الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: عمرہ کے مسائل کا بیان
The Book of Al-Umra
20. بَابُ الْمُسَافِرِ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ يُعَجِّلُ إِلَى أَهْلِه
20. باب: مسافر جب جلد چلنے کی کوشش کر رہا ہو اور اپنے اہل میں جلد پہنچنا چاہئے۔
(20) Chapter. What may a traveller do if he has to proceed fast to arrive home early?
حدیث نمبر: 1805
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سعيد بن ابي مريم , اخبرنا محمد بن جعفر، قال: اخبرني زيد بن اسلم، عن ابيه، قال: كنت مع عبد الله بن عمر رضي الله عنهما بطريق مكة، فبلغه عن صفية بنت ابي عبيد شدة وجع، فاسرع السير حتى كان بعد غروب الشفق نزل فصلى المغرب والعتمة جمع بينهما، ثم قال:" إني رايت النبي صلى الله عليه وسلم إذا جد به السير اخر المغرب، وجمع بينهما".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِطَرِيقِ مَكَّةَ، فَبَلَغَهُ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ شِدَّةُ وَجَعٍ، فَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّى كَانَ بَعْدَ غُرُوبِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعَتَمَةَ جَمَعَ بَيْنَهُمَا، ثُمّ قَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ، وَجَمَعَ بَيْنَهُمَا".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکہ کے راستے میں تھا کہ انہیں (اپنی بیوی) صفیہ بنت ابی عبید کی سخت بیماری کی خبر ملی اور وہ نہایت تیزی سے چلنے لگے، پھر جب سرخی غروب ہو گئی تو سواری سے نیچے اترے اور مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھیں، اس کے بعد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب جلدی چلنا ہوتا تو مغرب میں دیر کر کے دونوں (عشاء اور مغرب) کو ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔

Narrated Zaid bin Aslam from his father: I was with Ibn `Umar on the way to Mecca, and he got the news that Safiya bint Abu Ubaid was seriously ill. So, he hastened his pace, and when the twilight disappeared, he dismounted and offered the Maghrib and `Isha' prayers together. Then he said, "I saw that whenever the Prophet had to hasten when traveling, he would delay the Maghrib prayer and join them together (i.e. offer the Maghrib and the `Isha prayers together).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 27, Number 32


   صحيح البخاري3000عبد الله بن عمرإذا جد به السير أخر المغرب وجمع بينهما
   صحيح البخاري1109عبد الله بن عمرإذا أعجله السير في السفر يؤخر صلاة المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء
   صحيح البخاري1805عبد الله بن عمرإذا جد به السير أخر المغرب وجمع بينهما
   صحيح البخاري1092عبد الله بن عمرإذا أعجله السير يؤخر المغرب فيصليها ثلاثا ثم يسلم ثم قلما يلبث حتى يقيم العشاء فيصليها ركعتين ثم يسلم ولا يسبح بعد العشاء حتى يقوم من جوف الليل
   صحيح مسلم1622عبد الله بن عمرإذا جد به السير جمع بين المغرب والعشاء
   صحيح مسلم1623عبد الله بن عمريجمع بين المغرب والعشاء إذا جد به السير
   صحيح مسلم3112عبد الله بن عمرصلى المغرب بجمع والعشاء بإقامة
   صحيح مسلم1621عبد الله بن عمرإذا عجل به السير جمع بين المغرب والعشاء
   صحيح مسلم1624عبد الله بن عمرإذا أعجله السير في السفر يؤخر صلاة المغرب حتى يجمع بينها وبين صلاة العشاء
   جامع الترمذي555عبد الله بن عمراستغيث على بعض أهله فجد به السير فأخر المغرب حتى غاب الشفق ثم نزل فجمع بينهما ثم أخبرهم أن رسول الله كان يفعل ذلك إذا جد به السير
   سنن أبي داود1217عبد الله بن عمرإذا جد به السير صلى صلاتي هذه
   سنن أبي داود1913عبد الله بن عمرغدا رسول الله من منى حين صلى الصبح صبيحة يوم عرفة حتى أتى عرفة فنزل بنمرة وهي منزل الإمام الذي ينزل به بعرفة حتى إذا كان عند صلاة الظهر راح رسول الله مهجرا فجمع بين الظهر والعصر ثم خطب الناس ثم راح فوقف على الموقف من عرفة
