الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
The Book of The Beginning of Creation
11. بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ:
11. باب: ابلیس اور اس کی فوج کا بیان۔
(11) Chapter. The characteristics of Iblis (Satan) and his soldiers.
حدیث نمبر: 3286
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" كل بني آدم يطعن الشيطان في جنبيه بإصبعه حين يولد غير عيسى ابن مريم ذهب يطعن فطعن في الحجاب".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُّ بَنِي آدَمَ يَطْعُنُ الشَّيْطَانُ فِي جَنْبَيْهِ بِإِصْبَعِهِ حِينَ يُولَدُ غَيْرَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَهَبَ يَطْعُنُ فَطَعَنَ فِي الْحِجَابِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان ہر انسان کی پیدائش کے وقت اپنی انگلی سے اس کے پہلو میں کچوکے لگاتا ہے سوائے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے جب انہیں وہ کچوکے لگانے گیا تو پردے پر لگا آیا تھا (جس کے اندر بچہ رہتا ہے۔ اس کی رسائی وہاں تک نہ ہو سکی، اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اس کی اس حرکت سے محفوظ رکھا)۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "When any human being is born. Satan touches him at both sides of the body with his two fingers, except Jesus, the son of Mary, whom Satan tried to touch but failed, for he touched the placenta-cover instead."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 506


   صحيح البخاري4548عبد الرحمن بن صخرما من مولود يولد إلا والشيطان يمسه حين يولد فيستهل صارخا من مس الشيطان إياه إلا مريم وابنها
   صحيح البخاري3431عبد الرحمن بن صخرما من بني آدم مولود إلا يمسه الشيطان حين يولد فيستهل صارخا من مس الشيطان غير مريم وابنها ثم يقول أبو هريرة وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم
   صحيح البخاري3286عبد الرحمن بن صخركل بني آدم يطعن الشيطان في جنبيه بإصبعه حين يولد غير عيسى ابن مريم ذهب يطعن فطعن في الحجاب
   صحيح مسلم6136عبد الرحمن بن صخرصياح المولود حين يقع نزغة من الشيطان
   صحيح مسلم6135عبد الرحمن بن صخركل بني آدم يمسه الشيطان يوم ولدته أمه إلا مريم وابنها
   صحيح مسلم6133عبد الرحمن بن صخرما من مولود يولد إلا نخسه الشيطان فيستهل صارخا من نخسة الشيطان إلا ابن مريم وأمه
   المعجم الصغير للطبراني826عبد الرحمن بن صخرصياح المولود حين يولد نزغة من الشيطان
   مشكوة المصابيح69عبد الرحمن بن صخرما من بني آدم مولود إلا يمسه الشيطان حين يولد فيستهل صارخا من مس الشيطان غير مريم وابنها
   مشكوة المصابيح70عبد الرحمن بن صخرصياح المولود حين يقع نزغة من الشيطان
   مسندالحميدي1072عبد الرحمن بن صخر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4548  
´مریم علیہا السلام کی ماں نے کہا اے رب! میں اس (مریم) کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلَّا وَالشَّيْطَانُ يَمَسُّهُ حِينَ يُولَدُ، فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّيْطَانِ إِيَّاهُ إِلَّا مَرْيَمَ وَابْنَهَا"، ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ سورة آل عمران آية 36 . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے پیدا ہوتے ہی چھوتا ہے، جس سے وہ بچہ چلاتا ہے، سوا مریم اور ان کے بیٹے (عیسیٰ علیہ السلام) کے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو «وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم» یہ کلمہ مریم علیہ السلام کی ماں نے کہا تھا، اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کو شیطان کے ہاتھ لگانے سے بچا لیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4548]

صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4548 کا باب: «بَابُ: وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت
ترجمۃ الباب اور حدیث کی مناسبت پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے جسے حل کرنا انتہائی ضروری ہے:
مریم علیہاالسلام کی جس دعا کا ذکر آل عمران کی آیت مبارکہ میں ہے کہ:
«وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» [3-آل عمران:36]
یہ دعا تو مریم علیہا السلام کی والدہ نے مریم علیہا السلام کی پیدائش کے بعد کی تھی، لہٰذا وقت ولادت مریم علیہا السلام اور ان کی اولاد کو «مسس الشيطان» سے محفوظ رکھنا کیا معنی رکھتا ہے؟ جبکہ حدیث کا متن وقت ولادت پر دلالت کرتا ہے اور آیت مبارکہ ولادت کے بعد دعا کرنے پر دلالت کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جواب میں علامہ ابوالفضل الالوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
یعنی ممکن ہو کہ ولادت سے قبل یا ولادت کے وقت آپ کی والدہ نے دعا کی ہو اور اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کر کے سیدہ مریم علیہا السلام کو «مس الشيطان» سے محفوظ کر لیا۔ [روح المعاني: 132/2]
آلوسی صاحب کے بیان کے مطابق مریم علیہاالسلام کی والدہ نے ولادت سے قبل بھی دعا کی تھی اور ولادت کے بعد بھی لہٰذا اس تطبیق میں قرآن اور حدیث دونوں سے اعتراض رفع ہو جاتا ہے ترجمۃ الباب سے حدیث کی مطابقت واضح طور پر قائم ہو جاتی ہے۔

علامہ زمحشری کا اعتراض حدیث پر اور اس کا جواب:
صاحب کشاف ابوالقاسم الزمخشری نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر ایک طعن وارد کیا ہے جسے یہاں نقل کرنا ضروری ہے، کیونکہ ہمارے اکثر علماء اور بسا اوقات یہ جانے بغیر کہ زمحشری کا مقام اہل علم کے نزدیک کیا ہے ان کے حوالے بغیر تحقیق کے نقل کرتے نظر آتے ہیں، علامہ زمخشری اپنی تفسیر میں حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«ما من مولود يولد الا والشيطان يمسه حين يولد فيستهل صارخا من مس الشيطان اياه الا مريم وابنها فالله اعلم لصحته فان صح فمعناه أن كل مولود يطمع الشيطان فى اغوائه الا مريم و ابنها، فانها كانا معصومين، وكذالك كل من كان......» [تفسير الكشاف: 385/1]
زمحشری صاحب کے ان بیانات سے واضح پتا چلتا ہے کہ آپ حدیث کے حقیقی معنی نہیں اخذ کر رہے ہیں، اسی لئے آپ نے روایت کی صحت میں توقف اختیار کیا ہے، (حالانکہ جو حدیث بخاری و مسلم میں اصول میں بیان ہو گی، وہ تمام غبار سے پاک ہو گی، یہ قاعدہ ضرور یاد رکھنا چاہیے) اور کہا ہے کہ یہ روایت صحیح اس وقت مانی جائے گی جب اس کے حقیقی معنی مراد نہ ہوں، لہٰذا انہوں نے معنی اخذ کرتے ہوئے اپنی رائے یوں دی کہ «مس الشيطان» سے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش مراد ہے پیدائش کے وقت شیطان جب یہ کوشش کرتا ہے تو بچہ رونے لگتا ہے، بچہ اس وقت شیطانی وسواوس سے مانوس نہیں ہوتا، حالانکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس میں گمراہی قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی نہ عقائد کے اعتبار سے اور نہ ہی قول و عمل کے اعتبار سے۔
علامہ زمحشری نے حدیث کے حقیقی معنی کو اخذ کرنے سے پہلو تہی برتی ہے، جو حقیقتاً حدیث کے مفہوم سے روگردانی کے مترادف ہے اور مزید یہ کہ یہ عبارت بھی ان کے معتزلی ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ «فانهم! ولا تكن من الغافلين.»

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ زمحشری کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
«والذي يقتضيه لفظ الحديث لا اشكال فى معناه ولا مخالفة لما ثبت من عصمة الانبياء بل ظاهر الخبر ان ابليس ممكن من مس كل مولود عند ولادته» [فتح الباري لابن حجر: 180/8]
یعنی حدیث جس لفظ کی طرف تقاضا کرتی ہے اس پر کسی قسم کا کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا، نہ ہی اس کے مطالب پر اور نہ ہی یہ مخالف ہے ان احادیث کے جس میں عصمت انبیاء ثابت ہے بلکہ ظاہری خبر یہ ہے کہ ابلیس ہر پیدا ہونے والے بچہ کوچھوتا ہے، جو حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہوتے ہیں انہیں شیطان کا مس کرنا کوئی نقصان نہیں پہنچاتا، اسی طرح مریم علیہاالسلام اور ان کی اولاد بھی اس کے مس سے محفوظ رہے، پس یہ توجیہ ہے خاص ہونے کی اور یہ بھی لازم نہیں ہے کہ مریم علیہاالسلام اور ان کے بیٹے کے علاوہ مخلصین پر شیطان کا تسلط ہو سکتا ہو۔

