الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
1. بَابُ قَوْلِهِ: {إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ} :
1. باب: آیت کی تفسیر ”ہاں مگر کوئی بات چوری چھپے سن بھاگے تو اس کے پیچھے ایک جلتا ہوا انگارہ لگ جاتا ہے“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “Except him (devil) that gains hearing by stealing, he is pursued by a clear flaming fire.” (V.15:18)
حدیث نمبر: Q4701-2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال مجاهد: صراط علي مستقيم: الحق يرجع إلى الله، وعليه طريقه لبإمام مبين على الطريق، وقال ابن عباس: لعمرك: لعيشك، قوم منكرون: انكرهم لوط، وقال غيره: كتاب معلوم: اجل، لو ما تاتينا: هلا تاتينا شيع امم وللاولياء ايضا شيع، وقال ابن عباس: يهرعون: مسرعين، للمتوسمين: للناظرين، سكرت: غشيت، بروجا: منازل للشمس والقمر، لواقح: ملاقح ملقحة، حمإ، جماعة حماة وهو الطين المتغير والمسنون المصبوب توجل تخف، دابر: آخر، لبإمام مبين: الإمام كل ما ائتممت واهتديت به، الصيحة: الهلكةوَقَالَ مُجَاهِدٌ: صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ: الْحَقُّ يَرْجِعُ إِلَى اللَّهِ، وَعَلَيْهِ طَرِيقُهُ لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ عَلَى الطَّرِيقِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَعَمْرُكَ: لَعَيْشُكَ، قَوْمٌ مُنْكَرُونَ: أَنْكَرَهُمْ لُوطٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: كِتَابٌ مَعْلُومٌ: أَجَلٌ، لَوْ مَا تَأْتِينَا: هَلَّا تَأْتِينَا شِيَعٌ أُمَمٌ وَلِلْأَوْلِيَاءِ أَيْضًا شِيَعٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يُهْرَعُونَ: مُسْرِعِينَ، لِلْمُتَوَسِّمِينَ: لِلنَّاظِرِينَ، سُكِّرَتْ: غُشِّيَتْ، بُرُوجًا: مَنَازِلَ لِلشَّمْسِ وَالْقَمَرِ، لَوَاقِحَ: مَلَاقِحَ مُلْقَحَةً، حَمَإٍ، جَمَاعَةُ حَمْأَةٍ وَهُوَ الطِّينُ الْمُتَغَيِّرُ وَالْمَسْنُونُ الْمَصْبُوبُ تَوْجَلْ تَخَفْ، دَابِرَ: آخِرَ، لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ: الْإِمَامُ كُلُّ مَا ائْتَمَمْتَ وَاهْتَدَيْتَ بِهِ، الصَّيْحَةُ: الْهَلَكَةُ
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «صراط على مستقيم‏» کا معنی سچا راستہ جو اللہ تک پہنچتا ہے۔ اللہ کی طرف جاتا ہے «لبإمام مبين» یعنی کھلے راستے پر۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لعمرك‏» کا معنی یعنی تیری زندگی کی قسم۔ «قوم منكرون‏» لوط نے ان کو اجنبی پردیسی سمجھا۔ دوسرے لوگوں نے کہا «كتاب معلوم» کا معنی معین میعاد۔ «لوما تاتينا» کیوں ہمارے پاس نہیں لاتا۔ «شيع» ‏‏‏‏ امتیں اور کبھی دوستوں کو بھی «شيع» ‏‏‏‏ کہتے ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «يهرعون» کا معنی دوڑتے، جلدی کرتے۔ «للمتوسمين» ‏‏‏‏ دیکھنے والوں کے لیے۔ «سكرت» ‏‏‏‏ ڈھانکی گئیں۔ «بروجا»، «برج» یعنی سورج چاند کی منزلیں۔ «لواقح»، «ملاقح» کے معنی میں ہے جو «ملفحة» کی جمع یعنی حاملہ کرنے والی۔ «حما»، «حماة» کی جمع ہے بدبودار کیچڑ۔ «مسنون» قالب میں ڈھالی گئی۔ «لا توجل» مت ڈر۔ «دابر اخر» (دم)۔ «لبامام مبين» امام، وہ شخص جس کی تو پیروی کرے اس سے راہ پائے۔ «الصيحة» ہلاکت کے معنی میں ہے۔

حدیث نمبر: 4701
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن عكرمة، عن ابي هريرة، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إذا قضى الله الامر في السماء، ضربت الملائكة باجنحتها خضعانا، لقوله: كالسلسلة على صفوان"، قال علي: وقال غيره: صفوان ينفذهم ذلك، فإذا فزع عن قلوبهم، قالوا: ماذا قال ربكم؟ قالوا: للذي قال الحق، وهو العلي الكبير، فيسمعها مسترقو السمع، ومسترقو السمع هكذا واحد فوق آخر، ووصف سفيان بيده وفرج بين اصابع يده اليمنى نصبها بعضها فوق بعض، فربما ادرك الشهاب المستمع قبل ان يرمي بها إلى صاحبه فيحرقه، وربما لم يدركه حتى يرمي بها إلى الذي يليه إلى الذي هو اسفل منه حتى يلقوها إلى الارض، وربما قال سفيان: حتى تنتهي إلى الارض، فتلقى على فم الساحر فيكذب معها مائة كذبة، فيصدق، فيقولون: الم يخبرنا يوم كذا، وكذا يكون كذا، وكذا، فوجدناه حقا للكلمة التي سمعت من السماء.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ، ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا، لِقَوْلِهِ: كَالسِّلْسِلَةِ عَلَى صَفْوَانٍ"، قَالَ عَلِيٌّ: وَقَالَ غَيْرُهُ: صَفْوَانٍ يَنْفُذُهُمْ ذَلِكَ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: لِلَّذِي قَالَ الْحَقَّ، وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ، فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ هَكَذَا وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ، وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ وَفَرَّجَ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدِهِ الْيُمْنَى نَصَبَهَا بَعْضَهَا فَوْقَ بَعْضٍ، فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ الْمُسْتَمِعَ قَبْلَ أَنْ يَرْمِيَ بِهَا إِلَى صَاحِبِهِ فَيُحْرِقَهُ، وَرُبَّمَا لَمْ يُدْرِكْهُ حَتَّى يَرْمِيَ بِهَا إِلَى الَّذِي يَلِيهِ إِلَى الَّذِي هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ حَتَّى يُلْقُوهَا إِلَى الْأَرْضِ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الْأَرْضِ، فَتُلْقَى عَلَى فَمْ السَّاحِرِ فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَيُصَدَّقُ، فَيَقُولُونَ: أَلَمْ يُخْبِرْنَا يَوْمَ كَذَا، وَكَذَا يَكُونُ كَذَا، وَكَذَا، فَوَجَدْنَاهُ حَقًّا لِلْكَلِمَةِ الَّتِي سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ فرماتا ہے تو ملائکہ عاجزی سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے کہ جیسے کسی صاف چکنے پتھر پر زنجیر کے (مارنے سے آواز پیدا ہوتی ہے) اور علی بن عبداللہ المدینی نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ کے سوا اور راویوں نے «صفوان» کے بعد «ينفذهم ذلك» (جس سے ان پر دہشت طاری ہوتی ہے) کے الفاظ کہے ہیں۔ پھر اللہ پاک اپنا حکم فرشتوں تک پہنچا دیتا ہے، جب ان کے دلوں پر سے ڈر جاتا رہتا ہے تو دوسرے دور والے فرشتے نزدیک والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں پروردگار نے کیا حکم صادر فرمایا۔ نزدیک والے فرشتے کہتے ہیں بجا ارشاد فرمایا اور وہ اونچا ہے بڑا۔ فرشتوں کی یہ باتیں چوری سے بات اڑانے والے شیطان پا لیتے ہیں۔ یہ بات اڑانے والے شیطان اوپر تلے رہتے ہیں (ایک پر ایک) سفیان نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ایک پر ایک کر کے بتلایا کہ اس طرح شیطان اوپر تلے رہ کر وہاں جاتے ہیں۔ پھر بھی کبھی ایسا ہوتا ہے۔ فرشتے خبر پا کر آگ کا شعلہ پھینکتے ہیں وہ بات سننے والے کو اس سے پہلے جلا ڈالتا ہے کہ وہ اپنے پیچھے والے کو وہ بات پہنچا دے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتا اور وہ اپنے نیچے والے شیطان کو وہ بات پہنچا دیتا ہے، وہ اس سے نیچے والے کو اس طرح وہ بات زمین تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ زمین تک آ پہنچتی ہے۔ (کبھی سفیان نے یوں کہا) پھر وہ بات نجومی کے منہ پر ڈالی جاتی ہے۔ وہ ایک بات میں سو باتیں جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے۔ کوئی کوئی بات اس کی سچ نکلتی ہے تو لوگ کہنے لگتے ہیں دیکھو اس نجومی نے فلاں دن ہم کو یہ خبر دی تھی کہ آئندہ ایسا ایسا ہو گا اور ویسا ہی ہوا۔ اس کی بات سچ نکلی۔ یہ وہ بات ہوتی ہے جو آسمان سے چرائی گئی تھی۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "When Allah has ordained some affair in the Heaven, the angels beat with their wings in obedience to His statement, which sounds like a chain dragged over a rock." (`Ali and other sub-narrators said, "The sound reaches them.") "Until when fear is banished from their (angels) hearts, they (angels) say, 'What was it that your Lord said? They say, 'The truth; And He is the Most High, the Most Great.' (34.23) Then those who gain a hearing by stealing (i.e. devils) will hear Allah's Statement:-- 'Those who gain a hearing by stealing, (stand one over the other like this). (Sufyan, to illustrate this, spread the fingers of his right hand and placed them one over the other horizontally.) A flame may overtake and burn the eavesdropper before conveying the news to the one below him; or it may not overtake him till he has conveyed it to the one below him, who in his turn, conveys it to the one below him, and so on till they convey the news to the earth. (Or probably Sufyan said, "Till the news reaches the earth.") Then the news is inspired to a sorcerer who would add a hundred lies to it. His prophecy will prove true (as far as the heavenly news is concerned). The people will say. 'Didn't he tell us that on such-and-such a day, such-and-such a thing will happen? We have found that is true because of the true news heard from heaven."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 223


   صحيح البخاري7481عبد الرحمن بن صخرإذا قضى الله الأمر في السماء ضربت الملائكة بأجنحتها خضعانا لقوله كأنه سلسلة على صفوان
   صحيح البخاري4701عبد الرحمن بن صخرإذا قضى الله الأمر في السماء ضربت الملائكة بأجنحتها خضعانا لقوله كالسلسلة على صفوان
   صحيح البخاري4800عبد الرحمن بن صخرإذا قضى الله الأمر في السماء ضربت الملائكة بأجنحتها خضعانا لقوله كأنه سلسلة على صفوان فإذا فزع عن قلوبهم قالوا ماذا قال ربكم قالوا للذي قال الحق وهو العلي الكبير يسمعها مسترق السمع ومسترق السمع هكذا بعضه فوق بعض ووصف سفيان بكفه فحرفها وبدد بين أصابعه فيسم
   جامع الترمذي3223عبد الرحمن بن صخرإذا قضى الله في السماء أمرا ضربت الملائكة بأجنحتها خضعانا لقوله كأنها سلسلة على صفوان فإذا فزع عن قلوبهم قالوا ماذا قال ربكم قالوا الحق وهو العلي الكبير قال والشياطين بعضهم فوق بعض
   سنن أبي داود3989عبد الرحمن بن صخرحتى إذا فزع عن قلوبهم
   سنن ابن ماجه194عبد الرحمن بن صخرإذا قضى الله أمرا في السماء ضربت الملائكة أجنحتها خضعانا لقوله كأنه سلسلة على صفوان فإذا فزع عن قلوبهم قالوا ماذا قال ربكم قالوا الحق وهو العلي الكبير
   مسندالحميدي1185عبد الرحمن بن صخر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث194  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کی تابعداری میں بطور عاجزی اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، جس کی آواز کی کیفیت چکنے پتھر پر زنجیر مارنے کی سی ہوتی ہے، پس جب ان کے دلوں سے خوف دور کر دیا جاتا ہے تو وہ باہم ایک دوسرے سے کہتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ جواب دیتے ہیں: اس نے حق فرمایا، اور وہ بلند ذات والا اور بڑائی والا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چوری سے باتیں سننے والے (شیاطین) جو اوپر تلے رہتے ہیں اس کو سنتے ہیں، اوپر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 194]
اردو حاشہ:
(1)
اللہ تعالیٰ کا کلام آواز و الفاظ سے ہوتا ہے جسے فرشتے سنتے ہیں۔

(2)
فرشتے اللہ کی عظمت و کبرائی کا شعور رکھتے ہیں، اس لیے وہ اللہ کا کلام سن کر فروتنی کا اظہار کرتے ہیں۔
لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکام سن کر زیادہ لرزاں و ترساں رہنا چاہیے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے زیادہ مرتبہ ومقام عطا کیا ہے۔

(3)
