الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: مساقات کے بیان میں
The Book of Watering
5. بَابُ إِثْمِ مَنْ مَنَعَ ابْنَ السَّبِيلِ مِنَ الْمَاءِ:
5. باب: اس شخص کا گناہ جس نے کسی مسافر کو پانی سے روک دیا۔
(5) Chapter. The sin of him who withholds water from wayfarer and travellers.
حدیث نمبر: 2358
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الواحد بن زياد، عن الاعمش، قال: سمعت ابا صالح، يقول: سمعت ابا هريرة رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ثلاثة لا ينظر الله إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب اليم: رجل كان له فضل ماء بالطريق فمنعه من ابن السبيل، ورجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن اعطاه منها رضي وإن لم يعطه منها سخط، ورجل اقام سلعته بعد العصر". فقال: والله الذي لا إله غيره، لقد اعطيت بها كذا وكذا، فصدقه رجل، ثم قرا هذه الآية إن الذين يشترون بعهد الله وايمانهم ثمنا قليلا سورة آل عمران آية 77.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ كَانَ لَهُ فَضْلُ مَاءٍ بِالطَّرِيقِ فَمَنَعَهُ مِنَ ابْنِ السَّبِيلِ، وَرَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا لَا يُبَايِعُهُ إِلَّا لِدُنْيَا فَإِنْ أَعْطَاهُ مِنْهَا رَضِيَ وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ مِنْهَا سَخِطَ، وَرَجُلٌ أَقَامَ سِلْعَتَهُ بَعْدَ الْعَصْرِ". فَقَالَ: وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ، لَقَدْ أَعْطَيْتُ بِهَا كَذَا وَكَذَا، فَصَدَّقَهُ رَجُلٌ، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا سورة آل عمران آية 77.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا کہ میں نے ابوصالح سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین طرح کے لوگ وہ ہوں گے جن کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر بھی نہیں اٹھائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور اس نے کسی مسافر کو اس کے استعمال سے روک دیا۔ دوسرا وہ شخص جو کسی حاکم سے بیعت صرف دنیا کے لیے کرے کہ اگر وہ حاکم اسے کچھ دے تو وہ راضی رہے ورنہ خفا ہو جائے۔ تیسرے وہ شخص جو اپنا (بیچنے کا) سامان عصر کے بعد لے کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، مجھے اس سامان کی قیمت اتنی اتنی مل رہی تھی، اس پر ایک شخص نے اسے سچ سمجھا (اور اس کی بتائی ہوئی قیمت پر اس سامان کو خرید لیا) پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا‏» جو لوگ اللہ کو درمیان میں دے کر اور جھوٹی قسمیں کھا کر دنیا کا تھوڑا سا مال مول لیتے ہیں آخر تک۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "There are three persons whom Allah will not look at on the Day of Resurrection, nor will he purify them and theirs shall be a severe punishment. They are: -1. A man possessed superfluous water, on a way and he withheld it from travelers. -2. A man who gave a pledge of allegiance to a ruler and he gave it only for worldly benefits. If the ruler gives him something he gets satisfied, and if the ruler withholds something from him, he gets dissatisfied. -3. And man displayed his goods for sale after the `Asr prayer and he said, 'By Allah, except Whom None has the right to be worshipped, I have been given so much for my goods,' and somebody believes him (and buys them). The Prophet then recited: "Verily! Those who purchase a little gain at the cost of Allah's Covenant and their oaths." (3.77)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 40, Number 547


