الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
67. بَابُ الْمَيِّتُ يَسْمَعُ خَفْقَ النِّعَالِ:
67. باب: اس بیان میں کہ مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔
(67) Chapter. A dead person hears the footsteps (of the living).
حدیث نمبر: 1338
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عياش، حدثنا عبد الاعلى، حدثنا سعيد , قال: وقال لي خليفة، حدثنا يزيد بن زريع , حدثنا سعيد، عن قتادة، عن انس رضي الله عنه , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" العبد إذا وضع في قبره , وتولي , وذهب اصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم، اتاه ملكان فاقعداه , فيقولان له: ما كنت تقول في هذا الرجل محمد صلى الله عليه وسلم؟ فيقول: اشهد انه عبد الله ورسوله، فيقال: انظر إلى مقعدك من النار ابدلك الله به مقعدا من الجنة، قال النبي صلى الله عليه وسلم: فيراهما جميعا، واما الكافر او المنافق , فيقول: لا ادري كنت اقول ما يقول الناس، فيقال: لا دريت ولا تليت، ثم يضرب بمطرقة من حديد ضربة بين اذنيه فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ , قَالَ: وَقَالَ لِي خَلِيفَةُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ , حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ , وَتُوُلِّيَ , وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ , فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيَقُولُ: أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، فَيُقَالُ: انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا، وَأَمَّا الْكَافِرُ أَوِ الْمُنَافِقُ , فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، فَيُقَالُ: لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ثُمَّ يُضْرَبُ بِمِطْرَقَةٍ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ".
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا۔ (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن زریع نے ‘ ان سے سعید بن ابی عروبہ نے ‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کر کے اس کے لوگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ جہنم کا اپنا ایک ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے ایک مکان اس کے بدلے میں بنا دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں اور رہا کافر یا منافق تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں ‘ میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ (اچھے لوگوں کی) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔

Narrated Anas: The Prophet said, "When a human being is laid in his grave and his companions return and he even hears their foot steps, two angels come to him and make him sit and ask him: What did you use to say about this man, Muhammad ? He will say: I testify that he is Allah's slave and His Apostle. Then it will be said to him, 'Look at your place in the Hell-Fire. Allah has given you a place in Paradise instead of it.' " The Prophet added, "The dead person will see both his places. But a non-believer or a hypocrite will say to the angels, 'I do not know, but I used to say what the people used to say! It will be said to him, 'Neither did you know nor did you take the guidance (by reciting the Qur'an).' Then he will be hit with an iron hammer between his two ears, and he will cry and that cry will be heard by whatever approaches him except human beings and jinns."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 422


   سنن النسائى الصغرى2051أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم
   سنن النسائى الصغرى2052أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم قال فيأتيه ملكان فيقعدانه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال له انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة قال النبي صلى الله عليه و
   سنن النسائى الصغرى2053أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فيقعدانه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال له انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا خيرا منه قال رسو
   صحيح البخاري1338أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فأقعداه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال انظر إلى مقعدك من النار أبدلك الله به مقعدا من الجنة قال النبي صلى الله عل
   صحيح البخاري1374أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه وإنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فيقعدانه فيقولان ما كنت تقول في هذا الرجل لمحمد فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال له انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة فيراهما
   صحيح مسلم7216أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم قال يأتيه ملكان فيقعدانه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل قال فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله قال فيقال له انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة قال نبي الله صلى
   سنن أبي داود3231أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم
   سنن أبي داود4751أنس بن مالكالمؤمن إذا وضع في قبره أتاه ملك فيقول له ما كنت تعبد فإن الله هداه قال كنت أعبد الله فيقال له ما كنت تقول في هذا الرجل فيقول هو عبد الله ورسوله فما يسأل عن شيء غيرها فينطلق به إلى بيت كان له في النار فيقال له هذا بيتك كان لك في النار ولكن الله عصمك ورحمك
   مشكوة المصابيح126أنس بن مالكإن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه اصحابه وإنه ليسمع قرع نعالهم اتاه ملكان فيقعدانه فيقولان ما كنت تقول في هذا الرجل
   المعجم الصغير للطبراني342أنس بن مالك من قتله بطنه لم يعذب فى قبره
   مسندالحميدي1221أنس بن مالكلولا أن تدافنوا لسألت الله عز وجل أن يسمعكم من عذاب أهل القبور ما أسمعني

