الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
7. بَابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأْيِ وَتَكَلُّفِ الْقِيَاسِ:
7. باب: دین کے مسائل میں رائے پر عمل کرنے کی مذمت، اسی طرح بےضرورت قیاس کرنے کی برائی۔
(7) Chapter. What is said against judging (in religion) made on the basis of one’s own opinion or by Qiyas (without referring to the Quran or Sunna).
حدیث نمبر: Q7307
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
{ولا تقف} لا تقل {ما ليس لك به علم}.{وَلاَ تَقْفُ} لاَ تَقُلْ {مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ}.
‏‏‏‏ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (سورۃ بنی اسرائیل میں) «ولا تقف‏، لا تقل، ما ليس لك به علم‏» یعنی نہ کہو وہ بات جس کا تم کو علم نہ ہو۔

حدیث نمبر: 7307
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سعيد بن تليد، حدثني ابن وهب، حدثني عبد الرحمن بن شريح وغيره، عن ابي الاسود، عن عروة، قال: حج علينا عبد الله بن عمرو، فسمعته يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الله لا ينزع العلم بعد ان اعطاكموه انتزاعا ولكن ينتزعه منهم مع قبض العلماء بعلمهم، فيبقى ناس جهال يستفتون، فيفتون برايهم، فيضلون ويضلون، فحدثت به عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ثم إن عبد الله بن عمرو حج بعد، فقالت: يا ابن اختي انطلق إلى عبد الله فاستثبت لي منه الذي حدثتني عنه، فجئته، فسالته، فحدثني به كنحو ما حدثني، فاتيت عائشة فاخبرتها، فعجبت، فقالت: والله لقد حفظ عبد الله بن عمرو".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ وَغَيْرُهُ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: حَجَّ عَلَيْنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْزِعُ الْعِلْمَ بَعْدَ أَنْ أَعْطَاكُمُوهُ انْتِزَاعًا وَلَكِنْ يَنْتَزِعُهُ مِنْهُمْ مَعَ قَبْضِ الْعُلَمَاءِ بِعِلْمِهِمْ، فَيَبْقَى نَاسٌ جُهَّالٌ يُسْتَفْتَوْنَ، فَيُفْتُونَ بِرَأْيِهِمْ، فَيُضِلُّونَ وَيَضِلُّونَ، فَحَدَّثْتُ بِهِ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو حَجَّ بَعْدُ، فَقَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي انْطَلِقْ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ فَاسْتَثْبِتْ لِي مِنْهُ الَّذِي حَدَّثْتَنِي عَنْهُ، فَجِئْتُهُ، فَسَأَلْتُهُ، فَحَدَّثَنِي بِهِ كَنَحْوِ مَا حَدَّثَنِي، فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ فَأَخْبَرْتُهَا، فَعَجِبَتْ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَقَدْ حَفِظَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو".
ہم سے سعید بن تلید نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن شریح اور ان کے علاوہ ابن لیعہ نے بیان کیا، ان سے ابوالاسود نے اور ان سے عروہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ہمیں لے کر حج کیا تو میں نے انہیں یہ کہتے سنا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ علم کو، اس کے بعد کہ تمہیں دیا ہے ایک دم سے نہیں اٹھا لے گا بلکہ اسے اس طرح ختم کرے گا کہ علماء کو ان کے علم کے ساتھ اٹھا لے گا پھر کچھ جاہل لوگ باقی رہ جائیں گے، ان سے فتویٰ پوچھا جائے گا اور وہ فتویٰ اپنی رائے کے مطابق دیں گے۔ پس وہ لوگوں کو گمراہ کریں گے اور وہ خود بھی گمراہ ہوں گے۔ پھر میں نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی۔ ان کے بعد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے دوبارہ حج کیا تو ام المؤمنین نے مجھ سے کہا کہ بھانجے عبداللہ کے پاس جاؤ اور میرے لیے اس حدیث کو سن کر خوب مضبوط کر لو جو حدیث تم نے مجھ سے ان کے واسطہ سے بیان کی تھی۔ چنانچہ میں ان کے پاس آیا اور میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے وہ حدیث بیان کی، اسی طرح جیسا کہ وہ پہلے مجھ سے بیان کر چکے تھے، پھر میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور انہیں اس کی خبر دی تو انہیں تعجب ہوا اور بولیں کہ واللہ عبداللہ بن عمرو نے خوب یاد رکھا۔

Narrated `Abdullah bin `Amr: I heard the Prophet saying, "Allah will not deprive you of knowledge after he has given it to you, but it will be taken away through the death of the religious learned men with their knowledge. Then there will remain ignorant people who, when consulted, will give verdicts according to their opinions whereby they will mislead others and go astray."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 410


