الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
The Book of Gifts and The Superiority of Giving Gifts and The Exhortation for Giving Gifts
36. بَابُ إِذَا قَالَ أَخْدَمْتُكَ هَذِهِ الْجَارِيَةَ عَلَى مَا يَتَعَارَفُ النَّاسُ. فَهْوَ جَائِزٌ:
36. باب: عام دستور کے مطابق کسی نے کسی شخص سے کہا کہ یہ لڑکی میں نے تمہاری خدمت کے لیے دے دی تو جائز ہے۔
(36) Chapter. It is permissible if somebody says, “I give this slave-girl to you for your service according to the prevalent convention known amongst the people."
حدیث نمبر: Q2635
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال بعض الناس: هذه عارية، وإن قال: كسوتك هذا الثوب فهو هبة.وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: هَذِهِ عَارِيَّةٌ، وَإِنْ قَالَ: كَسَوْتُكَ هَذَا الثَّوْبَ فَهُوَ هِبَةٌ.
بعض لوگوں نے کہا کہ لڑکی عاریتاً ہو گی اور اگر یہ کہا کہ میں نے تمہیں یہ کپڑا پہننے کے لیے دیا تو کپڑا ہبہ سمجھا جائے گا۔

حدیث نمبر: 2635
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، حدثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" هاجر إبراهيم بسارة، فاعطوها آجر، فرجعت، فقالت: اشعرت ان الله كتب الكافر، واخدم وليدة". وقال ابن سيرين، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، فاخدمها هاجر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" هَاجَرَ إِبْرَاهِيمُ بِسَارَةَ، فَأَعْطَوْهَا آجَرَ، فَرَجَعَتْ، فَقَالَتْ: أَشَعَرْتَ أَنَّ اللهَ كَتَبَ الْكَافِرَ، وَأَخْدَمَ وَلِيدَةً". وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْدَمَهَا هَاجَرَ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کے ساتھ ہجرت کی تو انہیں بادشاہ نے آجر کو (یعنی ہاجرہ علیہا السلام کو) عطیہ میں دے دیا۔ پھر وہ واپس ہوئیں اور ابراہیم علیہ السلام سے کہا، دیکھا آپ نے اللہ تعالیٰ نے کافر کو کس طرح ذلیل کیا اور ایک لڑکی خدمت کے لیے بھی دے دی۔ ابن سیرین نے کہا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ بادشاہ نے ہاجرہ کو ان کی خدمت کے لیے دے دیا تھا۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "The Prophet Abraham migrated with Sarah. The people (of the town where they migrated) gave her Ajar (i.e. Hajar). Sarah returned and said to Abraham, "Do you know that Allah has humiliated that pagan and he has given a slave-girl for my service?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 47, Number 803


   صحيح البخاري5084عبد الرحمن بن صخرلم يكذب إبراهيم إلا ثلاث كذبات بينما إبراهيم مر بجبار ومعه سارة فذكر الحديث فأعطاها هاجر قالت كف الله يد الكافر وأخدمني آجر
   صحيح البخاري2217عبد الرحمن بن صخرهاجر إبراهيم بسارة فدخل بها قرية فيها ملك من الملوك أو جبار من الجبابرة فقيل دخل إبراهيم بامرأة هي من أحسن النساء فأرسل إليه أن يا إبراهيم من هذه التي معك قال أختي ثم رجع إليها فقال لا تكذبي حديثي فإني أخبرتهم أنك أختي والله إن على الأرض مؤمن غيري وغيرك ف
   صحيح البخاري6950عبد الرحمن بن صخرهاجر إبراهيم بسارة دخل بها قرية فيها ملك من الملوك أو جبار من الجبابرة فأرسل إليه أن أرسل إلي بها فأرسل بها فقام إليها فقامت توضأ وتصلي فقالت اللهم إن كنت آمنت بك وبرسولك فلا تسلط علي الكافر فغط حتى ركض برجله
   صحيح البخاري2635عبد الرحمن بن صخرهاجر إبراهيم بسارة فأعطوها آجر فرجعت فقالت أشعرت أن الله كتب الكافر وأخدم وليدة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6950  
´جب عورت سے زبردستی زنا کیا گیا ہو تو اس پر حد نہیں ہے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"هَاجَرَ إِبْرَاهِيمُ بِسَارَةَ، دَخَلَ بِهَا قَرْيَةً فِيهَا مَلِكٌ مِنَ الْمُلُوكِ، أَوْ جَبَّارٌ مِنَ الْجَبَابِرَةِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ أَنْ أَرْسِلْ إِلَيَّ بِهَا، فَأَرْسَلَ بِهَا، فَقَامَ إِلَيْهَا، فَقَامَتْ تَوَضَّأُ وَتُصَلِّي، فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ، فَلَا تُسَلِّطْ عَلَيَّ الْكَافِرَ، فَغُطَّ حَتَّى رَكَضَ بِرِجْلِهِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کو ساتھ لے کر ہجرت کی تو ایک ایسی بستی میں پہنچے جس میں بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ یا ظالموں میں سے ایک ظالم رہتا تھا اس ظالم نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس یہ حکم بھیجا کہ سارہ علیہا السلام کو اس کے پاس بھیجیں آپ نے سارہ کو بھیج دیا وہ ظالم ان کے پاس آیا تو وہ (سارہ علیہا السلام) وضو کر کے نماز پڑھ رہی تھیں انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں تو تو مجھ پر کافر کو نہ مسلط کر پھر ایسا ہوا کہ وہ کم بخت بادشاہ اچانک خراٹے لینے اور گر کر پاؤں ہلانے لگا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ: 6950]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6950 کا باب: «بَابُ إِذَا اسْتُكْرِهَتِ الْمَرْأَةُ عَلَى الزِّنَا، فَلاَ حَدَّ عَلَيْهَا:»

