الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
18. بَابُ مَنْ قَالَ: إِنَّ الإِيمَانَ هُوَ الْعَمَلُ:
18. باب: اس شخص کے قول کی تصدیق میں جس نے کہا ہے کہ ایمان عمل (کا نام) ہے۔
(18) Chapter. Whoever says that faith is action (good deeds).
حدیث نمبر: Q26
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
لقول الله تعالى: {وتلك الجنة التي اورثتموها بما كنتم تعملون}. وقال عدة من اهل العلم في قوله تعالى: {فوربك لنسالنهم اجمعين عما كانوا يعملون} عن قول لا إله إلا الله. وقال: {لمثل هذا فليعمل العاملون}.لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ}. وَقَالَ عِدَّةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ} عَنْ قَوْلِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ. وَقَالَ: {لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ}.
‏‏‏‏ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «وتلك الجنة التي أورثتموها بما كنتم تعملون‏» اور یہ جنت ہے اپنے عمل کے بدلے میں تم جس کے مالک ہوئے ہو۔ اور بہت سے اہل علم حضرات ارشاد باری تعالیٰ «فوربك لنسألنهم أجمعين عما كانوا يعملون‏» الخ کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہاں عمل سے مراد «لا إله إلا الله» کہنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عمل کرنے والوں کو اسی جیسا عمل کرنا چاہئے۔


Kiunki Allah Ta’ala ka irshaad hai «وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ» “Aur yeh jannat hai apne amal ke badle mein tum jis ke Maalik huwe ho.” Aur bahut se ahl-e-ilm Hazraat irshaad-e-Baari Ta’ala «فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ» (Aakhir tak) ki tafseer mein kehte hain ke yahan amal se muraad «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ» kehna hai aur Allah Ta’ala ne farmaaya hai ke “Amal karne waalon ko isi jaisa amal karna chahiye.”

حدیث نمبر: 26
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس وموسى بن إسماعيل، قالا: حدثنا إبراهيم بن سعد، قال: حدثنا ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل، اي العمل افضل؟ فقال: إيمان بالله ورسوله، قيل: ثم ماذا؟ قال: الجهاد في سبيل الله، قيل: ثم ماذا؟ قال: حج مبرور".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ فَقَالَ: إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: حَجٌّ مَبْرُورٌ".
ہم سے احمد بن یونس اور موسیٰ بن اسماعیل دونوں نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، وہ سعید بن المسیب سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا کہا گیا، اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کہا گیا، پھر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حج مبرور۔


Hum se Ahmad bin Younus aur Musa bin Ismail dono ne bayan kiya, unhon ne kaha hum se Ibrahim bin Sa’d ne bayan kiya, unhon ne kaha hum se Ibn-e-Shihaab ne bayan kiya, woh Sa’eed bin Al-Musayyab se riwayat karte hain, woh Abu Hurairah Radhiallahu Anhu se ke Rasoolulllah Sallallahu Alaihi Wasallam se daryaaft kiya gaya ke kaun sa amal sab se afzal hai? Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya “Allah aur us ke Rasool par imaan laana” kaha gaya us ke baad kaun sa? Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya ke “Allah ki raah mein jihaad karna” kaha gaya, phir kya hai? Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya “Hajj-e-Mabroor”.

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle was asked, "What is the best deed?" He replied, "To believe in Allah and His Apostle (Muhammad). The questioner then asked, "What is the next (in goodness)? He replied, "To participate in Jihad (religious fighting) in Allah's Cause." The questioner again asked, "What is the next (in goodness)?" He replied, "To perform Hajj (Pilgrim age to Mecca) 'Mubrur, (which is accepted by Allah and is performed with the intention of seeking Allah's pleasure only and not to show off and without committing a sin and in accordance with the traditions of the Prophet)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 26


