الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
The Book of The Stories of The Prophets
3M. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} إِلَى آخِرِ السُّورَةِ:
3M. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرا، اس سے پہلے کہ ان پر ایک درد ناک عذاب آ جائے“ آخر سورت تک۔
(3b) Chapter.
حدیث نمبر: 3340
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني إسحاق بن نصر، حدثنا محمد بن عبيد، حدثنا ابو حيان، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:" كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في دعوة فرفع إليه الذراع وكانت تعجبه فنهس منها نهسة، وقال: انا سيد القوم يوم القيامة هل تدرون بمن يجمع الله الاولين والآخرين في صعيد واحد فيبصرهم الناظر ويسمعهم الداعي وتدنو منهم الشمس، فيقول: بعض الناس الا ترون إلى ما انتم فيه إلى ما بلغكم الا تنظرون إلى من يشفع لكم إلى ربكم، فيقول: بعض الناس ابوكم آدم فياتونه، فيقولون: يا آدم انت ابو البشر خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه وامر الملائكة فسجدوا لك واسكنك الجنة الا تشفع لنا إلى ربك الا ترى ما نحن فيه وما بلغنا، فيقول: ربي غضب غضبا لم يغضب قبله مثله، ولا يغضب بعده مثله ونهاني عن الشجرة فعصيته نفسي نفسي اذهبوا إلى غيري اذهبوا إلى نوح فياتون نوحا، فيقولون: يا نوح انت اول الرسل إلى اهل الارض وسماك الله عبدا شكورا اما ترى إلى ما نحن فيه الا ترى إلى ما بلغنا الا تشفع لنا إلى ربك، فيقول: ربي غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله ولا يغضب بعده مثله نفسي نفسي ائتوا النبي صلى الله عليه وسلم فياتوني فاسجد تحت العرش، فيقال: يا محمد ارفع راسك واشفع تشفع وسل تعطه، قال محمد بن عبيد: لا احفظ سائره".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَعْوَةٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، وَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَلْ تَدْرُونَ بِمَنْ يَجْمَعُ اللَّهُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُبْصِرُهُمُ النَّاظِرُ وَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَتَدْنُو مِنْهُمُ الشَّمْسُ، فَيَقُولُ: بَعْضُ النَّاسِ أَلَا تَرَوْنَ إِلَى مَا أَنْتُمْ فِيهِ إِلَى مَا بَلَغَكُمْ أَلَا تَنْظُرُونَ إِلَى مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ، فَيَقُولُ: بَعْضُ النَّاسِ أَبُوكُمْ آدَمُ فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُونَ: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ وَأَسْكَنَكَ الْجَنَّةَ أَلَا تَشْفَعُ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ وَمَا بَلَغَنَا، فَيَقُولُ: رَبِّي غَضِبَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَنَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَسَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا أَمَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى إِلَى مَا بَلَغَنَا أَلَا تَشْفَعُ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَيَقُولُ: رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ نَفْسِي نَفْسِي ائْتُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْتُونِي فَأَسْجُدُ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَسَلْ تُعْطَهْ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ: لَا أَحْفَظُ سَائِرَهُ".
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا، ہم سے ابوحیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت مرغوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستی کی ہڈی کا گوشت دانتوں سے نکال کر کھایا۔ پھر فرمایا کہ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا۔ تمہیں معلوم ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) تمام مخلوق کو ایک چٹیل میدان میں جمع کرے گا؟ اس طرح کہ دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا۔ آواز دینے والے کی آواز ہر جگہ سنی جا سکے گی اور سورج بالکل قریب ہو جائے گا۔ ایک شخص اپنے قریب کے دوسرے شخص سے کہے گا، دیکھتے نہیں کہ سب لوگ کیسی پریشانی میں مبتلا ہیں؟ اور مصیبت کس حد تک پہنچ چکی ہے؟ کیوں نہ کسی ایسے شخص کی تلاش کی جائے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم سب کی شفاعت کے لیے جائے۔ کچھ لوگوں کا مشورہ ہو گا کہ دادا آدم علیہ السلام اس کے لیے مناسب ہیں۔ چنانچہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے باوا آدم! آپ انسانوں کے دادا ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا، اپنی روح آپ کے اندر پھونکی تھی، ملائکہ کو حکم دیا تھا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا تھا اور جنت میں آپ کو (پیدا کرنے کے بعد) ٹھہرایا تھا۔ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس درجہ الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔ وہ فرمائیں گے کہ (گناہ گاروں پر) اللہ تعالیٰ آج اس درجہ غضبناک ہے کہ کبھی اتنا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ آئندہ کبھی ہو گا اور مجھے پہلے ہی درخت (جنت) کے کھانے سے منع کر چکا تھا لیکن میں اس فرمان کو بجا لانے میں کوتاہی کر گیا۔ آج تو مجھے اپنی ہی پڑی ہے (نفسی نفسی) تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح علیہ السلام! آپ (آدم علیہ السلام کے بعد) روئے زمین پر سب سے پہلے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو عبدشکور کہہ کر پکارا ہے۔ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ آج ہم کیسی مصیبت و پریشانی میں مبتلا ہیں؟ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیجئیے۔ وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ کبھی اس کے بعد اتنا غضبناک ہو گا۔ آج تو مجھے خود اپنی ہی فکر ہے۔ (نفسی نفسی) تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤ چنانچہ وہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ میں (ان کی شفاعت کے لیے) عرش کے نیچے سجدے میں گر پڑوں گا۔ پھر آواز آئے گی، اے محمد! سر اٹھاؤ اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ مانگو تمہیں دیا جائے گا۔ محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا کہ ساری حدیث میں یاد نہ رکھ سکا۔

