(مرفوع) حدثنا مسدد، عن يحيى، عن سفيان، قال: حدثني سلمة بن كهيل، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم يتقاضاه بعيرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اعطوه، فقالوا: ما نجد إلا سنا افضل من سنه، فقال الرجل: اوفيتني اوفاك الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اعطوه، فإن من خيار الناس احسنهم قضاء".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَقَاضَاهُ بَعِيرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعْطُوهُ، فَقَالُوا: مَا نَجِدُ إِلَّا سِنًّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: أَوْفَيْتَنِي أَوْفَاكَ اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْطُوهُ، فَإِنَّ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ أَحْسَنَهُمْ قَضَاءً".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے کہ مجھ سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا قرض کا اونٹ مانگنے آیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اسے اس کا اونٹ دے دو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ قرض خواہ کے اونٹ سے اچھی عمر کا ہی اونٹ مل رہا ہے۔ اس پر اس شخص (قرض خواہ) نے کہا مجھے تم نے میرا پورا حق دیا۔ تمہیں اللہ تمہارا حق پورا پورا دے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے وہی اونٹ دے دو کیونکہ بہترین شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ بہتر طریقہ پر اپنا قرض ادا کرتا ہو۔
Narrated Abu Huraira: A man came to the Prophet and demanded a camel (the Prophet owed him). Allah's Apostle told his companions to give him (a camel). They said, "We do not find except an older camel (than what he demands). (The Prophet ordered them to give him that camel). The man said, "You have paid me in full and may Allah also pay you in full." Allah's Apostle said, "Give him, for the best amongst the people is he who repays his debts in the most handsome manner."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 577
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2392
2392. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اپنا اونٹ واپس لینے کا تقاضا کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے اونٹ دو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: ہمیں تو اس کے اونٹ سے بڑی عمر کا بہتر اونٹ ملتا ہے۔ تب وہ شخص کہنے لگا: آپ نے میرا پورا حق ادا کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا پورا پورا بدلہ دے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے وہی اونٹ دے دو کیونکہ اچھے لوگ وہی ہیں جو اچھی طرح قرض ادا کرتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2392]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرض کی ادائیگی کے وقت اگر کوئی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصل سے زیادہ واپس کر دے تو یہ اس کی سخاوت اور فیاضی ہے۔ ایسا کرنا منع نہیں، البتہ چیز کی پابندی قبول یا عائد کرنا کہ اس قدر دے رہا ہوں اور اتنا وصول کروں گا، یہ صریح سود ہے۔ شریعت نے اس سے منع کیا ہے۔ دراصل بعض حضرات کا موقف ہے کہ قرض کی ادائیگی کے وقت وصف میں عمدہ دینا تو جائز ہے لیکن مقدار میں زیادہ دینا ممنوع ہے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان میں تنبیہ فرمائی کہ دونوں طرح جائز ہے بشرطیکہ عقد کرتے وقت اضافے کی شرط نہ ہو یا اُن کے ہاں طے شدہ دستور نہ ہو۔ اگر کوئی اپنی طرف سے عرف اور شرط کے بغیر زیادہ دیتا ہے تو یہ احسان ہے سود نہیں جیسا کہ مقروض آدمی اگر قرض خواہ کی کوئی ضرورت پوری کر دے تو ایسا کرنا سود نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2392