   صحيح البخاري2672عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بطريق يمنع منه ابن السبيل رجل بايع رجلا لا يبايعه إلا للدنيا فإن أعطاه ما يريد وفى له وإلا لم يف له رجل ساوم رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لقد أعطى بها كذا وكذا فأخذها
   صحيح البخاري2358عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا ينظر الله إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل كان له فضل ماء بالطريق فمنعه من ابن السبيل رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن أعطاه منها رضي وإن لم يعطه منها سخط رجل أقام سلعته بعد العصر
   صحيح البخاري7212عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالطريق يمنع منه ابن السبيل رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنياه إن أعطاه ما يريد وفى له وإلا لم يف له رجل يبايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لقد أعطي بها كذا وكذا فصدقه فأ
   صحيح مسلم297عبد الرحمن بن صخرثلاث لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل رجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف له بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن أعطاه منها و
   جامع الترمذي1595عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل بايع إماما فإن أعطاه وفى له وإن لم يعطه لم يف له
   سنن أبي داود3474عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة رجل منع ابن السبيل فضل ماء عنده رجل حلف على سلعة بعد العصر يعني كاذبا رجل بايع إماما فإن أعطاه وفى له وإن لم يعطه لم يف له
   سنن النسائى الصغرى4467عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالطريق يمنع ابن السبيل منه رجل بايع إماما لدنيا إن أعطاه ما يريد وفى له وإن لم يعطه لم يف له رجل ساوم رجلا على سلعة بعد العصر فحلف له بالله لقد أعطي بها
   سنن ابن ماجه2207عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه ابن السبيل رجل بايع رجلا سلعة بعد العصر فحلف بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن أعطاه منها
   سنن ابن ماجه2870عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل رجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن أعطاه منها وفى
   بلوغ المرام1216عبد الرحمن بن صخر ثلاث لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم : رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل ورجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك ورجل بايع إماما لا يبايعه إلا للدنيا فإن أعطاه منها وفى وإن لم يعطه منها لم يف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2358  
´اس شخص کا گناہ جس نے کسی مسافر کو پانی سے روک دیا`
«. . . سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ كَانَ لَهُ فَضْلُ مَاءٍ بِالطَّرِيقِ فَمَنَعَهُ مِنَ ابْنِ السَّبِيلِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین طرح کے لوگ وہ ہوں گے جن کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر بھی نہیں اٹھائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور اس نے کسی مسافر کو اس کے استعمال سے روک دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ: 2358]

لغوی توضیح:
«فَضْلُ مَاءٍ» زائد، بچا ہوا پانی۔
«سِلعْتَهُ» اپنا سامان، سودا، سامان تجارت۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 68   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2207  
´خرید و فروخت میں حلف اٹھانے اور قسمیں کھانے کی کراہت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں سے اس قدر ناراض ہو گا کہ نہ تو ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ہی انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا: ایک وہ شخص جس کے پاس چٹیل میدان میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ اسے مسافر کو نہ دے، دوسرے وہ شخص جو اپنا مال نماز عصر کے بعد بیچے اور اللہ کی قسم کھائے کہ اسے اس نے اتنے اتنے میں خریدا ہے، اور خریدار اسے سچا جانے حالانکہ وہ اس کے برعکس تھا، تیسرے وہ شخص جس نے کسی امام سے بیعت کی، اور اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2207]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کلام نہ کرنے اور نظر نہ کرنے سے مراد رحمت سے کلام کرنا اور رحمت کی نظر کرنا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ ہر نیک و بد سے حساب تو ضرور لے گا، اس کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ بھی نہیں ہو سکتی۔
ارشاد نبویﷺ ہے:
تم میں سے ہر شخص سے اس کا رب (براہ راست)
ہم کلام ہوگا، اس کے اور رب کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔
۔
۔ (صحيح البخاري، التوحيد، باب كلام الرب تعاليٰ يوم القيامة مع الأنبياء وغيرهم، حديث: 7512، وصحيح مسلم، الزكاة، باب الحث علي الصدقة ولو بشق تمرة۔
۔
۔
، حديث: 1016)


(2)
  پاک نہ کرنے سے مراد گناہ معاف نہ کرنا ہے۔

(3)
پیاسے کو پانی بلانا بڑی نیکی ہے، خاص طور پر جہاں پانی آسانی سے نہ ملتا ہو، وہاں دوسرے کو پانی پلا دینا بہت بڑے ثواب کا باعث ہے۔

(4)
  صحرا میں پانی کا چشمہ اللہ کا فضل ہے، کسی کا اس پر قبضہ کرکے بیٹھ رہنا اور ضرورت مندوں کو پانی لینے سے روکنا انتہائی کم ظرفی ہے۔

(5)
جھوٹی قسم کھانا گناہ ہے۔
عصر کے بعد جھوٹی قسم کھانا زیادہ بڑا گناہ ہے۔
اور پھر انتا بڑا گناہ چند پیسوں کے متوقع مفاد کے لیے کیا گیا ہے کیونکہ یہ بات یقینی نہیں کہ گاہک اس کی جھوٹی قسم سے متاثر ہو کر اس سے سودا خرید ہی لے گا۔
ایسی صورت میں جھوٹی قسم انتہائی بری حرکت ہے، اس لیے اس کی سزا بھی شدید ہے۔

(6)
مسلمان خلیفہ کی بیعت اسلامی سلطنت کے تحفظ اور ترقی کے لیے کی جاتی ہے اور اس میں تمام مسلمانوں کا دینی اور دنیوی فائدہ ہے۔
ایسے عظیم عمل میں دنیا کو سامنے رکھنا اور دنیا کا مال نہ ملنے پر بیعت توڑ کر بغاوت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس شخص کو آخرت کی کوئی پروا نہیں اور دنیا کےذاتی مفاد کے کے لیے وہ مسلمانوں کا اجتماعی مفاد خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
ایسی حرکت کی برائی محتاج وضاحت نہیں۔