اوپر والے جِن نیچے والوں جنوں کو وہ بات بتاتے ہیں جو انہوں نے اپنے اوپر موجود فرشتوں سے سنی ہوتی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام اوپر سے نازل ہوتا ہے۔
اس سے اللہ تعالٰی کا علو اور اوپر ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اللہ تعالٰی کا اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہونے کا تصور درست نہیں، البتہ اپنے علم کے اعتبار سے وہ ہر جگہ ہے، یعنی ہر چیز سے وہ باخبر ہے۔

(4)
جنوں کو بھگانے کے لیے شعلے مارے جاتے ہیں، یہ شعلے جنوں کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔

(5)
کاہنوں اور نجومیوں کا تعلق شیاطین سے ہوتا ہے اس لیے علم نجوم، جوتش وغیرہ سب شیطانی علوم ہیں۔
مسلمانوں کو ان پر یقین نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ایسی چیزوں کے مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(6)
کاہنوں اور نجومیوں کی باتیں اکثر غلط اور جھوٹ ہوتی ہیں، کبھی کوئی بات صحیح نکل آتی ہے اور وہ بھی وہ بات ہے جو کسی شیطان نے کسی فرشتے سے سن کر نجومی کو بتا دی ہوتی ہے، اس لیے ان پر اعتماد کرنا درست نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو کسی نجومی (یا رَمَّال)
کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا، اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ (صحيح مسلم، السلام، باب تحريم الكهانة واتيان الكهان، حديث: 2230)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3223  
´سورۃ سبا سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ آسمان پر کسی معاملے کا حکم و فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے عجز و انکساری کے ساتھ (حکم برداری کے جذبہ سے) اپنے پر ہلاتے ہیں۔ ان کے پر ہلانے سے پھڑپھڑانے کی ایسی آواز پیدا ہوتی ہے تو ان زنجیر پتھر پر گھسٹ رہی ہے، پھر جب ان کے دلوں کی گھبراہٹ جاتی رہتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: حق بات کہی ہے۔ وہی بلند و بالا ہے، آپ نے فرمایا: شیاطین (زمین سے آسمان تک) یکے بعد دیگرے (اللہ کے احکام اور فیصلوں کو اچک کر ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3223]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ ارشاد باری تعالیٰ ﴿وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ﴾ (سبأ: 23) کی طرف اشارہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3223   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3989  
´باب:۔۔۔`
اس سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی حدیث ۱؎ روایت کی اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے قول «حتى إذا فزع عن قلوبهم» یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے (سورۃ سبا: ۲۳) ۲؎ سے یہی مراد ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الحروف والقراءات /حدیث: 3989]
فوائد ومسائل:
لفظ (فزع) ف کے ضمہ زا مشدد کے کسرہ کےساتھ ہے۔
جبکہ ایک قراءت میں مروی ہے۔
(یعنی ر غیر منقوط اور غ منقوط کےساتھ۔
)
ابن عامر اور یعقوب کی قراءت میں (زمنقوط کےساتھ) (عربی میں لکھا ہے) بصیغہ ماضی آیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3989   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4701  
4701. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالٰی کسی حکم کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کا حکم بجا لانے کے لیے نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے پر پھڑ پھڑاتے ہیں اور ایسی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے کسی صاف پتھر پر زنجیر کھینچی جا رہی ہو۔ (سفیان بن عیینہ کے علاوہ) دوسرے راویوں نے صفوان کے بعد ينفذهم ذلك الفاظ ذکر کیے ہیں، اس طرح اللہ تعالٰی فرشتوں تک اپنا پیغام پہنچا دیتا ہے۔ پھر جب ان کے دلوں سے خوف زائل ہو جاتا ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے کیا فرمایا ہے؟ تو ایک دوسرے کو وہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے حق فرمایا ہے اور وہ برتر و بزرگ ہے۔ (فرشتوں کی) یہ باتیں چوری سے بات اڑانے والے شیطان پا لیتے ہیں اور وہ اس طرح ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں۔ راوی حدیث سفیان نے اپنے ہاتھ سے ان کی حالت بیان کی، انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کیں اور ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4701]
