الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
The Chapters on Business Transactions
65. بَابُ : مَا لِلْمَرْأَةِ مِنْ مَالِ زَوْجِهَا
65. باب: شوہر کے مال میں عورت کے حق کا بیان۔
حدیث نمبر: 2294
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، وابو معاوية ، عن الاعمش ، عن ابي وائل ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا انفقت المراة"، وقال ابي في حديثه: إذا اطعمت المراة من بيت زوجها غير مفسدة كان لها اجرها وله مثله بما اكتسب ولها بما انفقت وللخازن مثل ذلك من غير ان ينقص من اجورهم شيئا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَنْفَقَتِ الْمَرْأَةُ"، وَقَالَ أَبِي فِي حَدِيثِهِ: إِذَا أَطْعَمَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ كَانَ لَهَا أَجْرُهَا وَلَهُ مِثْلُهُ بِمَا اكْتَسَبَ وَلَهَا بِمَا أَنْفَقَتْ وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کے گھر میں سے خرچ کرے (کی روایت میں خرچ کرے کے بجائے جب عورت کھلائے ہے) اور اس کی نیت مال برباد کرنے کی نہ ہو تو اس کے لیے اجر ہو گا، اور شوہر کو بھی اس کی کمائی کی وجہ سے اتنا ہی اجر ملے گا، اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے، اور خازن کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کچھ کمی ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الزکاة 17 (1425)، 25 (1437)، 26 (1439، 1440)، البیوع 12 (2065)، صحیح مسلم/الزکاة 25 (1024)، سنن الترمذی/الزکاة 34 (672)، سنن ابی داود/الزکاة 44 (1685)، (تحفة الأشراف: 17608)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الزکاة 57 (2540)، مسند احمد (9/44، 99، 278) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اگرچہ عورت کو اپنے شوہر کا اور خادم کو اپنے مالک کا مال بغیر ان کی اجازت کے صدقہ میں دینا جائز نہیں ہے، لیکن یہاں وہ مال مراد ہے جس کے خرچ کی عادتاً عورتوں کو اجازت دی جاتی ہے جیسے کھانے میں سے ایک روٹی فقیر کو دے دینا، یا پیسوں میں سے ایک پیسہ کسی مسکین کو، اور بعضوں نے کہا: اہل حجاز اپنی عورتوں کو صدقہ اور مہمانی کی اجازت دیا کرتے تھے، تو یہ حدیث ان سے خاص ہے، اور بعضوں نے کہا: مراد وہ مال ہے جو شوہر اپنی بیوی کو اس کے خرچ کے لئے دیتا ہے اس میں سے تو عورت بالاتفاق خرچ کر سکتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري1437عائشة بنت عبد اللهإذا تصدقت المرأة من طعام زوجها غير مفسدة كان لها أجرها ولزوجها بما كسب وللخازن مثل ذلك
   صحيح البخاري1440عائشة بنت عبد اللهإذا أطعمت المرأة من بيت زوجها غير مفسدة كان لها أجرها وله مثله وللخازن مثل ذلك له بما اكتسب ولها بما أنفقت
   صحيح البخاري1425عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من طعام بيتها غير مفسدة كان لها أجرها بما أنفقت ولزوجها أجره بما كسب وللخازن مثل ذلك لا ينقص بعضهم أجر بعض شيئا
   صحيح البخاري1441عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من طعام بيتها غير مفسدة فلها أجرها وللزوج بما اكتسب وللخازن مثل ذلك
   صحيح البخاري2065عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من طعام بيتها غير مفسدة كان لها أجرها بما أنفقت ولزوجها بما كسب وللخازن مثل ذلك لا ينقص بعضهم أجر بعض شيئا
   صحيح مسلم2364عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من طعام بيتها غير مفسدة كان لها أجرها بما أنفقت ولزوجها أجره بما كسب وللخازن مثل ذلك لا ينقص بعضهم أجر بعض شيئا
   صحيح مسلم2366عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من بيت زوجها غير مفسدة كان لها أجرها وله مثله بما اكتسب ولها بما أنفقت وللخازن مثل ذلك من غير أن ينتقص من أجورهم شيئا
   جامع الترمذي671عائشة بنت عبد اللهإذا تصدقت المرأة من بيت زوجها كان لها به أجر وللزوج مثل ذلك وللخازن مثل ذلك ولا ينقص كل واحد منهم من أجر صاحبه شيئا له بما كسب ولها بما أنفقت
   جامع الترمذي672عائشة بنت عبد اللهإذا أعطت المرأة من بيت زوجها بطيب نفس غير مفسدة كان لها مثل أجره لها ما نوت حسنا وللخازن مثل ذلك
   سنن أبي داود1685عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من بيت زوجها غير مفسدة كان لها أجر ما أنفقت ولزوجها أجر ما اكتسب ولخازنه مثل ذلك لا ينقص بعضهم أجر بعض
   سنن النسائى الصغرى2540عائشة بنت عبد اللهإذا تصدقت المرأة من بيت زوجها كان لها أجر وللزوج مثل ذلك وللخازن مثل ذلك ولا ينقص كل واحد منهما من أجر صاحبه شيئا للزوج بما كسب ولها بما أنفقت
   سنن ابن ماجه2294عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة وقال أبي في حديثه إذا أطعمت المرأة من بيت زوجها غير مفسدة كان لها أجرها وله مثله بما اكتسب ولها بما أنفقت وللخازن مثل ذلك من غير أن ينقص من أجورهم شيئا
   بلوغ المرام514عائشة بنت عبد اللهإذا انفقت المراة من طعام بيتها،‏‏‏‏ غير مفسدة،‏‏‏‏ كان لها اجرها بما انفقت،‏‏‏‏ ولزوجها اجره بما اكتسب،‏‏‏‏ وللخازن مثل ذلك،‏‏‏‏ لا ينقص بعضهم من اجر بعض شيئا
   مسندالحميدي278عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من بيت زوجها غير مفسدة كان له بما اكتسب، وكان لها بما أنفقت، وللخازن مثل ذلك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2294  
´شوہر کے مال میں عورت کے حق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کے گھر میں سے خرچ کرے (کی روایت میں خرچ کرے کے بجائے جب عورت کھلائے ہے) اور اس کی نیت مال برباد کرنے کی نہ ہو تو اس کے لیے اجر ہو گا، اور شوہر کو بھی اس کی کمائی کی وجہ سے اتنا ہی اجر ملے گا، اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے، اور خازن کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کچھ کمی ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2294]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
گھر میں کما کر لانا مرد کا فرض ہے۔

