الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انصار کے مناقب
The Merits of Al-Ansar
45. بَابُ هِجْرَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ:
45. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا۔
(45) Chapter. The emigration of the Prophet and hiscompanions to Al-Madina.
حدیث نمبر: 3915
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بشر، حدثنا روح، حدثنا عوف، عن معاوية بن قرة، قال: حدثني ابو بردة بن ابي موسى الاشعري , قال: قال لي عبد الله بن عمر: هل تدري ما؟ قال ابي: لابيك، قال: قلت: لا، قال: فإن ابي قال لابيك: يا ابا موسى، هل يسرك إسلامنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم , وهجرتنا معه , وجهادنا معه , وعملنا كله معه برد لنا , وان كل عمل عملناه بعده نجونا منه كفافا راسا براس؟ فقال ابي: لا والله , قد جاهدنا بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم , وصلينا وصمنا , وعملنا خيرا كثيرا , واسلم على ايدينا بشر كثير , وإنا لنرجو ذلك، فقال ابي: لكني انا والذي نفس عمر بيده , لوددت ان ذلك برد لنا , وان كل شيء عملناه بعد نجونا منه كفافا راسا براس، فقلت: إن اباك والله خير من ابي".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ , قَالَ: قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: هَلْ تَدْرِي مَا؟ قَالَ أَبِي: لِأَبِيكَ، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَإِنَّ أَبِي قَالَ لِأَبِيكَ: يَا أَبَا مُوسَى، هَلْ يَسُرُّكَ إِسْلَامُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهِجْرَتُنَا مَعَهُ , وَجِهَادُنَا مَعَهُ , وَعَمَلُنَا كُلُّهُ مَعَهُ بَرَدَ لَنَا , وَأَنَّ كُلَّ عَمَلٍ عَمِلْنَاهُ بَعْدَهُ نَجَوْنَا مِنْهُ كَفَافًا رَأْسًا بِرَأْسٍ؟ فَقَالَ أَبِي: لَا وَاللَّهِ , قَدْ جَاهَدْنَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَصَلَّيْنَا وَصُمْنَا , وَعَمِلْنَا خَيْرًا كَثِيرًا , وَأَسْلَمَ عَلَى أَيْدِينَا بَشَرٌ كَثِيرٌ , وَإِنَّا لَنَرْجُو ذَلِكَ، فَقَالَ أَبِي: لَكِنِّي أَنَا وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرَ بِيَدِهِ , لَوَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ بَرَدَ لَنَا , وَأَنَّ كُلَّ شَيْءٍ عَمِلْنَاهُ بَعْدُ نَجَوْنَا مِنْهُ كَفَافًا رَأْسًا بِرَأْسٍ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَبَاكَ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِنْ أَبِي".
ہم سے یحییٰ بن بشر نے بیان کیا، کہا ہم سے روح نے بیان کیا، ان سے عوف نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن قرہ نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوبردہ بن ابوموسیٰ اشعری نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پوچھا، کیا تم کو معلوم ہے کہ میرے والد عمر رضی اللہ عنہ نے تمہارے والد ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے کہا نہیں، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میرے والد نے تمہارے والد سے کہا: اے ابوموسیٰ! کیا تم اس پر راضی ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا اسلام، آپ کے ساتھ ہماری ہجرت، آپ کے ساتھ ہمارا جہاد ہمارے تمام عمل جو ہم نے آپ کی زندگی میں کئے ہیں ان کے بدلہ میں ہم اپنے ان اعمال سے نجات پا جائیں جو ہم نے آپ کے بعد کئے ہیں گو وہ نیک بھی ہوں بس برابری پر معاملہ ختم ہو جائے۔ اس پر آپ کے والد نے میرے والد سے کہا اللہ کی قسم! میں اس پر راضی نہیں ہوں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جہاد کیا، نمازیں پڑھیں، روزے رکھے اور بہت سے اعمال خیر کئے اور ہمارے ہاتھ پر ایک مخلوق نے اسلام قبول کیا، ہم تو اس کے ثواب کی بھی امید رکھتے ہیں اس پر میرے والد نے کہا (خیر ابھی تم سمجھو) لیکن جہاں تک میرا سوال ہے تو اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئے ہوئے ہمارے اعمال محفوظ رہے ہوں اور جتنے اعمال ہم نے آپ کے بعد کئے ہیں ان سب سے اس کے بدلہ میں ہم نجات پا جائیں اور برابر پر معاملہ ختم ہو جائے۔ ابوبردہ کہتے ہیں اس پر میں نے کہا: اللہ کی قسم! آپ کے والد (عمر رضی اللہ عنہ) میرے والد (ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ) سے بہتر تھے۔

Narrated Abu Burda Bin Abi Musa Al-Ash`ari: `Abdullah bin `Umar said to me, "Do you know what my father said to your father once?" I said, "No." He said, "My father said to your father, 'O Abu Musa, will it please you that we will be rewarded for our conversion to Islam with Allah's Apostle and our migration with him, and our Jihad with him and all our good deeds which we did, with him, and that all the deeds we did after his death will be disregarded whether good or bad?' Your father (i.e. Abu Musa) said, 'No, by Allah, we took part in Jihad after Allah's Apostle , prayed and did plenty of good deeds, and many people have embraced Islam at our hands, and no doubt, we expect rewards from Allah for these good deeds.' On that my father (i.e. `Umar) said, 'As for myself, By Him in Whose Hand `Umar's soul is, I wish that the deeds done by us at the time of the Prophet remain rewardable while whatsoever we did after the death of the Prophet be enough to save us from Punishment in that the good deeds compensate for the bad ones.' " On that I said (to Ibn `Umar), "By Allah, your father was better than my father!"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 254


   صحيح البخاري3915عبد الله بن عمرلكني أنا والذي نفس عمر بيده لوددت أن ذلك برد لنا وأن كل شيء عملناه بعد نجونا منه كفافا رأسا برأس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3915  
3915. حضرت ابوبردہ بن ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: کیا تجھے علم ہے کہ میرے والد گرامی نے آپ کے والد گرامی سے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے والد گرامی نے آپ کے والد گرامی سے کہا تھا: اے ابو موسٰی! کیا یہ بات آپ کے لیے خوشی کا باعث ہو گی کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہمارا اسلام لانا، آپ کے ہمراہ ہمارا ہجرت کرنا، آپ کے ہمراہ ہمارا جہاد کرنا، الغرض آپ کے ہمراہ ہمارے تمام اعمال ہمارے لیے ٹھنڈک کا باعث ہوں، اور وہ اعمال جو ہم نے آپ ﷺ کے بعد کیے ہیں وہ برابری کے معاملے پر ختم ہو جائیں۔ نہ ہمیں ان کا ثواب ملے اور نہ ان کے متعلق باز پرس ہی ہو۔ اس پر آپ کے والد نے میرے والد سے کہا: اللہ کی قسم! میں اس پر راضی نہیں ہوں کیونکہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی جہاد کیا، نمازیں پڑھیں، روزے رکھے اور بہت سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3915]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ کا یہ قول کہ نہ ان کا ثواب ملے اور نہ ان کی وجہ سے عذاب ہو یہ آپ کی بے انتہا خدا ترسی اور احتیاط تھی ان کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جو اعمال خیر ہم نے کئے ہیں ان پر ہم کو پورا بھروسا نہیں وہ بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئے یا نہیں ہماری نیت ان میں خالص تھی یا نہیں تو ہم اسی کو غنیمت سمجھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ جو اعمال ہم نے کئے ہیں ان کا تو ثواب ہم کو مل جائے نجات کےلئے وہی اعمال کافی ہیں اور آپ کے بعد جو اعمال ہیں ان میں ہم کو کوئی مواخذہ نہ ہو ثواب نہ سہی یہ بھی غنیمت ہے کہ عذاب نہ ہو۔
