الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
58. بَابُ اسْتِلاَمِ الرُّكْنِ بِالْمِحْجَنِ:
58. باب: حجر اسود کو چھڑی سے چھونا اور چومنا۔
(58) Chapter. Touching the Corner (Black Stone) with a bent-headed stick.
حدیث نمبر: 1607
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، ويحيى بن سليمان، قالا: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" طاف النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن" تابعه الدراوردي، عن ابن اخي الزهري، عن عمه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، وَيَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قال: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قال:" طَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ عَلَى بَعِيرٍ يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ" تَابَعَهُ الدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنِ ابْنِ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمِّهِ.
ہم سے احمد بن صالح اور یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنی اونٹنی پر طواف کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کا استلام ایک چھڑی کے ذریعہ کر رہے تھے اور اس چھڑی کو چومتے تھے۔ اور یونس کے ساتھ اس حدیث کو دراوردی نے زہری کے بھتیجے سے روایت کیا اور انہوں نے اپنے چچا (زہری) سے۔

Narrated Ibn `Abbas.: In his Last Hajj the Prophet performed Tawaf of the Ka`ba riding a camel and pointed a bent-headed stick towards the Corner (Black Stone).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 677


   سنن النسائى الصغرى714عبد الله بن عباسطاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن
   صحيح البخاري1612عبد الله بن عباسطاف النبي بالبيت على بعير كلما أتى على الركن أشار إليه
   صحيح البخاري1613عبد الله بن عباسطاف النبي بالبيت على بعير كلما أتى الركن أشار إليه بشيء كان عنده وكبر
   صحيح البخاري1607عبد الله بن عباسطاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن
   صحيح البخاري1632عبد الله بن عباسطاف بالبيت وهو على بعير كلما أتى على الركن أشار إليه بشيء في يده وكبر
   صحيح مسلم3073عبد الله بن عباسطاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن
   جامع الترمذي865عبد الله بن عباسطاف النبي راحلته إذا انتهى إلى الركن أشار إليه
   سنن أبي داود1877عبد الله بن عباسطاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن
   سنن أبي داود1881عبد الله بن عباسطاف على راحلته كلما أتى على الركن استلم الركن بمحجن لما فرغ من طوافه أناخ صلى ركعتين
   سنن ابن ماجه2948عبد الله بن عباسطاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن
   سنن النسائى الصغرى2957عبد الله بن عباسطاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن
   سنن النسائى الصغرى2958عبد الله بن عباسيطوف بالبيت على راحلته إذا انتهى إلى الركن أشار إليه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 714  
´اونٹ کو مسجد میں داخل کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر بیٹھ کر طواف کیا، آپ ایک چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 714]
714 ۔ اردو حاشیہ: اونٹ پر طواف کا بڑا مقصد لوگوں کو مناسک حج کی تعلیم دینا تھا تاکہ لوگ آنکھوں سے دیکھ کر حج کے طریقے جان لیں۔ آپ نے سارا حج ہی اونٹ پر کیا تھا۔ یہ طواف زیارت (10 ذوالحجہ) کی بات ہے۔ ایک ذیلی مقصد دشمنوں سے آپ کی حفاظت بھی تھا۔ بعض نے اسے آپ کی خصوصیت قرار دیا ہے لیکن اس خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں بلکہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بھی اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنے کی اجازت دی تھی۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الحج، باب من صلی رکعتي الطواف، حدیث: 1626]
لہٰذا اس سے خصوصیت کا دعویٰ مجروح ہو جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی پر طواف کسی مرض یا بھیڑ کی وجہ سے کیا تھا، لیکن یہ بھی ایک توجیہ ہی ہے، اس کی بھی کوئی بنیاد نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ضرورت کو دیکھا جائے۔ اگر کسی دور میں اس کی ضرورت محسوس ہو تو شرعاً اس کی اجازت ہے اگرچہ اس دور میں اونٹ یا کسی دوسرے حلال جانور پر طواف عقلاً محال لگتا ہے لیکن بات ضابطے اور اصول کی ہے کیونکہ اگر آج یہ نوبت نہیں آئی تو آئندہ کسی بھی وقت اس قسم کے حالات پیش آسکتے ہیں۔ جو لوگ اونٹ وغیرہ حلال جانوروں پر طواف کے قائل نہیں ہیں، دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان کے پیشاب اور گوبر کو نجس اور پلید سمجھتے ہیں، حالانکہ ایسی بات قطعاً نہیں۔ احادیث کی روشنی میں حق بات یہی ہے کہ ان کا پیشاب اور گوبر ناپاک اور پلید نہیں، ہاں! یہ الگ بات ہے کہ انسان اپنی طبعی نفاست کی وجہ سے اس سے کراہت محسوس کرتا ہے، وگرنہ اس طرح تو وہ تھوک اور بلغم وغیرہ سے بھی گھن کھاتا ہے۔ کیا ان کے لگنے سے کپڑے پلید ہو جاتے ہیں یا نیچے گرنے سے زمین نجس ہو جاتی ہے؟ ترجمۃ الباب میں امام نسائی رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی لگتا ہے کہ ضرورت کے پیش نظر اونٹ وغیرہ کو مسجد میں داخل کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 714   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 865  
´سواری پر طواف کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر بیت اللہ کا طواف کیا جب ۱؎ آپ حجر اسود کے پاس پہنچتے تو اس کی طرف اشارہ کرتے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 865]
اردو حاشہ:
1؎:
سواری پر طواف آپ نے اس لیے کیا تھا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ سے حج کے مسائل پوچھ سکیں کیونکہ لوگ آپ کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔

2؎:
یہ اشارہ آپ اپنی چھڑی سے کرتے تھے پھر اسے چوم لیتے تھے جیسا کہ ابو الطفیل رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 865   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1877  
´طواف واجب کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا، آپ چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1877]
1877. اردو حاشیہ:
➊ اس سے مرُاد طواف قدوم ہے۔ امام صاحب ؒ کی تبویب سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آپ اسے واجب سمجھتے ہیں۔جیسے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور بعض احناف کا قول ہے (عون المعبود)
➋ صحیح حدیث میں نبی کریمﷺ سے ثابت ہے۔کہ آپ اپنے عصا سے حجراسود کو مس کر کے اس عصا کوبوسہ بھی دیتے تھے۔(صحیح مسلم۔الحج۔حدیث 1275)
➌ آپ ﷺکے سوار ہوکر طواف کرنے کی حکمت یہ تھی کے لوگ آپ کے عمل کا بخوبی مشاہدہ کرلیں۔روایات میں یہ صراحت نہیں ہے کہ کونسا طواف تھا تاہم غالبا ً یہ طواف افاضہ تھا۔(بذل المجہود)کیونکہ طواف قدوم میں آپ ﷺنے رمل کیا تھا۔جو پیدل کے سوا ممکن نہیں ہوتا اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ پالکی یا پیے والی کرسی میں بیٹھے ہوئے کو طواف کرایا جائے تو اس کا طواف صحیح ہے۔
➍ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ان کے پیشاب کے چھینٹوں سے کپڑے ناپاک نہیں ہوتے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1877   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1607  
1607. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے حجۃالوداع میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا۔ آپ چھڑی سے حجراسود کا استلام فرماتے۔ عبد العزیز دراوردی نے زہری سے روایت کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1607]
حدیث حاشیہ:
جمہور علماء کا یہ قول ہے کہ حجر اسود کو منہ لگا کر چومنا چاہیے۔
اگر یہ نہ ہوسکے تو ہاتھ لگاکر ہاتھ کو چوم لے، اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو لکڑی لگا کر اس کو چوم لے۔
اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو جب حجر اسود کے سامنے پہنچے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرکے اس کو چوم لے۔
جب ہاتھ یا لکڑی سے دور سے اشارہ کیا جائے جو حجر اسود کو لگ نہ سکے تو اسے چومنا نہیں چاہیے۔
(رشید)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1607   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1607  
1607. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے حجۃالوداع میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا۔ آپ چھڑی سے حجراسود کا استلام فرماتے۔ عبد العزیز دراوردی نے زہری سے روایت کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1607]
حدیث حاشیہ:
(1)
حجراسود کے استلام کے متعلق سنت یہ ہے کہ اسے بوسہ دیا جائے۔
اگر بھیڑ کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو تو اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چوم لیا جائے جیسا کہ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری، ابن عمر اور جابر ؓ کو دیکھا، وہ حجراسود کو چھو کر ہاتھ چومتے تھے۔
اگر ایسا ممکن نہ ہو تو حجراسود کو چھڑی وغیرہ سے چھو کر اسے چوم لیا جائے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ چھڑی سے حجراسود کا استلام کرتے پھر اسے چوم لیتے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3077(1275)
اگر چھڑی وغیرہ سے استلام نہ ہو سکے تو دور سے اشارہ کر دے۔
اشارہ کرنے کی صورت میں ہاتھ وغیرہ کو چومنے کی ضرورت نہیں۔
(فتح الباري: 597/3) (2)
یہ روایت جب لیث، اسامہ بن زید اور زمعہ بن صالح نے زہری سے بیان کی تو زہری اور ابن عباس ؓ کے درمیان واسطہ حذف کر دیا۔
امام بخاری ؒ نے مذکورہ روایت کی تقویت کے لیے دراوردی کی متابعت ذکر کی ہے جسے علامہ اسماعیلی نے اپنی مستخرج میں بیان کیا ہے۔
اگرچہ اس متابعت میں حجۃ الوداع اور اونٹ پر سوار ہونے کے الفاظ نہیں ہیں، تاہم اصل روایت کی تائید ہو سکتی ہے۔
(فتح الباري: 596/3)
رسول اللہ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر اس لیے طواف کیا تاکہ لوگ آپ کے طریقہ حج کو بچشم خود دیکھ لیں اور مسائل معلوم نہ ہونے کی صورت میں آپ سے دریافت کر سکیں۔
حجۃ الوداع کے موقع پر اگر آپ سوار نہ ہوتے تو ہجوم کی وجہ سے حج کے بہت سے مسائل مخفی رہنے کا اندیشہ تھا۔
اس مقصد کے پیش نظر طواف کے لیے سواری استعمال کی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1607   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.