   صحيح البخاري7307عبد الله بن عمروالله لا ينزع العلم بعد أن أعطاكموه انتزاعا
   صحيح البخاري100عبد الله بن عمروالله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا فأفتوا بغير علم فضلوا وأضلوا
   صحيح مسلم6799عبد الله بن عمروالله لا ينتزع العلم من الناس انتزاعا ولكن يقبض العلماء فيرفع العلم معهم يبقي في الناس رءوسا جهالا يفتونهم بغير علم فيضلون ويضلون
   سنن ابن ماجه52عبد الله بن عمروالله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من الناس ولكن يقبض العلم بقبض العلماء إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا فأفتوا بغير علم فضلوا وأضلوا
   مشكوة المصابيح206عبد الله بن عمروإن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء
   صحيح مسلم6796عبد الله بن عمروالله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من الناس ولكن يقبض العلم بقبض العلماء إذا لم يترك عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا فأفتوا بغير علم فضلوا وأضلوا
   المعجم الصغير للطبراني77عبد الله بن عمرو الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من الناس ، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء ، حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رؤساء جهالا ، فسئلوا فأفتوا بغير علم ، فضلوا ، وأضلوا
   مسندالحميدي592عبد الله بن عمروإن الله عز وجل لا يقبض العلم انتزاعا ينزعه من قلوب الرجال، ولكن يقبضه بقبض العلماء فإذا لم يترك عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسألوهم فأفتوهم بغير علم فضلوا وأضلوا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 100  
´علم کا اٹھایا جانا`
«. . . سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 100]

تشریح:
پختہ عالم جو دین کی پوری سمجھ بھی رکھتے ہوں اور احکام اسلام کے دقائق و مواقع کو بھی جانتے ہوں، ایسے پختہ دماغ علماء ختم ہو جائیں گے اور سطحی لوگ مدعیان علم باقی رہ جائیں گے جو ناسمجھی کی وجہ سے محض تقلید جامد کی تاریکی میں گرفتار ہوں گے اور ایسے لوگ اپنے غلط فتووں سے خود گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ یہ رائے اور قیاس کے دلدادہ ہوں گے۔ یہ ابوعبداللہ محمد بن یوسف بن مطر فربری کی روایت ہے جو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں اور صحیح بخاری کے اولین راوی یہی فربری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بعض روایتوں میں «بغير علم» کی جگہ «برايهم» بھی آیا ہے۔ یعنی وہ جاہل مدعیان علم اپنی رائے قیاس سے فتویٰ دیا کریں گے۔ «قال العيني لايختص هذا بالمفتيين بل عام للقضاة الجاهلين» یعنی اس حکم میں نہ صرف مفتی بلکہ عالم جاہل قاضی بھی داخل ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 100   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7307  
7307. سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ حج پر جاتے ہوئے ہمارے پاس سے گزرے تو میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ تمہیں علم دے کر پھر اسے یونہی نہیں چھین لے گا بلکہ علم اس طرح اٹھائے گا کہ علماء حضرات فوت ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ ہی علم اٹھ جائے گا پھر جاہل لوگ وہ جائیں گے۔ ان سے فتویٰ لیا جائے گا تو وہ محض اپنی رائے سے فتویٰ دے کر دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے خود بھی گمراہ ہوں گے۔۔ عروہ کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: اے میرے بھانجے! تم عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور تم نے جو حدیث ان کے حوالے سے مجھے بیان کی تھی اس کی تحقیق کرو۔ میں ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسی طرح حدیث بیان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7307]
حدیث حاشیہ:
کہ اتنی مدت کے بعد بھی حدیث میں ایک لفظ کا بھی فرق نہیں کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7307   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 206  
´علماء کے اٹھنے سے بربادی ہو گی`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فضلوا وأضلوا» . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ (آخر زمانے میں) اس طرح علم نہیں نکالے گا کہ بندوں کے دل و دماغ سے نکال ڈالے بلکہ علماء (حقانی) کے اٹھانے سے علم کو اٹھا لے گا۔ جبکہ کوئی عالم باعمل باقی نہیں رہے گا۔ تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے ان سے دینی فتوی دریافت کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوی کا جواب دیں گے جس سے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 206]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 100]،
[صحيح مسلم 6796]

