الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
74. بَابُ الْمَرِيضِ يَطُوفُ رَاكِبًا:
74. باب: مریض آدمی سوار ہو کر طواف کر سکتا ہے۔
(74) Chapter. A sick person may perform Tawaf (of the Kabah) while riding.
حدیث نمبر: 1632
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني إسحاق الواسطي، حدثنا خالد، عن خالد الحذاء، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم طاف بالبيت وهو على بعير، كلما اتى على الركن اشار إليه بشيء في يده وكبر".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ بالبيت وَهُوَ عَلَى بَعِيرٍ، كُلَّمَا أَتَى عَلَى الرُّكْنِ أَشَارَ إِلَيْهِ بِشَيْءٍ فِي يَدِهِ وَكَبَّرَ".
ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد طحان نے خالد حذاء سے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف اونٹ پر سوار ہو کر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی (طواف کرتے ہوئے) حجر اسود کے نزدیک آتے تو اپنے ہاتھ کو ایک چیز (چھڑی) سے اشارہ کرتے اور تکبیر کہتے۔

Narrated Ibn `Abbas: Allah's Apostle performed Tawaf (of the Ka`ba) ending a camel (at that time the Prophet had foot injury). Whenever he came to the Corner (having the Black Stone) he would point out towards it with a thing in his hand and say, "Allahu-Akbar."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 697


   سنن النسائى الصغرى714عبد الله بن عباسطاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن
   صحيح البخاري1612عبد الله بن عباسطاف النبي بالبيت على بعير كلما أتى على الركن أشار إليه
   صحيح البخاري1613عبد الله بن عباسطاف النبي بالبيت على بعير كلما أتى الركن أشار إليه بشيء كان عنده وكبر
   صحيح البخاري1607عبد الله بن عباسطاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن
   صحيح البخاري1632عبد الله بن عباسطاف بالبيت وهو على بعير كلما أتى على الركن أشار إليه بشيء في يده وكبر
   صحيح مسلم3073عبد الله بن عباسطاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن
   جامع الترمذي865عبد الله بن عباسطاف النبي راحلته إذا انتهى إلى الركن أشار إليه
   سنن أبي داود1877عبد الله بن عباسطاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن
   سنن أبي داود1881عبد الله بن عباسطاف على راحلته كلما أتى على الركن استلم الركن بمحجن لما فرغ من طوافه أناخ صلى ركعتين
   سنن ابن ماجه2948عبد الله بن عباسطاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن
   سنن النسائى الصغرى2957عبد الله بن عباسطاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن
   سنن النسائى الصغرى2958عبد الله بن عباسيطوف بالبيت على راحلته إذا انتهى إلى الركن أشار إليه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 714  
´اونٹ کو مسجد میں داخل کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر بیٹھ کر طواف کیا، آپ ایک چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 714]
714 ۔ اردو حاشیہ: اونٹ پر طواف کا بڑا مقصد لوگوں کو مناسک حج کی تعلیم دینا تھا تاکہ لوگ آنکھوں سے دیکھ کر حج کے طریقے جان لیں۔ آپ نے سارا حج ہی اونٹ پر کیا تھا۔ یہ طواف زیارت (10 ذوالحجہ) کی بات ہے۔ ایک ذیلی مقصد دشمنوں سے آپ کی حفاظت بھی تھا۔ بعض نے اسے آپ کی خصوصیت قرار دیا ہے لیکن اس خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں بلکہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بھی اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنے کی اجازت دی تھی۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الحج، باب من صلی رکعتي الطواف، حدیث: 1626]
لہٰذا اس سے خصوصیت کا دعویٰ مجروح ہو جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی پر طواف کسی مرض یا بھیڑ کی وجہ سے کیا تھا، لیکن یہ بھی ایک توجیہ ہی ہے، اس کی بھی کوئی بنیاد نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ضرورت کو دیکھا جائے۔ اگر کسی دور میں اس کی ضرورت محسوس ہو تو شرعاً اس کی اجازت ہے اگرچہ اس دور میں اونٹ یا کسی دوسرے حلال جانور پر طواف عقلاً محال لگتا ہے لیکن بات ضابطے اور اصول کی ہے کیونکہ اگر آج یہ نوبت نہیں آئی تو آئندہ کسی بھی وقت اس قسم کے حالات پیش آسکتے ہیں۔ جو لوگ اونٹ وغیرہ حلال جانوروں پر طواف کے قائل نہیں ہیں، دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان کے پیشاب اور گوبر کو نجس اور پلید سمجھتے ہیں، حالانکہ ایسی بات قطعاً نہیں۔ احادیث کی روشنی میں حق بات یہی ہے کہ ان کا پیشاب اور گوبر ناپاک اور پلید نہیں، ہاں! یہ الگ بات ہے کہ انسان اپنی طبعی نفاست کی وجہ سے اس سے کراہت محسوس کرتا ہے، وگرنہ اس طرح تو وہ تھوک اور بلغم وغیرہ سے بھی گھن کھاتا ہے۔ کیا ان کے لگنے سے کپڑے پلید ہو جاتے ہیں یا نیچے گرنے سے زمین نجس ہو جاتی ہے؟ ترجمۃ الباب میں امام نسائی رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی لگتا ہے کہ ضرورت کے پیش نظر اونٹ وغیرہ کو مسجد میں داخل کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 714   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 865  
´سواری پر طواف کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر بیت اللہ کا طواف کیا جب ۱؎ آپ حجر اسود کے پاس پہنچتے تو اس کی طرف اشارہ کرتے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 865]
اردو حاشہ:
1؎:
سواری پر طواف آپ نے اس لیے کیا تھا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ سے حج کے مسائل پوچھ سکیں کیونکہ لوگ آپ کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔

2؎:
یہ اشارہ آپ اپنی چھڑی سے کرتے تھے پھر اسے چوم لیتے تھے جیسا کہ ابو الطفیل رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 865   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1877  
´طواف واجب کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا، آپ چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1877]
1877. اردو حاشیہ:
➊ اس سے مرُاد طواف قدوم ہے۔ امام صاحب ؒ کی تبویب سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آپ اسے واجب سمجھتے ہیں۔جیسے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور بعض احناف کا قول ہے (عون المعبود)
➋ صحیح حدیث میں نبی کریمﷺ سے ثابت ہے۔کہ آپ اپنے عصا سے حجراسود کو مس کر کے اس عصا کوبوسہ بھی دیتے تھے۔(صحیح مسلم۔الحج۔حدیث 1275)
➌ آپ ﷺکے سوار ہوکر طواف کرنے کی حکمت یہ تھی کے لوگ آپ کے عمل کا بخوبی مشاہدہ کرلیں۔روایات میں یہ صراحت نہیں ہے کہ کونسا طواف تھا تاہم غالبا ً یہ طواف افاضہ تھا۔(بذل المجہود)کیونکہ طواف قدوم میں آپ ﷺنے رمل کیا تھا۔جو پیدل کے سوا ممکن نہیں ہوتا اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ پالکی یا پیے والی کرسی میں بیٹھے ہوئے کو طواف کرایا جائے تو اس کا طواف صحیح ہے۔
➍ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ان کے پیشاب کے چھینٹوں سے کپڑے ناپاک نہیں ہوتے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1877   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1632  
1632. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ جب بھی حجر اسود کے پاس سے گزرتے، اپنے دست مبارک میں پکڑی ہوئی کسی چیز سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور اللہ أکبر کہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1632]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں گویہ ذکر نہیں ہے کہ آپ ﷺ بیمار تھے اور بظاہر ترجمہ باب سے مطابق نہیں ہے مگر امام بخاری ؒ نے ابوداؤد کی روایت کی طرف اشارہ کیا جس میں صاف یہ ہے کہ آپ بیمار تھے۔
بعضوں نے کہا جب بغیر بیماری یا عذر کے سواری پر طواف درست ہوا تو بیماری میں بطریق اولیٰ درست ہوگا۔
اس طرح باب کا مطلب نکل آیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1632   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1632  
1632. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ جب بھی حجر اسود کے پاس سے گزرتے، اپنے دست مبارک میں پکڑی ہوئی کسی چیز سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور اللہ أکبر کہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1632]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔
آپ طواف کرتے وقت جب حجراسود کے پاس سے گزرتے تو چھڑی سے اس کی طرف اشارہ کرتے۔
بعض روایات میں اس کی صراحت ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سوار ہو کر طواف کرنے میں کوئی ممانعت نہیں بشرطیکہ کوئی عذر ہو۔
(3)
امام بخاری نے اس عنوان کے ذریعے سے ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام ابوداود نے بیان کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ کی طبیعت ناساز تھی۔
اس بنا پر آپ نے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1881)
اس سے معلوم ہوا بیت اللہ کا بحالت سواری طواف کرنا مسنون عمل نہیں بلکہ ایک مجبوری کے پیش نظر ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔
واضح رہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب مسجد حرام کی چار دیواری نہیں تھی۔
آج کل کسی سواری کو داخل کرنا ممکن نہیں۔
ہاں آدمی کو کندھوں پر اٹھا کر طواف کرایا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس لیے بھی سواری استعمال کی تھی کہ لوگ آپ سے مناسک حج سیکھ لیں جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا تاکہ آپ کو لوگ دیکھیں اور طواف سے متعلقہ مسائل سیکھ سکیں۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3074(1273)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1632   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.