الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
24. بَابُ: {وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا} :
24. باب: آیت کی تفسیر ”اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے ظلم زیادتی یا بے رغبتی کا خوف ہو تو ان کو باہمی صلح کر لینے میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ صلح بہتر ہے“۔
(24) Chapter: “If a woman fears cruelty or desertion on her husband’s part...” (V.4:128)
حدیث نمبر: Q4601
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابن عباس: شقاق: تفاسد، واحضرت الانفس الشح: هواه في الشيء يحرص عليه كالمعلقة، لا هي ايم، ولا ذات زوج نشوزا بغضا.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: شِقَاقٌ: تَفَاسُدٌ، وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ: هَوَاهُ فِي الشَّيْءِ يَحْرِصُ عَلَيْهِ كَالْمُعَلَّقَةِ، لَا هِيَ أَيِّمٌ، وَلَا ذَاتُ زَوْجٍ نُشُوزًا بُغْضًا.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا (آیت میں) «شقاق» کے معنی فساد اور جھگڑا ہے۔ «وأحضرت الأنفس الشح» ہر نفس کو اپنے فائدے کا لالچ ہوتا ہے۔ «كالمعلقة» یعنی نہ تو وہ بیوہ رہے اور نہ شوہر والی ہو۔ «نشوزا» بمعنی «بغضا» عداوت کے معنی میں ہے۔

حدیث نمبر: 4601
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا محمد بن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها: وإن امراة خافت من بعلها نشوزا او إعراضا سورة النساء آية 128، قالت:" الرجل تكون عنده المراة ليس بمستكثر منها، يريد ان يفارقها، فتقول: اجعلك من شاني في حل، فنزلت هذه الآية في ذلك".(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا سورة النساء آية 128، قَالَتْ:" الرَّجُلُ تَكُونُ عِنْدَهُ الْمَرْأَةُ لَيْسَ بِمُسْتَكْثِرٍ مِنْهَا، يُرِيدُ أَنْ يُفَارِقَهَا، فَتَقُولُ: أَجْعَلُكَ مِنْ شَأْنِي فِي حِلٍّ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي ذَلِكَ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت «وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا أو إعراضا‏‏‏.‏» اور کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بے رغبتی کا خوف ہو کے متعلق کہا کہ ایسا مرد جس کے ساتھ اس کی بیوی رہتی ہے، لیکن شوہر کو اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں، بلکہ وہ اسے جدا کر دینا چاہتا ہے، اس پر عورت کہتی ہے کہ میں اپنی باری اور اپنا (نان نفقہ) معاف کر دیتی ہوں (تم مجھے طلاق نہ دو) تو ایسی صورت کے متعلق یہ آیت اسی باب میں اتری۔

Narrated `Aisha: Regarding the Verse:--"If a woman fears cruelty or desertion on her husband's part." (4.128) It is about a man who has a woman (wife) and he does not like her and wants to divorce her but she says to him, "I make you free as regards myself." So this Verse was revealed in this connection.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 125



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4601  
4601. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل آیت کے متعلق "اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بے رخی کا خوف ہو۔۔" فرمایا: اس سے مراد ایسا مرد ہے جس کے پاس اس کی عورت رہتی ہو لیکن وہ اس سے کوئی میل جول نہیں رکھتا اور اسے وہ چھوڑ دینا چاہے تو عورت اسے کہے کہ میں تجھے اپنا حق معاف کر دیتی ہوں، یعنی میں تجھے اپنے حقوق سے بری کرتی ہوں۔ ایسی ہی صورت کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4601]
حدیث حاشیہ:
جورو مرد اگر صلح کر کے کوئی بات ٹھہرا لیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
مثلا جور و اپنی باری معاف کردے یا اور کوئی بات پڑ جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4601   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4601  
4601. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل آیت کے متعلق "اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بے رخی کا خوف ہو۔۔" فرمایا: اس سے مراد ایسا مرد ہے جس کے پاس اس کی عورت رہتی ہو لیکن وہ اس سے کوئی میل جول نہیں رکھتا اور اسے وہ چھوڑ دینا چاہے تو عورت اسے کہے کہ میں تجھے اپنا حق معاف کر دیتی ہوں، یعنی میں تجھے اپنے حقوق سے بری کرتی ہوں۔ ایسی ہی صورت کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4601]
حدیث حاشیہ:

اس آیت کی عملی تفسیر درج ذیل واقعے سے ہوتی ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
حضرت سودہ ؓ کو محسوس ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انھوں نے آپ سے عرض کی:
اللہ کے رسول ﷺ! آپ مجھے طلاق نہ دیں بلکہ اپنے پاس ہی رکھیں اور میں اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو دے دیتی ہوں، چنانچہ رسول اللہ ﷺایساہی کیا۔
اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
گویا میاں بیوی جس شرط پر صلح کرلیں وہ جائز ہے۔
(النساء: 128/4)

بہرحال اگر بیوی اپنی باری اور دیگر حقوق سے دستبردار ہو جائے تو وہ اس کے حقوق ختم ہوجائیں گے، چنانچہ ایک دوسری روایت میں مذید وضاحت ہے کہ عورت اپنے خاوند کی بے رخی کو دیکھ کرکہتی ہے:
مجھے اپنے پاس ہی رکھو اور طلاق نہ دو، کسی اور سے شادی بھی کرلو، میرے نان ونفقہ سے بھی آپ بری الذمہ ہیں اورمیری باری کے موقع پر میرے ہاں شب باشی بھی نہ کریں۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3040)
اس کے باوجود خاوند کو چاہیے کہ وہ کسی صورت میں بھی عدل و انصاف کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4601   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.