الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
The Book of The Obligations of Khumus
19. بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي الْمُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَيْرَهُمْ مِنَ الْخُمُسِ وَنَحْوِهِ:
19. باب: تالیف قلوب کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض کافروں وغیرہ نو مسلموں یا پرانے مسلمانوں کو خمس میں سے دینا۔
(19) Chapter. What the Prophet (p.b.u.h) used to give to those Muslims whose faith was not so firm, and to other Muslims, from the Khumus or other resources.
حدیث نمبر: 3152
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني احمد بن المقدام، حدثنا الفضيل بن سليمان، حدثنا موسى بن عقبة، قال: اخبرني نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، انعمر بن الخطاب اجلى اليهود والنصارى من ارض الحجاز، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم: لما ظهر على اهل خيبر اراد ان يخرج اليهود منها وكانت الارض لما ظهر عليها لليهود وللرسول وللمسلمين، فسال اليهود رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يتركهم على ان يكفوا العمل ولهم نصف الثمر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نقركم على ذلك ما شئنا فاقروا حتى اجلاهم عمر في إمارته إلى تيماء واريحا".(مرفوع) حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَجْلَى الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَمَّا ظَهَرَ عَلَى أَهْلِ خَيْبَرَ أَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ الْيَهُودَ مِنْهَا وَكَانَتِ الْأَرْضُ لَمَّا ظَهَرَ عَلَيْهَا لِلْيَهُودِ وَلِلرَّسُولِ وَلِلْمُسْلِمِينَ، فَسَأَلَ الْيَهُودُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتْرُكَهُمْ عَلَى أَنْ يَكْفُوا الْعَمَلَ وَلَهُمْ نِصْفُ الثَّمَرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نُقِرُّكُمْ عَلَى ذَلِكَ مَا شِئْنَا فَأُقِرُّوا حَتَّى أَجْلَاهُمْ عُمَرُ فِي إِمَارَتِهِ إِلَى تَيْمَاءَ وأَرِيحَا".
مجھ سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، کہا ہم سے فضل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر نے یہود و نصاریٰ کو سر زمین حجاز سے نکال کر دوسری جگہ بسا دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر فتح کیا تو آپ کا بھی ارادہ ہوا تھا کہ یہودیوں کو یہاں سے نکال دیا جائے۔ جب آپ نے فتح پائی تو اس وقت وہاں کی کچھ زمین یہودیوں کے قبضے میں ہی تھی۔ اور اکثر زمین پیغمبر علیہ السلام اور مسلمانوں کے قبضے میں تھی۔ لیکن پھر یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی، آپ زمین انہیں کے پاس رہنے دیں۔ وہ (کھیتوں اور باغوں میں) کام کیا کریں گے۔ اور آدھی پیداوار لیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا جب تک ہم چاہیں گے اس وقت تک کے لیے تمہیں اس شرط پر یہاں رہنے دیں گے۔ چنانچہ یہ لوگ وہیں رہے اور پھر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے دور خلافت میں (مسلمانوں کے خلاف ان کے فتنوں اور سازشوں کی وجہ سے یہود خیبر کو) تیماء یا اریحا کی طرف نکال دیا تھا۔

Narrated Ibn `Umar: `Umar bin Al-Khattab expelled all the Jews and Christians from the land of Hijaz. Allah's Apostle after conquering Khaibar, thought of expelling the Jews from the land which, after he conquered it belonged to Allah, Allah's Apostle and the Muslims. But the Jews requested Allah's Apostle to leave them there on the condition that they would do the labor and get half of the fruits (the land would yield). Allah's Apostle said, "We shall keep you on these terms as long as we wish." Thus they stayed till the time of `Umar's Caliphate when he expelled them to Taima and Ariha.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 380