   صحيح البخاري26عبد الرحمن بن صخرأي العمل أفضل قال إيمان بالله ورسوله الجهاد في سبيل الله حج مبرور
   صحيح البخاري1519عبد الرحمن بن صخرأي الأعمال أفضل قال إيمان بالله ورسوله جهاد في سبيل الله حج مبرور
   صحيح مسلم248عبد الرحمن بن صخرأي الأعمال أفضل قال إيمان بالله الجهاد في سبيل الله حج مبرور
   جامع الترمذي1658عبد الرحمن بن صخرأي الأعمال أفضل قال إيمان بالله ورسوله الجهاد سنام العمل حج مبرور
   سنن النسائى الصغرى3132عبد الرحمن بن صخرأي الأعمال أفضل قال إيمان بالله الجهاد في سبيل الله حج مبرور
   سنن النسائى الصغرى4989عبد الرحمن بن صخرأي الأعمال أفضل قال الإيمان بالله ورسوله
   سنن النسائى الصغرى2625عبد الرحمن بن صخرأي الأعمال أفضل قال الإيمان بالله الجهاد في سبيل الله الحج المبرور

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 26  
´حج مبرور`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ فَقَالَ: إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: حَجٌّ مَبْرُورٌ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا کہا گیا، اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کہا گیا، پھر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج مبرور . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 26]