(7)
کفر و شرک سے کم تر کبیرہ گناہ بھی ایسے شدید ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے جہنم کا طویل اور شدید عذاب برداشت کرنا پڑے، تاہم دائمی عذاب صرف کافر اور شرک اکبر کے مرتکب مشرک ہی کے لیے ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2207   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1216  
´دعویٰ اور دلائل کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں کرے گا اور نہ ان کی جانب نظر (رحمت) کرے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا بلکہ ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا پہلا وہ آدمی جو ایک مسافر کو جنگل میں بچے ہوئے پانی سے روکتا ہے اور دوسرا وہ آدمی جو عصر کے بعد کسی چیز کا دوسرے سے سودا کرتا ہے اور اللہ کی قسم کھاتا ہے کہ اس نے اس چیز کو اتنے اتنے میں خریدا ہے حالانکہ حقیقت ایسے نہ تھی اور وہ خریدار اس کو سچ مان گیا اور تیسرا وہ شخص جس نے دنیاوی غرض کے لئے کسی بادشاہ کی بیعت کی اگر بادشاہ اس کو کچھ دیتا ہے تو وہ وفا کرتا ہے اور اگر وہ اس کو کچھ نہیں دیتا (یعنی دنیا کا مال) تو وہ وفا نہیں کرتا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1216»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب من بايع رجلاً لا يبايعه إلا للدنيا، حديث:7212، ومسلم، الإيمان، باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار والمن بالعطية...، حديث:108.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے زائد از ضرورت پانی کو روک لینا اور ضرورت مندوں کو لینے نہ دینا‘ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھا کر مال فروخت کرنا اور دنیوی غرض کے لیے حاکم وقت کی تائید کرنا‘ رب کائنات کی سخت ناراضی کے موجب اعمال ہیں اور رحمت الٰہی سے محرومی کا باعث ہیں۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کی سزا جس طرح کسی افضل جگہ کی وجہ سے دوچند ہو جاتی ہے اسی طرح افضل وقت کے لحاظ سے بھی اس کی سزا میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1216   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1595  
´بیعت توڑنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات نہیں کرے گا نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے: ایک وہ آدمی جس نے کسی امام سے بیعت کی پھر اگر امام نے اسے (اس کی مرضی کے مطابق) دیا تو اس نے بیعت پوری کی اور اگر نہیں دیا تو بیعت پوری نہیں کی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1595]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
باقی دو آدمی جن کا اس حدیث میں ذکر نہیں ہے وہ یہ ہیں:
ایک وہ آدمی جس کے پاس لمبے چوڑے صحراء میں اس کی ضرورتوں سے زائد پانی ہو اور مسافر کو پانی لینے سے منع کرے،
دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی کے ہاتھ سامان بیچا اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں لی ہے،
پھر خریدار نے اس کی بات کا یقین کر لیا حالانکہ اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1595   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3474  
´چارہ روکنے کے لیے پانی کو روکنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا: ایک تو وہ شخص جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ مسافر کو دینے سے انکار کر دے، دوسرا وہ شخص جو اپنا سامان بیچنے کے لیے عصر بعد جھوٹی قسم کھائے، تیسرا وہ شخص جو کسی امام (و سربراہ) سے (وفاداری کی) بیعت کرے پھر اگر امام اسے (دنیاوی مال و جاہ) سے نوازے تو اس کا وفادار رہے، اور اگر اسے کچھ نہ دے تو وہ بھی عہد کی پاسداری نہ کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3474]
فوائد ومسائل:

بقیہ پانی کو مسافروں سے روک لینا انتہائی شقاوت اور بے مروتی ہے۔


عصر سے مغرب تک کا وقت قربت الٰہی کا محبوب وقت ہے۔
اس وقت میں جھوٹی قسم کی جوکہ کبیرہ گنا ہے۔
برائی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔


امام المسلمین سے حق وعدل کے امور میں ہرحال میں وفا کرنا واجب ہے۔
خواہ اس کی طرف سے کچھ ملےنہ ملے۔
موجودہ دور میں سیاسی غیر سیاسی اور بعض مذہبی لوگوں میں بھی وابستگیاں بدلنے کا رواج عام ہوگیا ہے، اب سیاسی وابستگی کی بنیاد نہ اس بات پر ہے کہ مقصد اور نظریہ ایک ہے نہ اس بات پر کہ پختہ عہد معاہدے ہوچکے ہیں۔
جن کو چھوڑنا برائی ہے۔
اب صرف مفادات کو پیش نظر رکھ کر لوگ خود کومنڈی میں پیش کردیتے ہیں۔