باب اورحدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب اس مسئلے پر قائم فرمایا کہ اگر عورت کے ساتھ زبردستی زنا کرایا گیا تو اس عورت پر کوئی حد نہ ہو گی، کیونکہ وہ عورت مجبور کی گئی ہے، جبکہ حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بظاہر کوئی ایسے الفاظ نہیں ہیں جو باب سے مناسبت رکھتے ہوں۔
ابن بطال رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وجه إدخال هذا الحديث فى هذا الباب مع أن سارة عليها السلام كانت معصومة من كل سوء أنها لا ملامة عليها فى الخلوة مكرهة فكذا غيرها لوزني بها مكرهة لا حد عليها.» [فتح الباري لابن حجر: 26/13]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث کو اس باب میں لانے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت سارۃ علیہا السلام ہر برائی سے معصوم تھیں، ان کے خلوت میں زبردستی کی تو اس خلوت کی وجہ سے ان پر کوئی ملامت نہیں تو بعین اسی طرح سے اگر کسی اور عورت کے ساتھ زبردستی کی جائے اور زنا کیا جائے تو اس عورت پر کوئی حد نافذ نہ ہو گی۔
علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«إدخال حديث سارة فى الترجمة غير حسن ولا مطابق إلا من جهة سقوط الملامة عنها فى خلوته بها لأنها مكرهة.» [المتواري: ص 338]
یعنی حدیث سارۃ سے باب کی مطابق نہیں ہے، مگر حضرت سارۃ علیہا السلام ان کے خلوت میں کر دیئے جانے کی وجہ سے سقوط ملامت ٹھہریں کیوں کہ وہ اس پر مجبور کی گئی تھیں۔
علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«مطابقة لترجمة ظاهرة من حيث إنه كما لا ملامة فى الخلوة معه إكراهًا، فكذالك المستكرهة فى الزنا لا حد عليها.» [عمدة القاري للعيني: 152/23]
حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے کیونکہ حضرت سارۃ علیہا السلام سے خلوت کے لیے زبردستی کی گئی، جس کی وجہ سے ان پر کوئی ملامت نہیں ٹھہری، پس اسی طرح سے اگر کسی پر زنا کرنے پر زبردستی کی جائے تو اس پر کوئی حد نہ ہو گی۔
ابن الملقن رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
یعنی حدیث ابراہیم علیہ السلام اور سارۃ علیہا السلام میں (باب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ) حضرت سارۃ علیہا السلام کافر کے ساتھ خلوت میں تھیں، (جو کہ زبردستی کا معاملہ تھا) اسی طرح سے ان پر زبردستی کی وجہ سے کوئی ملامت نہ تھی، پس اسی طرح سے «مستكرهة» (جس سے زبردستی کی جائے) پر اس کی خلوت کی وجہ سے ملامت نہ ہو گی۔ [التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 26/32]
ان تمام اقتباسات اور شارحین کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سارۃ علیہا السلام نے ظالم بادشاہ سے خلوت کی، اس خلوت کی وجہ سے وہ ملامت کے لائق نہ ٹھہریں کیونکہ وہ مجبور تھیں، تو جب جبر و اکراہ کی وجہ سے خلوت قابل ملامت نہ ٹھہری (جو زنا کی ابتدا کا سبب بنتی ہے) تو اسی طرح زنا بالجبر میں بھی قابل ملامت نہ ٹھہرے گی تو پھر حد بھی جاری نہ ہو گی، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 263   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5084  
´لونڈیوں کا رکھنا کیسا ہے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ"، بَيْنَمَا إِبْرَاهِيمُ مَرَّ بِجَبَّارٍ وَمَعَهُ سَارَةُ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ فَأَعْطَاهَا هَاجَرَ، قَالَتْ: كَفَّ اللَّهُ يَدَ الْكَافِرِ وَأَخْدَمَنِي آجَرَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَتِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ (دوسری سند) ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے حماد بن زید نے، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے تین مرتبہ کے سوا کبھی دین میں جھوٹ بات نہیں نکلی۔ ایک مرتبہ آپ ایک ظالم بادشاہ کی حکومت سے گزرے آپ کے ساتھ آپ کی بیوی سارہ علیہ السلام تھیں۔ پھر پورا واقعہ بیان کیا (کہ بادشاہ کے سامنے) آپ نے سارہ علیہ السلام کو اپنی بہن (یعنی دینی بہن) کہا۔ پھر اس بادشاہ نے سارہ علیہا السلام کو آجر (ہاجرہ) کو دے دیا۔ (بی بی سارہ علیہا السلام نے ابراہیم علیہ السلام سے) کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر کے ہاتھ کو روک دیا اور آجر (ہاجرہ) کو میری خدمت کے لیے دلوا دیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اے آسمان کے پانی کے بیٹو! یعنی اے عرب والو! یہی ہاجرہ علیہا السلام تمہاری ماں ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5084]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5084 کا باب: «بَابُ اتِّخَاذِ السَّرَارِيِّ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمتہ الباب میں لونڈیوں کے رکھنے کے بارے میں جواز پیش فرمایا اور تحت الباب احادیث کا ذکر فرمایا:
➊ سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ سے
➋ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے
➌ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے
پہلی اور تیسری احادیث کی باب سے مناسبت ظاہر ہے۔
دوسری حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس حدیث کا باپ سے تعلق ان الفاظ کے ساتھ ہے کہ خدمت کے طور پر حضرت سارا کو بادشاہ نے حضرت ہاجرہ دے دی تھیں، حضرت سارہ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اِنہیں ہبہ کر دیا تھا اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے انہیں اپنے پاس رکھا تو یہاں پر یہ واقعہ ترجمتہ الباباتخاذ السراری سے مناسبت رکھتا ہے۔