Narrated Abu Huraira: We were in the company of the Prophet at a banquet and a cooked (mutton) forearm was set before him, and he used to like it. He ate a morsel of it and said, "I will be the chief of all the people on the Day of Resurrection. Do you know how Allah will gather all the first and the last (people) in one level place where an observer will be able to see (all) of them and they will be able to hear the announcer, and the sun will come near to them. Some People will say: Don't you see, in what condition you are and the state to which you have reached? Why don't you look for a person who can intercede for you with your Lord? Some people will say: Appeal to your father, Adam.' They will go to him and say: 'O Adam! You are the father of all mankind, and Allah created you with His Own Hands, and ordered the angels to prostrate for you, and made you live in Paradise. Will you not intercede for us with your Lord? Don't you see in what (miserable) state we are, and to what condition we have reached?' On that Adam will reply, 'My Lord is so angry as He has never been before and will never be in the future; (besides), He forbade me (to eat from) the tree, but I disobeyed (Him), (I am worried about) myself! Myself! Go to somebody else; go to Noah.' They will go to Noah and say; 'O Noah! You are the first amongst the messengers of Allah to the people of the earth, and Allah named you a thankful slave. Don't you see in what a (miserable) state we are and to what condition we have reached? Will you not intercede for us with your Lord? Noah will reply: 'Today my Lord has become so angry as he had never been before and will never be in the future Myself! Myself! Go to the Prophet (Muhammad). The people will come to me, and I will prostrate myself underneath Allah's Throne. Then I will be addressed: 'O Muhammad! Raise your head; intercede, for your intercession will be accepted, and ask (for anything). for you will be given. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 556


   صحيح البخاري3340عبد الرحمن بن صخربعض الناس ألا ترون إلى ما أنتم فيه إلى ما بلغكم ألا تنظرون إلى من يشفع لكم إلى ربكم فيقول بعض الناس أبوكم آدم فيأتونه فيقولون يا آدم أنت أبو البشر خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه وأمر الملائكة فسجدوا لك وأسكنك الجنة ألا تشفع لنا إلى ربك ألا ترى ما نحن ف
   صحيح البخاري4712عبد الرحمن بن صخرأنا سيد الناس يوم القيامة يجمع الله الناس الأولين والآخرين في صعيد واحد يسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون ولا يحتملون فيقول الناس ألا ترون ما قد بلغكم ألا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم فيقول بعض الناس لبعض عليكم
   صحيح البخاري3361عبد الرحمن بن صخرالله يجمع يوم القيامة الأولين والآخرين في صعيد واحد فيسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس منهم فذكر حديث الشفاعة فيأتون إبراهيم فيقولون أنت نبي الله وخليله من الأرض اشفع لنا إلى ربك فيقول فذكر كذباته نفسي نفسي اذهبوا إلى موسى
   صحيح مسلم7206عبد الرحمن بن صخرالعرق يوم القيامة ليذهب في الأرض سبعين باعا وإنه ليبلغ إلى أفواه الناس أو إلى آذانهم
   صحيح مسلم480عبد الرحمن بن صخرسيد الناس يوم القيامة يجمع الله يوم القيامة الأولين والآخرين في صعيد واحد فيسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون وما لا يحتملون فيقول بعض الناس لبعض ألا ترون ما أنتم فيه ألا ترون ما قد بلغكم ألا تنظرون من يشفع لكم
   جامع الترمذي2557عبد الرحمن بن صخرألا يتبع كل إنسان ما كانوا يعبدونه فيمثل لصاحب الصليب صليبه ولصاحب التصاوير تصاويره ولصاحب النار ناره فيتبعون ما كانوا يعبدون ويبقى المسلمون فيطلع عليهم رب العالمين فيقول ألا تتبعون الناس فيقولون نعوذ بالله منك نعوذ بالله منك الله ربنا هذا مكاننا حتى نرى
   جامع الترمذي2434عبد الرحمن بن صخرأنا سيد الناس يوم القيامة يجمع الله الناس الأولين والآخرين في صعيد واحد فيسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس منهم فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون ولا يحتملون فيقول الناس بعضهم لبعض ألا ترون ما قد بلغكم ألا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم فيقول الن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3340  
