الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
The Book of Gifts and The Superiority of Giving Gifts and The Exhortation for Giving Gifts
35. بَابُ فَضْلِ الْمَنِيحَةِ:
35. باب: تحفہ «منيحة» کی فضیلت کے بارے میں۔
(35) Chapter. The superiority of the Maniha, i.e., a milch she-camel or a sheep lent to somebody to use its milk and return it to its owner afterwards.
حدیث نمبر: 2634
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا ايوب، عن عمرو، عن طاوس، قال: حدثني اعلمهم بذاك يعني ابن عباس رضي الله عنهما، ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج إلى ارض تهتز زرعا، فقال: لمن هذه؟ فقالوا: اكتراها فلان، فقال:" اما إنه لو منحها إياه كان خيرا له من ان ياخذ عليها اجرا معلوما".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَعْلَمُهُمْ بِذَاكَ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى أَرْضٍ تَهْتَزُّ زَرْعًا، فَقَالَ: لِمَنْ هَذِهِ؟ فَقَالُوا: اكْتَرَاهَا فُلَانٌ، فَقَالَ:" أَمَا إِنَّهُ لَوْ مَنَحَهَا إِيَّاهُ كَانَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا أَجْرًا مَعْلُومًا".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے طاؤس نے بیان کیا کہ مجھ سے ان میں سب سے زیادہ اس (مخابرہ) کے جاننے والے نے بیان کیا، ان کی مراد ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ایسے کھیت کی طرف تشریف لے گئے جس کی کھیتی لہلہا رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ کس کا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتلایا کہ فلاں نے اسے کرایہ پر لیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ ہدیتاً دے دیتا تو اس سے بہتر تھا کہ اس پر ایک مقررہ اجرت وصول کرتا۔

Narrated Tawus: That he was told by the most learned one amongst them (i.e. Ibn `Abbas) that the Prophet went towards some land which was flourishing with vegetation and asked to whom it belonged. He was told that such and such a person took it on rent. The Prophet said, "It would have been better (for the owner) if he had given it to him gratis rather than charging him a fixed rent.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 47, Number 802


   صحيح البخاري2342عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه خير له من أن يأخذ شيئا معلوما
   صحيح البخاري2634عبد الله بن عباسلو منحها إياه كان خيرا له من أن يأخذ عليها أجرا معلوما
   صحيح البخاري2330عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه خير له من أن يأخذ عليه خرجا معلوما
   صحيح مسلم3961عبد الله بن عباسمن كانت له أرض فإنه أن يمنحها أخاه خير
   صحيح مسلم3960عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه أرضه خير له من أن يأخذ عليها كذا وكذا لشيء معلوم
   صحيح مسلم3958عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه خير له من أن يأخذ عليها خرجا معلوما
   صحيح مسلم3957عبد الله بن عباسيمنح الرجل أخاه أرضه خير له من أن يأخذ عليها خرجا معلوما
   سنن النسائى الصغرى3904عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه أرضه خير من أن يأخذ عليها خراجا معلوما
   سنن ابن ماجه2456عبد الله بن عباسألا منحها أحدكم أخاه لم ينه عن كرائها
   سنن ابن ماجه2464عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه الأرض خير له من أن يأخذ خراجا معلوما
   سنن ابن ماجه2462عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه خير له من أن يأخذ عليها أجرا معلوما
   سنن ابن ماجه2457عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه أرضه خير له من أن يأخذ عليها كذا وكذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2462  
´تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی کی رخصت کا بیان۔`
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! کاش آپ اس بٹائی کو چھوڑ دیتے، اس لیے کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، تو وہ بولے: عمرو! میں ان کی مدد کرتا ہوں، اور ان کو (زمین بٹائی پر) دیتا ہوں، اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ہماری موجودگی میں لوگوں سے ایسا معاملہ کیا ہے، اور ان کے سب سے بڑے عالم یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں کیا، بلکہ یوں فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو یوں ہی بغیر کرایہ کے دی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2462]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
عالم سے مسئلہ پوچھنے میں احترام پوری طرح ملحوظ رکھنا چاہیے۔