   صحيح البخاري2328عبد الله بن عمرعامل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع يعطي أزواجه مائة وسق ثمانون وسق تمر وعشرون وسق شعير
   صحيح البخاري2329عبد الله بن عمرعامل النبي خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع
   صحيح البخاري2331عبد الله بن عمرأعطى خيبر اليهود على أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما خرج منها
   صحيح البخاري2720عبد الله بن عمرأعطى رسول الله خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها
   صحيح البخاري2499عبد الله بن عمرأعطى رسول الله خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها
   صحيح البخاري3152عبد الله بن عمرنقركم على ذلك ما شئنا
   صحيح البخاري2338عبد الله بن عمرأجلى اليهود والنصارى من أرض الحجاز وكان رسول الله لما ظهر على خيبر أراد إخراج اليهود منها وكانت الأرض حين ظهر عليها لله ولرسوله وللمسلمين وأراد إخراج اليهود منها فسألت اليهود رسول الله ليقرهم بها
   صحيح البخاري2730عبد الله بن عمرنقركم ما أقركم الله
   صحيح البخاري4248عبد الله بن عمرأعطى النبي خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها
   صحيح مسلم3963عبد الله بن عمرأعطى رسول الله خيبر بشطر ما يخرج من ثمر أو زرع يعطي أزواجه كل سنة مائة وسق ثمانين وسقا من تمر وعشرين وسقا من شعير
   صحيح مسلم3966عبد الله بن عمردفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعتملوها من أموالهم ولرسول الله شطر ثمرها
   صحيح مسلم3967عبد الله بن عمرنقركم بها على ذلك ما شئنا
   صحيح مسلم3962عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع
   جامع الترمذي1383عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع
   سنن أبي داود3408عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بشطر ما يخرج من ثمر أو زرع
   سنن أبي داود3409عبد الله بن عمردفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعتملوها من أموالهم وأن لرسول الله شطر ثمرتها
   سنن أبي داود3008عبد الله بن عمرأقركم فيها على ذلك ما شئنا كانوا على ذلك وكان التمر يقسم على السهمان من نصف خيبر يأخذ رسول الله الخمس كان رسول الله أطعم كل امرأة من أزواجه من الخمس مائة وسق تمرا وعشرين وسقا شعيرا
   سنن أبي داود3007عبد الله بن عمرعامل يهود خيبر على أنا نخرجهم إذا شئنا فمن كان له مال فليلحق به فإني مخرج يهود فأخرجهم
   سنن النسائى الصغرى3962عبد الله بن عمردفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعملوها بأموالهم وأن لرسول الله شطر ثمرتها
   سنن النسائى الصغرى3961عبد الله بن عمردفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعملوها من أموالهم وأن لرسول الله شطر ما يخرج منها
   سنن ابن ماجه2467عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بالشطر مما يخرج من ثمر أو زرع
   المعجم الصغير للطبراني524عبد الله بن عمرأعطى خيبر على النصف مما أخرجت الأرض والنخل
   المعجم الصغير للطبراني517عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من زرع أو تمر يعطي أزواجه في كل عام مائة وسق مائة وسق ثمانين وسقا تمرا وعشرين وسقا شعيرا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1383  
´مزارعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں کے ساتھ خیبر کی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہو گا اس کے آدھے پر معاملہ کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1383]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے مزارعت (بٹائی پرزمین دینے) کا جواز ثابت ہوتاہے،
ائمہ ثلاثہ اوردیگرعلمائے سلف وخلف سوائے امام ابوحنیفہ کے جواز کے قائل ہیں،
احناف نے خیبرکے معاملے کی تاویل یہ کی ہے کہ یہ لوگ آپﷺ کے غلام تھے،
لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے نُقرُكُم مَا أَقَركُمُ الله ہم تمہیں اس وقت تک برقراررکھیں گے جب تک اللہ تمہیں برقراررکھے گا،