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1338  
´مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ , وَتُوُلِّيَ , وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کر کے اس کے لوگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: 1338]

فوائد و مسائل:
↰ یہ ایک استثناء ہے۔ ان احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردے سن نہیں سکتے۔ مردوں کے نہ سننے کا قانون اپنی جگہ مستقل ہے۔ اگر وہ ہر وقت سن سکتے ہوتے تو «حين يولون عنهٔ» (جب لوگ میت کو دفنا کر واپس ہو رہے ہو تے ہیں) اور «إِذا انصرفوا»، (جب لوگ لوٹتے ہیں) کی قید لگا کر مخصوص وقت بیان کرنے کا کیا فائدہ تھا؟ مطلب یہ کہ قانون اور اصول تو یہی ہے کہ مردہ نہیں سنتا، تاہم اس حدیث نے ایک موقع خاص کر دیا کہ دفن کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں، ان کی واپسی کے وقت میت ان لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔

◈ علامہ عینی حنفی(م:855 ھ) لکھتے ہیں:
«وفيه دليل على أنّ الميت تعود إليه روحه لأجل السؤال، وإنه ليسمع صوت نعال الاحياء، وهو فى السؤال»
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کی روح اس سے (منکر و نکیر کے) سوال کے لیے لوٹائی جاتی ہے اور میت سوال کے وقت زندہ لوگوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔ [شرح أبى داؤد:188/6]
↰ پھر عربی گرائمر کا اصول ہے کہ جب فعل مضارع پر لام داخل ہو تو معنی حال کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے یعنی «ليسمع» وہ خاص اس حال میں سنتے ہیں۔

↰ اس تحقیق کی تائید، اس فرمان نبوی سے بھی ہوتی ہے جو:
◈ امام طحاوی حنفی نے نقل کیا ہے:
«والذي نفسي بيده! إنه ليسمع خفق نعالهم، حين تولون عنه مدبرين»
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس جا رہے ہوتے ہیں تو وہ ان کی جوتوں کی آواز سنتی ہے۔ [شرح معاني الاثار للطحاوي:510/1، وسنده حسن]

◈ عالم عرب کے مشہور اہل حدیث عالم دین، علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332- 1420ھ)اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
«فليس فيه إلا السماع فى حالة إعادة الروح إليه ليجيب على سؤال الملكين، كما هو واضح من سياق الحديث.»
اس حدیث میں صرف یہ مذکور ہے کہ جب فرشتوں کے سوالات کے جواب کے لئے میت میں روح لوٹائی جاتی ہے تو اس حالت میں وہ (جوتوں کی) آواز سنتی ہے۔ حدیث کے سیاق سے یہ بات واضح ہو رہی ہے۔ [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء فى الأمّة: 1147]