لغوی توضیح:
«حَجٌّ مَبْرُورٌ» وہ حج جو مسنون طریقے کے مطابق ادا کیا جائے اور نیکی و تقویٰ کے ساتھ تکمیل تک پہنچے، اس میں کسی بھی نافرمانی، عورتوں سے قربت یا جھگڑے وغیرہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 50   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 26  
26. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانا۔ سوال کیا گیا: پھر کون سا؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پوچھا گیا: پھر کون سا؟ فرمایا: وہ حج جو قبول ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:26]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام قدس سرہ یہاں بھی ثابت فرما رہے ہیں کہ ایمان اور عمل ہردوشے درحقیقت ایک ہی ہیں اور قرآنی آیات میں جو یہاں مذکور ہیں لفظ عمل استعمال کرکے ایمان مراد لیا گیا ہے۔
جیسا کہ آیت کریمہ:
﴿وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ (الزخرف: 72)
میں ہے اور بہت سے اہل علم جیسے حضرت انس بن مالک اور مجاہد اور عبداللہ بن عمر نے بالاتفاق کہا ہے کہ آیت کریمہ ﴿فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ میں عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (الحجر: 93)
سے کلمہ طیبہ لاإله إلاالله پڑھنا اور اس پر عمل کرنا مراد ہے کہ قیامت کے دن اسی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
آیت شریفہ:
﴿لِمِثْلِ هَـٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ﴾ (الصافات: 61)
میں بھی ایمان مراد ہے۔
مقصد یہ کہ کتاب اللہ کی اسی قسم کی جملہ آیات میں عمل کالفظ استعمال میں لا کر ایمان مراد لیا گیا ہے۔
پھر حدیث مذکور میں نہایت صاف لفظوں میں موجود ہے "أي العمل أفضل" کون سا عمل بہترہے؟ جواب میں فرمایا:
ایمان باللہ ورسوله اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔
یہاں اس بارے میں ایسی صراحت موجود ہے جس میں کسی تاویل کی گنجائش ہی نہیں۔
باب کا مطلب بھی یہیں سے نکلتا ہے، کیونکہ یہاں ایمان کو صاف صاف لفظوں میں خود آنحضرت ﷺ نے لفظ عمل سے تعبیر فرمایا ہے اور دوسرے اعمال کو اس لیے ذکر فرمایا کہ ایمان سے یہاں اللہ ورسول پر یقین رکھنا مراد ہے۔
اسی ایمانی طاقت کے ساتھ مرد مومن میدان جہاد میں گامزن ہوتا ہے۔
حج مبرور سے خالص حج مراد ہے جس میں ریا ونمود کا شائبہ نہ ہو۔
اس کی نشانی یہ ہے کہ حج کے بعد آدمی گناہوں سے توبہ کرے۔
پھر گناہ میں مبتلا نہ ہو۔
علامہ سندی فرماتے ہیں:
"فما وقع في القرآن من عطف العمل على الإيمان في مواضع، فهو من عطف العام على الخاص لمزيد الإهتمام بالخاص والله تعالى أعلم." یعنی قرآن پاک کے بعض مقامات پر عمل کا عطف ایمان پر واقع ہوا ہے اور یہ اہتمام خاص کے پیش نظر عام کا عطف خاص پر ہے۔
خلاصہ یہ کہ جو لوگ ایمان قول بلاعمل کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ سراسر خطا پر ہیں اور کتاب وسنت سے ان کا یہ عقیدہ باطل ظاہر و باہر ہے۔
علامہ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں:
آنحضرت ﷺ سے دریافت کرنے والے حضرت ابوذرغفاری تھے۔
امام نووی فرماتے ہیں:
اس حدیث میں ایمان باللہ کے بعد جہاد کا پھر حج مبرور کا ذکر ہے۔
حدیث ابوذر میں حج کا ذکر چھوڑ کر عتق یعنی غلام آزاد کرنے کا ذکر ہے۔
حدیث ابن مسعود میں نماز پھر بر (نیکی)