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے،
نیز احناف کا کہنا ہے کہ یہ معدوم یا مجہول پیداوار کے بدلے اجارہ ہے جو جائز نہیں،
اس کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ اس کی مثال مضارب کی ہے کہ مضارب جس طرح نفع کی امید پر محنت کرتا ہے اوروہ نفع مجہول ہے اس کے باوجود وہ جائز ہے،
اسی طرح مزارعت میں بھی یہ جائز ہوگا،
رہیں وہ روایات جو مزارعت کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں توجمہور نے ان روایات کی تاویل کی ہے کہ یہ روایات نہی تنزیہی پر دلالت کرتی ہیں،
یا یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب صاحب زمین کسی مخصوص حصے کی پیداوار خود لینے کی شرط کر لے (واللہ اعلم) حاصل بحث یہ ہے کہ مزارعت کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اوربٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہو نے والے غلّہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلّہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امرکے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اورمزارعت کی وہ شکل جوشرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس انصاری کی روایت میں ہے،
وہ کہتے ہیں رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زمین کی بٹائی کا معاملہ اس شرط پر کرتے تھے کہ زمین کے اس مخصوص حصے کی پیداوارمیں لوں گا اورباقی حصے کی تم لینا،
تونبی اکرمﷺ نے اس سے منع فرما دیا کیونکہ اس صورت میں کبھی بٹائی پر لینے والے کا نقصان ہوتا کبھی دینے والے کا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1383   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3008  
´خیبر کی زمینوں کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ: آپ ہمیں اس شرط پر یہیں رہنے دیں کہ ہم محنت کریں گے اور جو پیداوار ہو گی اس کا نصف ہم لیں گے اور نصف آپ کو دیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ہم تمہیں اس شرط پر رکھ رہے ہیں کہ جب تک چاہیں گے رکھیں گے،، چنانچہ وہ اسی شرط پر رہے، خیبر کی کھجور کے نصف کے کئی حصے کئے جاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے پانچواں حصہ لیتے، اور اپنی ہر بیوی کو سو وسق کھجور اور بیس وسق جو (سال بھر میں) دیتے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3008]
فوائد ومسائل:

صحیح مسلم کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے زمین اور پانی کا انتخاب کیا۔
اور بعض دیگر ازواج مطہرات نے رضی اللہ عنہما نے حسب سابق متعین حصہ چنا۔
صحیح مسلم کی یہ روایت بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ہے۔
اور زیادہ مفصل اور واضح ہے۔
اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے خیبر میں فے کی زمینوں کی آمدنی میں سے سالانہ خرچ کے طور پر اپنی ہر زوجہ محترمہ کو کل سو وسق اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو مقرر فرمائے تھے۔
(صحیح مسلم، المساواة، حدیث:1551) ابو دائود کی حدیث 3006 میں بھی یہی مقدار مذکور ہے۔
البتہ موجودہ روایت میں کل سو وسق کی بجائے کھجور سو وسق اور اس کے علاوہ جو بیس وسق کی مقدار بیان کی گئی ہے۔
معلوم ہوتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرنے والے رایوں میں سے کوئی راوی ظن وتخمین سے مقدار بیان کرتے ہوئے التباس کا شکار ہوگیا۔
اور کل سو کی بجائے کھجور سو وسق اور جو بیس وسق کا ذکرکیا گیا۔
(فتح الودود بحوالة عون المعبود باب ما جاء في حکم أرض خیبر)

خیبر کے طریق کے مطابق بٹائی پر زمین لینا اور دینا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3008   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3152  