◈ مشہور عرب، اہل حدیث عالم، محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (م:1421 ھ) فرماتے ہیں:
«فهو وارد فى وقت خاص، وهو انصراف المشيعين بعد الدّفن.»
مردوں کا یہ سننا ایک خاص وقت میں ہوتا ہے اور وہ دفن کرنے والوں کا تدفین کے بعد واپس لوٹنے کا وقت ہے۔ [القول المفيد على كتاب التوحيد: 289/1]
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث\صفحہ نمبر: 26   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 126  
´قبر میں سوال جواب`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنه حَدثهمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجنَّة فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا قَالَ قَتَادَة وَذكر لنا أَنه يفسح لَهُ فِي قَبره ثمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيث أنس قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثقلَيْن» وَلَفظه للْبُخَارِيّ . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق بندے کو جب اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس ہونے لگتے ہیں تو وہ مردہ واپس جانے والوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے، اس کے پاس دو فرشتے آ کر اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے دریافت کرتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تم کیا کہتے تھے جو تمہارے پاس نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تم کیا کہتے تھے۔ پس مومن بندہ جواب میں کہتا ہے کہ میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اس سے کہا جاتا ہے تم دوزخ میں اپنے ٹھکانے کو دیکھو (کہ اگر تو ایمان نہیں لاتا تو تیرا ٹھکانا دوزخ میں تھا)، لیکن ایمان لانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں جنت میں تمہارا ٹھکانا مقرر کر دیا ہے تو وہ دونوں جنت جہنم کے ٹھکانے کو دیکھتا ہے۔ اور جو مردہ منافق یا کافر ہوتا ہے اس سے بھی یہی سوال کیا جاتا ہے کہ تم اس کے بارے میں کیا کہتے تھے جو تمہارے پاس نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ وہ اس کے جواب میں کہتا ہے میں نہیں جانتا جو لوگ کہا کرتے تھے میں بھی وہی کہہ دیا کرتا تھا یعنی منافق بغیر سچے اعتقاد کے کلمہ طیبہ جان بچانے کے لیے کہہ دیتا تھا مگر نہ اس کا مطلب سمجھا اور نہ اس کے مطابق عمل کیا صرف مسلمانوں کے دیکھا دیکھی وہ کہہ دیا کرتا تھا اسی لیے وہ فرشتوں کے جواب میں کہتا ہے کہ میں حقیقت حال کو کچھ نہیں جانتا، جو اور لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کہہ دیا کرتا تھا۔ تو اس سے کہا جاتا ہے نہ تو نے عقل ہی سے پہچانا اور نہ قرآن مجید کی تلاوت کی۔ یا یہ مطلب ہے نہ تم نے خود سمجھا اور نہ سمجھداروں کی تابعداری کی یعنی نہ دلیل عقلی سے سمجھا اور نہ دلیل نقلی، قرآن و حدیث سے جانا۔ یہ کہہ کر اسے لوہے کی گرزوں سے مارا جاتا ہے کہ وہ چیخنے لگتا ہے کہ اس کی چیخ کی آواز آس پاس کے سب ہی سنتے ہیں، سوائے انسانوں اور جنوں کے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور الفاظ بخاری کے ہیں۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 126]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 1374]،
[صحيح مسلم 7216]

فقہ الحدیث:
➊ سوال و جواب کے وقت میت واپس جانے والے لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔
➋ قبرستان میں جوتوں سمیت چلنا جائز ہے۔
«هذا الرجل» سے مراد یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں دکھائے جاتے ہیں۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ میت اس سوال کے جواب میں کہتی ہے: «اي رجل» کون سا آدمی؟ ديكهئے: [المستدرك للحاكم 3801/1 ح1709، وسنده حسن، و صحيح ابن حبان، الاحسان: 3119/3103 و صححه الحاكم و وافقه الذهبي]
اگر قبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار ہوتا تو مرنے والا یہ کبھی نہ پوچھتا کون سا آدمی؟
➍ آج کل «ولاتليتَ» سے بعض تقلیدی لوگ تقلید ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اس سے مراد کتاب اللہ کی تلاوت یا انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 126   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3231  
´قبروں کے درمیان جوتا پہن کر چلنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: جب بندہ اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی لوٹنے لگتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3231]
فوائد ومسائل:

میت کو قبر میں زندہ کیا جاتاہے۔
اور پھر اس کا محاسبہ ہوتا ہے۔
اور یہ سب غیبی معاملہ ہے۔
سماع موتیٰ میں ہمیں صرف اسی قدر خبر دی گئی ہے۔
کہ وہ جانے والوں کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔
اور اسی پر ہمارا ایمان ہے اس سے مذید کی نفی ثابت ہے۔