´شفاعت محمدیہ کا اثبات`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَعْوَةٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، وَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت مرغوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستی کی ہڈی کا گوشت دانتوں سے نکال کر کھایا۔ پھر فرمایا کہ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ...: 3340]

تخريج الحديث:
[120۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 17 سورة الإسراء: 5 باب ذرية من حملنا مع نوح 3340، مسلم 194]
لغوی توضیح:
«فَنَهَسَ» دانتوں سے نوچا۔
«صَعِيْد وَاحِد» ایک چٹیل میدان۔
فھم الحدیث: ان احادیث میں شفاعت محمدیہ کا اثبات ہے۔ روز قیامت جب تمام انبیاء اپنی اپنی لغزشوں کو یاد کر کے کانپ رہے ہوں گے اس وقت صرف اور صرف ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی شفاعت کے لیے آگے بڑھیں گے۔ یہ چیز آپ کے تمام انبیاء سے افضل ہونے کی بھی دلیل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حاصل کرنے کے لیے یہ دعا پڑھنی چاہیے «اللّٰهُمَّ رَبَّ هٰذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيْلَةَ وَالْفَضِيْلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودًا الَّذِيْ وَعَدْتَّهُ» ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو بھی اذان سن کر یہ دعا پڑھے گا اسے میری شفاعت نصیب ہوگی۔ [بخاري: كتاب الأذان: باب الدعاء عند النداء 614]
جس روایت میں ہے کہ جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی، وہ موضوع و من گھڑت ہے۔ [موضوع ارواء الغليل 4؍336 ضعيف الجامع الصغير 5607]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 120   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2434  
´قیامت کے دن کی شفاعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا، اس میں سے آپ کو دست کا گوشت دیا گیا جو کہ آپ کو بہت پسند تھا، اسے آپ نے نوچ نوچ کر کھایا، پھر فرمایا: قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار رہوں گا، کیا تم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا، جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہر نگاہ والا دیکھ سکے گا، سورج ان سے بالکل قریب ہو گا جس سے لوگوں کا غم و کرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کر س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2434]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ کی اس شفاعت کا بیان ہے جب سارے انبیاء اپنی اپنی بعض لغزشوں کے حوالے سے شفاعت کرنے سے معذرت کریں گے،
چونکہ انبیاء علیہم السلام ایمان و تقوی کے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں،
اس لیے ان کی معمولی غلطی بھی انہیں بڑی غلطی محسوس ہوتی ہے،
اسی وجہ سے وہ بار گاہ الٰہی میں پیش ہونے سے معذرت کریں گے،
لیکن نبی اکرم ﷺ اللہ کے حکم سے سفارش فرمائیں گے،
اس سے آپ ﷺ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے،
آپ کی شفاعت مختلف مرحلوں میں ہوگی،
آپ اپنی امت کے حق میں شفاعت فرمائیں گے،
جو مختلف مرحلوں میں ہوگی،
اس حدیث میں پہلے مرحلہ کا ذکر ہے،
جس میں آپ کی شفاعت پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنت میں لے جانے کی اجازت دے گا جن پر حساب نہیں ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2434   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3340  
3340. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک دعوت میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے، آپ کو دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ کو انتہائی پسند تھا۔ آپ اسے اپنے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھانے لگے اور فرمایا: میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس لیے؟ وجہ یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ پہلے اور پچھلے لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرے گا، دیکھنے والا ان کو دیکھ سکے گا اور ہر پکارنے والا ان کو اپنی آواز سناسکے گا اور سورج ان کے قریب آچکا ہوگا توکچھ لوگ کہیں گے: کیا تم اپنا حال نہیں دیکھتے کہ کیا(غم اور کرب) تمھیں لاحق ہواہے؟ کوئی ایسا آدمی تلاش کرو جو تمہارے رب کے حضور تمہاری سفارش کرسکے؟ تو کچھ کہیں گے: تمہارا باپ آدم ؑ موجود ہے، چنانچہ لوگ ان کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے آدم ؑ! آپ ابو البشر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا، پھر آپ کے اندر اپنی روح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3340]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ مطلق طور پر تمام کائنات کے سردار ہیں اور قیامت کے دن صرف آپ کی سیادت ظاہر ہوگی۔
تمام انبیاء اور دیگر لوگ آپ کے جھنڈے تلے ہوں گے۔

اس حدیث میں حضرت نوح ؑ کے متعلق آیا ہے کہ آپ اول الرسل ہیں یعنی اولوالعزم رسولوں میں سے پہلے ہیں جنھیں اللہ کے راستے میں سخت آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا نیز حضرت نوح ؑ وہ پہلے رسول ہیں جو اہل ارض کے لیے مبعوث ہوئے تھے حقیقت کے اعتبار سے حضرت آدم ؑ پہلے رسول ہیں لیکن ان کی رسالت صرف اپنی اولاد تک تھی وہ بھی ان کی تعلیم و تربیت کے لیے تھی اس کے برعکس حضرت نوح ؑ کی رسالت تمام امت کے لیے تھی جو تمام شہروں میں پھیل چکی تھی جبکہ حضرت آدم ؑ کی اولاد صرف ایک شہر تک محدود تھی۔
چونکہ اس روایت میں حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
قرآن کریم میں ان کا تذکرہ متعدد مرتبہ آیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3340   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.