مزید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
زمحشری کا اعتراض فضول ہے، کیونکہ روایت میں یہ تصریح موجود ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس وقت شیطان چوکا مارتا ہے، اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ شیطان پوری عمر انسان کے چوکے مارتا ہے اور یہ مشاہدہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو روتا ہے۔ [فتح الباري لابن حجر: 180/8]

امام قسطلانی رحمہ اللہ زمحشری کے اس اعتراض کے جواب پر فرماتے ہیں کہ:
شیطان کا مس کرنا ہمیشہ نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ مس کرنا گمراہ کرنے کے لیے ہے، (بلکہ اس سے حقیقی معنی مراد لئے جائیں گے) اور اس حدیث کی صحت کے لئے یہی کافی ہے کہ اس روایت کی تصحیح بخاری و مسلم نے کی ہے بغیر کسی قدح کے۔ [ارشاد الساري: 4233/8]
لہٰذا علامہ زمخشری نے حدیث کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ دراصل فلاسفروں کا کام ہوتا ہے جس سے اجتناب کرنا انتہائی ضروری ہے، کیوں کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم وہی مطالب و معانی اخذ کریں گے جونصومي شریہ کے مطابق ہوں گے۔
قائدہ یاد رکھیں! قرآن مجید کی تفسیر قرآن مجید اور احادیث کے ذریعے کی جائے گی، اس میں پہلے اور دوسرے نمبر کا کوئی چکر نہیں ہے، دوسرے نمبر پر قرآن کی تفسیر صحابہ کے اقوال کے ذریعے ہو گی، یہی سب سے مفید قاعدہ ہے، بعد میں الفاظوں کی سمجھ اور معنی کے لغت کی طرف التفات کیا جائے، کیونکہ قرآن مجید کی تفسیر کے لئے احادیث کافی و شافی کی حیثیت رکھتی ہیں، لہٰذا علامہ زمحشری یا پھر ان کی طرح دوسرے معتزلی کی تفاسیر دراصل فلاسفروں سے متاثر ہوا کرتی ہیں۔

امام قسطلانی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں،
مذکورہ حدیث صحاح میں مدون کی گئی ہے، لہٰذا (اس کے بعد) کسی فلاسفر کی طرف میلان اختیار کرنا درست نہیں اور ابن رومی کے قول سے اجتناب بھی واجب ہے۔ [ارشاد الساري: 4233/8]

محترم قارئین! ہر وہ تفسیر کی کتاب جس میں اہل سنت کے موقف کے خلاف لکھا گیا ہو اس سے بچنا ضروری ہے، معتزلہ ایک گمراہ کن فرقہ گزرا ہے، اس نے عقیدہ توحید، آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ میں کئی ایک تاویلات پیش کی ہیں، معتزلی عقائد کی تفصیل جاننے کے لیے ان حضرات کی تفاسیر معروف ہیں۔
➊ تفسیر عبدالرحمن بن کیسان الاصم شیخ ابراھیم بن اسماعیل بن علیّۃ، متوفی سنۃ 218 ھ۔ ھو: ابراھیم بن اسماعیل بن ابراھیم بن مقسم ابواسحاق البصری معروف علیہ احد المتکلمین [انظر تاريخ بغداد للخطيب: 22/6]
اسی طرح ایک اور صاحب ہیں:
➋ ابوعلی الجبائی ھو: محمد بن عبد الوہاب، ابوعلی الجبائی شیخ المعتزلہ (توفی: 303 ھ) [انظر البدايه والنهايه لابن كثير: 125/11]
التفسیر الکبیر للقاضی عبد الجبار الھمزانی: ھو: عبد الجبار بن احمد الھمزانی القاضی ابوالحسن۔ (المعتزلی، متوفی: 410ھ) [انظر: العبر فى من غبر: 121/3]
➍ علی بن عیسىٰ الرمانی: ھو علی بن عیسى الدمانی النحوی المعتزلی ابوالحسن (متوفی 384 ھ) [انظر: سير اعلام النبلاء: 534/16]
الکشاف ابوالقاسم الزمحشری: ھو: محمود بن عمر الزمحشری المفسر النحوی (متوفی: 538ھ۔)

علامہ زمحشری کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ:
«صالح، لكنه داعية الي الا عتزال أجارنا الله، فكن حزرا من كشافة» [لسان الميزان: 651/6]
صالح تھا، لیکن اعتزال کی طرف داعی تھا، اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے اور (اے قاری) آپ بچو ان کی تفسیر کشاف (کے پڑھنے) سے۔