   سنن أبي داود1209عبد الله بن عمرما جمع رسول الله بين المغرب والعشاء قط في السفر إلا مرة
   سنن أبي داود1207عبد الله بن عمرإذا عجل به أمر في سفر جمع بين هاتين الصلاتين فسار حتى غاب الشفق فنزل فجمع بينهما
   سنن النسائى الصغرى596عبد الله بن عمرإذا عجل به السير صنع هكذا
   سنن النسائى الصغرى589عبد الله بن عمرإذا حضر أحدكم الأمر الذي يخاف فوته فليصل هذه الصلاة
   سنن النسائى الصغرى598عبد الله بن عمرإذا حضر أحدكم أمر يخشى فوته فليصل هذه الصلاة
   سنن النسائى الصغرى597عبد الله بن عمرصلى وغاب الشفق فصلى العشاء ثم أقبل علينا فقال هكذا كنا نصنع مع رسول الله إذا جد به السير
   سنن النسائى الصغرى600عبد الله بن عمرإذا جد به السير أو حزبه أمر جمع بين المغرب والعشاء
   سنن النسائى الصغرى599عبد الله بن عمرإذا جد به السير جمع بين المغرب والعشاء
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم173عبد الله بن عمر إذا عجل به السير يجمع بين المغرب والعشاء
   مسندالحميدي628عبد الله بن عمررأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا جد به السير جمع بين المغرب والعشاء
   مسندالحميدي697عبد الله بن عمرفلما غاب الشفق نزل فصلى المغرب بنا ثلاثا ثم سلم، وصلى العشاء ركعتين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 173  
´سفر میں دو نمازیں جمع کرنا`
«. . . وبه: قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا عجل به السير يجمع بين المغرب والعشاء . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جب جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر لیتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 173]

تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 703، من حديث ما لك به]
تفقه:
➊ سفر میں دو نمازیں مثلا مغرب اور عشاء یا ظہر اور عصرجمع کر کے پڑھنا جائز ہے۔
➋ مزید فوائد کے لئے دیکھئے [موطأ امام مالك ح 488، 190، 109، 108، البخاري 4414، 139، ومسلم: 1280، 705، 2281]
➌ جب بارش میں حکمران مغرب اور عشاء کی نماز میں جمع کرتے تھے تو سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ جمع کر لیتے تھے۔ ديكهئے [الموطا 145/1 ح 329 وسنده صحيح]
➍ مدینہ طیبہ کے مشہور تابعی اور فقیہ امام سالم بن عبداللہ بن عمر بن الخطاب رحمہ اللہ نے سفر میں ظہر اور عصر کی نمازوں کے جمع کرنے کے بارے میں فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ الخ [الموطا 145/1 ح 330 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 199   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 589  
´جمع بین الصلاتین کا بیان۔`
کثیر بن قاروندا کہتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے سفر میں ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم) کی نماز کے بارے میں پوچھا، نیز ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ سفر کے دوران کسی نماز کو جمع کرتے تھے؟ تو انہوں نے ذکر کیا کہ صفیہ بنت ابی عبید (جو ان کے عقد میں تھیں) نے انہیں لکھا، اور وہ اپنے ایک کھیت میں تھے کہ میرا دنیا کا آخری دن اور آخرت کا پہلا دن ہے (یعنی قریب المرگ ہوں آپ تشریف لائیے) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم سوار ہوئے، اور ان تک پہنچنے کے لیے انہوں نے بڑی تیزی دکھائی یہاں تک کہ جب ظہر کا وقت ہوا تو مؤذن نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! نماز پڑھ لیجئیے، لیکن انہوں نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی یہاں تک کہ جب دونوں نمازوں کا درمیانی وقت ہو گیا، تو سواری سے اترے اور بولے: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو (پھر) تکبیر کہو، ۲؎ چنانچہ انہوں نے نماز پڑھی، پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سورج ڈوب گیا تو ان سے مؤذن نے کہا: نماز پڑھ لیجئیے، انہوں نے کہا: جیسے ظہر اور عصر میں کیا گیا ویسے ہی کرو، پھر چل پڑے یہاں تک کہ جب ستارے گھنے ہو گئے، تو سواری سے اترے، پھر مؤذن سے کہا: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو پھر تکبیر کہو، تو انہوں نے نماز پڑھی، پھر پلٹے اور ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب تم میں سے کسی کو ایسا معاملہ پیش آ جائے جس کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ اسی طرح (جمع کر کے) نماز پڑھے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 589]
