سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے کہا: کیا آپ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ ایک شخص مسجد میں تیر لے کر گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی پیکان (نوک و پھل) تھام لو“، انہوں نے کہا: ہاں (سنا ہے)۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ حکم اس لیے ہے کہ کسی کو اس کی نوک نہ لگے کہ وہ زخمی ہو جائے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3777
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر آدمی کے پاس کوئی نوک دار چیز ہو تو دوسروں کے کے پاس سے گزرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ نادانستہ طور پر کسی کو نہ لگ جائے۔
(2) نصال (پیکان) سے مراد تیر کا وہ نو کیلا حصہ ہے جو لو ہے کا بنا ہوا ہوتا ہے اور شکار کو لگ کر اسے زخمی کرتا ہے۔
(3) تیز چھری اور قینچی وغیرہ کی نوک بھی کسی کو چبھ سکتی ہے۔ گدھا گاڑی، بیل گاڑی، یا ٹرک وغیرہ پر لدا ہوا سامان بھی اگر اس قسم کا ہو کہ کسی گزرنے والے کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو سکتا ہو تو لازمی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔
(4) رائفل، گن اور کلا شنکوف وغیرہ لوڈ کر کے نہیں رکھنی چاہیے، نہ اس حالت میں انہیں لے کر بازار، مسجد یا ایسی جگہ جانا چاہیے جہاں لوگ جمع ہوں تا کہ اتفاقی طور پر حا دثہ نہ ہو جائے۔
(5) حدیث کے آخر میں یہ جملہ ہے: (قال نعم) بعض علماء نے ترجمہ کرتے وقت اسے صحابی کا قول سمجھ کر ترجمہ کیا ہے: ”وہ بولا بہت خوب“ یا ”اس نے کہا: بہت اچھا۔“ اصل میں یہ حضرت عمر و بن دینار رحمہ اللہ کا کلام ہے کہ جب ان سے ان کے شاگرد سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا: آپ نے حضرت جابر ؓ سے یہ حدیث سنی ہے؟ تو عمرو بن دینار نے فرمایا: ہاں (سنی ہے۔) یہ روایت حدیث کا ایک طریقہ ہے کہ شاگرد حدیث پڑھ کر استاد کو سنائے اور استاد تصدیق کرے کہ یہ حدیث اسی طرح ہے۔ اسے محدثین کی اصطلاح میں ”عرض“ کہتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3777
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 719
´مسجد میں ہتھیار نکالنے کا بیان۔` سفیان ثوری کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے پوچھا: کیا آپ نے جابر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک شخص مسجد میں کچھ تیر لے کر گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”ان کی پیکان پکڑ کر رکھو“، تو عمرو نے کہا: جی ہاں (سنا ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 719]
719 ۔ اردو حاشیہ: تفصیلی روایت میں ہے کہ اس نے تیروں کو نوکوں کی جانب سے ننگا کیا ہوا تھا۔ خطرہ تھا کہ وہ کسی کو لگ نہ جائیں، اس لیے آپ نے فرمایا: ”تیروں کی نوکوں کو پکڑ لو تاکہ نقصان نہ پہنچائیں۔“ گویا مسجد میں اسلحہ لایا جا سکتا ہے مگر بند حالت میں تاکہ کسی کو اتفاقاً لگ نہ جائے۔ اگرچہ اسلحے سے پرہیز ہی بہتر ہے کیونکہ اسلحے کی موجودگی میں اشتعال آ جائے تو اسے چلایا جا سکتا ہے جس سے بہت بڑا فساد رونما ہونے کا خطرہ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 719
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1289
1289-سفیان کہتے ہیں: میں نے عمروبن دینار سے دریافت کیا: کیا آپ نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے یہ فرمایا تھا: جو مسجد میں اپنے تیرلے کر گزر رہا تھا کہ تم اسے دھار کی طرف سے پکڑکر رکھو، تو انہوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1289]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تلوار اور نیزے کو اس کے منہ کی طرف سے پکڑ نا چاہیے، تا کہ کسی کو نقصان نہ پہنچے، یاد رہے کہ بندوق اور پستول وغیرہ کو پکڑتے وقت انگلی، جہاں سے بندوق چلتی ہے، وہاں نہیں رکھنی چاہیے کہ اچانک بندوق چل جائے۔ جوشخص کھلے ہتھیار لے کر چل رہا ہو اس کو اس کی حفاظت کا کہنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1287
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6662
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی تیر لے کر مسجد سے گزرا،جن کے پیکان کھلے ہوئے (ننگے)تھے تو آپ نے اسے ان کے پیکان پکڑنے کا حکم دیا، تاکہ کسی مسلمان کو خراش نہ لگا دے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6662]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: نصل نصول: تیر یا نیزے کی انی، پھل، نوک دار لوہا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6662
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:451
451. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک شخص مسجد نبوی میں تیر لیے ہوئے گزر رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے حکم دیا: ”اس کے پیکان تھامے رکھو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:451]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ ہتھیار بندہوکر مسجد میں آنا جائز ہے، البتہ اگر کوئی تیز دھار چیز ہے تو اس کی دھار پر ہاتھ رکھ لے تاکہ کسی دوسرے کو زخم نہ آئے۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ مذکورہ آدمی مسجد سے تیروں سمیت گزرا جن کے پیکان ننگے تھے، تو اسے حکم دیاگیا کہ ان کےسروں کو پکڑ لے تا کہ ان میں سے کوئی مسلمان زخمی نہ ہو۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ وہ آدمی تیر بناکر انھیں مجاہدین پر صدقہ کرنے مسجد آیا تھا تاکہ انھیں جہاد میں استعمال کیا جاسکے۔ (صحیح مسلم، البر والصلة، حدیث: 6663 (2614)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 451