معلوم ہوا کہ قبرستان میں جوتے پہننا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3231   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1338  
1338. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جا تا ہے اور اس کے ساتھی دفن سے فارغ ہو کر واپس ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں:تو اس شخص محمد ﷺ کے متعلق کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ اگر وہ جواب دے:میں گواہی دیتا تھا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اسے کہا جا تاہے:تو اپنے دوزخی مقام کو دیکھ، اس کے عوض اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں ٹھکانا دیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:وہ دونوں مقامات کو دیکھتا ہے۔ لیکن کافر یا منافق کا یہ جواب ہوتا ہے۔ میں کچھ نہیں جانتا، جو دوسرے لوگ کہتے تھے وہی میں کہہ دیتا تھا، پھر اس سے کہا جاتا ہے:تونے عقل سے کام لیا نہ انبیاء کی پیروی کی، پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے ایک ضرب لگائی جاتی ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1338]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ نکلا کہ ہر شخص کے لیے دو دو ٹھکانے بنے ہیں‘ ایک جنت میں اور ایک دوزخ میں اور یہ قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ کافروں کے ٹھکانے جو جنت میں ہیں ان کے دوزخ میں جانے کی وجہ سے ان ٹھکانوں کو ایماندار لے لیں گے۔
قبر میں تین باتوں کا سوال ہوتا ہے من ربك۔
تیرا رب کون ہے؟ مومن جواب دیتاہے ربي اللہ۔
میرا رب اللہ ہے۔
پھر سوال ہوتا ہے ومادینك۔
تیرا دین کیا تھا‘ مومن کہتا ہے دیني الإسلام۔
میرا دین اسلام تھا۔
پھر پوچھا جاتا ہے کہ تیرا نبی کون ہے؟ وہ بولتا ہے نبی محمد ﷺ میرے نبی ہیں۔
ان جوابات پر اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور کافر اور منافق ہر سوال کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔
جیسا لوگ کہتے رہتے تھے میں بھی کہہ دیا کرتا تھا۔
میرا کوئی دین مذہب نہ تھا۔
اس پر اس کے لیے دوزخ کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔
لم لادریت ولم لا تلیت۔
کے ذیل مولانا وحیدالزماں مرحوم فرماتے ہیں۔
یعنی نہ مجتہد ہوا نہ مقلد، اگر کوئی اعتراض کرے کہ مقلد تو ہوا، کیونکہ اس نے پہلے کہا کہ لوگ جیسا کہتے تھے میں نے بھی ایسا ہی کیا۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقلید کچھ کام کی نہیں کہ سنے سنائے پر ہر شخص عمل کرنے لگا۔
بلکہ تقلید کے لیے بھی غور لازم ہے کہ جس شخص کے ہم مقلد بنتے ہیں آیا وہ لائق اور فاضل اور سمجھ دار تھا یا نہیں اور دین کا علم اس کو تھا یا نہیں۔
سب باتیں بخوبی تحقیق کرنی ضروری ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1338   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1338  
1338. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جا تا ہے اور اس کے ساتھی دفن سے فارغ ہو کر واپس ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں:تو اس شخص محمد ﷺ کے متعلق کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ اگر وہ جواب دے:میں گواہی دیتا تھا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اسے کہا جا تاہے:تو اپنے دوزخی مقام کو دیکھ، اس کے عوض اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں ٹھکانا دیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:وہ دونوں مقامات کو دیکھتا ہے۔ لیکن کافر یا منافق کا یہ جواب ہوتا ہے۔ میں کچھ نہیں جانتا، جو دوسرے لوگ کہتے تھے وہی میں کہہ دیتا تھا، پھر اس سے کہا جاتا ہے:تونے عقل سے کام لیا نہ انبیاء کی پیروی کی، پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے ایک ضرب لگائی جاتی ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1338]