589 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث میں احتمال ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جمع تقدیم کی یا تاخیر یا پھر صوری؟ تینوں کا احتمال ہے، تاہم حدیث: 592سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جمع تاخیر کی تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 589   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 596  
´مسافر کے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک سفر میں نکلا، وہ اپنی زمین (کھیتی) کا ارادہ کر رہے تھے، اتنے میں ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: آپ کی بیوی صفیہ بنت ابو عبید سخت بیمار ہیں تو آپ جا کر ان سے مل لیجئے، چنانچہ وہ بڑی تیز رفتاری سے چلے اور ان کے ساتھ ایک قریشی تھا وہ بھی ساتھ جا رہا تھا، آفتاب غروب ہوا تو انہوں نے نماز نہیں پڑھی، اور مجھے معلوم تھا کہ وہ نماز کی بڑی محافظت کرتے ہیں، تو جب انہوں نے تاخیر کی تو میں نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے! نماز پڑھ لیجئیے، تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور چلتے رہے یہاں تک کہ جب شفق ڈوبنے لگی تو اترے، اور مغرب پڑھی، پھر عشاء کی تکبیر کہی، اس وقت شفق غائب ہو گئی تھی، انہوں نے ہمیں (عشاء کی) نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 596]
596 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بظاہر جمع صوری کا ذکر ہے جب کہ پچھلی روایات میں جمع تاخیر کا، گویا دونوں جائز ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ان روایات کو تعددِ واقعہ پر محمول کیا ہے، یعنی کبھی نمازیں جمع حقیقی کی صورت میں اور کبھی جمع صوری کی شکل میں ادا کیں، لہٰذا اس طرح روایات میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 2؍750، 751، حدیث: 1109]
نیز بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اہلیہ مدینے میں تھیں اور آپ مکہ میں تو اس طرح مدینہ پہنچنے تک تین دن لگے تھے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرة العقبٰی شرح سنن النسائي للإتیوبي: 7؍274]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 596   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 597  
´مسافر کے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے آئے، تو جب وہ رات آئی تو وہ ہمیں لے کر چلے (اور برابر چلتے رہے) یہاں تک کہ ہم نے شام کر لی، اور ہم نے گمان کیا کہ وہ نماز بھول گئے ہیں، چنانچہ ہم نے ان سے کہا: نماز پڑھ لیجئیے، تو وہ خاموش رہے اور چلتے رہے یہاں تک کہ شفق ڈوبنے کے قریب ہو گئی ۱؎ پھر وہ اترے اور انہوں نے نماز پڑھی، اور جب شفق غائب ہو گئی تو عشاء پڑھی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور کہنے لگے: جب چلنے کی جلدی ہوتی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 597]
597 ۔ اردو حاشیہ: مزید دیکھیے سنن نسائی حدیث: 589۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 597   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 600  
´جمع بین الصلاتین کے احوال و ظروف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی یا کوئی معاملہ درپیش ہوتا، تو آپ مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 600]
600 ۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت صحیح ہے، البتہ اس روایت کے الفاظ «أَوْ حَزَبَهُ أَمْرٌ» یا کوئی مسئلہ آپ کو بے چین کرتا۔ ‘ کو محققین نے شاذ قرار دیا ہے۔ محقق کتاب نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ جملہ صرف مجھے یہاں ہی ملا ہے کسی اور جگہ نہیں ملا۔ دیکھیے: [صحیح سنن النسائي للألباني، حدیث: 598]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 600   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 555  
´دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ان کی ایک بیوی ۱؎ کے حالت نزع میں ہونے کی خبر دی گئی تو انہیں چلنے کی جلدی ہوئی چنانچہ انہوں نے مغرب کو مؤخر کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی، وہ سواری سے اتر کر مغرب اور عشاء دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا، پھر لوگوں کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے تھے ۲؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 555]
اردو حاشہ:
1؎:
ان کا نام صفیہ بنت ابی عبید ہے۔

2؎:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور بہت سے علماء کا یہی قول ہے کہ دو نمازوں کے درمیان جمع اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب آدمی سفر میں چلتے رہنے کی حالت میں ہو،
اگر مسافر کہیں مقیم ہو تو اسے ہر نماز اپنے وقت ہی پر پڑھنی چاہئے،
اور احتیاط بھی اسی میں ہے،
ویسے میدان تبوک میں حالتِ قیام میں آپ ﷺ سے جمع بین الصلاتین ثابت ہے،
لیکن اسے بیانِ جواز پر محمول کیا جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 555   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1209  
´دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں ایک بار کے علاوہ کبھی بھی مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ ادا نہیں کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث «ایوب عن نافع عن ابن عمر» سے موقوفاً روایت کی جاتی ہے کہ نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک رات کے سوا کبھی بھی ان دونوں نمازوں کو جمع کرتے نہیں دیکھا، یعنی اس رات جس میں انہیں صفیہ کی وفات کی خبر دی گئی، اور مکحول کی حدیث نافع سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن عمر کو اس طرح ایک یا دو بار کرتے دیکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1209]
1209۔ اردو حاشیہ:
یہ ر وایت مرفوعاً صحیح ثابت نہیں ہے، البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل ثابت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1209   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1805  
1805. حضرت زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں مکہ کے راستے میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے ہمراہ تھا۔ اس دوران میں انھیں صفیہ بنت ابو عبید ؓ کے سخت بیمار ہونے کی اطلاع ملی تو انھوں نےاپنی سواری تیز کردی تا آنکہ غروب شفق کے بعد اپنی سواری سے اترے اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں، پھر فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر کرنے میں جلدی ہوتی تو مغرب کو مؤخر کرتے اور دونوں نمازوں (مغرب وعشاء) کو جمع کر کے پڑھتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1805]
حدیث حاشیہ:
یہ اس لیے کہ اسلام سراسر دین فطرت ہے، زندگی میں بسااوقات ایسے مواقع آجاتے ہیں کہ انسان وقت پر نماز ادا کرنے سے سراسر مجبور ہوجاتا ہے، ایسی حالت میں یہ سہولت رکھی گئی کہ دو نمازیں ملا کر پڑھ لی جائیں، اگلی نماز مثلاً عشاءکو پہلی یعنی مغرب میں ملا لیا جائے یا پھر پہلی نماز کو دیر کرکے اگلی یعنی عشاءمیں ملا لیا جائے ہر دو امر جائز ہیں مگر یہ سخت مجبوری کی حالت میں ہے ورنہ نماز کا ادا کرنا اس کے مقررہ وقت ہی پر فرض ہے۔
ارشاد باری ہے ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا﴾ اہل ایمان پر نماز کا بروقت ادا کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔
مسائل و احکام حج کے سلسلے میں آداب سفر پر روشنی ڈالنا ضروری تھا۔
جب کہ حج میں از اول تا آخر ہی سفر سے سابقہ پڑتا ہے، اگرچہ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے مگر سفر وسیلہ ظفر بھی ہے جیسا کہ حج ہے۔