حدیث حاشیہ:
فرشتوں کے پر مارنے کا مطلب یہ کہ اپنی اطاعت اور تابعداری ظاہر کرتے ہیں ڈر جاتے ہیں۔
زنجیر جیسی آواز کے متعلق ابن مردویہ کی روایت میں حضرت انس ؓ سے اس کی صراحت ہے کہ جب اللہ پاک وحی بھیجنے کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان والے فرشتے ایسی آواز سنتے ہیں جیسے زنجیر پتھر پر چلے۔
جب فرشتوں کے دلوں سے خوف ہٹ جاتا ہے تو آپس میں اس ارشاد کا تذکرہ کرتے ہیں۔
طبرانی کی روایت میں یوں ہے جب اللہ وحی بھیجنے کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان لرزجاتا ہے اور آسمان والے اس کا کلام سنتے ہی بے ہوش ہوجاتے ہیں اور سجدے میں گر پڑتے ہیں۔
سب سے پہلے جبرائیل سر اٹھاتے ہیں۔
پروردگار جو چاہتا ہے وہ ان سے ارشاد فرماتا ہے۔
وہ حق تعالیٰ کا کلام سن کر اپنے مقام پر چلتے ہیں۔
جہاں جاتے ہیں فرشتے ان سے پوچھتے ہیں حق تعالیٰ نے کیا فرمایا وہ کہتے ہیں کہ ﴿الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ﴾ (سبا: 23)
ان حدیثوں سے پچھلے متکلمین کے تمام خیالات باطلہ رد ہوجاتے ہیں کہ اللہ کا کلام قدیم ہے اور وہ نفس ہے اور اس کے کلام میں آواز نہیں ہے۔
معلوم نہیں یہ ڈھونگ ان لوگوں نے کہاں سے نکالا ہے۔
شریعت سے تو صاف ثابت ہے کہ اللہ پاک جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے اس کی آواز آسمان والے فرشتے سنتے ہیں اور اس کی عظمت سے لرز کر سجدے میں گر جاتے ہیں۔
سند میں حضرت علی بن عبد اللہ بن جعفر حافظ الحدیث ہیں۔
ان کے استاد ابن المہدی نے فر مایا کہ ابن المدینی رسول کریم ﷺ کی حدیث کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔
امام نسائی نے فرمایا کہ ابن المدینی کی پیدائش ہی اس خدمت کے لئے ہوئی تھی۔
ماہ ذی قعدہ 234ھ بعمر 73سال انتقال فرمایا۔
اسی طرح دوسرے بزرگ حضرت سفیان بن عیینہ حجة في الحدیث، زاہد، متورع تھے۔
107ھ میں کوفہ میں ان کی ولادت ہوئی 198ھ میں مکہ میں ان کا انتقال ہوا۔
رحمهم اللہ أجمعین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4701   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4701  
4701. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالٰی کسی حکم کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کا حکم بجا لانے کے لیے نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے پر پھڑ پھڑاتے ہیں اور ایسی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے کسی صاف پتھر پر زنجیر کھینچی جا رہی ہو۔ (سفیان بن عیینہ کے علاوہ) دوسرے راویوں نے صفوان کے بعد ينفذهم ذلك الفاظ ذکر کیے ہیں، اس طرح اللہ تعالٰی فرشتوں تک اپنا پیغام پہنچا دیتا ہے۔ پھر جب ان کے دلوں سے خوف زائل ہو جاتا ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے کیا فرمایا ہے؟ تو ایک دوسرے کو وہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے حق فرمایا ہے اور وہ برتر و بزرگ ہے۔ (فرشتوں کی) یہ باتیں چوری سے بات اڑانے والے شیطان پا لیتے ہیں اور وہ اس طرح ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں۔ راوی حدیث سفیان نے اپنے ہاتھ سے ان کی حالت بیان کی، انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کیں اور ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4701]
حدیث حاشیہ:

