمضان، ثم يصوم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 253  
´جنبی آدمی غسل سے پہلے سحری کھا سکتا ہے`
«. . . 302- مالك عن عبد الله بن عبد الرحمن بن معمر الأنصاري عن أبى يونس مولى عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أن رجلا قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم وهو واقف على الباب: يا رسول الله، إني أصبح جنبا وأنا أريد الصيام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وأنا أصبح جنبا وأنا أريد الصيام فأغتسل وأصوم فقال الرجل: يا رسول الله، إنك لست مثلنا، قد غفر لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: والله إني لأرجو أن أكون أخشاكم لله وأعلمكم بحدوده. . . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کے پاس کھڑے تھے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! میں رات کو جنبی ہو جاتا ہوں اور میرا روزہ رکھنے کا ارادہ ہوتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بھی رات کو جنبی ہوتا ہوں اور میرا روزہ رکھنے کا ارادہ ہوتا ہے تو میں نہاتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں۔ اس آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! آپ ہمارے جیسے نہیں ہیں، اللہ نے گناہوں کے اور آپ کے درمیان (نبوت سے) پہلے (بھی) اور بعد میں پردہ ڈالا ہوا ہے یعنی آپ تو گناہوں سے بالکل معصوم ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوئے اور فرمایا: اللہ کی قسم! میں امید کرتا ہوں کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کی حدود کو تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 253]

تخریج الحدیث: [وأخرجه ابوداود 3389، من حديث ما لك، ومسلم 1110/79، من حديث عبد الله بن عبدالرحمن الانصاري به ● سقط من الأصل واستدركته من رواية يحي بن يحي]
تفقه:
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے بالکل پاک تھے۔ آپ سے کسی گناہ کا صدور نہ نبوت سے پہلے ہوا ہے اور نہ نبوت کے بعد۔ «صلى الله عليه و آله و سلم وفداه أبى و أمي و روحي»
➋ اگر رات کو کسی شخص پر جنابت با احتلام کی وجہ سے غسل فرض ہو جائے تو اس پرفوراً نہانا ضروری نہیں ہے بلکہ نہانے کا تعلق نماز کے ساتھ ہے لہٰذا روزہ رکھنے والا پہلے سحری کھالے اور بعد میں نہالے۔
➌نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہونے کے باوجود ہمارے جیسے نہیں بلکہ خیر البشر اور نور ہدایت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ بھی کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جہانوں کے سردار ہونے کے باوجود شرعی احکام سے مبرا نہیں تھے تو دوسرے انسان اعمال واحکام سےکیونکر بری ہو سکتے ہیں۔
➎ نیز دیکھئے [الموطأ حديث: 436، 395، البخاري 1925، 1926، ومسلم 1931، 1932، 1109/78]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 302   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 254  
´جنبی آدمی غسل سے پہلے سحری کھا سکتا ہے`
«. . . 395- مالك عن عبد ربه بن سعيد الأنصاري عن أبى بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام عن عائشة وأم سلمة زوجي النبى صلى الله عليه وسلم أنهما قالتا: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبح جنبا من جماع غير احتلام فى رمضان، ثم يصوم. . . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیویوں سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں احتلام کے بغیر، جماع سے حالت جنابت میں صبح کرتے پھر روزہ رکھتے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 254]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 1109/78 و ابوداود 2388 من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ اگر کس شخص غسل فرض ہو تو وہ سحری کھانے کے غسل کر لے، اس کے روزے میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
نیز دیکھئے [الموطأ حديث: 302، و ابوداود 3389، ومسلم 1110/79]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 395   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1703  
´روزے کا ارادہ رکھتے ہوئے صبح تک جنبی رہنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں رات گزارتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بلال رضی اللہ عنہ آتے، اور آپ کو نماز کی اطلاع دیتے تو آپ اٹھتے اور غسل فرماتے، میں آپ کے سر سے پانی ٹپکتے ہوئے دیکھتی تھی، پھر آپ نکلتے تو میں نماز فجر میں آپ کی آواز سنتی۔ مطرف کہتے ہیں: میں نے عامر سے پوچھا: کیا ایسا رمضان میں ہوتا؟ انہوں نے کہا کہ رمضان اور غیر رمضان سب برابر تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1703]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی اذان کے بعد غسل فرماتے تھے یعنی روزے کی حالت میں کچھ وقت جنابت کی حالت میں گزر جا نے میں کو ئی حر ج نہیں
(2)
حضرت مطرف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استا د سے مذکورہ بالا سوال اس لئے کیا کہ کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ نفلی روزے کی صورت میں شرعی حکم میں نرمی ہے شاید روزے کی صورت میں ایسا نہ ہو امام شا فعی نے وضاحت فرما دی کہ اس مسئلے میں فرض اور نفل روزے میں کوئی فرق نہیں۔

(3)
یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ شاید یہ حکم خواب میں ناپا ک ہو جانے کی صورت میں ہے کیونکہ کہ یہ کیفیت انسان کے بس میں نہیں حدیث: 1704 میں یہ صراحت مو جود ہے کہ ہم بستری کی وجہ سے غسل کی حالت پیش آ جائے تب بھی شرعی حکم  یہی ہے فجر کی اذان ہو جا نے کے بعد غسل کرلیا جائے تو روزہ درست ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1703   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2389  
´رمضان میں جنبی ہونے کی حالت میں صبح کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! میں جنابت کی حالت میں صبح کرتا ہوں اور روزہ رکھنا چاہتا ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بھی جنابت کی حالت میں صبح کرتا ہوں اور روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں پھر غسل کرتا ہوں اور روزہ رکھ لیتا ہوں، اس شخص نے کہا: اللہ کے رسول! آپ تو ہماری طرح نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر رکھے ہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے اور فرمایا: اللہ کی قس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2389]
فوائد ومسائل:
اللہ کی انتہائی خشیت اور اس کے دین کی معرفت کا تقاضا بھرپور عمل اور کامل احتیاط ہے۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ احتیاط کون کر سکتا ہے؟ لہذا اعمال میں آپ ہی کی اقتدا واجب ہے۔
اور آپ ہی امت کے لیے نمونہ ہیں۔
سوائے ان امور کے جن میں آپ کا استثنا ثابت ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2389   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.