الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
Chapters on Zuhd
حدیث نمبر: 4209
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن حكيم , ومحمد بن عبد الله بن يزيد , قالا: حدثنا سفيان , عن الزهري , عن سالم , عن ابيه , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا حسد إلا في اثنتين: رجل آتاه الله القرآن فهو يقوم به آناء الليل وآناء النهار , ورجل آتاه الله مالا فهو ينفقه آناء الليل وآناء النهار".
(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ , قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ , وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشک و حسد کے لائق صرف دو لوگ ہیں: ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم عطا کیا، تو وہ اسے دن رات پڑھتا ہے، دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا، تو وہ اسے دن رات (نیک کاموں میں) خرچ کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التوحید 45 (7529)، صحیح مسلم/المسافرین 47 (815)، سنن الترمذی/البروالصلة 24 (1936)، (تحفة الأشراف: 6815)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/36، 88، 152) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري7529عبد الله بن عمرلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله القرآن فهو يتلوه آناء الليل وآناء النهار رجل آتاه الله مالا فهو ينفقه آناء الليل وآناء النهار
   صحيح البخاري5025عبد الله بن عمرلا حسد إلا على اثنتين رجل آتاه الله الكتاب وقام به آناء الليل رجل أعطاه الله مالا فهو يتصدق به آناء الليل والنهار
   صحيح مسلم1894عبد الله بن عمرلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله القرآن فهو يقوم به آناء الليل وآناء النهار رجل آتاه الله مالا فهو ينفقه آناء الليل وآناء النهار
   صحيح مسلم1895عبد الله بن عمرلا حسد إلا على اثنتين رجل آتاه الله هذا الكتاب فقام به آناء الليل وآناء النهار رجل آتاه الله مالا فتصدق به آناء الليل وآناء النهار
   جامع الترمذي1936عبد الله بن عمرلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فهو ينفق منه آناء الليل وآناء النهار رجل آتاه الله القرآن فهو يقوم به آناء الليل وآناء النهار
   سنن ابن ماجه4209عبد الله بن عمرلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله القرآن فهو يقوم به آناء الليل وآناء النهار رجل آتاه الله مالا فهو ينفقه آناء الليل وآناء النهار
   مسندالحميدي629عبد الله بن عمر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7529  
´جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا اور رات اور دن اس میں مشغول رہتا ہے`
«. . . عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ . . .»
. . . ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رشک کے قابل تو دو ہی آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے قرآن دیا اور وہ اس کی تلاوت رات دن کرتا رہتا ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ نے مال دیا ہو اور وہ اسے رات و دن خرچ کرتا رہا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7529]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7529 کا باب: «بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهْوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَرَجُلٌ يَقُولُ لَوْ أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا فَعَلْتُ كَمَا يَفْعَلُ»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کا باب اور تحت الباب احادیث سے غرض یہ ہے کہ قرآن مجید غیر مخلوق ہے اور جو بندہ تلاوت کرتا ہے یہ بندے کا فعل ہے، جو فعل ہونے کے سبب مخلوق ہے کیوں کہ فعل قاری کی نسبت ہے اور وہ مخلوق ہے تو لہٰذا اس کا فعل بھی مخلوق ہی ہو گا۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
آیت « ﴿وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ﴾ » [الروم: 22] میں ہر قسم کا کلام مراد ہے پس اس میں قرآن بھی داخل ہے، اور جو دوسری آیت امام بخاری رحمہ اللہ نے پیش فرمائی ہے اس میں ہر قسم کی خیر شامل ہے اور اسی طرح سے قرآن کی تلاوت بھی اسی میں شامل ہے، پس یہ اس پر دلالت ہے کہ قرأت کرنا قاری کا فعل ہے اور بندے کا فعل بھی اس کی طرح مخلوق ہے۔