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه مطابقه حديث هاجره للترجمه انها كانت امة مملوكة، ثم قد صح ان ابراهيم عليه السلام أولدها بعد ان ملكها فهي سرية.» [المتوري: ص 289]
ابن المنیر رحمہ اللہ کے بیان سے مناسبت کا واضح پہلو اجاگر ہوتا ہے، ہے کیونکہ حضرت ہاجرہ ابراہیم علیہ السلام کی لونڈی تھیں، جن کے بطن سے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد بھی پیدا ہوئی۔

بدرالدین بن جمارعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
«مطابقة الترجمه من حديث ابراهيم عليه السلام لا يظهر من لفظه هذه الطريق بل من لفظه من طريق اٰخر صرح فيه بان ساره ملكته اياها وانه اولدها اسماعيل فاكتفيٰ بالاشارة الي اصل الحديث كعادته فى امثال ذالك.» [مناسبات تراجم البخاري: ص 98]
ترجمہ الباب سے حدیث ابراہیم علیہ السلام کی مناسبت اس طریق سے ظاہر نہیں ہوتی، بلکہ مناسبت کے لیے دوسرے طریق میں صراحت کے ساتھ الفاظ موجود ہیں کہ حضرت سارہ آپ کی ملکیت میں تھیں اور آپ سے ابراہیم علیہ السلام کے فرزند اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، امام بخاری رحمہ اللہ اللہ نے حدیث کے اصل کی طرف اشارے پر اکتفا فرمایا ہے جیسا کہ آپ کی عادت ہے۔