3152. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہود ونصاریٰ کو ارض حجاز سے جلا وطن کردیا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی زمین پر غلبہ حاصل کیا تو یہودیوں کو وہاں سے نکال دینے کا ارادہ فرمایا۔ چونکہ وہ زمین یہودیوں کی تھی۔ جب آپ نے اس پر غلبہ پالیا تو وہ زمین رسول اللہ ﷺ اور اہل اسلام کی ہوگئی تو یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ انھیں وہاں اس شرط پر رہنے دیں کہ وہ زمین میں کام کریں گے اور انھیں پیداوار سے نصف دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھا جب تک ہم چاہیں گے اس وقت تک کے لیے تمھیں اس شرط پر یہاں رہنے دیں گے۔ چنانچہ یہ لوگ وہاں رہے یہاں تک کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں اپنے دور خلافت میں تیماء اور اریحاء کی طرف بے دخل (جلاوطن) کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3152]
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
والمراد بقوله لما ظهر علیه فتح أکثرها قبل أن یسأله الیهود و أن یصالحوہ فکانت للیهود کلها صالحهم علی أن یسلمو له الأرض کانت الأرض للہ ولرسوله و قال ابن المنیر أحادیث الباب مطابقة للترجمة إلاهذا الأخیر فلیس فیه للعطاء ذکر ولکن فیه ذکر جهات قدعلم من مکان اٰخرانها کانت جهات عطاء فبهذا الطریق تدخل تحت الترجمة واللہ أعلم (فتح الباري)
یعنی مراد یہ ہے کہ ارض خیبر کو فتح کرنے کے بعد یہود سے معاہدہ ہوگیا تھا۔
پہلے وہ سب زمینیں ان ہی کی تھیں۔
بعد میں غلبہ اسلام کے بعد وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہوگئی تھیں۔
اس میں ایک طرح سے ان زمینوں کو بطور بخشش دینا بھی مقصود ہے۔
ترجمۃ الباب سے اسی میں مطابقت ہے۔
اس حدیث سے معاملات کے بہت سے مسائل نکلتے ہیں جن کو حضرت امام نے جگہ جگہ بیان فرمایا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3152   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3152  
3152. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہود ونصاریٰ کو ارض حجاز سے جلا وطن کردیا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی زمین پر غلبہ حاصل کیا تو یہودیوں کو وہاں سے نکال دینے کا ارادہ فرمایا۔ چونکہ وہ زمین یہودیوں کی تھی۔ جب آپ نے اس پر غلبہ پالیا تو وہ زمین رسول اللہ ﷺ اور اہل اسلام کی ہوگئی تو یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ انھیں وہاں اس شرط پر رہنے دیں کہ وہ زمین میں کام کریں گے اور انھیں پیداوار سے نصف دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھا جب تک ہم چاہیں گے اس وقت تک کے لیے تمھیں اس شرط پر یہاں رہنے دیں گے۔ چنانچہ یہ لوگ وہاں رہے یہاں تک کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں اپنے دور خلافت میں تیماء اور اریحاء کی طرف بے دخل (جلاوطن) کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3152]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا۔
جزیرہ عرب میں دو دین اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
(السنن الکبری للبیھقی: 115/6)
نیز یہودیوں کو فتنہ انگیزی اور آئے دن مسلمانوں کے خلاف ان کی سازشوں کی وجہ سے یہودیوں کو وہاں سے نکالا۔
حضرت ابو بکر ؓ اپنی خلافت میں انھیں اس لیے نہ نکال سکے کہ وہ مرتدین کے خلاف جنگ وقتال میں مصروف رہے۔
اس لیے انھیں ان کے خلاف کاروائی کرنے کا وقت نہ مل سکا۔

واضح رہے کہ تیماء بلا وطی میں سمندر کے کنارے ایک گاؤں کا نام ہے اور اریحاء ارض شام میں ایک بستی کو کہا جاتا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ اعتراض بے جا ہے کیونکہ ارض خیبر کو فتح کرنے کے بعد یہودیوں سے یہ معاہدہ ہوگیا تھا چونکہ پہلے وہ تمام زمین یہودیوں کی تھی پھر وہ اللہ اور اس کے رسول کی ہوگئی رسول اللہﷺنے وہاں اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انھیں بٹائی پردے دی گویا آپ نےایک طرح سے ان زمینوں کو انھیں بخش دیا۔
باب سے مطابقت کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
(فتح الباري: 306/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3152   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.