الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
159. باب مَا جَاءَ فِي الإِشَارَةِ فِي الصَّلاَةِ
159. باب: نماز میں اشارہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 368
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا هشام بن سعد، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قلت لبلال: كيف كان النبي صلى الله عليه وسلم يرد عليهم حين كانوا يسلمون عليه وهو في الصلاة؟ قال: " كان يشير بيده ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وحديث صهيب حسن لا نعرفه إلا من حديث الليث، عن بكير، وقد روي عن زيد بن اسلم، عن ابن عمر، قال: قلت لبلال: كيف كان النبي صلى الله عليه وسلم يصنع حيث كانوا يسلمون عليه في مسجد بني عمرو بن عوف؟ قال: كان يرد إشارة، وكلا الحديثين عندي صحيح، لان قصة حديث صهيب غير قصة حديث بلال، وإن كان ابن عمر روى عنهما فاحتمل ان يكون سمع منهما جميعا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ؟ قَالَ: " كَانَ يُشِيرُ بِيَدِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ صُهَيْبٍ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ، عَنْ بُكَيْرٍ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ حَيْثُ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ فِي مَسْجِدِ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ؟ قَالَ: كَانَ يَرُدُّ إِشَارَةً، وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ عِنْدِي صَحِيحٌ، لِأَنَّ قِصَّةَ حَدِيثِ صُهَيْبٍ غَيْرُ قِصَّةِ حَدِيثِ بِلَالٍ، وَإِنْ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَوَى عَنْهُمَا فَاحْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ سَمِعَ مِنْهُمَا جَمِيعًا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے بلال رضی الله عنہ سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو جب وہ سلام کرتے اور آپ نماز میں ہوتے تو کیسے جواب دیتے تھے؟ تو بلال نے کہا: آپ اپنے ہاتھ کے اشارہ سے جواب دیتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور صہیب کی حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف لیث ہی کی روایت سے جانتے ہیں انہوں نے بکیر سے روایت کی ہے اور یہ زید ابن اسلم سے بھی مروی ہے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے بلال سے پوچھا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح جواب دیتے تھے جب لوگ مسجد بنی عمرو بن عوف میں آپ کو سلام کرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ اشارے سے جواب دیتے تھے۔ میرے نزدیک دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اس لیے کہ صہیب رضی الله عنہ کا قصہ بلال رضی الله عنہ کے قصے کے علاوہ ہے، اگرچہ ابن عمر رضی الله عنہما نے ان دونوں سے روایت کی ہے، تو اس بات کا احتمال ہے کہ انہوں نے دونوں سے سنا ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 170 (925)، (تحفة الأشراف: 2038)، مسند احمد (6/12) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1017)

   سنن النسائى الصغرى1188عبد الله بن عمركيف كان النبي يصنع إذا سلم عليه قال كان يشير بيده
   جامع الترمذي368عبد الله بن عمركيف كان النبي يرد عليهم حين كانوا يسلمون عليه وهو في الصلاة قال كان يشير بيده
   سنن أبي داود927عبد الله بن عمركيف رأيت رسول الله يرد عليهم حين كانوا يسلمون عليه وهو يصلي
   بلوغ المرام177عبد الله بن عمر كيف رايت النبي يرد عليهم حين يسلمون عليه وهو يصلي؟ قال: يقول هكذا وبسط كفه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 927  
´نماز میں سلام کا جواب`
«. . . الَ: فَقُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي؟ قَالَ:" يَقُولُ هَكَذَا: وَبَسَطَ كَفَّهُ . . .»
. . . میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: جب انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت نماز میں سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا؟ بلال رضی اللہ عنہ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کر رہے تھے، اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلی کو پھیلائے ہوئے تھے . . . [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 927]

فقہ الحدیث
↰ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔
امام ابن الجارود رحمہ اللہ (215) اور حافظ نووی رحمہ اللہ [خلاصة الاحكام: 508/1] نے صحیح قرار دیا ہے۔

«ان عطأ أن موسٰي بن عبدالله بن جميل الجمحي سلم على ابن عباس، و هو يصلي، فأ خذه بيده۔»
عطأ بن ابی رباح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کی موسٰی بن عبداللہ بن جمیل جمحی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سلام کہا:، آپ نماز میں تھے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا (یہ آپ کی طرف سے سلام کا جواب تھا۔) [الشمس الكبري للبيهقي 259/2، مصنف ابن ابي شيبة: 73/2، سنده صحيح]
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 16، حدیث\صفحہ نمبر: 15   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 177  
´نماز میں سلام کا جواب اشارے سے دینا`
«. . . وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قلت لبلال: كيف رايت النبي صلى الله عليه وآله وسلم يرد عليهم حين يسلمون عليه وهو يصلي؟ قال: يقول هكذا وبسط كفه . . .»
. . . سیدنا (عبداللہ) ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ نماز پڑھتے وقت جب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کیسے جواب دیتے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس طرح کرتے اور اپنا ہاتھ پھیلایا . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 177]

لغوی تشریح:
«يَرُدُّ عَلَيْهِمْ» علیھم میں ھم ضمیر سے اہل قباء مراد ہیں۔
«يَقُولُ هٰكَذَا» عملاً کرتے یا اشارہ فرماتے۔ قول یہاں فعل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ کلام عرب میں ایسا اکثر اوقات ہوتا ہے۔
«وَبَسَطَ كَفَّهُ» دراز کیا، پھیلایا۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ نماز میں سلام کا جواب اشارے سے دینا مشروع ہے۔ بہت سے لوگوں کی یہی رائے ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو نماز میں سلام کا جواب دینا ممنوع سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب نماز میں جواب دینا جائز تھا۔ بعد میں جب نماز کی حالت میں گفتگو اور کلام کرنا حرام کر دیا گیا تو اسی وقت سے سلام کا جواب بھی حرام ہو گیا۔ اور اس لیے کہ یہ اشارہ معنوی کلام ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اگر یہ اس موقع کی بات ہوتی جبکہ نماز میں سلام کا جواب جائز تھا تو پھر اشارے سے سلام کے جواب کی کیا ضرورت تھی؟
➋ گفتگو کی ممانعت اور اشارے سے سلام کا جواب تو اس بات کی دلیل ہے کہ جب نماز میں بات چیت کرنا حرام تھا اس وقت اشارے سے جواب جائز تھا۔ صحیح بات یہی ہے کہ بلا ریب و تردد نماز کی حالت میں اشارے سے سلام کا جواب دینا جائز ہے۔
➌ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باہر سے آنے والے نمازی کے لیے نماز میں مصروف نمازیوں کو سلام کرنا درست اور جائز ہے، البتہ جواب کلام سے نہیں بلکہ اشارے سے دیا جائے گا۔
➍ اس اشارے کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ اس بارے میں مسند أحمد میں سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اور جامع الترمذی میں سیدنا ابن عمر کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہاتھ یا انگلی کے اشارے سے سلام کا جواب دیتے تھے۔ دیکھے [مسند أحمد 102، و جامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء فى الإشارة فى الصلاة، حديث: 368]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 177   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.