(2)
عالم کو چاہیے کہ مسئلہ پوچھنے والے کو وضاحت سے مسئلہ سمجھا کر مطمئن کرے۔
اپنے موقف کی تائید میں اپنے سے بڑے عالم کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس طرح تابعی حضرت طاوس رحمت اللہ علیہ نے دو صحابیوں حضرت معاذ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیا اس سے عام سائل کو زیادہ اطمینان ہو جاتا ہے۔

(3)
مقرر معاوضہ سے مراد متعین رقم کا معاہدہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2462   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2634  
2634. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، کہ نبی ﷺ ایک کھیت کے پاس سے گزرے جس میں کھیتی لہلہا رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: یہ کس کی زمین ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یہ کھیت فلاں آدمی نے کرائے پر لے رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر اس کا مالک منیحہ کے طور پر بخش دیتا تو اس پر ایک مقررہ اجرت وصول کرنے سے بہتر تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2634]
حدیث حاشیہ:
مطلب آنحضرت ﷺ کا یہ تھا کہ اگر زمین بے کار پڑی ہو تو اپنے مسلمان بھائی کو مفت زراعت کے لیے دے دے۔
اس کا کرایہ لینے سے یہ امر افضل ہے اور کرایہ لینے سے آپ نے منع نہیں فرمایا۔
دوسری روایت میں عمرو نے طاؤس سے کہا، کاش! تم بٹائی کرنا چھوڑدو، کیوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس سے منع کیا ہے۔
انہوں نے کہاعمرو! میں تو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہوں اور صحابہ میں جو سب سے زیادہ علم رکھتے تھے یعنی ابن عباس ؓ انہوں نے مجھ سے بیان کیا، آخر تک یہ نہ بھولنا چاہئے کہ عہد نبوی نہ صرف عرب بلکہ ساری دنیا میں انسانی، تمدنی، معاشرتی ترقی کا ابتدائی دور تھا۔
اس دور میں غیر آباد زمینوں کو آباد کرنے کی سخت ضرورت تھی۔
ان ہی مقاصد کے پیش نظر پیغمبر اسلام ﷺ نے زمین کو آباد کرنے کے سلسلہ میں ہر ممکن آسانی و سہولت کو مدنظر رکھا اور اس کو زیادہ عوامی بنانے کی رغبت دلائی، مگر بعد کے زمانوںمیں جاگیرداری نظام نے زمیندار اور کاشت کار دو طبقے پیدا کردئیے جن کے نتائج بد کی سنگین سزائیں آج تک یہ دونوں گروہ باہمی کش مکش کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔
کاش اسلامی نظام دنیا میں برپا ہو، جس کی برکت سے نوع انسانی کو ان مصائب سے نجات مل سکے۔
آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2634   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2634  
2634. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، کہ نبی ﷺ ایک کھیت کے پاس سے گزرے جس میں کھیتی لہلہا رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: یہ کس کی زمین ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یہ کھیت فلاں آدمی نے کرائے پر لے رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر اس کا مالک منیحہ کے طور پر بخش دیتا تو اس پر ایک مقررہ اجرت وصول کرنے سے بہتر تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2634]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کی زمین بے کار اور فالتو پڑی ہے تو اپنے مسلمان بھائی کو مفت دے دے تاکہ وہ اسے آباد کرے۔
واضح رہے کہ اس وقت تمدنی، معاشرتی ترقی کا ابتدائی دور تھا، اس دور میں غیر آباد زمینوں کو آباد کرنے کی سخت ضرورت تھی۔
انہی مقاصد کے پیش نظر آپ نے رغبت دلائی۔
آباد زمینوں کے متعلق تو انصار اور مہاجرین کے درمیان بٹائی کا معاہدہ ہو چکا تھا، بے آباد اور فالتو زمین کے متعلق آپ نے فرمایا:
اسے فضیلت کے طور پر اگر دے دیا جائے تو بہتر ہے۔
اس سے بٹائی یا ٹھیکے پر دینے کی نفی نہیں ہوتی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2634   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.