الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
The Book of Loans, Freezing of Property, and Bankruptcy
19. بَابُ مَا يُنْهَى عَنْ إِضَاعَةِ الْمَالِ:
19. باب: مال کو تباہ کرنا یعنی بے جا اسراف منع ہے۔
(19) Chapter. What is forbidden as regards wasting money.
حدیث نمبر: Q2407
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقول الله تعالى: والله لا يحب الفساد سورة البقرة آية 205، و لا يصلح عمل المفسدين سورة يونس آية 81، وقال في قوله: اصلاتك تامرك ان نترك ما يعبد آباؤنا او ان نفعل في اموالنا ما نشاء سورة هود آية 87، وقال: ولا تؤتوا السفهاء اموالكم سورة النساء آية 5، والحجر في ذلك، وما ينهى عن الخداع.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَاللَّهُ لا يُحِبُّ الْفَسَادَ سورة البقرة آية 205، وَ لا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ سورة يونس آية 81، وَقَالَ فِي قَوْلِهِ: أَصَلاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ سورة هود آية 87، وَقَالَ: وَلا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ سورة النساء آية 5، وَالْحَجْرِ فِي ذَلِكَ، وَمَا يُنْهَى عَنِ الْخِدَاعِ.
urdu-sanad اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا کہ «والله لا يحب الفساد‏» اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ اور (اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ یونس میں کہ) «لا يصلح عمل المفسدين‏» اور اللہ فسادیوں کا منصوبہ چلنے نہیں دیتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ ہود میں) فرمایا ہے «أصلواتك تأمرك أن نترك ما يعبد آباؤنا أو أن نفعل في أموالنا ما نشاء» ‏‏‏‏ کیا تمہاری نماز تمہیں یہ بتاتی ہے کہ جسے ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ہم ان بتوں کو چھوڑ دیں۔ یا اپنے مال میں اپنی طبیعت کے مطابق تصرف کرنا چھوڑ دیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) ارشاد فرمایا «ولا تؤتوا السفهاء أموالكم‏» اپنا روپیہ بے وقوفوں کے ہاتھ میں مت دو اور بے وقوفی کی حالت میں حجر کرنا اور دھوکہ سے منع کرنا۔

حدیث نمبر: 2407
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن عبد الله بن دينار، قال: سمعت ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم:" إني اخدع في البيوع، فقال: إذا بايعت فقل لا خلابة"، فكان الرجل يقوله.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي أُخْدَعُ فِي الْبُيُوعِ، فَقَالَ: إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ لَا خِلَابَةَ"، فَكَانَ الرَّجُلُ يَقُولُهُ.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے عرض کیا کہ خرید و فروخت میں مجھے دھوکا دے دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب خرید و فروخت کیا کرو، تو کہہ دیا کر کہ کوئی دھوکا نہ ہو۔ چنانچہ پھر وہ شخص اسی طرح کہا کرتا تھا۔

Narrated Ibn `Umar: A man came to the Prophet and said, "I am often betrayed in bargaining." The Prophet advised him, "When you buy something, say (to the seller), 'No deception." The man used to say so afterwards.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 590


