(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: حدثني نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" بات النبي صلى الله عليه وسلم بذي طوى حتى اصبح، ثم دخل مكة"، وكان ابن عمر رضي الله عنهما يفعله.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" بَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِي طُوًى حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ دَخَلَ مَكَّةَ"، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَفْعَلُهُ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی طویٰ میں رات گزاری۔ پھر جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کرتے تھے۔
Narrated Nafi`: ' Ibn `Umar said, "The Prophet passed the night at Dhi-Tuwa till it was dawn and then he entered Mecca." Ibn `Umar used to do the same.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 644
ينزل بذي طوى يبيت به حتى يصلي صلاة الصبح حين يقدم إلى مكة مصلى رسول الله ذلك على أكمة غليظة ليس في المسجد الذي بني ثم ولكن أسفل من ذلك على أكمة خشنة غليظة
يبيت بذي طوى بين الثنيتين يدخل من الثنية التي بأعلى مكة إذا قدم مكة حاجا أو معتمرا لم ينخ ناقته إلا عند باب المسجد يدخل فيأتي الركن الأسود فيبدأ به يطوف سبعا ثلاثا سعيا وأربعا مشيا ثم ينصرف فيصلي ركعتين ثم ينطلق قبل أن يرجع إلى منزله فيطوف بين الصفا و الم
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 611
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ جب بھی مکہ میں آتے تو ذی طویٰ میں صبح تک شب بسر کرتے اور غسل کرتے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کیا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 611]
611 لغوی تشریح: «بات» رات گزارتے۔ «بذي طوىٰ» «طوىٰ» کے ”طا“ پر ضمہ اور آخر پر تنوین ہے۔ مکہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے (آج کل . . . . ایک پرانے کنویں کی وجہ سے . . . . بئر طویٰ کے نام سے مشہور ہے۔)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 611
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1865
´مکہ میں داخل ہونے کا بیان۔` نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب مکہ آتے تو ذی طویٰ میں رات گزارتے یہاں تک کہ صبح کرتے اور غسل فرماتے، پھر دن میں مکہ میں داخل ہوتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتاتے کہ آپ نے ایسے ہی کیا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1865]
1865. اردو حاشیہ: یہ عمل ممکن ہوتو مستحب ہے جبکہ عمرہ جعرانہ میں نبی کریمﷺ رات کے وقت تشریف لے گئے تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1865
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1574
1574. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے وادی ذی طویٰ میں رات بسر کی۔ صبح تک آپ نے وہیں قیام فرمایا پھر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ راوی حدیث کہتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1574]
حدیث حاشیہ: (1) وادی ذی طویٰ مکہ مکرمہ کے قریب ایک مشہور مقام ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب حج کرنے کے لیے تشریف لائے تو رات اسی وادی میں بسر فرمائی، صبح کی نماز کے بعد مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دن کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے جبکہ عنوان میں رات کے وقت داخل ہونے کا بھی ذکر ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان سے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کے رات کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا ذکر ہے، چنانچہ عمرہ جعرانه میں آپ رات کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے اور اسی وقت عمرہ کر کے رات ہی کو واپس تشریف لے گئے تھے۔ اور اس حدیث پر امام نسائی ؒ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: (دخول مكة ليلا) ”مکہ مکرمہ میں رات کے وقت داخل ہونا۔ “(2) رسول اللہ ﷺ امام و مقتدیٰ تھے اور آپ کے اعمال و افعال لوگوں کے لیے نمونہ تھے، اس لیے حجۃ الوداع کے موقع پر آپ دن کے وقت داخل ہوئے تاکہ لوگ آپ کے اعمال حج کو دیکھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا ہے جو لوگوں کے لیے نمونے کی حیثیت رکھتا ہے تو اسے دن کے وقت مکہ مکرمہ داخل ہونا بہتر ہے تاکہ ریا کاری اور نمود ونمائش سے احتراز ہو۔ (فتح الباری: 550/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1574