الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
The Book of Al-Istisqa.
28. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ} :
28. باب: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی «وتجعلون رزقكم أنكم تكذبون» ۔
(28) Chapter. The Statement of Allah: “And instead (of thanking Allah) for the provision He gives you, you deny (Him by disbelief)." (V. 56.82)
حدیث نمبر: Q1038
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال ابن عباس شكركم.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ شُكْرَكُمْ.
‏‏‏‏ یعنی تمہارا شکر یہی ہے کہ تم اللہ کو جھٹلاتے ہو (یعنی تمہارے حصہ میں جھٹلانے کے سوا اور کچھ آیا ہی نہیں) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہمارے رزق سے مراد شکر ہے۔

حدیث نمبر: 1038
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، حدثني مالك، عن صالح بن كيسان، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن زيد بن خالد الجهني، انه قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية على إثر سماء كانت من الليلة، فلما انصرف النبي صلى الله عليه وسلم اقبل على الناس فقال: هل تدرون ماذا قال ربكم؟ قالوا: الله ورسوله اعلم، قال:" اصبح من عبادي مؤمن بي وكافر، فاما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب، واما من قال بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ".
ہم سے اسماعیل بن ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے صالح بن کیسان سے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا، ان سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں ہم کو صبح کی نماز پڑھائی۔ رات کو بارش ہو چکی تھی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ لوگ بولے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پروردگار فرماتا ہے آج میرے دو طرح کے بندوں نے صبح کی۔ ایک مومن ہے ایک کافر۔ جس نے کہا اللہ کے فضل و رحم سے پانی پڑا وہ تو مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کا منکر ہوا اور جس نے کہا فلاں تارے کے فلاں جگہ آنے سے پانی پڑا اس نے میرا کفر کیا، تاروں پر ایمان لایا۔

Narrated Zaid bin Khalid Al-Juhani: Allah's Apostle led the morning prayer in Al-Hudaibiya and it had rained the previous night. When the Prophet (p.b.u.h) had finished the prayer he faced the people and said, "Do you know what your Lord has said?" They replied, "Allah and His Apostle know better." (The Prophet said), "Allah says, 'In this morning some of My worshipers remained as true believers and some became non-believers; he who said that it had rained with the blessing and mercy of Allah is the one who believes in Me and does not believe in star, but he who said it had rained because of such and such (star) is a disbeliever in Me and is a believer in star.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 17, Number 148


   صحيح البخاري4147زيد بن خالدأصبح من عبادي مؤمن بي وكافر بي فأما من قال مطرنا برحمة الله وبرزق الله وبفضل الله فهو مؤمن بي كافر بالكوكب وأما من قال مطرنا بنجم كذا فهو مؤمن بالكوكب كافر بي
   صحيح البخاري846زيد بن خالدأصبح من عبادي مؤمن بي وكافر فأما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته فذلك مؤمن بي وكافر بالكوكب وأما من قال بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي ومؤمن بالكوكب
   صحيح البخاري7503زيد بن خالدأصبح من عبادي كافر بي ومؤمن بي
   صحيح البخاري1038زيد بن خالدأصبح من عبادي مؤمن بي وكافر فأما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب وأما من قال بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب
   صحيح مسلم231زيد بن خالدأصبح من عبادي مؤمن بي وكافر فأما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب وأما من قال مطرنا بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب
   سنن أبي داود3906زيد بن خالدأصبح من عبادي مؤمن بي وكافر فأما من قال مطرنا بفضل الله وبرحمته فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب وأما من قال مطرنا بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب
   سنن النسائى الصغرى1526زيد بن خالدما أنعمت على عبادي من نعمة إلا أصبح طائفة منهم بها كافرين يقولون مطرنا بنوء كذا وكذا فأما من آمن بي وحمدني على سقياي فذاك الذي آمن بي وكفر بالكوكب ومن قال مطرنا بنوء كذا وكذا فذاك الذي كفر بي وآمن بالكوكب
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم3زيد بن خالداصبح من عبادي مؤمن بي وكافر
   مسندالحميدي832زيد بن خالد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 3  
´بارش کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے`
«. . . 274- وعن صالح بن كيسان عن عبيد الله بن عبد الله عن زيد بن خالد الجهني أنه قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية فى إثر سماء كانت من الليل، فلما انصرف أقبل على الناس فقال: هل تدرون ماذا قال ربكم؟ قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر، فأما من قال: مطرنا بفضل الله ورحمته، فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب، وأما من قال: مطرنا بنوء كذا وكذا، فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب . . . .»
. . . سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ کے مقام پر رات کی بارش کے بعد صبح کی نماز پڑھائی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: کیا تمہیں پتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ فرماتا ہے:) میرے بندوں میں سے کچھ بندوں نے صبح اس حال میں کی ہے کہ ان میں سے کچھ مومن ہیں اور کچھ کافر۔ جو شخص کہتا ہے کہ اللہ کے فضل اور رحمت کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو یہ شخص مجھ پر ایمان لانے والا (مومن) ہے اور ستاروں کا انکار کرنے والا ہے۔ اور جو کہتا ہے کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو یہ شخص میرا انکار کرنے والا اور ستاروں پر ایمان لانے والا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 3]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 846، ومسلم 71، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر سوال وجواب کرنا اور درس دینا مسنون ہے۔
➋ یہ عقیدہ رکھنا کہ فلاں نفع یا نقصان کی وجہ فلاں ستارے کا طلوع یا غروب ہونا ہے، کفر ہے۔
➌ بعض نجومی ستاروں کا نام لے کر لوگوں کی قسمت کا حال بتاتے رہتے ہیں، یہ سب فراڈ اور باطل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہنوں کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح مسلم: 121/2227]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من أتی عرّافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلاۃ أربعین لیلةً۔» جو شخص کسی نجومی کے پاس جائے پھر اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھے تو اس کی چالیس رات (دن) کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ [صحيح مسلم: 2230، دارالسلام: 5821]
جو شخص کسی کاہن کے پاس جاکر اس کی تصدیق کرتا ہے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ (دین) کا انکار کرتا ہے۔ [ديكهئے سنن ابن ماجه: 639 وسنده حسن وصححه ابن الجارود: 107]
➍ مخلوقات کی زندگی موت اور نفع نقصان میں ستاروں اور اجرام فلکیہ کا کوئی اثر نہیں ہے۔
➎ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔
➏ موقع کی مناسبت سے درس دینا بہت مفید ہے کیونکہ یہ زیادہ پر اثر ہوتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 274   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 846  
´اگر کوئی کہے فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی`
«. . . قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي وَمُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ . . .»
. . . (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندے مجھ پر ایمان لائے۔ اور کچھ میرے منکر ہوئے جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لیے بارش ہوئی تو وہ میرا مومن ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلانی جگہ پر آنے سے بارش ہوئی وہ میرا منکر ہے اور ستاروں کا مومن . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 846]