   صحيح البخاري2407عبد الله بن عمرإذا بايعت فقل لا خلابة
   صحيح البخاري2414عبد الله بن عمرإذا بايعت فقل لا خلابة
   صحيح البخاري6964عبد الله بن عمرإذا بايعت فقل لا خلابة
   صحيح البخاري2117عبد الله بن عمرإذا بايعت فقل لا خلابة
   صحيح مسلم3860عبد الله بن عمرمن بايعت فقل لا خلابة
   سنن أبي داود3500عبد الله بن عمرإذا بايعت فقل لا خلابة فكان الرجل إذا بايع يقول لا خلابة
   سنن النسائى الصغرى4489عبد الله بن عمرإذا بعت فقل لا خلابة فكان الرجل إذا باع يقول لا خلابة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم509عبد الله بن عمرإذا بايعت فقل: لا خلابة
   بلوغ المرام694عبد الله بن عمر إذا بايعت فقل لا خلابة
   مسندالحميدي677عبد الله بن عمر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 509  
´خرید و فروخت کے وقت دھوکا ہونے کی صورت میں کیا کہے`
«. . . 288- وبه: أن رجلا ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم أنه يخدع فى البيوع، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا بايعت فقل: لا خلابة فكان الرجل إذا بايع يقول: لا خلابة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کا ذکر کیا گیا جس کے ساتھ خرید و فروخت میں دھوکا کیا جاتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: جب تم کوئی چیز بیچو تو کہو، کوئی دھوکا نہیں ہے، پھر وہ آدمی جب کوئی چیز بیچتا تو کہتا: کوئی دھوکا نہیں ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 509]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2117، 6964، من حديث مالك، ومسلم 1533، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه:
➊ سودا کرتے وقت اگر کوئی کہہ دے کہ کوئی دھوکا نہیں ہے اور بعد میں ثابت ہوجائے کہ اسے دھوکا دیا گیا ہے تو وہ سودا واپس کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
➋ جس شخص کا اس حدیث میں ذکر ہے وہ سیدنا منقذ بن حبان رضی اللہ عنہ تھے۔
➌ اسلام ہر شخص کے لئے خیر خواہی کا نام ہے۔
➍ فریقین کی مرضی سے خرید و فروخت حلال ہے بشرطیکہ کتاب وسنت کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو۔
➎ مشہور تابعی سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: جب تم ایسے علاقے میں جاؤ جہاں پورا پورا ماپ تول ہوتا ہو تو اس علاقے میں لمبا عرصہ قیام کرو اور اگر تم ایسے علاقے میں جاؤ جہاں ماپ تول پورا پورا نہیں ہوتا تو وہاں زیادہ عرصہ قیام نہ کرو۔ [الموطأ 2/685 ح1430، وسنده صحيح]
➏ امام محمد بن المنکدر (تابعی) رحمہ اللہ فرماتے تھے: اللہ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو بیچتے وقت نرمی کرتا ہے، خریدتے وقت نرمی کرتا ہے، قرض ادا کرتے وقت نرمی کرتا ہے اور قرض وصول کرتے وقت بھی نرمی کرتا ہے۔ [الموطأ 2/685 ح1431، وسنده صحيح]
➐ امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے پوچھا: گیا: ایک شخص (کسی سے) ایک جانور کرائے پر لیتا ہے اور پھر اس سے زیادہ کرائے پر کسی کو دے دیتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [الموطأ 2/686 ح432 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 288   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 694  
´بیع میں اختیار کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے ذکر کیا کہ اسے بیع میں عام طور پر دھوکہ دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سودا کرتے وقت کہہ دیا کرو کہ کوئی فریب و دھوکہ نہیں ہو گا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 694»
تخریج:
«  أخرجه البخاري، البيوع، باب ما يكره من الخداع في البيع، حديث:2117، ومسلم، البيوع، باب من يخدع في البيع، حديث:1533.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غبن فاحش کے معلوم ہونے پر خیار ثابت ہے۔
یہ رائے امام احمد اور امام مالک رحمہما اللہ کی ہے‘ مگر جمہور علماء اس کے قائل نہیں ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ حبان بن منقذ کو بالخصوص یہ اجازت اس لیے دی کہ ان کی عقل اور زبان میں کمزوری واقع ہوگئی تھی جیسا کہ مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔
(مسند أحمد:۳ /۲۱۷) صحیح بات یہ ہے کہ لاَ خِلاَبَۃَ کی صدا لگانا بھی اپنی جگہ ایک طرح کی شرط ہے جس سے ثابت ہورہا ہے کہ دھوکے اور فریب کی صورت میں مشتری کے لیے خیار ثابت ہے اور خیار الشرط بھی اسی کو کہتے ہیں۔
2.آپ نے جو الفاظ ان کو تلقین فرمائے ان الفاظ کی برکت سے انھیں بعد میں کبھی دھوکا نہیں ہوتا تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 694   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3500  
´خریدار اگر یہ کہہ دے کہ بیع میں دھوکا دھڑی نہیں چلے گی تو اس کو بیع کے فسخ کا اختیار ہو گا۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ خرید و فروخت میں اسے دھوکا دے دیا جاتا ہے (تو وہ کیا کرے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جب تم خرید و فروخت کرو، تو کہہ دیا کرو «لا خلابة» (دھوکا دھڑی کا اعتبار نہ ہو گا) تو وہ آدمی جب کوئی چیز بیچتا تو «لا خلابة» کہہ دیتا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3500]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
اس شرط اور صراحت کے ساتھ اگر بعد میں واضح ہو کہ دوسرے فریق نے کوئی دھوکا دیا ہے۔
تو اسے بیع فسخ کرنے کا حق حاصل رہے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3500   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2407  
2407. حضرت عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میں لین دین میں بہت دھوکا کھا جاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: جب تم کسی سے معاملہ کرو تو کہہ دیا کرو کہ کوئی دھوکا نہیں ہوگا۔ چنانچہ وہ شخص معاملہ کرتے وقت یہ (الفاظ)کہہ دیتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2407]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے اور مجھ کو تین دن تک اختیارہے۔
یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے۔
یہاں باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مال کو تباہ کرنا برا جانا۔
ا س لیے اس کو یہ حکم دیا کہ بیع کے وقت یوں کہا کرو، دھوکا فریب کا کام نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2407   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2407  
2407. حضرت عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میں لین دین میں بہت دھوکا کھا جاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: جب تم کسی سے معاملہ کرو تو کہہ دیا کرو کہ کوئی دھوکا نہیں ہوگا۔ چنانچہ وہ شخص معاملہ کرتے وقت یہ (الفاظ)کہہ دیتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2407]
حدیث حاشیہ:
(1)
"لا خلابة" کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی دھوکا ثابت ہوا تو مال واپس کر دیا جائے گا۔
(2)
عنوان سے اس حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال ضائع کرنے اور اسے تباہ کرنے کو برا خیال فرمایا، اس لیے اسے حکم دیا کہ وہ خریدوفروخت کے وقت کہہ دیا کرے کہ اس معاملے میں دھوکا فریب نہیں ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2407   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.