اگر عنداللہ یہ قبول ہو جائے تو حاجی اس سفر سے اس حالت میں گھر واپس ہوتا ہے کہ گویا وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔
یہ اس سفر ہی کی برکت ہے کہ مغفرت الٰہی کا عظیم خزانہ نصیب ہوا بہرحال آداب سفر میں سب سے اولین ادب فرض نماز کی محافظت ہے۔
پس ہرمسلمان کی یہ عین سعادت مندی ہے کہ وہ سفر وحضر میں ہر جگہ نماز کو اس کے آداب و شرائط کے ساتھ بجا لائے، ساتھ ہی اسلام نے اس سلسلہ میں بہت سی آسانیاں بھی دیں تاکہ سفر وحضر میں ہر جگہ یہ فر ض آسانی سے ادا کیا جاسکے، مثلاً ہر نماز کے لیے وضو کرنا فرض ہے مگر پانی نہ ہو تو مٹی سے تیمم کیا جاسکتا ہے، مسلمانوں کے لیے ساری زمین کو قابل عبادت قرار دیا گیا کہ جہاں بھی نماز کا وقت آجائے وہ اسی جگہ نماز ادا کرسکیں حتی کہ دریاؤں میں، پہاڑوں کی چوٹیں پر، لق و دق بیابانوں میں، زمین کے چپہ چپہ پر نماز ادا کی جاسکتی ہے اور یہ بھی آسانی دی گئی جس پر مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ نے باب میں اشارہ فرمایا ہے کہ مسافر خواہ وہ حج ہی کے لیے کیوں نہ سفر کر رہا ہو دو دو نمازوں کو بیک وقت ملا کر ادا کرسکتا ہے جیسا کہ حدیث باب میں مذکور ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنی اہلیہ محترمہ کی بیماری کی خبر سنی تو سواری کو تیز کر دیا تاکہ جلد سے جلد گھر پہنچ کر مریضہ کی تیمارداری کرسکیں، نیز نماز مغرب اور عشاءکو جمع کرکے ادا کر لیا، ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ رسول کریم ﷺ بھی سفر میں نمازوں کو اس طرح ملا کر ادا فرما لیا کرتے تھے۔
ایک ایسے دین میں جو تاقیامت عالمگیری شان کے ساتھ باقی رہنے کا دعوایدار ہو ایسی جملہ آسانیوں کا ہونا ضروری تھا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ محتاج تعارف نہیں ہیں۔
ان کی جلالت شان کے لیے یہی کافی ہے کہ فاروق اعظم عمر بن خطاب ؓ کے صاحب زادے ہیں، آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت صفیہ بنت ابوعبید بنوثقیف سے تعلق رکھتی ہیں، انہوں نے آنحضرت ﷺ کو پایا اور آپ کے ارشاد طیبات سننے کا موقعہ ان کو بارہا ملا۔
آپ کی مرویات حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ کے توسط سے ہیں، اور حضرت نافع جو حضرت عبداللہ بن عمر کے آزاد کردہ غلام ہیں، وہ ان سے روایت کرتے ہیں رضي اللہ عنهم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1805   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1805  
1805. حضرت زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں مکہ کے راستے میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے ہمراہ تھا۔ اس دوران میں انھیں صفیہ بنت ابو عبید ؓ کے سخت بیمار ہونے کی اطلاع ملی تو انھوں نےاپنی سواری تیز کردی تا آنکہ غروب شفق کے بعد اپنی سواری سے اترے اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں، پھر فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر کرنے میں جلدی ہوتی تو مغرب کو مؤخر کرتے اور دونوں نمازوں (مغرب وعشاء) کو جمع کر کے پڑھتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1805]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ ضرورت کے پیش نظر تیز چلنے کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت ابن عمر ؓ کو جب اطلاع ملی کہ ان کی اہلیہ سخت بیمار ہیں تو انہوں نے اپنی سواری کو تیز کر دیا۔
ابوداود کی روایت میں ہے کہ انہوں نے تین دنوں کا سفر ایک دن اور ایک رات میں طے کیا۔
(سنن أبي داود، صلاةالسفر، حدیث: 1212)
ایسے حالات میں تیز چلنا جائز ہے۔
الغرض اگر ضرورت تیز چلنے کی ہو اور سواری میں اس کی طاقت ہو تو تیز رفتاری جائز ہے۔
اگر کوئی مجبوری نہ ہو اور جانور بھی اس کا متحمل نہ ہو تو تیز رفتاری ممنوع ہے۔
واللہ أعلم۔
امام بخاری ؒ کا مقصد دو نمازوں کو جمع کرنے کا جواز قطعا نہیں جیسا کہ بعض شراح بخاری نے اس مقام پر بیان کیا ہے، بلکہ وہ آداب سفر سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1805   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.