لغوی توضیح:
«إِثْرِ سَمَاءٍ» سے مراد بارش ہے۔
«بِنَوْءِ كَذَا» فلاں ستارے کی وجہ سے۔

فہم الحديث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی کہے فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی اور یہ عقیدہ رکھے کہ ستارہ بذات خود بارش نازل کر سکتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو کر کافر ہو جاتا ہے، جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔ البتہ اگر کوئی یہ بات کہے مگر اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اصل میں بارش نازل کرنے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے اور ستارے محض علامات و نشانی ہیں تو پھر وہ کافرنہیں ہوتا لیکن یہ بھی مکروہ ہے، کیونکہ یہ کلمہ کفر و غیر کفر کے درمیان متردد ہے۔ [منة المنعم فى شرح مسلم 93/1]
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ درحقیقت ستارے بارش نہیں لا سکتے بلکہ وہ تو ہوائیں بھی نہیں چلا سکتے۔ [شرح مسلم للنوي 136/2]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 46   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3906  
´علم نجوم کا بیان۔`
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں ہمیں نماز فجر بارش کے بعد پڑھائی جو رات میں ہوئی تھی تو جب آپ فارغ ہو گئے اور لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا کہا؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے کہا: میرے بندوں میں سے کچھ نے آج مومن ہو کر صبح کی، اور کچھ نے کافر ہو کر، جس نے یہ کہا کہ بارش اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی وہ میرے اوپر ایمان رکھنے والا ہوا اور ستاروں کا منکر ہوا، اور جس نے کہا کہ ہم فلاں اور فلاں نچھتر کے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3906]
فوائد ومسائل:
1) ستاروں وغیرہ کو زمین یا مخلوق میں بذاتہ موثر سمجھنا شرک ہے۔

2) ہر قسم کے واقعات و حوادث صرف اور صرف اللہ عزوجل کی مشیت اور ارادہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

3) داعی حق مرشد اور استاد کو چاہیے کہ عوام کو واقعاتِ عالم میں تدبر کا درس دیا کرے اور اس سے توحید کا اثبات کرےاور شرک و طواغیت کی تردید کیا کرے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3906   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1038  
1038. حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حدیبیہ کے مقام پر ہمیں رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی جبکہ رات کو بارش ہو چکی تھی۔ نبی ﷺ نماز سے فراغت کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور دریافت کیا: تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے اس وقت کیا فرمایا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: (رب تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ) کچھ میرے بندے مجھ پر ایمان لانے والے بنے اور کچھ نے میرے ساتھ کفر کیا، جنہوں نے کہا کہ ہم پر صرف اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے مینہ برسا ہے تو وہ مجھ پر ایمان لانے والے اور ستاروں سے کفر کرنے والے ہیں اور جنہوں نے کہا کہ فلاں ستارے کے باعث بارش ہوئی ہے وہ میرے ساتھ کفر کرنے والے اور ستاروں پر ایمان لانے والے ٹھہرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1038]
حدیث حاشیہ:
(1)
دور جاہلیت میں لوگ غیر اللہ کی طرف قدرتی کاموں کی نسبت کرتے تھے، بالخصوص بارش کے متعلق ان کا یہ عقیدہ تھا کہ کچھ مخصوص ستاروں کی وجہ سے بارش برستی ہے اور یہی ستارے ان کے رزق کا باعث ہیں۔
اس عقیدے میں صراحت کے ساتھ الوہیت باری تعالیٰ کی تکذیب ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی طرف اس بارش کی نسبت سے منع کر دیا اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کا حکم دیا۔
اس بنا پر ستاروں کو بارش میں مؤثر حقیقی ماننا کفر ہے۔
اگر انہیں محض علامات ٹھہرایا جائے۔
جیسا کہ ٹھنڈی ہوا یا بادلوں کو علامت قرار دیا جاتا ہے تو اسے کفر سے تعبیر کرنا صحیح نہیں۔
حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے متعلقہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
تم اپنے رزق کا شکر یوں ادا کرتے ہو کہ اللہ کو جھٹلاتے ہو اور کہتے ہو کہ فلاں پخھتر (چاند کی منزل)
اور فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3296) (2)
واضح رہے کہ اس موقع پر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ملعون نے کہا تھا کہ شعریٰ ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسی وقت اس کی تردید کو مناسب خیال کیا۔
(فتح الباري: 678/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1038   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.