کیونکہ خوف کا مقام رجاء کے مقام سے اعلیٰ ہے مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ اس باب میں بھی ابو موسیٰ ؓ سے افضل تھے ورنہ حضرت عمر ؓ کی افضیلت مطلقہ ابو موسیٰ ؓ پر تو بالاتفاق ثابت ہے۔
حافظ نے کہا کبھی مفضول کو بھی ایک خاص مقدمہ میں فاضل پر افضلیت ہوتی ہے اور اس سے افضلیت مطلقہ لازم نہیں آتی اور حضرت عمرؓ کا یہ فرمانا کسر نفس اور تواضع اور خوف الٰہی سے تھا ورنہ ان کا ایک ایک عمل اور ایک ایک عدل اور انصاف ہمارے تمام عمر کے نیک اعمال سے کہیں زیادہ ہے۔
حقیقت تو یہ ہے اگر کوئی منصف آدمی گو وہ کسی مذہب کا ہو حضرت عمر ؓ کی سوانح عمری پر نظر ڈالے تو اس کو بلا شبہ یہ معلوم ہو جائے گا کہ ما در گیتی نے ایسا فرزند بہت ہی کم جنا ہے۔
اور مسلمانوں میں تو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آج تک کوئی ایسا مدبر منتظم عادل خدا پرست خدا ترس رعیت پر ور حاکم پیدا نہیں ہوا۔
معلوم نہیں رافضیوں کی عقل کہاں تشریف لے گئی ہے کہ وہ ایسے جوہر نفیس کو جس کی ذات سے اسلام اور مسلمانوں کا شرف ہے مطعون کرتے ہیں۔
خدا سمجھے اس کا خمیازہ مرتے ہی ان کومعلوم ہو جائے گا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3915   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3915  
3915. حضرت ابوبردہ بن ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: کیا تجھے علم ہے کہ میرے والد گرامی نے آپ کے والد گرامی سے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے والد گرامی نے آپ کے والد گرامی سے کہا تھا: اے ابو موسٰی! کیا یہ بات آپ کے لیے خوشی کا باعث ہو گی کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہمارا اسلام لانا، آپ کے ہمراہ ہمارا ہجرت کرنا، آپ کے ہمراہ ہمارا جہاد کرنا، الغرض آپ کے ہمراہ ہمارے تمام اعمال ہمارے لیے ٹھنڈک کا باعث ہوں، اور وہ اعمال جو ہم نے آپ ﷺ کے بعد کیے ہیں وہ برابری کے معاملے پر ختم ہو جائیں۔ نہ ہمیں ان کا ثواب ملے اور نہ ان کے متعلق باز پرس ہی ہو۔ اس پر آپ کے والد نے میرے والد سے کہا: اللہ کی قسم! میں اس پر راضی نہیں ہوں کیونکہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی جہاد کیا، نمازیں پڑھیں، روزے رکھے اور بہت سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3915]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں حضرت ابو بردہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت ابن عمر ؓ کے پہلو میں نماز پڑھی۔
میں نےا نس ےسنا۔
آپ نے فرمایا:
جب سے میں مسلمان ہوا ہوں اور جو نماز بھی ادا کی ہے میں چاہتا ہوں کہ وہ میرےگناہوں کا کفارہ بن جائے۔
(المستدرك علی الصیحین: 442/2، طبع دار الکتب العلمیة)
اس کے بعد انھوں نے مذکورہ واقعہ بیان کیا۔
اس موقف میں بھی حضرت عمر ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ خوف کا مقام امید کے مقام سے بہر حال اعلیٰ اور افضل ہے۔
حضرت عمر ؓ کا یہ فرمانا کسر نفسی تواضع اور خوف الٰہی کی بنا پر تھا، ورنہ ان کا ایک ایک عمل اور ایک ایک عدل و انصاف ہماری تمام عمر نیک اعمال سے کہیں زیادہ وزنی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آج تک کوئی ایسا مدبر منتظم عادل حق پرست اور رعایا پردر حاکم پیدا ہی نہیں ہوا۔
(فتح الباري: 318/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3915   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.