فقہ الحدیث:
➊ قرآن و حدیث کے مقابلے میں رائے سے فتویٰ دینا حرام ہے۔
➋ کتاب وسنت کا وجود قیامت تک رہے گا لیکن علمائے حق میں عام طور پر کمی آتی رہے گی۔
➌ صحیح بخاری کی ایک روایت میں «فيفتون برأيهم» (پس وہ اپنی رائے سے فتوے دیں گے) کے الفاظ آتے ہیں۔ [كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة ح7307]
یعنی وہ لوگ اپنی رائے سے فتویٰ دیں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں رائے سے فتویٰ دینا حرام ہے اور قیامت سے پہلے ایسے لوگ ہوں گے جو اپنی رائے سے قرآن و حدیث کے خلاف فتوے دیتے رہیں گے۔
➍ تقلید شخصی بدعت ہے اور کتاب و سنت کے مقابلے میں تقلید کرنا حرام ہے۔
➎ گمراہوں سے بچنا ضروری ہے ورنہ آخرت برباد ہو جائے گی۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 206   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث52  
´رائے اور قیاس سے اجتناب و پرہیز۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں مٹائے گا کہ اسے یک بارگی لوگوں سے چھین لے گا، بلکہ اسے علماء کو موت دے کر مٹائے گا، جب اللہ تعالیٰ کسی بھی عالم کو باقی اور زندہ نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے، اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، تو گمراہ ہوں گے، اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 52]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مسلمان شرعی علوم سے یک بارگی محروم نہیں ہوں گے بلکہ بتدریج یہ نوبت آئے گی کہ معاشرے سے علماء ختم ہو جائیں گے، اس طرح شرعی علوم کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔

(2)
اس خطرناک صورت حال سے حتی الامکان محفوظ رہنے کے لیے مسلمان معاشرے کا فرض ہے کہ وہ شرعی علوم کے ماہر علماء پیدا کرے اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔

(3)
عالم کا فرض ہے کہ وہ علم یعنی قرآن و حدیث کی روشنی میں فتوی دے، محض اپنی رائے اور قیاس پر اعتماد کرتے ہوئے فتوی نہ دے۔

(4)
شرعی دلائل کو نظر انداز کرتے ہوئے محض عقل کی روشنی میں شرعی مسائل پر رائے دینے کی کوشش گمراہی ہے جس کے نتیجے میں عوام میں بھی گمراہی پھیلتی ہے۔

(5)
نصوص پر عقلی دلائل کو ترجیح دینے سے شریعت کی اہمیت کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں طرح طرح کے فتنے پھیلتے ہیں۔
ماضی میں خوارج، معتزلہ اور دیگر گمراہ فرقوں کے وجود میں آنے کا باعث بھی یہی تھا اور دور حاضر میں بھی عقل ہی کے نام سے طرح طرح کے فتنے پیدا ہو رہے ہیں۔
ان کا علاج یہی ہے کہ قرآن و حدیث کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے اور ہر پیش آمدہ مسئلے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح موقف کو واضح کیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 52   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7307  
7307. سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ حج پر جاتے ہوئے ہمارے پاس سے گزرے تو میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ تمہیں علم دے کر پھر اسے یونہی نہیں چھین لے گا بلکہ علم اس طرح اٹھائے گا کہ علماء حضرات فوت ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ ہی علم اٹھ جائے گا پھر جاہل لوگ وہ جائیں گے۔ ان سے فتویٰ لیا جائے گا تو وہ محض اپنی رائے سے فتویٰ دے کر دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے خود بھی گمراہ ہوں گے۔۔ عروہ کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: اے میرے بھانجے! تم عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور تم نے جو حدیث ان کے حوالے سے مجھے بیان کی تھی اس کی تحقیق کرو۔ میں ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسی طرح حدیث بیان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7307]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں اس قسم کے قیاس اور رائے کی مذمت کی گئی ہے جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔
ہماری فقہ میں سینکڑوں ایسے ساختہ مسائل موجود ہیں جو کتاب وسنت سے ٹکراتے ہیں اور واضح طور پر اس کے خلاف ہیں۔
اسی طرح رائے مذموم کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
اصحاب رائے سے بچا کرو کیونکہ وہ سنتوں کے دشمن ہیں احادیث کو یاد رکھنے سے ان کی ہمتیں جواب دے گئیں تو انھوں نے رائے عقل اور قیاس سے کام لینا شروع کردیا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہی کے راستے پر لگادیا۔
(شرح أصول اعتقاد أھل السنة: 136/1)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
علماء کے رخصت ہونے کے بعد قحط رجال کا دور ہوگا پھر ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دینی معاملات کو قیاس اور رائے سے حل کریں گے اس طرح وہ عمارت اسلام کو زمین بوس کرنے کا باعث ہوں گے۔
(فتح المنان: 216/2)

بہر حال ان بزرگوں نے جس رائے اور قیاس کی مذمت کی ہے اس سے مراد وہ رائے ہے جو کتاب وسنت سے اخذ نہ کی گئی ہو۔
بلا شبہ نص کے ہوتے ہوئے رائے اور قیاس سے کام لینا بہت بڑی گمراہی ہے۔
(فتح الباري: 354/13)
بہر حال اگر کسی کو کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو احتیاط کرنی چاہیے۔
رائے زنی سے بچتے ہوئے اس پیش آنے والے مسئلے جیسے دوسرے مسئلوں پر غور کرے اور ان کی روشنی میں پیش آنے والے مسئلے کا حق تلاش کرے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7307   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.