ادھر ادھر کا جوایک فقرہ سن لیا جاتا ہے تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کی قطعاً بندش کردی جائے۔
وہ چاہتا تو اس سے بھی روک سکتا تھا مگر یہ بات اس کی حکمت بالغہ کے مطابق نہ تھی آخر اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے طویل مہلت دی ہے اور گمراہ کرنے والے اسباب وسائل پر دسترس دی ہے۔
حالانکہ اللہ کو معلوم ہے کہ یہ شیاطین گمراہ کرنے اور بھٹکانے سے باز نہیں آئیں گے اس میں کچھ نہ کچھ حکمت تسلیم کرنا پڑےگی اس طرح ایک آدھی بات سننے میں بھی کوئی حکمت ضرور ہو گی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ شیاطین ہزروں کی تعداد میں ان شہابوں سے ہلاک ہوتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی کوشش کو جاری رکھے ہوتے ہیں جیسا کہ کوہ ہمالیہ کی چوٹی سر کرنے والے اپنی جان سے ہاتھ دھوتے رہتے ہیں لیکن یہ انجام دیکھ کر دوسرے اس کام کو ترک نہیں کرتے۔
واللہ اعلم۔
اس کی مزید تفصیل سورہ سبا آیت23:
کی تفسیر میں آئے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4701   
حدیث نمبر: 4701M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو، عن عكرمة، عن ابي هريرة: إذا قضى الله الامر وزاد والكاهن، وحدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، فقال عمرو: سمعت عكرمة، حدثنا ابو هريرة، قال: إذا قضى الله الامر، وقال: على فم الساحر، قلت لسفيان: آنت سمعت عمرا؟ قال: سمعت عكرمة، قال: سمعت ابا هريرة؟ قال: نعم، قلت لسفيان: إن إنسانا روى عن عمرو، عن عكرمة، عن ابي هريرة، ويرفعه، انه قرا فرغ، قال سفيان: هكذا قرا عمرو، فلا ادري سمعه هكذا ام لا، قال سفيان: وهي قراءتنا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ وَزَادَ وَالْكَاهِنِ، وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، فَقَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ، وَقَالَ: عَلَى فَمْ السَّاحِرِ، قُلْتُ لِسُفْيَانَ: آنْتَ سَمِعْتَ عَمْرًا؟ قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ لِسُفْيَانَ: إِنَّ إِنْسَانًا رَوَى عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَيَرْفَعُهُ، أَنَّهُ قَرَأَ فُرِّغَ، قَالَ سُفْيَانُ: هَكَذَا قَرَأَ عَمْرٌو، فَلَا أَدْرِي سَمِعَهُ هَكَذَا أَمْ لَا، قَالَ سُفْيَانُ: وَهِيَ قِرَاءَتُنَا.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے عکرمہ سے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث بیان کی اس میں یوں ہے جب اللہ پاک کوئی حکم دیتا ہے اور «ساحر» کے بعد اس روایت میں «كاهن‏.‏» کا لفظ زیادہ کیا۔ علی نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ عمرو نے کہا میں نے عکرمہ سے سنا، انہوں نے کہا ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ پاک کوئی حکم دیتا ہے اور اس روایت میں «على فم الساحر‏.‏» کا لفظ ہے۔ علی بن عبداللہ نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا کہ تم نے عمرو بن دینار سے خود سنا، وہ کہتے تھے میں نے عکرمہ سے سنا، وہ کہتے تھے میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا ہاں۔ علی بن عبداللہ نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے کہا۔ ایک آدمی (نام نامعلوم) نے تو تم سے یوں روایت کی تم نے عمرو سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے اس حدیث کو مرفوع کیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «فزع‏» پڑھا۔ سفیان نے کہا میں نے عمرو کو اس طرح پڑھتے سنا اب میں نہیں جانتا انہوں نے عکرمہ سے سنا یا نہیں سنا۔ سفیان نے کہا ہماری بھی قرآت یہی ہے۔

Narrated Abu Huraira: (The same Hadith above, starting: 'When Allah has ordained some affair...') In this narration the word foreteller is added to the word wizard.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 224



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.