لہٰذا یہ چند حضرات ہیں، جنہوں نے اعتزال کو فروغ دیا ہے اور ان کا کام اکثر و بیشتر تفسیری حوالوں سے نقل کیا جاتا ہے چنانچہ گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ان گمراہ کرنے والے لوگوں کی تفاسیر سے اجتناب کیا جائے اور صحیح العقیدہ مفسرین خصوصاً سلف میں جو صحیح العقیدہ مفسر گزرے ہیں، ان کی تفاسیر سے استفادہ کیا جائے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 65   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 69  
´ابن آدم پر پیدائش کے وقت شیطانی حملہ`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ بَنِي آدَمَ مَوْلُودٌ إِلَّا يَمَسُّهُ الشَّيْطَانُ حِينَ يُولَدُ فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّيْطَانِ غَيْرَ مَرْيَمَ وَابْنِهَا» . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام کے ہر ایک بچے کی پیدائش کے وقت شیطان اسے ضرور چھوتا اور چوکا مارتا ہے جس سے بچہ رونے اور چیخنے لگتا ہے۔ مگر مریم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے عیسٰی علیہ السلام کو شیطان ہاتھ نہیں لگا سکا اور نہ ان کو ایذا پہنچا سکا۔ اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 69]

تخریج:
[صحيح بخاري 3431]،
[صحيح مسلم 6135]

فقہ الحدیث:
➊ پیدائش کے وقت (پیدا ہونے والے پر مکلف) شیطان اسے چھوتا ہے جس کی وجہ سے عام طور پر بچہ چیخ اٹھتا ہے۔
➋ عمران کی بیوی اور مریم کی والدہ نے دعا کی تھی:
«وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ»
اور اے اللہ! میں اسے (مریم کو) اور اس کی ذریت کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ [آل عمران: 36]
اس دعا کی برکت سے اللہ نے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کو شیطان کے لمس (چھونے) سے محفوظ رکھا۔ اسی طرح انبیاء اور اللہ کے برگزیدہ بندے اللہ کے فضل و کرم سے شیطان کے لمس سے محفوظ رہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ»
سوائے ان میں سے تیرے مخلص بندے۔ [الحجر: 40]
یعنی اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے اللہ کے فضل وکرم سے شیطان کے چھونے سے محفوظ رہتے ہیں۔ «والحمد لله»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 69   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 70  
´ابن آدم پر پیدائش کے وقت شیطانی حملہ`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صِيَاحُ الْمَوْلُودِ حِينَ يَقَعُ نَزْغَةٌ من الشَّيْطَان» . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچے کا پیدا ہونے کے وقت چلانا شیطان کے چوکا مارنے کے سبب سے ہے۔ اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 70]

تخریج:
[صحيح مسلم 6136]

فقہ الحدیث:
➊ اس روایت کی تشریح کے لیے دیکھئے مشكوة المصابيح حدیث 69۔
➋ یہ روایت صحیح بخاری میں نہیں ملی، بلکہ ہمارے علم کے مطابق صحیحین میں سے صحیح مسلم ہی میں موجود ہے۔ «والله اعلم»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 70   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3286  
3286. حضرت ابوہریرہ ؓسے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر انسان کی پیدائش کے وقت شیطان اپنی انگلیوں سے اس کے پہلو میں کچو کے لگاتا ہے، سوائے عیسیٰ ابن مریم ؑ کے۔ وہ انھیں کچو کا لگانے لگا تو وہ کچوکا اس پردے پر ہی لگ لیاجس میں وہ لیٹے ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3286]
حدیث حاشیہ:
مریم ؑ کی والدہ نے حضرت مریم کی پیدائش پر دعا کی تھی:
﴿إِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾ اے اللہ! میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔
(آل عمران 36/3)
اس دعا کی برکت سے شیطان انھیں کچوکا لگانے میں کامیاب نہ ہوسکا بلکہ اس جھلی ہی کو کچوکا لگایا جس میں عیسیٰ ؑ تھے چنانچہ ایک روایت میں ہے:
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کی پیدائش کے وقت(اپنے غلیظ ہاتھوں سے)
اسے چھوتا ہے تو وہ چلا کررونے لگتا ہے، صرف مریم ؑ اور اس کے بیٹے کو شیطان نے نہیں چھوا۔
پھرحضرت ابوہریرہ ؓ نے مذکورہ بالاآیت کی تلاوت فرمائی۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3431)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3286   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.