پھر اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے دو احادیث پیش فرمائی ہیں، ان کا ترجمۃ الباب میں مطابقت ہونا اس قول کے ساتھ ہے:
«فهو يتلوه آناء الليل و آناء النهار .» [لب اللباب: 299/5]
یہ حقیر اور ناچیز طالب علم بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقاہت کو داد دینی چاہیے، آپ رحمہ اللہ نے ان احادیث سے اس طرح سے باریک بینی سے اس مسئلے کو رفع کیا کہ آپ رحمہ اللہ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ آپ خلق قرآن کے قائل ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث اور باب کے ذریعے اپنے اوپر لگائے گئے ان اتہامات اور الزامات کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا اور واضح کر دیا کہ آپ رحمہ اللہ ہرگز خلق قرآن کے قائل نہیں ہیں، بلکہ آپ قرآن مجید کو اللہ کا کلام مانتے ہیں، اگر آپ غور کریں تو امام بخاری رحمہ اللہ نے جو حدیث «سالم عن ابيه» سے ذکر فرمائی ہے اس کی سند میں «امام على بن المديني» ہیں اور اسی کا دوسرا طرق کتاب فضائل القرآن (رقم: 5025) میں ذکر فرمایا ہے مگر اس طرق میں امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نہیں ہیں ؎۱، آخر اس میں کون سی بات یا راز چھپا ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے اس موقع پر جبکہ قرآن غیر مخلوق ہے کو ثابت کرنے کے لیے علی بن المدینی رحمہ اللہ کی سند سے حدیث پیش فرمائی؟ اللہ تعالیٰ نے اس حقیر کے دل میں یہ بات اس موقع پر ڈالی ہے کہ «علي بن مديني» وہ ہیں جن کی حدیث امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ترک کر دی تھیں، کیوں کہ ابتلاء کے ایام میں انہوں نے بھی جان بچانے کے لیے قرآن کو مخلوق کہہ دیا تھا، مگر امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ علی بن مدینی سے ایک لغزش ظاہر ہوئی تھی لیکن انہوں نے اس سے توبہ کر لی تھی۔ لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے جو سند میں اس موقع پر ان کا نام لیا ہے اور ان کے طریق سے حدیث نقل فرمائی ہے اس کے بہت سارے مقاصد ہو سکتے ہیں، پہلا مقصد تو یہی دکھلائی دیتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ علی بن مدینی رحمہ اللہ خلق قرآن کے عقیدے سے تائب ہو چکے تھے؎ ۲، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآن کلام اللہ ہے ثابت کرنے کے لیے ان سے حدیث نقل فرمائی ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اس عقیدے کے قائل نہ تھے اور ان کے نزدیک ثقہ اور حجت تھے۔ دوسری بات یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنا بھی دفاع کر رہے ہوں کہ مجھ پر یہ صرف الزام ہے، میں خلق قرآن کا قائل نہیں ہوں، بلکہ قرآن کلام اللہ ہے۔

------------------
؎۱ قارئین کی آسانی اور مزید بات کو سمجھنے کے لیے ہم ان دونوں احادیث کی مکمل اسناد یہاں تحریر کر دیتے ہیں تاکہ بات آسانی سے سمجھی جائے۔ کتاب فضائل القرآن والی حدیث کی سند: امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني سالم بن عبدالله، أن عبدالله بن عمر . . . . .» دوسری سند جسے کتاب التوحید میں ذکر فرمائی: «حدثنا على بن عبدالله، حدثنا سفيان، قال الزهري، عن سالم، عن أبيه . . . . .» ۔
؎ ۲ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تہذیب التہذیب میں علی بن مدینی رحمہ اللہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ «قال محمد بن مخلد: سمعت محمد بن عثمان بن أبى شيبة يقول: سمعت على بن المديني قبل أن يموت بشهرين يقول: القرآن كلام الله غير مخلوق.» [تهذيب التهذيب: 715/5]، محمد بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ علی بن مدینی رحمہ اللہ نے اپنی وفات سے دو ماہ قبل فرمایا تھا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔ یہ بات اس مسئلے پر واضح دلیل ہے کہ امام المحدث علی بن مدینی رحمہ اللہ خلق قرآن کے قائل نہ تھے، اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ باب کے تحت آپ سے حدیث نقل فرمائی ہے تاکہ قیامت تک آپ پر اٹھنے والے الزامات کو مٹا دیا جائے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 325   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4209  
´حسد کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشک و حسد کے لائق صرف دو لوگ ہیں: ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم عطا کیا، تو وہ اسے دن رات پڑھتا ہے، دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا، تو وہ اسے دن رات (نیک کاموں میں) خرچ کرتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4209]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (يقوم به)
کا مطلب اس پر عمل کرنا بھی ہے اورنماز کے قیام میں اس کی تلاوت بھی خواہ فرض نمازوں میں ہو یا نوافل و تہجد میں۔

(2)
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

(3)
مسجدوں کے میناروں اور دیواروں کی زیب و زینت کی بجائے علماء اور طلباء پر خرچ کرنا زیادہ ثواب ہے۔
اسی طرح مسجد کے مفلس یا مقروض نمازی اور مسجد کے قرب و جوار میں رہنے والے مدد کے مستحق غریب آدمیوں کو کو دینا زیادہ ضروری ہے۔
مسجد سادہ رہے تو افضل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4209   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1936  
´حسد کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا چاہیئے، ایک اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس میں سے رات دن (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہے، دوسرا اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے علم قرآن دیا اور وہ رات دن اس کا حق ادا کرتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1936]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حسد کی دوقسمیں ہیں:
حقیقی اور مجازی،
حقیقی حسد یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے پاس موجود نعمت کے ختم ہوجانے کی تمنا وخواہش کرے،
حسد کی یہ قسم بالاتفاق حرام ہے،
اس کی حرمت سے متعلق صحیح نصوص وارد ہیں،
اسی لیے اس کی حرمت پر امت کا اجماع ہے،
حسد کی دوسری قسم رشک ہے،
یعنی دوسرے کی نعمت کے خاتمہ کی تمنا کیے بغیر اس نعمت کے مثل نعمت کے حصول کی تمنا کرنا،
اس حدیث میں حسد کی یہی دوسری قسم مراد ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1936   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.