الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شراکت کے مسائل کے بیان میں
The Book of Partnership
8. بَابُ الشَّرِكَةِ فِي الأَرَضِينَ وَغَيْرِهَا:
8. باب: زمین مکان وغیرہ میں شرکت کا بیان۔
(8) Chapter. Sharing land, etc.
حدیث نمبر: 2495
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا هشام، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال:" إنما جعل النبي صلى الله عليه وسلم الشفعة في كل ما لم يقسم، فإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" إِنَّمَا جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زبیری نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کا حق ایسے اموال (زمین جائیداد وغیرہ) میں دیا تھا جن کی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن جب اس کی حد بندی ہو جائے اور راستے بھی بدل دیے جائیں تو پھر شفعہ کا کوئی حق باقی نہیں رہے گا۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: The Prophet established the right of Shu'fa (i.e. Preemption) in joint properties; but when the land is divided and the ways are demarcated, then there is no pre-emption.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 44, Number 675


   صحيح البخاري2496جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح البخاري2213جابر بن عبد اللهالشفعة في كل مال لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح البخاري6976جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح البخاري2495جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح مسلم4129جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شرك في أرض أو ربع أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يعرض على شريكه فيأخذ أو يدع إن أبى فشريكه أحق به حتى يؤذنه
   صحيح مسلم4128جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة أو حائط لا يحل له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إذا باع ولم يؤذنه فهو أحق به
   جامع الترمذي1369جابر بن عبد اللهالجار أحق بشفعته ينتظر به إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا
   جامع الترمذي1312جابر بن عبد اللهمن كان له شريك في حائط فلا يبيع نصيبه من ذلك حتى يعرضه على شريكه
   سنن أبي داود3514جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   سنن أبي داود3513جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه
   سنن أبي داود3518جابر بن عبد اللهالجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا
   سنن النسائى الصغرى4709جابر بن عبد اللهالشفعة والجوار
   سنن النسائى الصغرى4705جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة وحائط لا يحل له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إن باع ولم يؤذنه فهو أحق به
   سنن النسائى الصغرى4650جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه
   سنن ابن ماجه2499جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   سنن ابن ماجه2494جابر بن عبد اللهالجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا
   المعجم الصغير للطبراني513جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شرك في ربع أو حائط لا يصلح له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه فيأخذ أو يدع
   بلوغ المرام763جابر بن عبد اللهالجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا
   مسندالحميدي1309جابر بن عبد اللهأيكم كانت له أرض أو نخل فلا يبعها حتى يعرضها على شريكه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2499  
´جائیداد کی حد بندی کے بعد حق شفعہ نہیں ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا ہو جائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الشفعة/حدیث: 2499]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مشترک چیز میں اگر ایک شریک اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو پہلے اپنے دوسرے شریکوں کو بتائے تاکہ اگر وہ خریدنا چاہیں تو خرید لیں۔

(2)
یہ حق زمین یا مکان میں بھی ہے اوردوسری کسی بھی مشترک چیز میں بھی۔

(3)
جب مشترک چیز تقسیم کر لی جائے اورمکان یا زمین کو تقسیم کرکے ہرشخص کا حصہ مقرر ہو جائے کہ یہاں تک فلاں کا حصہ ہے اوراس سے آگے فلاں کا حصہ ہے توشراکت ختم ہوجاتی ہے صرف ہمسائیگی باقی رہ جاتی ہے اس صورت میں جو شخص پہلے شریک تھا وہ ہمسائیگی کی بنیاد پرشفعے کا دعوی نہیں کر سکتا۔

(4)
بعض احادیث میں جو پڑوسی کے حق شفعہ کا ذکر ہے تو اس سے مراد مطلق پڑوسی نہیں بلکہ صرف وہ پڑوسی مراد ہے جو راستے یا زمین وغیرہ میں شریک ہو، اگر ایسا نہ ہوتو پھر پڑوسی بھی شفعے کا حق دار نہیں ہے اس لیے کہ جب یہ فرما دیا گیا کہ حد بندی اورراستے الگ الگ ہو جانےکے بعد حق شفعہ نہیں تو پھر محض پڑوسی ہونا پڑوسی کےحق شفعہ کا جواز نہیں بن سکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2499   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1369  
´غائب (جو شخص موجود نہ ہو) کے شفعہ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا ۱؎ اگرچہ وہ موجود نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1369]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اس بات پردلیل ہے کہ غیرحاضرشخص کا شفعہ باطل نہیں ہو تا،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے،
اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ جب حدبندی ہوجائے اورراستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1369   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2495  
2495. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حق شفعہ کا حکم صرف اس مال میں دیا جو تقسیم نہیں ہوا۔ جب حدیں قائم ہوگئیں اور راستے بدل گئے تو حق شفعہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2495]
حدیث حاشیہ:
قسطلانی ؒنے کہا، اس سے یہ نکلتا ہے کہ شفعہ غیرمنقولہ جائیداد میں ہے نہ کہ منقولہ میں۔
اس کی بحث پہلے بھی گزرچکی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2495   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2495  
2495. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حق شفعہ کا حکم صرف اس مال میں دیا جو تقسیم نہیں ہوا۔ جب حدیں قائم ہوگئیں اور راستے بدل گئے تو حق شفعہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2495]
حدیث حاشیہ:
زمین، پلاٹ اور مکان وغیرہ میں شراکت جائز ہے۔
اگر کوئی شریک اپنی مرضی سے حصہ فروخت کر دے تو دوسرے شریک کو شفعے کا حق ہے۔
جب تقسیم ہو جائے اور شراکت کا وجود نہ رہے تو شفعے کا حق بھی ساقط ہو جاتا ہے، مثلاً:
ایک حویلی میں چند کمرے ہیں اور اس میں چند ایک لوگوں کی شراکت ہے۔
ایک شریک کا کمرہ الگ کر دیا گیا اور اسے راستہ دے دیا گیا تو دوسرے کمروں کو اگر مالک فروخت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے کیونکہ شریک کا راستہ متعین ہے اور اس کی حد بندی بھی ہو چکی ہے۔
بہرحال اس مقام پر شفعے کے احکام و مسائل بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ صرف زمین وغیرہ میں شراکت کی وضاحت مقصود ہے۔
شفعے کی مزید وضاحت آئندہ عنوان میں ہو گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2495   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.