صحیحین کی روایت ہے کہ جھوٹی قسم سے مال تو بک جاتا ہے۔
مگر برکت اٹھ جاتی ہے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2087 و صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 1606)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3474   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2358  
2358. ہمارے معاشرے میں فریقین کے جھگڑے کا فیصلہ پنچائیت میں اکثر وبیشتر اس طرح کیا جانا ہے کہ کوئی تیسرا فرد مدعا علیہ کی طرف سے قسم دیتاہے۔ یہ طریقہ اس حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے سراسر غلط ہے۔ قسم مدعا علیہ ہی دے گا اور مدعی کو اس کی قسم کااعتبار کرنا چاہیے۔ اگر وہ جھوٹی قسم اٹھاتا ہے تو اللہ کے ہاں سزا پائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2358]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں جن تین ملعون آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
اول فالتو پانے سے روکنے والا، خاص طور پر پیاسے مسافر کو محروم رکھنے والا۔
وہ انسانیت کا مجرم ہے، اخلاق کا باغی ہے، ہمدردی کا دشمن ہے، اس کا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہے۔
ایک پیاسے مسافر کو دیکھ کر دل نرم ہونا چاہئے۔
اس کی جان خطرے میں ہے۔
اس کی بقا کے لیے اسے پانی پلانی چاہئے نہ کہ اسے پیاسا لوٹا دیا جائے۔
دوسرا وہ انسان جو اسلامی تنظیم میں محض اپنے ذاتی مفاد کے لیے گھس بیٹھا ہے اور وہ خلاف مفاد ذرا سی بات بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
یہی وہ بدترین انسان ہے جو ملی اتحاد کا دشمن قرار دیا جاسکتا ہے اور ایسے غدار کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
اس زمانہ میں اسلامی مدارس و دیگر تنظیموں میں بکثرت ایسے ہی لوگ برسراقتدار ہیں۔
جو محض ذاتی مفاد کے لیے ان سے چمٹے ہوئے ہیں۔
اگر کسی وقت ان کے وقار پر ذرا بھی چوٹ پڑی تو وہ اسی مدرسہ کے، اسی تنظیم کے انتہائی دشمن بن کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
اگرچہ حدیث میں حاکم اسلام سے بیعت کرنے کا ذکر ہے مگر ہر اسلامی تنظیم کو اسی پر سمجھا جاسکتا ہے۔
تاریخ اسلام میں کتنے ہی ایسے غدار ملتے ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی نقصان کا خیال کرکے اسلامی حکومت کو سازشوں کی آماجگاہ بنا کر آخر میں اس کی تہہ و بالا کر ا دیا۔
تیسرا وہ تاجر ہے جو مال نکالنے کے لیے جھوٹ فریب کا ہر ہتھیار استعمال کرتا ہے، اور جھوٹ بول بول کر خوب بڑھا چڑھا کر اپنا مال نکالتا ہے۔
الغرض بغور یکھا جاے تو یہ تینوں مجرم اتنہائی مذمت کے قابل ہیں اور حدیث ہذا میں جو کچھ ان کے متعلق بتلایا گیا ہے وہ اپنی جگہ پر بالکل صدق اور صواب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2358   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2358  
2358. ہمارے معاشرے میں فریقین کے جھگڑے کا فیصلہ پنچائیت میں اکثر وبیشتر اس طرح کیا جانا ہے کہ کوئی تیسرا فرد مدعا علیہ کی طرف سے قسم دیتاہے۔ یہ طریقہ اس حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے سراسر غلط ہے۔ قسم مدعا علیہ ہی دے گا اور مدعی کو اس کی قسم کااعتبار کرنا چاہیے۔ اگر وہ جھوٹی قسم اٹھاتا ہے تو اللہ کے ہاں سزا پائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2358]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں عصر کے بعد قسم اٹھانے کا ذکر ہے کیونکہ اس وقت عموماً لوگ تجارت میں زیادہ مصروف ہوتے ہیں، بصورت دیگر یہ حکم عام ہے۔
ہر وقت جھوٹی قسم اٹھانے پر مذکورہ وعید ہے۔
(2)
فالتو پانی سے پیاسے مسافروں کو محروم کرنے والا انسانیت کا دشمن اور اخلاق کا باغی ہے۔
ایسے انسان کا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔
ایک پیاسے مسافر کو دیکھ کر دل نرم ہونا چاہیے کیونکہ اس کی جان خطرے میں ہے، اسے پانی پلانا چاہیے نہ کہ اسے محروم کر کے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا کر دیا جائے کیونکہ چلتے راستہ میں کسی اور ذریعے سے پانی ملنا ممکن نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ اگر کسی کے پاس بقدر ضرورت پانی ہے تو وہ مسافر کی نسبت اس کا زیادہ حق دار ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2358   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.