(2)
اگرچہ کمائی مرد کی ہوتی ہے تاہم عورت کو خرچ کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔

(3)
عورت کو خرچ کرتے وقت یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ مال فضول ضائع نہ کیا جائے اور ناجائز کاموں میں خرچ نہ کیا جائے، اور وہاں خرچ نہ کیا جائے۔
جہاں خاوند پسند نہ کرتا ہو کیونکہ اس سے گھر کے مالی حالات میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور آپس کے تعلقات بھی خراب ہو جاتے ہیں۔

(4)
خزانچی سے مراد وہ شخص ہے جو مالک کی اجازت سے گھر کی ضروریات کے لیے خرچ کرتا ہے، خواہ وہ ملازم ہو یا گھر کا کوئی فرد، مثلاً:
چھوٹا بھائی یا بیٹا وغیرہ۔

(5)
خازن کو یہ ثواب اس وقت ملے گا جب وہ خوشی سے خرچ کرے، اگر وہ صرف حکم کی تعمیل کے طور پر کسی مستحق کو دیتا ہے لیکن دل میں ناراضی محسوس کرتا ہے کہ میرا مالک یہاں کیوں خرچ کرتا ہے تو اسے ثواب نہیں ملے گا کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2294   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 514  
´نفلی صدقے کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب عورت اپنے گھر کے مال سے فضول خرچی کئے بغیر خرچ کرے تو اسے خرچ کرنے کے بدلے میں اجر و ثواب ملے گا اور اس کے شوہر کیلئے کمانے کا ثواب اور اسی طرح خزانچی کیلئے بھی اجر ہے ہر ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 514]
لغوی تشریح 514:
غَیرَ مُفسِدَۃٍ یعنی فضول خرچی، اسراف وتبذیر کے بغیر، نیز یہ خرچ کرنا خاوند اور اس کے زیرِ کفالت افراد کے اخراجات پر اثر انداز نہ ہو۔ بیوی کو خاوند کے مال سے خرچ کرنے کی اجازت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ شوہر اپنی بیوی کو صریح طور پر اجازت دے دے یا اشارتًا جیسا کہ معاشرے میں یہ چیز معروف و معلوم ہے کہ خاوند کی اجازت کے بغیر معمولی چیزوں کو خیرات میں دے دینا قابلِ مؤاخذہ تصور نہیں کیا جاتا۔ ایسا سمجھاجاتا ہے کہ گویا اس کی بیوی کو اجازت دے دی گئی ہے۔

فوائد و مسائل 514:
➊ عورت کو خاوند کی اجازت کے بغیر اتنا صدقہ و خیرات نہیں کرنا چاہیے کہ خاوند کے گھر کا معاشی نظام متأثر ہو کر برباد ہو جائے اور شوہر کے لیے معاشی مشکلات اور دشواریاں کھڑی ہو جائیں۔
➋ معمولی صدقہ، مثلًا: سائل کو روٹی دے دی یا تھوڑا بہت آٹا دے دیا یا پڑوسی کو تھوڑا بہت نمک مرچ دے دی وغیرہ، اس صدقے میں بیوی کے ساتھ ساتھ اس کا شوہر کما کر لانے کی وجہ سے، خزانچی اس کی حفاظت کرنے کی وجہ سے اور خادم خدمت گاری کی بنا پر اجر و ثواب کے مستحق ہیں۔ کسی کے اجر میں سے کمی نہیں کی جائے گی، ہر ایک کو اس کا پورا پورا اجر ملے گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 514   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1685  
´عورت کا اپنے شوہر کے مال سے صدقہ دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے کسی فساد کی نیت کے بغیر خرچ کرے تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور مال کمانے کا ثواب اس کے شوہر کو اور خازن کو بھی اسی کے مثل ثواب ملے گا اور ان میں سے کوئی کسی کے ثواب کو کم نہیں کرے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1685]
1685. اردو حاشیہ: شوہر کی صریح اجازت نہ بھی ہوتو اس کے مزاج زوق عادت اور عرف سے سمجھی جاسکتی ہے۔ اور اس کے برعکس جہاں شوہر دینا چاہتا ہو مگر بیوی بخیل ہو۔۔۔اس کا حال خود سمجھا جاسکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1685   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.