فائدہ:
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ
صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین کذبات کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس حدیث کو مختلف طریقوں اور زاویوں سے منکرین حدیث نشانہ بنانے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں اور وہ اس حدیث کو من گھڑت ثابت کرنے کے لئے قرآن پاک کی آیات مبارکہ پیش کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
«إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا» [19-مريم:41]
قرآن مجید کی اس آیت نے ابراہیم علیہ السلام کو سچا نبی قرار دیا ہے اور صحیح بخاری کی حدیث انہیں جھوٹا ثابت کر رہی ہے، یہ وہ تعارض اور اعتراض ہے جس کی وجہ سے امت میں کئی نامور شخصیات اس حدیث کو سمجھنے سے قاصر رہیں۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ حدیث کسی بھی طریقے سے قرآن مجید کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی آیت مبارکہ حدیث کے خلاف ہے، حقیقت میں اصل مغالطہ اس سے ہوا کہ عرف عام میں جھوٹ اور کذب کو ہم معنی سمجھ لیا گیا، اسی طرح صدق اور سچ کو مترادف سمجھا گیا، اگر تحقیق سے ان الفاظ پر غور کیا جائے تو ہمارے خیال سے ان دونوں ہی الفاظ کی صحیح چھان بین کے بعد خود بخود حدیث پر مغالطہ اپنی موت آپ مر جائے گا، ان شاءاللہ! ہمیں اپنی گفتگو سے قبل دو الفاظ کو صحیح طریقے سے سمجھنا ہو گا، اول: معنی کذب، دوم: معنی صدق۔ اس کے بعد ان شاءاللہ ہم اپنی گفتگو کو مزید آگے بڑھائیں گے۔

سب سے پہلے اس کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ کذب سے مراد مطلق جھوٹ بولنا ہی نہیں ہوتا، بلکہ اسے تعریضاً استعمال کرنے کو بھی عربی میں کذب ہی کہا جاتا ہے، مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر ہجرت میں پیدل جا رہے تھے، لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچانا تو انہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا، یہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا، یہ میرے رستے کے رہبر ہیں۔ حالانکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مراد دنیاوی رستے کی رہبری نہ تھی، بلکہ آخرت کے سفر کی رہبری تھی، جسے لوگوں کے سامنے تعریضاً پیش کیا، حالانکہ یہ ظاہری طور پر جھوٹ تھا۔ [مشكلات الاحاديث النبوية للقصيمي: ص 122]

تعریض کی دوسری دلیل:
عبداللہ بن سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! جب تک میں بصرہ کو جلا نہ ڈالوں گا اور وہاں کے رہنے والوں کو مصر نہ دھکیل دوں گا، اپنے سر کو صابن سے صاف نہیں کروں گا، عبداللہ بن سلمہ یہ سن کر انتہائی پریشان ہوئے۔
سیدنا ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرہ بیان کیا، یہ سن کر سیدنا ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اللہ کی قسم! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نہ بصرہ کو نذرآتش کریں گے اور نہ ہی وہاں کے لوگوں کو مصر پہنچائیں گے، کیونکہ ان کے سر پر بال ہی نہیں ہیں جو اسے دھونے کی صابن سے نوبت آئے گی۔
اس واقعہ کی طرف غور کیجئے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان کہ میں اپنا سر نہیں دھووں گا؟، لہٰذا ممکن ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ معنی کچھ اور اخذ فرما رہے ہو اور سامعین اس سے مراد کچھ اور لے رہے ہوں، لہٰذا یہ بھی ایک تعریض ہی کی شکل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان «لم يكذب ابراهيم الا ثلاث كذبات» سے مراد یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں صرف تین تعریضات فرمائی ہیں، کیوں کہ بظاہر سمجھنے والا کچھ اور سمجھتا ہے، مگر کہنے والے کی نیت کچھ اور ہوا کرتی ہے، پس یہی تعریض ہے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

امام راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والتعريض كلام له وجهان من صدق وكذب أو ظاهر وباطن قل عزوجل (فيم عرضتم من خطبة النساء)» [مفردات القرآن: 85/2]
تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے جس کے ہر دو پہلو ہوتے ہیں من وجہ صدق اور من وجہ کذب جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ «فيما عرضتم...... النساء» [البقرة: 230/2]
سے واضح ہوتا ہے۔