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجرؓ نے ابن منیر کے حوالے سے امام بخاری ؒ کا اس عنوان سے مقصد بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ دفن کے آداب کا لحاظ رکھیں، شوروغل اور زمین پر زور زور سے پاؤں نہ ماریں، میت کے ساتھ وہی سلوک کریں جو سوئے ہوئے آدمی سے کیا جاتا ہے، نیز یہ دفن کے بعد سوال و جواب کے جلد شروع ہونے سے کنایہ ہے کہ دفن سے فارغ ہونے والے ابھی قریب ہی ہوتے ہیں کہ اس سے باز پرس شروع ہو جاتی ہے۔
صحیح بخاری کی حدیثِ اسماء میں یہ الفاظ ہیں:
تمہارا علم اس شخص کے متعلق کیا تھا؟ (حدیث: 86)
اور حدیث انس میں ہے کہ تو دنیا میں اس شخص کے متعلق کیا کہا کرتا تھا؟ (2)
ان احادیث سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبر میں خود تشریف لاتے ہیں اور میت سے سوال جواب کے وقت آپ کو سامنے کیا جاتا ہے، حالانکہ اس سے صرف استحضار ذہنی مراد ہے، یعنی وہ نقشہ جو آدمی کے دل و دماغ میں ہوتا ہے، اس کا اظہار مقصود ہے، جیسا کہ ہرقل نے ایک دفعہ حضرت ابو سفیان ؓ سے سوال کیا تھا:
تم میں سے نسب کے اعتبار سے کون اس شخص کے قریب تر ہے۔
(صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث: 7)
جبکہ رسول اللہ ﷺ اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔
وہاں موجود نہ ہونے کے باوجود آپ کے لیے اشارہ قریب "هٰذا" استعمال کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ میت کا جواب بھی اس کا مؤید ہے، وہ جواب میں کہے گا کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
سوال و جواب کے وقت رسول اللہ ﷺ کے وہاں موجود ہونے کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں۔
اگر آپ کی شخصیت کو سامنے کر دیا جائے تو ابوجہل کے لیے تو وجودی معرفت بہت آسان ہے، کیونکہ اس نے آپ کو دیکھا ہوا ہے جبکہ آپ کے بعد آنے والے اہل ایمان کے لیے وجودی معرفت بہت مشکل ہو گی، کیونکہ انہیں تو آپ کی رؤیت حاصل نہیں ہوئی، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہو گا۔
مومن کی معرفت ایمان پر موقوف ہے جس کا تعلق باطن سے ہے اور کافر وجودی معرفت کے باوجود پہچان سے قاصر رہے گا، کیونکہ اس کا دل معرفت ایمان سے خالی ہے۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس قبر میں میت کو دفن کیا جاتا ہے سوال و جواب کا سلسلہ بھی وہیں جاری رہتا ہے، پھر راحت و عذاب کا احساس بھی اسی قبر میں ہو گا۔
بعض فتنہ پرور لوگوں نے برزخی قبر کا شاخسانہ قائم کیا ہے جس کا کتب حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔
جس شخص کو قبر نہ مل سکے، یعنی وہ پانی میں غرق ہو کر سمندری جانوروں کی خوراک بن گیا یا وہ جل کر راکھ ہو گیا یا کسی حادثے میں اس طرح ریزہ ریزہ ہوا کہ اس کے اجزاء نہ مل سکے ہوں تو ایسا انسان جہاں کہیں بھی پڑا ہے وہی اس کی قبر ہے اور وہیں اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔
دراصل یہ لوگ برزخی معاملات کو حسی طور پر معلوم کرنا چاہتے ہیں۔
جب اس سے قاصر رہتے ہیں تو سرے سے برزخی حقائق کا انکار کر دیا جاتا ہے۔
(4)
واضح رہے کہ فرشتے قبر میں "هٰذا الرجل" کے الفاظ سے سوال کریں گے۔
بظاہر یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر کے خلاف ہیں۔
یہ انداز اس لیے اختیار کیا جائے گا کہ امتحان کے موقع پر قائل کے تعظیمی الفاظ سے صاحب قبر کو جواب کا اشارہ نہ مل جائے۔
بہرحال صحیح جواب دینے کا مدار قوت ایمان پر ہو گا جو صرف مومن کو حاصل ہو گی۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1338   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.