پھر جہاد کا ذکر ہے۔
بعض جگہ پہلے اس شخص کا ذکر ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سلامتی میں رہیں۔
یہ جملہ اختلافات احوال مختلفہ کی بنا پر اور اہل خطاب کی ضروریات کی بنا پر ہیں۔
بعض جگہ سامعین کو جو چیز معلوم تھیں ان کا ذکر نہیں کیا گیا اور جو معلوم کرانا تھا اسے ذکر کر دیا گیا۔
اس روایت میں جہاد کو مقدم کیا جو ارکان خمسہ میں سے نہیں ہے اور حج کو مؤخر کیا جوارکان خمسہ میں سے ہے۔
یہ اس لیے کہ جہاد کا نفع متعدی ہے یعنی پوری ملت کو حاصل ہو سکتا ہے اور حج کا نفع ایک حاجی کی ذات تک منحصرہے۔
آیت شریفہ ﴿وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ سورۃ زخزف میں ہے اور آیت شریفہ ﴿فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ﴾ سورۃ حجر میں ہے اور آیت شریفہ ﴿لِمِثْلِ هَـٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ﴾ سورۃ صافات میں ہے۔
تنبیہ:
حضرت امام الدنیا فی الحدیث امام بخاری کے جملہ تراجم ابواب پر نظر غائر ڈالنے سے آپ کی دقت نظر و وسعت معلومات، مجتہدانہ بصیرت، خداداد قابلیت روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے۔
مگرتعصب کا برا ہو آج کل ایک جماعت نے اسی کو خدمت حدیث قرار دیا ہے کہ آپ کی علمی شان پر جا و بےجا حملے کر کے آپ کے خداداد مقام کو گرایا جائے اور صحیح بخاری شریف کو اللہ نے جوقبولیت عام عطا کی ہے جس طور پر بھی ممکن ہو اسے عدم قبولیت میں تبدیل کیا جائے۔
اگرچہ ان حضرات کی یہ غلط کوشش بالکل بے سود ہے۔
پھر بھی کچھ سادہ لوح مسلمان ان کی ایسی نامبارک مساعی سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
ان حضرات کی ایک نئی اپچ یہ بھی ہے کہ حضرت امام بخاری حدیث نبوی کے لیے ناقل محض تھے۔
مجتہدانہ بصیرت ان کے حصہ میں نہیں آئی تھی۔
یہ قول اتنا باطل اور بے ہودہ ہے کہ اس کی تردید میں دفاتر لکھے جاسکتے ہیں۔
مگربخوف طوالت ہم سردست صرف حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ایک مختصر تبصرہ نقل کرتے ہیں جس سے واضح ہوجائے گا کہ حضرت امام بخاری کی شان میں ایسی ہرزہ سرائی کرنے والوں کی دیانت وامانت کس درجہ میں ہے۔
یہ تبصرہ حضرت العلام مولانا وحیدالزماں کے لفظوں میں یہ ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی بعض تالیفات میں لکھا ہے کہ ایک دن ہم اس حدیث میں بحث کررہے تھے:
" ‏لو كان الإيمانُ عند الثُّرَيّا لَنالَهُ رِجالٌ مِن هَؤُلاءِ يعني أهل فارس و في رواية لناله رجال من هؤلاء." میں نے کہا امام بخاری ان لوگوں میں داخل ہیں۔
اس لیے کہ خدائے منان نے حدیث کا علم انھیں کے ہاتھوں مشہور کیا ہے اور ہمارے زمانے تک حدیث باسناد صحیح متصل اسی مرد کی ہمت مردانہ سے باقی رہی۔
(جس شخص کے ساتھ بحث ہو رہی تھی)
وہ شخص اہل حدیث سے ایک قسم کا بغض رکھتا تھا جیسے ہمارے زمانے کے اکثر فقیہوں کا حال ہے۔
خدا ان کو ہدایت کرے اس نے میری بات کو پسند نہ کیا اور کہا کہ امام بخاری حدیث کے حافظ تھے نہ عالم۔
ان کو ضعیف اور حدیث صحیح کی پہچان تھی لیکن فقہ اور فہم میں کامل نہ تھے (اے جاہل! تونے امام بخاری کی تصنیفات پر غور نہیں کیا ورنہ ایسی بات ان کے حق میں نہیں نکالتا۔
وہ توفقہ اور فہم اور باریکی استنباط میں طاق ہیں اور مجتہد مطلق ہیں اور اس کے ساتھ حافظ حدیث بھی تھے، یہ فضیلت کسی مجتہد کو بہت کم نصیب ہوتی ہے)

شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے اس شخص کی طرف سے منہ پھیر لیا۔
(کیونکہ جواب جاہلاں باشد خموشی)
اور اپنے لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اور میں نے کہا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب میں لکھتے ہیں:
محمد ابن اسماعیل امام الدنیا فی فقہ الحدیث یعنی امام بخاری سب دنیا کے امام ہیں فقہ حدیث میں اور یہ امر اس شخص کے نزدیک جس نے فن حدیث کا تتبع کیا ہو، بدیہی ہے۔
بعد اس کے میں نے امام بخاری کی چند تحقیقات علمیہ جو سوا ان کے کسی نے نہیں کی ہیں، بیان کیں اور جو کچھ خدا نے چاہا وہ میری زبان سے نکلا۔
(مقدمہ تیسیرالباری:
ص 27-28)

صاحب ایضاح البخاری (دیوبند)
نے بھی حضرت امام بخاری کو ایک مجتہد تسلیم کیا ہے۔
جیسا کہ اسی کتاب کے مقدمہ پر مرقوم ہے۔
مگر دوسری طرف کچھ ایسے متعصب بھی موجود ہیں جن کا مشن ہی یہ ہے کہ جس طور بھی ممکن ہو حضرت امام بخاری کی تخفیف و تنقیص وتجہیل کی جائے۔
ایسے حضرات کو یہ حدیث قدسی یادرکھنی چاہیئے:
«مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ» اللہ کے پیارے بندوں سے عداوت رکھنے والے خدا سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں اور نتیجہ دیکھ لیں کہ اس جنگ میں ان کو کیا حاصل ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت امام بخاری اللہ کے پیارے اور رسول کریم ﷺ کے سچے فدائی تھے۔
یہ عرض کردینا بھی ضروری ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ بھی اپنی جگہ پر امت کے لیے باعث صدفخر ہیں۔
ان کی مجتہدانہ مساعی کے شکریہ سے امت کسی صورت میں بھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔
مگران کی تعریف اور توصیف میں ہم امام بخاری کی تنقیص و تجہیل کرنا شروع کردیں، یہ انتہائی غلط قدم ہوگا۔
اللہ ہم سب کو نیک سمجھ عطا فرمائے۔
آمین۔
حضرت امام بخاری قدس سرہ کے مناقب کے لیے یہ ہی کافی ہے کہ وہ نہ صرف محدث، فقیہ، مفسر بلکہ ولی کامل بھی تھے۔
خدا پر ستی اور استغراق کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ نماز کی حالت میں آپ کو زنبور نے سترہ بار کاٹا اور آپ نے نماز میں اف تک نہ کی۔
نماز کے بعدلوگوں نے دیکھا کہ سترہ جگہ زنبور کا ڈنک لگا اور جسم کا بیشتر حصہ سوج گیا ہے۔
آپ کی سخاوت کا ہرطرف چرچا تھا خصوصاً طلبائے اسلام کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے، اسی لیے علمائے معاصرین میں سے بہت بڑی تعداد کا یہ متفقہ قول ہے کہ امام بخاری کو علماء پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی کہ مردوں کو عورتوں پر حاصل ہے، وہ اللہ پاک کی آیات قدرت میں سے زمین پر چلنے پھرنے والی ایک زندہ نشانی تھے، (رحمۃ اللہ علیہ)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ مناقب حضرت امام بخاری کے مشائخ اور ان کے زمانہ کے علماء کے بیان کردہ ہیں اگر ہم بعد والوں کے بھی اقوال نقل کریں توکاغذ ختم ہوجائیں گے اور عمر تمام ہوجائے گی مگر ہم ان سب کو نہ لکھ سکیں گے۔
مطلب یہ کہ بے شمار علماء نے ان کی تعریف کی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 26   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:26  
26. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانا۔ سوال کیا گیا: پھر کون سا؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پوچھا گیا: پھر کون سا؟ فرمایا: وہ حج جو قبول ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:26]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل کا چولی دامن کا ساتھ ہے، یعنی دونوں ایک دوسرے کو لازم ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کسی جگہ ایمان پر عمل کا اور کسی جگہ عمل پر ایمان کا اطلاق ہوا ہے مذکورہ حدیث میں سوال تھا کہ کون ساعمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا:
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایمان بھی ایک عمل ہے اس کی صراحت حدیث میں موجود ہےجس میں کوئی تاویل نہیں ہو سکتی۔
دوسرے اعمال کو اہمیت کے پیش نظر ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ایمانی طاقت کے ساتھ ایک مرد مومن میدان جہاد میں اترتا ہے حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جوریا کاری اور گناہوں کی آلائش سے پاک ہو۔
اس کی علامت یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے معمولات پہلے سے بہتر بنالے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے والے حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے نیز اس حدیث میں ایمان کے بعد جہاد کا ذکر ہے جبکہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں حج کا ذکر نہیں بلکہ اس کی جگہ عتق ہے ان احادیث میں کوئی تضاد نہیں بلکہ یہ فرق سائل کی حالت و ضرورت اور موقع و محل کے لحاظ سے ہے۔
(فتح الباري: 1؍ 108)

اس روایت میں جہاد کو مقدم کیا گیا ہے۔
حالانکہ یہ ارکان خمسہ سے نہیں ہے اور حج کو مؤخر کیا جو ارکان خمسہ سے ہے اس لیے کہ جہاد کا نفع پوری ملت کو حاصل ہوسکتا ہے جبکہ حج کا نفع ایک حاجی کی ذات تک منحصر ہے۔
(فتح الباري: 1؍ 108)
واللہ أعلم4۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر عمل کا عطف ایمان پر ڈالا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل ایک دوسرے سے مغایر ہیں اور یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کے خلاف ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عطف ہر جگہ مغایرت کے لیے نہیں ہوتا بلکہ بعض مقامات پر خاص کا عطف عام پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ﴾ (البقرة: 2؍98)
جو شخص اللہ کا اس کے فرشتوں اس کے رسولوں جبریل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام کا دشمن ہو، ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے۔
اس آیت میں فرشتوں کے بعد بذریعہ عطف جبریل علیہ السلام اورمیکائیل کا ذکر بطور اہمیت کے ہے مغایرت کے لیے نہیں۔
اسی طرح ایمان کے بعد عمل کا ذکر یا عمل کا ایمان پر عطف کسی خاص اہمیت کے پیش نظر ہے، ان دونوں میں کوئی مغایرت نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 26   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.