علامہ قصیمی رحمہ اللہ «كذب ابراهيم عليه السلام» والی حدیث پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کذب اور صدق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
«أما الاولي، وهى أنه كان صديقاً نبيا، فلا ريب أن مغذي الاٰية هو الثناء على ابراهيم بفضيلة الصدق......» [مشكلات الاحاديث النبوية للقصيمي: ص 120]
پہلی بات یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام «صديقاً نبياً» ہیں اور اس میں کوئی شک کی بات نہیں ہے (یہ ابراہیم علیہ السلام کے حق میں تعریف اور ان کی فضیلت آیت میں بیان ہوئی ہے)۔
صدق (سچائی) کی دو قسمیں ہیں، ایک صدق ممدوح اور دوسری قسم صدق مذموم، جیسا کہ جھوٹ (کذب) کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک کذب ممدوح اور دوسرا کذب مذموم۔۔۔۔۔۔
بس ممدوح کذب وہ ہو گا، جس میں کوئی دینی مصلحت ہو یا پھر فساد کو دور کرنا مقصود ہو۔
علامہ قصیمی کے بیان کے مطابق کذب ممدوح ظلم، فساد اور دینی مصلحت کے تحت بیان کرنا واضح ہے مزید آپ مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
اگر کوئی شخص اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو ایذا پہنچانے کے درپے ہو، یا پھر انہیں قتل کرنے کے تو ہم پر واجب ہے کہ ہم ان کی خبر (قاتل کو) نہ دیں، لہٰذا یہاں پر کذب بیان کرنا فضیلت کے ساتھ ہو گا اور سچ بولنا جرم ہو گا۔
اس بات کو بھی دامن گیر فرما لیں کہ کسی مصلحت کے تحت تعریضاً اگر جھوٹ بول دیا جائے تو وہ شخص ہرگز جھوٹا نہ ہو گا، اگر وہ سچ بولنے والا ہے تو وہ ہمیشہ سچ بولنے والا ہی قرار پائے گا اس کی مثال پیش خدمت ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری میں فرماتے ہیں کہ:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر فرمایا، پھر ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے کھجوریں سمٹنے لگا، میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا: میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا، (جو صدقہ فطر میں آیا تھا) اس نے کہا، جب تم رات کو اپنے بستر پر سونے کے لئے جاو تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، پھر صبح تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری حفاظت کرنے والا ایک فرشتہ مقرر ہو جائے گا اور شیطان تمہارے پاس نہ آ سکے گا، (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرمائی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«صدقك وهو كذوب ذاك شيطان.» [صحيح بخاري: رقم الحديث 5009]
اس نے تمہیں سچی بات بتائی ہے، اگرچہ وہ بہت بڑا جھوٹا ہے، وہ شیطان تھا۔
مذکورہ حدیث سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جھوٹا شخص اگر سچی بات کہے تو اس سچی بات کی وجہ سے وہ کذاب سے صادق ہرگز نہیں ہو گا اور اگر کوئی صادق شخص تعریضاً کوئی بات کہے، جو جھوٹ محسوس ہو رہی ہو اور وہ جھوٹ بھی نہ ہو تو وہ سچا شخص ہرگز کا ذب نہ ہو گا۔ فأفھم!

شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے تلمیذ خاص ابن القیم رحمہ اللہ اسی مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
«وقد فتح الله الكريم بالجواب عنه فنقول الكلام له نسبتان نسبة الى المتكلم وقصده وارادته، ونسبة الى السامع، وافهام المتكلم اياه مضمونه فاذا اخبر المتكلم بخبر مطابق للواقع وقصد افهام المخاطب فهو صدق من الجهتين....» [مفتح السعادة: 29/2]
اللہ تعالیٰ نے (ابراہیم علیہ السلام کے کذب ثلاثہ کی حدیث کے بارے میں) جو مجھ پر انکشاف فرمایا ہے وہ حاضر خدمت ہے۔
ہر کلام کی نسبتیں دو ہوتی ہیں ایک متکلم کے قصد اور ارادے سے اور ایک سامع اور متکلم کو اسے سمجھانے سے تعلق رکھتی ہے، جب گفتگو کرنے والا ایسی خبر دے جو واقع کے مطابق ہو اور مخاطب کو وہ یہ واقع سمجھانا چاہے، یہ دونوں اعتبار سے صدق ہو گا اور اگر خلاف واقع خبر دے اور مخاطب کو خلاف واقع تیسری چیز بتانا چاہے، جو فی الحقیقت واقع نہیں تو یہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہے، اگر متکلم صحیح بات حسب واقع بیان کرے لیکن مخاطب کو اس سے نا آشنا رکھنا چاہے تاکہ وہ متکلم کے مقصد کو نہ سمجھ سکے تو وہ متکلم کے قصد کے لحاظ سے صدقہ ہے اور اس کے افہام کے اعتبار سے کذب ہے، اسے ہی تعریض اور توریہ کہا جاتا ہے، اسی لئے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کذب سے تعبیر فرمایا، حالانکہ بات صحیح ہے اور واقع کے مطابق بھی، اس سے ظاہر ہے کہ کذب بہرحال قبیح ہے، اس کی مستحسن صورت تعریض اور توریہ ہے، جو حقیقت کے اعتبار سے صدق ہے، گو افہام کے لحاظ سے اسے کذب کہا جاسکتا ہے۔

کذب اور صدق پر بحث کرتے ہوئے علامہ قصیمی بھی بڑی عمدہ بات تحریر فرماتے ہیں، چنانچہ آپ رقمطراز ہیں:
«وفي الحديث الذى رواه البخاري و مسلم عن عبد الله بن مسعود رضى الله عنه عن رسول الله عليه السلام انه قال: لا يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقاً ولا يزال يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا. فهل معناه ان يكون معصوماً من الكذب؟ او من صدق وامثال ذالك فى اللساني العرب فمثلا الطيع هو کثير اطاعة مبالغة في طائع وليس معناه الذي لا يعصي أبدا وكذا الكذاب وهو كثير الكذب وليس هو الذى لا يصدق» [مشكلات الاحاديث النبوية للقصيمي: ص 143]
صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے کہ آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے، یہاں تک کہ اس کا نام اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے اور آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے، حتیٰ کہ اس کا نام اللہ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ کیا اس حدیث کا معنی یہ ہو گا کہ سچ بولنے والا کذب سے معصوم ہو گا؟ اس کی مثالیں لسان العرب میں موجود ہیں، مثلًا الطیع یہ اطاعت گزر کے مبالغے کا صیغہ ہے، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ اطاعت گزار کبھی بھی نافرمانی نہ کرے اور اسی طرح سے کذاب کا مطلب ہے کہ وہ کبھی سہچ ہی نہ بولے:۔

لہٰذا ان گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے کذبات سے مراد یہ نہیں ہے کہ یہ صفت قرآن مجید کی بیان کردہ صرف «صديقاً نبيياً» کے خلاف ہے، بلکہ کذب سے مراد تعریض ہی ہے، جسے ہم نے تفصیلاً ذکر کیا ہے، جو کہ قرآن مجید سے کسی بھی طرح متصادم نہیں ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 80   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2635  
2635. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ کے ہمراہ جب ہجرت کی تو اہل مصر نے آپ کو ہاجرہ دے دی۔ حضرت سارہ نے واپس آکر حضرت ابراہیم ؑ سے کہا: آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے کافر کو ذلیل و خوار کیا اور اس نےایک لڑکی خدمت کے لیے دی ہے۔ ابن سیرین نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بیان کیا، وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اس نے سارہ کو ہاجرہ بطور خدمت دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2635]
حدیث حاشیہ:
(1)
شارح بخاری ابن بطال ؒ فرماتے ہیں:
اس میں علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی کہے:
میں نے یہ لونڈی تجھے خدمت کے لیے دی ہے۔
تو اس کا مقصد لونڈی کی خدمت گزاری ہبہ کرنا ہے، اس کی ذات ہبہ کرنا نہیں کیونکہ لفظِ اخدام، اس کے مالک بن جانے کا تقاضا نہیں کرتا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میں نے تجھے یہ مکان رہنے کے لیے دیا تو اس کا مقصد مکان سے نفع پہنچانا ہے مکان کا مالک بنانا نہیں۔
نیز اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی نے کہا:
میں نے تجھے یہ کپڑا پہننے کے لیے دیا۔
تو اس سے ہبہ مراد ہو گا۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
امام بخاری ؒ کے نزدیک اگر قرینہ عرف عام پر دلالت کرتا ہے تو معنی عرف عام کے مطابق متعین کیے جائیں، بصورت دیگر دونوں مقام پر لغت کے مفہوم کے مطابق عمل ہو گا۔
اگر کسی قوم میں اخدام کے معنی ہبہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور کوئی شخص مطلق طور پر اس لفظ کو استعمال کرتا ہے اور اس کا مقصد مالک بنانے کا ہے تو یہی معنی مراد ہوں گے، اور جو شخص ہر حال میں اس سے عاریت مراد لیتا ہے وہ اس متفق علیہ موقف کی مخالفت کرتا ہے۔
(فتح الباري: 303/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2635   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.